Tag: polio

  • پاکستان سے پولیو خاتمہ خواب بن گیا، چاروں صوبوں کے سیمپلز میں وائرس کی تصدیق

    پاکستان سے پولیو خاتمہ خواب بن گیا، چاروں صوبوں کے سیمپلز میں وائرس کی تصدیق

    اسلام آباد: پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ خواب بن گیا ہے، ایک بار پھر چاروں صوبوں کے سیوریج سیمپلز میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ریجنل ریفرنس لیب نے 18 اضلاع کے سیمپلز میں پولیو کی تصدیق کی ہے، سیوریج لائنز کے سیمپلز میں وائلڈ پولیو وائرس ون پایا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق پولیو ٹیسٹ کے لیے ماحولیاتی نمونے 21 فروری تا 6 مارچ لیے گئے تھے، سندھ کے 12، پنجاب 2، کے پی میں 2 اضلاع کے سیمپلز پولیو پازیٹو ہیں، اسلام آباد اور بلوچستان کے بھی ایک ضلع کے سیمپلز پولیو پازیٹو ہیں۔

    اسلام آباد، چمن، جنوبی وزیرستان لوئر، اپر کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے، لاہور، ڈیرہ غازی خان کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو پایا گیا ہے، بدین، دادو، حیدر آباد، جیکب آباد کے سیمپلز میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔


    بروکولی سے تیار مرکب سے شوگر کا علاج دریافت


    شہید بینظیر آباد، سجاول، قمبر، سکھر کے سیمپلز میں پولیو کی تصدیق ہوئی ہے، جب کہ کراچی ایسٹ، ویسٹ، سنٹرل، کیماڑی کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔ ذرائع کے مطابق 4 اضلاع کے ماحولیاتی نمونے پولیو وائرس سے پاک نکلے۔

    واضح رہے کہ رواں سال ملک میں 6 پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، سندھ سے 4، پنجاب، کے پی سے ایک، ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا، جب کہ رواں سال 115 سے زائد سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو ہو چکے ہیں۔

  • پولیو ویکسین کے قطرے پلانے سے انکار، ویڈیو رپورٹ میں کراچی کے حوالے سے اہم انکشاف

    پولیو ویکسین کے قطرے پلانے سے انکار، ویڈیو رپورٹ میں کراچی کے حوالے سے اہم انکشاف

    صوبہ سندھ میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کے رواں سال 43000 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں صرف کراچی سے 41 ہزار 800 کیسز شامل ہیں۔

    سندھ کے صوبائی اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کے 43 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں حیرت انگیز طور پر کراچی میں 41 ہزار 800 سے زائد کیسز شامل ہیں، جو صوبہ بھر کا 97 فی صد بنتا ہے، سندھ کے باقی اضلاع میں انکار کرنے والوں کی تعداد صرف 1124 ہے۔

    ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) کے صوبائی ترجمان نوفل نقوی کا کہنا ہے کہ انکار کے کیسز بچوں کی کُل آبادی کا ایک فی صد سے بھی کم ہیں۔ ان کے مطابق 5 سال پہلے اس طرح کے کیسز کی تعداد تقریباً 90 ہزار سے ایک لاکھ تھی۔ نوفل نقوی نے شہر میں آبادی کی مسلسل نقل و حرکت کو وائرس کی مسلسل موجودگی کی اہم وجہ قرار دیا ہے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • ’دی ڈریمرز‘ نامی ڈاکیومنٹری کو سنسر سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟

    ’دی ڈریمرز‘ نامی ڈاکیومنٹری کو سنسر سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟

    پاکستان کے منظر نامے پر جہاں ایک طرف سیاسی میدان میں چلنے والی اکھاڑ پچھاڑ زور و شور سے جاری ہے، وہاں دوسری طرف چند برسوں سے ایک اور محاذ بہت شدت سے گرم رہا ہے، جس پر حکومتی سطح پر ’دشمن‘ سے ایک بڑی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس دشمن نے پوری دنیا میں پاکستان کے گرد ایک سرخ دائرہ بنا رکھا ہے۔ یہ دشمن ہے پولیو وائرس!

    اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو گزشتہ چند برسوں سے ملک بھر میں شد و مد کے ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور ابھی 3 فروری کو 2025 کی بھی پہلی قومی انسداد پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے، جس میں 4 کروڑ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ پاکستان سے ’’پولیو کا مکمل خاتمہ‘‘ حکومت کی اوّلین قومی ترجیح بنا ہوا ہے، اور وسیع سطح پر مہمات چلائے جانے کے باوجود یہ ایک حیران کن امر ہے کہ پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا، اور ملک کے مختلف حصوں سے نہ صرف پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز سامنے آ رہے ہیں بلکہ پولیو کیسز بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔

    این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں 73 پولیو کیس سامنے آئے تھے، اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔ یہاں تک گزشتہ 20 سالوں میں آزاد کشمیر سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، لیکن وہاں بھی سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو نکلنے لگے ہیں، گزشتہ سال میرپور آزاد کشمیر، اور رواں برس آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سیمپلز مثبت نکلے ہیں۔

    دی ڈریمرز: ہیروز فائٹنگ فار آ پولیو فری پاکستان

    اگست 2024 میں جب راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے پاکستان کی تاریخ کے ایک دل کو چھو لینے والے پنّے کو پلٹا تھا، تو اسکرین پر ڈائریکٹر سید عاطف علی نے ننھے اقبال مسیح کی سچی کہانی کو بہت دل پذیر طور سے منتقل کر دیا تھا۔ وہ تاریخ کے چند اور حیران کن اوراق ہمیں دکھا چکے ہیں، جو ان کی فلم میکنگ کی مہارت کا بیّن ثبوت ہے۔ لیکن پھر پچھلی بار کچھ ایسا ہوا کہ جب انھوں نے بلوچستان میں موجود قدیم تاریخی مندر پر ’ہنگلاج کی دیوی‘ نامی ڈاکیومنٹری بنائی تو یوٹیوب پر ریلیز ہونے والی 43 منٹ کی اس دستاویزی فلم کے پریمیئر شو میں پہلی بار مایوسی کی لہر محسوس کی گئی۔ کم زور اسکرپٹ اور پیش کش کی وجہ سے اس پر کئی سوالات ذہن میں اٹھے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، کیوں کہ ڈائریکٹرز کی ہر کوشش ہٹ نہیں ہوا کرتی۔

    ’پری‘ اور ’پیچھے تو دیکھو‘ جیسی خوب صورت فلمیں بنانے والے سید عاطف علی نے جب اگلی دستاویزی فلم کے لیے پاکستان میں پولیو جیسے حساس موضوع کو چُنا تو موضوع کی وجہ سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتی تھیں۔ لیکن انھوں نے بڑے اعتماد اور شان دار طریقے سے اس طرح ’کم بیک‘ کیا کہ حساس اور خشک موضوع پر ایک سنسنی خیز دستاویزی فلم تخلیق کر دی۔ اپنے مواد کے حساب سے اسے اگر سنسنی خیز کہا جا سکتا ہے، تو دوسری طرف شان دار طریقے سے اسکرین پر اس کی منتقلی کو ڈائریکٹر کی ایک تخلیقی جست بھی کہا جا سکتا ہے۔ شروع سے آخر تک پوری ڈاکیومنٹری دیکھتے ہوئے کہیں ایک لمحے کے لیے محسوس نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے کا کنیکشن اسکرین سے منقطع ہو گیا ہے۔ اس فلم میں اسکرین پر ان کی اسٹوری نریشن بہت طاقت ور رہی۔

    ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    راوا فلمز کے تحت بننے والی ان ڈاکیومنٹری فلمز کی منفرد بات یہ رہی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ان فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما میں اسکریننگ کی گئی، اور پریمیئر شو رکھے گئے، جن میں بڑی تعداد میں متعلقہ لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ لیکن اس سلسلے کو اچانک جھٹکا اس وقت لگا جب ’’دی ڈریمرز‘‘ کے سنسر سرٹیفکیٹ کے لیے سندھ بورڈ آف فلم سنسرز سے رابطہ کیا گیا۔ سندھ بورڈ آف فلم سنسرز نے اس ڈاکیومنٹری فلم کو سنسر سرٹیفکیٹ دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ بورڈ نے جائزے کے بعد اسے عوامی نمائش کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ آخر قومی سطح کے ایک حساس موضوع پر بننے والی ایک دستاویزی فلم کو آخر کیوں لوگوں کے لیے نامناسب قرار دیا گیا، جب کہ اس میں شہریوں کو پولیو ویکسین کی اہمیت کا شدید احساس دلایا گیا ہے؟ بہرحال یہ فلم اب یوٹیوب چینل پر ریلیز کی جا چکی ہے، جہاں اسے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

    دی ڈریمرز میں ایسا کیا ہے؟

    پولیو ایسا وائرس ہے جس کے خلاف پاکستان کی وفاقی اور صوبائی وزارت صحت نے کئی برسوں تک تواتر کے ساتھ پوری شد و مد کے ساتھ مہمات چلائیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اس لیے اس کے بارے میں عام لوگوں تک ابتدائی آگہی پہنچ چکی ہے۔ کچھ منفی عناصر کی جانب سے پولیو ویکسین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا، اور کافی لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلاتے، تاہم زیادہ تر آبادی اس کے خلاف جنگ پر متفق ہے۔ حکومتی کوششوں کے سبب عوام یہ بھی جاننے لگے ہیں پولیو کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ لیکن ایک اہم نکتہ جو اس دستاویزی فلم سے عام لوگوں کے سامنے ایک انکشاف کی صورت میں آتا ہے، وہ ایک ایسا محاذ ہے جس پر پولیو کے خلاف لڑائی کے بارے میں سرکار کبھی بات نہیں کرتی۔

    کیا صرف ویکسین کافی ہے؟

    1960 کی دہائی میں امریکا میں بھی پولیو کے لاکھوں کیسز تھے، لوگ قطاروں میں لگ کر ویکسین لگواتے تھے۔ لیکن صرف ویکسین ہی نہیں تھی جس نے وائرس کا خاتمہ کیا، بلکہ ہمیں پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت نے سینیٹیشن کا نظام بہتر کیا، یعنی صحت اور صفائی کا نظام جس کی وجہ سے وائرس پوری طرح سے ختم ہو گیا۔ امریکا میں ساٹھ کی دہائی کے آخر میں مہم چلائی گئی کہ عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم ہونا چاہیے، یہ مہم چلتے ہی پولیو کے کیسز کا گراف تیزی سے نیچے گرا، حالاں کہ اس وقت ان کی ویکسینیشن کی کوریج بھی 80 سے 85 فی صد تھی، جب کہ پاکستان میں کوریج 97 فی صد تک بھی جا چکی ہے لیکن پھر بھی یہاں سے پولیو ختم نہیں ہو رہا۔ جیسے ہی لوگوں کو پینے کا صاف ملنے لگا نہ صرف پولیو بلکہ دیگر کئی بیماریاں (جیسا کہ ہیپاٹائٹس اے، ٹائفائیڈ، کالرا)بھی ختم ہو گئیں۔

    ویڈیو میں کراچی میں سینیٹیشن کے نظام پر بات کی گئی، اور بتایا گیا کس طرح گھروں سے فضلہ نکلتا ہے اور پینے کے پانی کے نظام کے ساتھ باہم ملتا ہے، یہ اس حد تک مدغم ہے کہ کراچی کے کسی بھی علاقے سے پانی لے ٹیسٹ کریں اس میں ای کولائی بیکٹیریا ملتا ہے۔ جن علاقوں کی ہائجینک صورت حال اچھی نہیں ہوتی، وہاں پولیو وائس پایا جاتا ہے۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کا ایک طریقہ ویکسین ہے اور دوسرا صحت و صفائی۔ اگر یہ دونوں ایک ساتھ روبہ عمل نہیں لائے جاتے تو پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت کی انسداد پولیو کی کوششوں پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اس سے ایک سادہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومتوں کو پہلے اپنی تمام آبادی کو پوری ایمان داری کے ساتھ پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہوگا اور علاقوں میں صفائی کا نظام بہتر بنانا ہوگا۔ تو کیا پاکستان میں حکومتی رویے اور اقدامات دیکھ کر ایسا کچھ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے؟ یہ وہ بڑا سوال ہے جس سے حکومتیں ہمیشہ خائف رہتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اس حد تک ایکسپوز ہو چکی ہیں کہ کوئی بھی پاکستانی ان سے اس کی امید نہیں رکھتا۔

    اس ڈاکیومنٹری فلم میں ایک اور اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ لوگ حقیقتاً اب پولیو ویکسین کے قطرے اپنے بچوں کو پلا پلا کر تھک چکے ہیں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ویکسین کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ لوگوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈے پر بھی آسانی سے یقین کر لیا ہے۔ ایک شخص اپنے بچپن سے یہ قطرے پیتا آ رہا ہے اور پھر اس کے بچوں نے پیے اور اب اس کے پوتے پوتیاں قطرے پی رہے ہیں، لیکن اس میراتھن ریس میں خاتمے کا نشان قریب نہیں آ رہا۔ نائجیریا جیسے ملک نے بھی اس کا خاتمہ کر لیا ہے، اور وہ اس حوالے سے آخری ملک ہے، جس کے بعد اب دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان دو ملک پولیو متاثرہ رہ گئے ہیں۔

    سرکاری حکام اس بارے میں بتاتے ہیں کہ افغانستان میں حکام کا پولیو کے پھیلاؤ پر قابو نہیں ہے، اور چوں کہ سرحد پر افغانستان سے آبادی کی نقل و حرکت بہت زیادہ اور آزادانہ ہے، اس لیے وہاں سے پولیو وائرس منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بارڈر پر دونوں طرف پولیو ٹیمیں اب مستقل طور پر تعینات رہتی ہیں اور ہر آنے جانے والوں کو پولیو قطرے پلائے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس حوالے سے دونوں ممالک میں اب ایک ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں افغانستان کی نسبت پولیو کیسز زیادہ ہیں۔ اس لیے حکام کے طرف سے پڑوسی ملک پر بار ڈالنے کے بیانات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے کہ یہ ایٹمی ملک کب پولیو کا خاتمہ کرتا ہے۔ پولیو مہمات کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ہماری اتھارٹیز ان کا جواب نہیں دے پائیں۔

    کرپشن کی سطح

    ڈاکیومنٹری میں ہیلتھ جرنلسٹس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب پاکستان میں کوئی بچہ پولیو وائرس سے معذور ہوتا ہے تو ملک میں کچھ لوگ مزید امیر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو پولیو پروگرام سے برسوں سے وابستہ ہیں اور انھوں نے جائیدادیں بنا لی ہیں، اور وہ ارب پتی ہو گئے ہیں۔ ویڈیو میں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پولیو پروگرام کو لوگوں کی دولت میں اضافے کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ بہ طور قوم ہم پولیو کے خاتمے میں مکمل طور پر کیوں ناکام ہوئے۔ اس میں وہ آنکھیں خیرہ کرنے والے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں کہ ورلڈ بینک سمیت کس کس ادارے نے پولیو کے خاتمے کے لیے اربوں ڈالر پاکستان کو دیے۔ پیسہ بے حساب آیا، لیکن وائرس ختم نہیں ہوا۔ آخر ذمہ دار کون ہے؟ یہ خطرناک پوائنٹ آف ویو سامنے رکھا گیا ہے کہ اگر کہیں کنفلیکٹ آف انٹرسٹ ہے تو آپ چاہیں گے کہ بیماری ختم نہ ہو، چاہیں گے کہ لوگ پولیو ویکسین کے قطرے نہ پلائیں، یعنی جو کام کرنا ہے وہ نہیں کرنا، اور روڑے اٹکا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک بتایا گیا کہ کوریج اتنی نہیں تھی جتنا رجسٹر بھر بھر کر ظاہر کیا گیا۔ یہ دستاویز ہمیں ’فیک فنگر مارکنگ‘ کے بارے مین بھی کھل کر بتاتی ہے، جس کے بارے میں میڈیا میں کبھی بات نہیں کی جاتی۔ پولیو مہمات کے دوران ڈرائیور، مالی اور چوکیداروں کو یونین کونسلز کے میڈیکل آفیسرز لگانے کی نشان دہی کی۔ کمیونکیشنز کے لیے ایسے لوگوں کی بھرتی پر بات کی گئی جنھوں نے پیسے اینٹھنے کے لیے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کو بھرتی کیا۔ یہ ڈاکیومنٹری بہت درد مندی سے بتاتی ہے کہ دوسروں کے بچوں کی معذوری اور لاشوں پر امیر ہونے کا یہ سلسلہ بند کرنا پڑے گا۔

    پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا

    اس ڈاکیومنٹری میں پولیو ویکسین کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر وسیع طور پر بات کی گئی ہے، اور اس کے سبھی پہلوؤں کو بہت اچھے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عوام کو اس کا بات کا ادراک بھی نہیں ہوگا کہ ماضی میں کراچی کے ایک ’مقبول‘ اخبار نے اس کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں پولیو ورکرز کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ 2019 میں سوشل میڈیا پر زبردست پروپیگنڈے کے باعث عارضی طور پر پولیو پروگرام کو روکنا پڑ گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے ہونے والی منفی سرگرمیوں پر بات کی گئی۔ خود ساختہ اور عاقبت نا اندیش عالموں کی مخالفانہ روش کو نمایاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیو سے متعلق اس ڈاکیومنٹری میں ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب ناظرین اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کو اس سارے مسئلے سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں، کہ کس طرح شکیل آفریدی نے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کے بارے میں معلومات سی آئی اے کو فراہم کیں، جس کی وجہ سے جہادی عناصر میں پولیو ورکرز کے خلاف شدید غصہ پیدا ہوا۔ مختصر یہ کہ ایسے حالات بن گئے ہیں کہ بقول پولیو ورکر صبا علی ہم بارڈر پر بھی لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہاں پولیو ورکرز کو بھی مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ امریکی اور یورپی ورکرز کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ ڈیوٹی کے دوران مارے جاتے ہیں تو انھیں حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے ملتے ہیں۔ ویڈیو میں یہ قضیہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ جو پولیو ورکر مارے جاتے ہیں ان کے گھر والوں کی اچھے سے کفالت کی جانی چاہیے۔

    صرف یہی نہیں، اس ڈاکیومنٹری فلم کا ایک بڑا قصور یہ بھی ہے کہ اس کا اختتام پریشان کن اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ پاکستان سے پولیو وائرس کے خاتمے کی ایک امید کے ساتھ کیا گیا ہے۔

  • افغانستان میں رواں سال کا پہلا پولیو کیس سامنے آ گیا

    افغانستان میں رواں سال کا پہلا پولیو کیس سامنے آ گیا

    اسلام آباد: افغانستان میں رواں سال کا پہلا پولیو کیس سامنے آ گیا ہے۔

    قومی ادارہ صحت کے ذرائع کے مطابق این آئی ایچ کی ریجنل ریفرنس لیب نے افغانستان میں رواں سال کے پہلے پولیو کیس کی تصدیق کر دی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیو کیس افغان صوبہ بادغیس کے ضلع بالا مرغاب سے رپورٹ ہوا ہے، پولیو وائرس سے متاثرہ بچی کی عمر 5 سال ہے، متاثرہ افغان بچی میں پولیو کی علامات 27 جنوری کو ظاہر ہوئی تھیں۔

    واضح رہے کہ افغانستان کے پولیو سیمپلز این آئی ایچ کی ریجنل ریفرنس لیب میں ٹیسٹ ہوتے ہیں۔

    ادھر ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے، اور رواں سال یہ تیسری بار ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو نکلے ہیں۔

    رواں سال تیسری بار ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو نکل آئے

    دونوں صوبوں کے اضلاع کی سیوریج لائنز کے سیمپلز میں وائلڈ پولیو وائرس ون پایا گیا ہے، ٹیسٹ کے لیے سیوریج سے سیمپلز 15 تا 24 جنوری لیے گئے تھے، بلوچستان سے 5 اور کے پی کے سئ 3 اضلاع کے سیمپلز پولیو پازیٹیو نکلے ہیں۔

    یاد رہے کہ رواں سال پاکستان میں 2 پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، جن کا تعلق بدین اور ڈی آئی خان سے تھا، جب کہ گزشتہ سال 74 پولیو کیس، اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔

  • رواں سال تیسری بار ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو نکل آئے

    رواں سال تیسری بار ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو نکل آئے

    اسلام آباد: ملک کے 8 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

    ذرائع وزارت صحت کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے، رواں سال یہ تیسری بار ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو نکلے ہیں۔

    سیوریج لائنز کے سیمپلز میں وائلڈ پولیو وائرس ون پایا گیا ہے، ٹیسٹ کے لیے سیوریج سے سیمپلز 15 تا 24 جنوری لیے گئے تھے، بلوچستان سے 5 اور کے پی کے سئ 3 اضلاع کے سیمپلز پولیو پازیٹیو نکلے ہیں۔

    بلوچستان میں کوئٹہ، کیچ، بارکھان کے سیوریج سیمپلز پولیو سے آلودہ نکلے ہیں، گوادر اور سبی کے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس پایا گیا ہے، کے پی میں ڈی آئی خان، لوئر جنوبی وزیرستان اور بنوں کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔

    ملک میں پولیو وائرس کا ایک اور کیس سامنے آگیا

    واضح رہے کہ رواں سال ملک میں 2 پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، جن کا تعلق بدین اور ڈی آئی خان سے تھا، جب کہ گزشتہ سال 74 پولیو کیس، اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔

  • پولیو کے خاتمے میں مشکلات بڑھ گئیں، کراچی میں ہدف پورا نہ ہو سکا

    پولیو کے خاتمے میں مشکلات بڑھ گئیں، کراچی میں ہدف پورا نہ ہو سکا

    کراچی: پولیو کے خاتمے میں مشکلات بڑھ گئی ہیں، کراچی میں انسداد پولیو مہم کا ہدف پورا نہ ہو سکا۔

    نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ذرائع کے مطابق انسداد پولیو مہم کے ہدف کا حصول مشکل ہو گیا ہے، کراچی میں سال کی پہلی انسداد پولیو مہم کے دوران 2 لاکھ 90 ہزار 89 بچے ویکسین پینے سے محروم رہ گئے۔

    ذراٸع این ای او سی کے مطابق مہم کے دوران 92 ہزار 628 والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا، اور ایک لاکھ 97 ہزار 461 بچوں تک رساٸی ممکن نہ ہو سکی۔

    مہم کے دوران 21 لاکھ 94 ہزار 899 گھرانوں میں پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، لیکن 19 لاکھ 18 ہزار 966 گھروں تک رسائی ممکن ہو سکی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ والدین کے عدم تعاون سے پولیو کے خاتمے میں مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے، انکاری کیسز بڑھنے کی وجہ سے پولیو مہم پر تحفظات پیدا ہو گئے ہیں، بتایا جا رہا ہے کہ والدین کی کونسلنگ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، اور پولیو ورکرز کو بھی سہولتیں میسر نہیں۔

    ملک بھر کے سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق

    پولیو ورکرز کو طویل پیدل سفر کرنا پڑتا ہے، اور معاوضہ بھی انتہائی کم دیا جاتا ہے، پولیو مہم کے عملے کو کھانے اور سفری اخراجات خود کرنے ہوتے ہیں۔ اگر پولیو حکام مؤثر مہم چاہتے ہیں تو تھکا دینے والے اس کام میں خواتین ورکرز کو ریلیف اور مراعات دینی ہوں گی، تاکہ کارکردگی بہتر ہو سکے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے صرف ویکسین ہی کافی نہیں ہے، بلکہ سینیٹیشن کے بہتر نظام کی بھی ضرورت ہے، اور سب سے بڑھ کر عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہوگا، اس کے بغیر پاکستان سے پولیو کا خاتمہ مشکل ہے۔

  • سندھ میں پولیو مہم میں لاپرواہی پر 12 میونسپل کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری

    سندھ میں پولیو مہم میں لاپرواہی پر 12 میونسپل کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری

    کراچی: 3 فروری کو سندھ میں شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم میں غیر حاضری اور لاپرواہی برتنے پر محکمہ بلدیات سندھ نے 12 میونسپل کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ بلدیات نے انسداد پولیو مہم کے دوران کوتاہی برتنے والے میونسپل کمشنرز کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے انھیں شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں۔

    جن میونسپل کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری ہوئے ہیں، ان میں ٹاؤن میونسپل کمشنر گڈاپ احمد یار کیریو، ٹاؤن میونسپل کمشنر ناظم آباد اطہر حسین، ٹاؤن میونسپل کمشنر لیاقت آباد دریا خان پتافی، ٹاؤن میونسپل کمشنر جناح ٹاؤن الہٰی بخش بھانبھن، چنیسر ٹاؤن میونسپل کمشنر اقرار احمد جلبانی شامل ہیں۔

    پولیو کے قطرے پلانے سے انکار پر 5 والدین گرفتار

    ٹاؤن میونسپل کمشنر گلشن اقبال جاويد رحمٰن، صفورا ٹاؤن میونسپل کمشنر امتیاز علی منگی، میونسپل کمشنر سہراب گوٹھ تنوير احمد، بلدیہ ٹاؤن میونسپل کمشنر امجد علی پتافی، میونسپل کمشنر ماڑی پور محمد جاوید قمر، مورڑومیر بحر ٹاؤن میونسپل کمشنر شہید اللہ بخش، اورنگی ٹاؤن میونسپل کمشنر آغا فہد احمد کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

    تمام میونسپل کمشنرز کو متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرز کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، میونسپل کمشنرز سے کہا گیا ہے کہ وہ غفلت پر اپنا مؤقف پیش کریں اور پولیو مہم میں عملے کی حاضری یقینی بنائیں۔

  • سندھ میں پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کے 98 فی صد کیسز کراچی سے کیوں؟

    سندھ میں پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کے 98 فی صد کیسز کراچی سے کیوں؟

    کراچی: سندھ میں پولیو ویکسین پلوانے سے انکار کے 98 فی صد کیسز کراچی سے سامنے آنے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی پولیو ٹاسک فورس کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں 3 تا 9 فروری کو شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم کی تیاری کا جائزہ لیا گیا، وزیر اعلیٰ نے شہری علاقوں میں پولیو کیسز میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ میں ہائی رسک یونین کونسلز ہیں، جب کہ سندھ میں قطرے پلوانے سے انکار کے 98 فی صد کیسز کراچی سے سامنے آئے ہیں۔

    بریفنگ کے مطابق کراچی میں قطرے پلوانے سے انکار کے 50 فی صد کیسز کچی آبادیوں میں رپورٹ ہوئے۔

    رواں سال کا پہلا کیس، دبئی سے پاکستان پہنچنے والے مسافر میں منکی پاکس رپورٹ

    وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ واضح کہہ دیا ہے کہ پولیو ویکسین کا انکار منظور نہیں ہے، 2025 پولیو کیسز پر کنٹرول کا سال ہونا چاہیے، جہاں بچے قطرے پینے سے رہ جائیں، وہاں کے ڈی ایچ او کے خلاف کارروائی کی جائے، انھوں نے مزید کہا کہ جعلی یا غلط کوریج رپورٹنگ کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔

    دریں اثنا، اجلاس کو آگاہی دی گئی کہ تھرپارکر اور مٹیاری میں پولیو وائرس منفی ہو چکا ہے۔

    صحت کی خبریں یہاں پڑھیں

  • پولیو کے قطرے، وزیر اعلیٰ نے خود گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے

    پولیو کے قطرے، وزیر اعلیٰ نے خود گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے

    سکھر: سندھ میں انسداد پولیو مہم کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ یو سی نیو سکھر پہنچ گئے، جہاں انھوں نے خود گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے اور بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے کی ہدایت کی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے انسداد پولیو مہم کے دوران سکھر کا دورہ کیا، یو سی نیو سکھر میں انھوں نے شہریوں سے مل کر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی ترغیب دی۔

    انھوں ںے کہا پولیو کے قطرے آپ کے بچوں کو اپاہج ہونے سے بچاتے ہیں، وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر والدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا پولیو کے قطرے بچے کے صحت مند مستقبل کو یقینی بناتے ہیں، والدین کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے میں نے آپ کے دروازے پر دستک دی۔

    وزیر اعلیٰ سندھ نے گھر گھر دستک دے کر بچوں کو پولیو کے قطرے بھی پلائے، انھوں نے کہا ہم نے پولیو کا خاتمہ کر کے دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کا عہد کیا ہے، مہم میں شامل ہو کر اپنی انسداد پولیو ٹیموں کی محنت کو سلام پیش کرتا ہوں۔

    اس موقع پر وزیر اعلیٰ کے ساتھ صوبائی وزرا ناصر شاہ، مکیش چاؤلہ اور دیگر بھی موجود تھے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں پولیو ورکرز پر حملے میں ایک سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو گیا تھا، صدر مملکت آصف زرداری نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گرد پاکستان کے عوام کو صحت مند اور خوش حال نہیں دیکھنا چاہتے، پاکستان کے عوام بڑھ چڑھ کر پولیو مہم میں حصہ لیں۔

  • جاپان نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں مدد کے لیے بڑا اعلان کر دیا

    جاپان نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں مدد کے لیے بڑا اعلان کر دیا

    اسلام آباد: جاپان نے پاکستان کو انسدادِ پولیو پروگرام کے لیے 31 لاکھ ڈالر گرانٹ کا اعلان کیا ہے۔

    اسلام آباد میں پاکستان میں انسداد پولیو کے سلسلے میں حکومتِ پاکستان، جاپان، جائیکا اور یونیسف کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، نیشنل ای او سی کے مطابق اس گرانٹ سے انسداد پولیو ویکسین کی خریداری کی جائے گی۔

    نیشنل ای او سی کے مطابق جاپان سے ملنے والی گرانٹ 2025 میں ہونے والی انسداد پولیو مہم میں استعمال ہوگی، خیال رہے کہ پاکستان میں رواں سال پولیو کے 59 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔

    پولیو پر فوکل پرسن عائشہ رضا فاروق کا کہنا تھا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے جاپانی حکومت کا تعاون قابل قدر ہے، جاپان کی حمایت کے ساتھ اپنی کوششوں کو مزید مضبوط کر رہے ہیں، وزیر اعظم کی قیادت میں 2025 کے وسط تک پولیو کیسز صفر پر لانے کے لیے ہم پرعزم ہیں۔

    پاکستان میں گزشتہ 10 برسوں میں کتنے پولیو کیس رپورٹ ہوئے؟

    واضح رہے کہ وزارت صحت کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران ملک میں 411 پولیو کیس رپورٹ ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں چلائی گئی انسدادِ پولیو مہمات کے نتائج خاطر خواہ برآمد نہیں ہوئے۔

    دس برسوں کے دوران نصف پولیو کیس خیبرپختونخوا سے سامنے آئے ہیں، کے پی سے 207، سندھ سے 92 پولیو کیس، بلوچستان سے 80، پنجاب سے 30، گلگت بلتستان اور اسلام آباد سے ایک ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا، جب کہ آزاد کشمیر سے کوئی پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا۔