Tag: political content

  • انسٹاگرام اور تھریڈز غیرسیاسی ہوگئے

    انسٹاگرام اور تھریڈز غیرسیاسی ہوگئے

    امریکا میں ہونے والے عام انتخابات کے پیش نطر فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے اپنی سوشل سائٹس پر سیاسی نوعیت کا مواد ازخود نہ دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اس حوالے سے جاری رپورٹ کے مطابق فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے اپنی سوشل شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام اور مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم تھریڈز پر ازخود سیاسی مواد دکھانا بند کردیا، تاہم صارفین سیٹنگ میں تبدیلی کرنے کے بعد مذکورہ مواد دیکھ سکیں گے۔

    انسٹاگرام اور تھریڈز کی بلاگ پوسٹس میں تصدیق کی گئی کہ دونوں پلیٹ فارمز پر اب بائی ڈیفالٹ یعنی ازخود کسی طرح کا سیاسی مواد نظر نہیں آئے گا۔

    پوسٹ میں بتایا گیا کہ تاہم صارفین دونوں پلیٹ فارمز کی سیٹنگ میں تبدیلی کرنے کے بعد سیاسی مواد کو دیکھ سکیں گے۔

    میٹا نے دونوں پلٹ فارمز پر گزشتہ برس نومبر میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے پیش نظر سیاسی مواد دکھانا بند کیا ہے، تاہم سیٹنگ میں تبدیلی کے بعد امریکی صارفین بھی ہر طرح کا سیاسی مواد دیکھ سکیں گے۔

    political

    کمپنی نے سیاسی مواد کو انتخابی موضوعات، حکومت، پالیسی اور سماجی مسائل کو سیاسی نقطہ نظر سے بیان کرنے کے طور پر بیان کیا ہے اور دنیا بھر کے صارفین کے آنے والے دنوں میں ازخود سیاسی مواد نظر آنا بند ہوجائے گا۔

    اب تک دونوں پلیٹ فارمز صارف کے الگورتھم کی بنیاد پر اسے سیاسی مواد بھی دکھاتے تھے لیکن اب سیٹنگ میں تبدیلی کیے جانے اور پلیٹ فارمز کو اجازت دیے جانے کے بعد ہی انسٹاگرام اور تھریڈز پر سیاسی مواد نظر آئے گا۔

    تاہم میٹا نے فوری طور پر دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ فیس بک پر ایسی تبدیلی نہیں کی لیکن امکان ہے کہ اس پر بھی ایسی ہی تبدیلی کی جائے گی۔

  • فیس بک کا 7 سال بعد اہم سروس بند کرنے کا اعلان

    فیس بک کا 7 سال بعد اہم سروس بند کرنے کا اعلان

    میٹا نے سات سال تک فوری خبروں اور گردش کرتی مضمون نما فہرستوں (listicles) کی سروس کی تواتر کے ساتھ فراہمی کے بعد، آخر کار اپنی سروس ’انسٹنٹ آرٹیکلز‘ کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    انسٹنٹ آٹیکلز ختم کرنے کا یہ فیصلہ اس بات کی واضح نشانی بتائی جا رہی ہے کہ میٹا نے اب ’ویڈیو‘ کو اپنا محور بنا لیا ہے، اور فوری خبروں سے دوری اختیار کی جا رہی ہے۔

    میٹا کے ترجمان نے جمعے کو اس خبر کی تصدیق کی ہے، اور بتایا کہ پبلشرز کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ اپریل 2023 کے وسط سے میٹا انسٹنٹ آرٹیکلز کو سپورٹ کرنا ختم کر دے گا۔

    ترجمان نے کہا پبلشرز کے پاس متبادل تلاش کرنے کے لیے 6 ماہ کا وقت ہے، تاہم انسٹنٹ آرٹیکلز سے جڑی وہ ٹریفک جو فیس بک پر رہے گی، وہ پبلشر کے ویب پیج پر ہی جائے گی۔

    فیس بک انسٹنٹ آرٹیکلز کیا ہے؟ یہ دراصل فیس بک کی اپنی HTML دستاویزات تھیں، جو موبائل پر خصوصی تیزی کے ساتھ لوڈ ہونے کے لیے تیار کی گئی تھیں۔ فیس بک نے جب یہ فارمیٹ لانچ کیا تھا تو ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ ’انسٹنٹ آرٹیکلز‘ کسی بھی اسٹینڈرڈ موبائل ویب کی نسبت چار گنا تیزی سے لوڈ اور ڈسپلے ہوں گے۔ 2015 میں یہ سروس نیوز پبلشرز کو بہت پرکشش معلوم ہوئی، کیوں کہ فیس بک کے موبائل ایپ کا اس وقت بڑا نام تھا۔

    فیس بک نے انسٹنٹ آرٹیکلز سے پبلشرز کو بہت فائدہ پہنچایا، جو سست لوڈنگ موبائل پیجز سے بچنا چاہتے تھے، تاہم اس کی قیمت یہ ادا کرنی پڑی کہ شراکت داروں کو تیز لوڈ ٹائم کے بدلے اپنا مواد فیس بک کے سرورز پر ہوسٹ کرنا، اور براہ راست سائٹ ہی پر پوسٹ کرنا پڑا۔ اس طرح فیس بک نے بھی نیوز پبلشرز، بہت سارے مواد، اور صارفین کی زیادہ وقت کے لیے موجودگی سے بہت فائدہ اٹھایا۔ پبلشرز کو یہ فائدہ بھی ہوا کہ وہ انسٹنٹ آرٹیکلز میں اپنے اشتہارات بھی شامل کر دیتے تھے، انھیں خودکار طریقے سے اشتہارات لگانے والا فیس بک کا ’آڈیئنس نیٹ ورک‘ بھی میسر آیا۔

    تاہم اب میٹا کا کہنا ہے کہ یہ سروس اب فیس بک کے لیے کوئی کاروباری کشش نہیں رکھتا۔ کیوں؟ میٹا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فیس بک ’فیڈ‘ میں نیوز آرٹیکلز کے لنکس والی پوسٹس اس وقت بہت ہی کم دیکھی جا رہی ہیں، دنیا بھر سے یہ تعداد 3 فی صد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ چناں چہ بہ طور کاروبار اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس چیز میں سرمایہ کاری کی جائے جو صارفین کی ترجیحات کے مطابق نہ ہو۔

    سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک کی بے پناہ مقبولیت سے یہ واضح ہوا ہے کہ صارفین لکھے ہوئے مضامین کی جگہ اب مختصر ویڈیوز میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں، اور یہ وہ چیز ہے جسے میٹا نے مشکل سے لیکن سمجھ لیا ہے۔ اسی دوران فیس بک اپنے پلیٹ فارم پر نیوز کی سروس میں دل چسپی کم سے کم کرتا گیا، خاص طور پر 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات کے بعد جب غلط معلومات اور نقصان دہ سیاسی مواد کی ایک لہر آئی، اور اس نیوز سروس نے اس کو ہوا دی، جس پر ایکٹویسٹس اور ماہرین تعلیم کی جانب سے برسوں تک مسلسل تنقید کی گئی۔

    یہ رجحان رواں برس کے شروع میں بھی جاری رہا، اس لیے فیس بک اب اپنے نیوز ٹیب پر ظاہر ہونے والے مواد کے لیے پبلشرز کو ادائیگی کرنے کا کوئی ارادہ نہی