Tag: posters

  • دوسرا ٹیسٹ: تماشائیوں کی طرف سے آسٹریلوی کھلاڑیوں کو بریانی کی دعوت

    دوسرا ٹیسٹ: تماشائیوں کی طرف سے آسٹریلوی کھلاڑیوں کو بریانی کی دعوت

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان دوسرا ٹیسٹ میچ جاری ہے جس کے دوران تماشائی نہایت دلچسپ اور رنگا رنگ پوسٹرز پکڑے دکھائی دیے۔

    24 سال بعد پاکستان کی سرزمین پر آسٹریلوی ٹیم کرکٹ سیریز کھیلنے اتری تو کھیل سے محبت کرنے والوں کی خوشی دیدنی تھی اور اس خوشی کا اندازہ تماشائیوں کے ہاتھوں میں موجود پوسٹرز سے لگایا جاسکتا ہے۔

    آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان کھیلی جانے والی سیریز نہ صرف پاکستانی بلکہ غیر ملکی کرکٹ فنیز بھی انجوائے کررہے ہیں۔

    ایسے ہی ایک کرکٹ فین کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں ایک پوسٹر ہاتھوں میں اٹھائے نظر آئے۔ ہاتھوں میں پکڑے پوسٹر پر کراچی میں واقع محمد علی جناح کا مزاز بنایا گیا تھا اور اس پر لکھا تھا، امی، میں پاکستان منتقل ہورہا ہوں۔ برائے مہربانی کپڑے بھیج دیں۔

    کراچی میں شائقین کرکٹ نہ صرف آسٹریلوی کرکٹرز کو اچھی کرکٹ کھیلنے پر داد دے رہے ہیں بلکہ انہیں کھانوں کی دعوتیں بھی دے رہے ہیں اور ان سے فرمائشیں بھی کررہے ہیں۔

    اسٹیڈیم میں بیٹھی ایک خاتون کے پوسٹر پر لکھا تھا، ہائے اسٹیو (سمتھ) ڈنر پر آجائیں میری والدہ عمدہ بریانی بناتی ہیں۔

    انہی کے برابر میں ایک بچہ پوسٹر پکڑے کھڑا تھا جس پر لکھا تھا کہ وہ اسٹیو اسمتھ، مارنس لابوشین اور پیٹ کمنز کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے اگلے ایڈیشن میں کراچی کنگز کی طرف سے کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

    لاہور قلندرز کے کپتان اور پاکستانی فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کا فین کلب کراچی میں بھی دیگر کھلاڑیوں کے پرستاروں پر بھاری رہا، اسٹیڈیم میں جگہ جگہ تماشائی ان کے نام کے پوسٹرز تھامے نظر آئے۔ ایک پوسٹر پر لکھا تھا کہ آسٹریلوی کھلاڑی شاہین آفریدی کو کھیل ہی نہیں سکتے۔

    واضح رہے یاد رہے کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تیسرا ٹیسٹ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔

  • عورت مارچ، وہ پوسٹر جو’وائرل‘ نہ ہوسکے

    عورت مارچ، وہ پوسٹر جو’وائرل‘ نہ ہوسکے

    عورت مارچ کے سوشل میڈیا پر جو پوسٹر وائرل ہوئے ، ان کے شور میں وہ پوسٹر کہیں دب کر رہ گئے جن کا ہر خاص و عام تک پہنچنا ضروری تھا، ہم آپ کے لیے لائے ہیں کچھ ایسے ہی پوسٹرز جو شیئر نہ ہوسکے۔

    آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں جہاں بہت سے سیمنارز، تقاریب اور واک کا انعقاد کیا گیا وہیں کچھ شہروں میں عورت مارچ کا بھی اہتمام ہوا۔

    پاکستان ایک ایسا ملک ہےجہاں خواتین قوانین کاموثر نفاذ نہ ہونے کے سبب آج بھی اپنے بہت سے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہیں ، لیکن گزشتہ سال اور اس سال ان مسائل پر بات ہونے کے بجائے ’عورت مارچ‘ کے مخصوص پلے کارڈ ز ہی سوشل میڈیا اور تبصروں کی زینت بنے رہے۔

    پلے کارڈز پر لکھی گئی زبان کو کچھ لوگوں نے نازیبا قراردیا تو کچھ نے ان کارڈز کو بنیادی مسئلے سے غیر متعلق بھی قراردیا۔ اس سارے شور میں خواتین کے اصل حقوق کی جو آواز تھی وہ کہیں دب سی گئی۔

    یقیناً عورت مارچ کی خواتین کے مطالبات بھی ان کا حق ہیں لیکن ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ترجیحات کیا ہیں۔ کیا اگر معاشرے کے مرد خراب زبان استعمال کرتے ہیں تو خواتین کو بھی اتنی ہی خراب زبان استعمال کرنے کا حق چاہیے، یا پھر درج ذیل مسائل کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے۔

    سوشل میڈیا پر ہم نے کئی جگہ کچھ دبی دبی آوازیں دیکھیں جو کہنا چاہ رہی تھیں کہ پاکستان میں عورت کے بنیادی مسائل آخر ہیں کیا ، اور ہم کن چیزوں پر بات کررہے ہیں۔

    ہم نے ان تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ان میں سے کچھ اہم نکات چنے اور اب انہیں یہاں آپ کی خدمت پیش کررہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ مسائل حل ہوجائیں تو پھر کسی عورت کو کسی بھی قسم کے مارچ میں ’واہیات نعروں‘ کے ساتھ شرکت کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    اہم نکات

    • لڑکی کی پیدائش پر بھی ویسے ہی خوشی منانی چاہیے جیسے لڑکے کی پیدائش پر منائی جاتی ہے ، اور بیٹی کی پیدائش پر عورت کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے۔
    • تعلیم ، غذا اور اندازِ زندگی میں برابر کا حق دار تسلیم کیا جائے اور دونوں کی پرورش یکساں خطوط پرکی جائے۔
    • بچے کی پیدائش پر ورکنگ خواتین کو قانون کے مطابق تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جائے ، اور کا م کی جگہوں پر ورکنگ خواتین کے بچوں کی نگہداشت کا انتطام کیا جائے۔
    • خواتین کو جائیداد میں ان کا جائز حصہ ریاستی قوانین کی روشنی میں دیا جائے۔
    • نوکریوں میں خواتین کو برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں اور انہیں کام کے مطابق مردوں کے برابر تنخواہ دی جائے۔
    • شادی بیاہ کے معاملے میں خواتین کی رائے کو مقدم رکھاجائے اور کسی بھی جبر یا کسی اور سماجی مسئلے کے تحت ان پر کوئی رشتہ مسلط نہ کیا جائے۔
    • کھیتوں ، کارخانوں اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور انہیں ان کے کام کا باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جائے۔ خواتین سے جبری مشقت لینے کا سلسلہ فی الفوربند کیا جائے۔

    یہ وہ چند آوازیں تھی جو سوشل میڈیا پر مناسب پذیرائی حاصل نہ کرسکیں اور عورت مارچ کے پوسٹروں پرہونے والی تنقید کے شور میں دب کر رہ گئیں۔ کیا آپ ان مطالبات سے متفق ہیں، اپنی رائے کا اظہار کمنٹ میں کریں۔

  • نامعلوم افراد نے مریم نواز کے استقبالیہ بینرز پر سیاہی پھیر دی

    نامعلوم افراد نے مریم نواز کے استقبالیہ بینرز پر سیاہی پھیر دی

    فیصل آباد: مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا کنونشن کی تیاریوں کے لیے لگائے گئے استقبالیہ بینرز پر نامعلوم افراد نے سیاہی پھیر دی، متعدد پوسٹرز پھاڑ دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے 8 مارچ کو سوشل میڈیا کنونشن کا انعقاد کیا جارہا ہے جہاں نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز خصوصی خطاب کریں گی۔

    (ن) لیگ کے رہنماؤں نے کنونشن سے متعلق فیصل آباد کے مختلف چوراہوں پر استقبالیہ بینرز آویزاں کرائے جسے نامعلوم افراد  نے پھاڑ ڈالا جبکہ متعدد پوسٹرز پر نواز شریف اور مریم نواز کی تصویرں نقش تھیں جس پر سیاہی پھیر دی گئی۔

    سرگودھا میں مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا کنونشن، مریم نواز کو سونے کا تاج پہنایا جائے گا

    علاوہ ازیں سوشل میڈیا کنونشن کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے ایم پی اے نواز ملک، چیئرمین واسا توصیف نواز نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کا دورہ کیا اور ایس ایس پی آپریشن نے بھی موقع پر سیکیورٹی اقدامات کا جائزہ لیا۔

    خیال رہے کہ مریم نواز 8 مارچ کی دوپہر ایک بجے کنونشن سے خطاب کریں گی، جس میں مسلم لیگ کے وزراء سمیت سینئر رہنماؤں کی آمد متوقع ہے۔

    ہمارے مخالفین مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا فورس سے ڈرتے ہیں، مریم نواز

    واضح رہے کہ کنونشن کی کامیابی کے لیے فیصل آباد ایئرپورٹ سے دھوبی گھاٹ آنے والے تمام راستوں پر خطیر رقم کی لاگت سے قدآور پوسٹرز، بینیرز اور بل بورڈز آویزاں کرائے گئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آرمی چیف سے متعلق پوسٹرز لگانے والوں‌ پر مقدمہ کی درخواست

    آرمی چیف سے متعلق پوسٹرز لگانے والوں‌ پر مقدمہ کی درخواست

    فیصل آباد: ملک بھر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے متعلق پوسٹر پر تنازع بڑھنے لگا، پوسٹر لگانے والی تنظیم موو آن کے چئیرمین میاں کامران کے خلاف جسٹس پارٹی کی جانب سے تھانہ انارکلی میں درخواست دے دی گئی۔

    اطلاعات کے مطابق شہری عامر شہزاد نے ایس ایچ او تھانہ کوتوالی کو درخواست جمع کرائی ہے جس میں پوسٹر لگوانے والے میاں کامران کے خلاف غداری، فساد پھیلانے، افواج، ملک اور حکومت کے خلاف سازش کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

    درخواست گزار عامر شہزاد نے میاں کامران کا اقدام غیرملکی سازشوں کا حصہ قرار دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ میاں کامران نے ملک میں انارکی پھیلانے کی کوشش کی، اس کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا جائے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دینے والے پوسٹرز سے ملک بھر میں بے چینی پیدا ہوگئی، میاں کامران کا اقدام آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے ان کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کیا جائے۔

    واضح رہے کہ میاں کامران نے آرمی چیف کی تصویر کے ساتھ ذومعنی جملوں کے پوسٹرز آویزاں کروائے تھے جن پر آرمی چیف کی تصویر کے ساتھ ’’جانے کی باتیں جانے دو،جانے کی باتیں ہوئی پرانی اب آجاؤ’’ کے نعرے درج تھے۔ایس پی آر نے پوسٹرز سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں اعتزاز احسن اور خورشید شاہ نے الزام عائد کیا کہ یہ پوسٹر حکومت کی ایما پر لگائے گئے ہیں۔

  • پوسٹرز حکومت نے لگوائے، آرمی کو اس کی ضرورت نہیں،اعتزاز احسن

    پوسٹرز حکومت نے لگوائے، آرمی کو اس کی ضرورت نہیں،اعتزاز احسن

    اسلام آباد: پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن  نے کہا ہے کہ آرمی کی حمایت میں پوسٹرز حکومت نے خود لگوائے جن کا مقصد دبائو ڈالنا ہے، آرمی کو ایسے پوسٹرز کی ضرورت نہیں، فوج قوم کے دلوں میں زندہ رہتی ہے۔

    الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی سے بات کرتے ہوئے اعتزاز احسن چوہدری کا کہنا تھا کہ میرا قیاس ہے کہ دبائو ڈالنے کے لیے پوسٹرز حکومت نے خود لگوائے ہیں،حکومت کو چاہیے کہ اس قسم کے بینرز فوری ہٹائے، ایسے بینرز سے فوج کو کوئی فائدہ نہیں، فوج قوم کےدلوں میں رہتی  ہے انہیں اس قسم کے بینرز کی ضرورت نہیں،حکومت اس قسم کے بینرز اور پوسٹرز کی فوری تحقیقات کرے۔

    اس حوالے سے پیپلزپارٹی کےرہنما قیوم سومرو کا کہنا ہے کہ جب حکومت نااہل ہوگی تو بینرز ہی لگیں گے، جب وزیراعظم نظرنہیں آئےگاتوعوام پوسٹرزلگائیں گے دراصل حکومت نے اس قسم کے بینرز لگانے کا موقع خود فراہم کیا۔