Tag: PPP

  • پیپلزپارٹی کا پی ڈی ایم کے شوکاز نوٹس کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ

    پیپلزپارٹی کا پی ڈی ایم کے شوکاز نوٹس کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ

    اسلام آباد: پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو پی ڈی ایم کے نوٹس کا سخت جواب دینے کی ہدایت کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے نوٹس کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کرلیا اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو سخت جواب دینے کی ہدایت کردی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ شیری رحمان،پرویزاشرف،فرحت اللہ بابر،نیربخاری سمیت دیگرجواب تیارکریں گے، جواب تیار کر کے آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے منظوری لی جائے گی۔

    ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں پیپلزپارٹی نے فوری سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا، پیپلز پارٹی شوکاز نوٹس کا جواب مصالحانہ کی بجائے جارحانہ انداز میں دے گی۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی جواب میں ن لیگ اور پی ڈی ایم کی پالیسی کو ہدف تنقید بنائے گی اور شوکاز نوٹس کے الزامات پر پریس کانفرنس بھی کرے گی، جس میں اتحاد کو توڑنے کی کوششوں کا ن لیگ کو ذمہ ٹھہرائے گی۔

    یاد رہے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ٹی ایم ) کے متفقہ فیصلے اور اصولوں کی خلاف ورزی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو شوکاز نوٹسز جاری کئے تھے۔

    شوکازنوٹس میں دونوں جماعتوں کو سات روزمیں وجوہات بیان کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی پی اور اےاین پی کےاقدام سےاپوزیشن اتحاد اور تحریک کونقصان پہنچا ہے۔

    بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کا شو کاز نوٹس مسترد کر دیا  تھا اور بعض رہنماؤں نے بلاول بھٹو کو شوکاز کا بھرپور جواب دینے کی تجویز دی، ان ارکان کا مؤقف تھا کہ پی ڈی ایم کو شو کاز کا بھرپور اور فوری جواب دیا جائے۔

  • پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کا شوکاز نوٹس مسترد کر دیا

    پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کا شوکاز نوٹس مسترد کر دیا

    کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کا شو کاز نوٹس مسترد کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج بلاول ہاؤس میں بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا ورچوئل اجلاس منعقد ہوا، جس کی اندرونی کہانی اے آر وائی نیوز سامنے لے آئی ہے۔

    پی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے شرکا نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے شو کاز نوٹس کو مسترد کر دیا۔

    اجلاس میں بعض ارکان نے بلاول بھٹو کو شوکاز نوٹس کا جواب نہ دینے کی تجویز دی، شرکا نے رائے دی کہ پی ڈی ایم کی جانب سے پیپلز پارٹی کو جاری شو کاز نوٹس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

    ذرائع کے مطابق پی پی ارکان کا مؤقف تھا کہ پیپلز پارٹی کسی سیاسی جماعت کو جواب دہ نہیں ہے، پی پی کو شو کاز دینے والے اپنی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں، نظریہ ضرورت کی سیاست کرنے والے ہمیں نظریات نہ سکھائیں۔

    پی ڈی ایم کا پیپلزپارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ

    اجلاس میں بعض رہنماؤں نے بلاول بھٹو کو شوکاز کا بھرپور جواب دینے کی تجویز دی، ان ارکان کا مؤقف تھا کہ پی ڈی ایم کو شو کاز کا بھرپور اور فوری جواب دیا جائے۔

    رہنماؤں نے کہا کہ ہم نے تو کبھی نہیں پوچھا کہ پنجاب میں سینیٹ الیکشن میں کیا ہوا، محمد زبیر نے دو دفعہ کس سے اور کیوں ملاقاتیں کیں، یہ بھی ہم نے نہیں پوچھا، ہم سے جواب مانگا گیا تو پھر پی ڈی ایم میں ہر چیز کا جواب دینا ہوگا۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پی پی آزاد اور خود مختار جماعت ہے کسی کی ماتحت نہیں، پی پی نے پی ڈی ایم بنائی تھی اور اس کا تحفظ کرنا بھی جانتی ہے۔

  • آرڈیننس کے ذریعے اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا رہا ہے: بلاول بھٹو

    آرڈیننس کے ذریعے اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا رہا ہے: بلاول بھٹو

    جیکب آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان نے آئی ایم ایف ڈیل میں شامل ہونے سے پہلے عوام کو مہنگائی میں دھکیلا، حکومت اپنے اداروں کو آئی ایم ایف کے حوالے کرتی جا رہی ہے، اسٹیٹ بینک کو بھی آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

    بلاول بھٹو جیکب آباد میں جاکھرانی ہاؤس میں پریس کانفرنس کر رہے تھے، انھوں نے کہا پی ٹی آئی حکومت جو آرڈیننس لے کر آئی ہے اس کے مطابق اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف چلائے گا، لیکن پیپلز پارٹی اس آرڈیننس کو ہر فورم پر چیلنج کرے گی، ہم نے سنا ہے حکومت باقی معاشی فیصلے بھی آرڈیننس سے کرنا چاہتی ہے، یہ پارلیمان پر حملہ ہوگا۔

    انھوں نے کہا 2018 الیکشن میں کوشش کی گئی عوامی نمائندوں کی جگہ من پسند نمائندے منتخب ہوں، الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہے ڈسکہ کی طرح ملک بھر میں شفافیت لائیں، مطالبہ کرتے ہیں صرف پنجاب نہیں ملک بھر میں دھاندلی کا راستہ روکیں۔

    بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا وزیر اعظم جس طرح لوگوں کو ہٹاتے ہیں اسے گڈ گورننس نہیں کہتے، یہ موجودہ حکومت کی ناکامی ہے، وہ کسی قسم کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں، پٹرولیم اسکینڈل کے ذمہ دار عمران خان اور کابینہ خود ہیں، ندیم بابر کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، ہم پٹرولیم اسکینڈل کو ایسے نہیں چھوڑیں گے۔

    صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے پی پی چیئرمین نے کہا براڈ شیٹ کیس کوئی نیا نہیں، اس میں نیب ذمہ دار ہے، جب کہ کیس سیاست دانوں پر ڈالا جا رہا ہے، جسٹس (ر) عظمت سعید خود نیب کے پراسیکیوٹر تھے، ناکام کوشش جاری ہے کہ براڈ شیٹ کیس کا الزام سیاست دانوں پر ڈالا جائے۔

    انھوں نے اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس کچھ دنوں میں ہوگا جس میں اہم فیصلے ہوں گے، ن لیگ سے متعلق بھی بات چیت ہوگی، ن لیگ کے ساتھ ہمارا ایک ماضی ہے، ہم نہیں چاہتے اپوزیشن کی لڑائی کی وجہ سے موجودہ حکومت کو فائدہ ہو۔

    بلاول نے کہا کہ مریم نواز اور فضل الرحمان کی صحت کے لیے دعاگو ہوں، میں چاہتا ہوں دونوں صحت یاب ہو کر حکومت کو ٹف ٹائم دیں، پی ڈی ایم جماعتوں کو کہوں گا کہ صبر و تحمل سے چیزوں کو دیکھیں، میں نہیں سمجھتا کہ فضل الرحمان ہم سے ناراض ہو سکتے ہیں، مولانا پی ڈی ایم صدر ہیں امید ہے یک طرفہ نہیں چلیں گے۔

  • شہباز شریف کی ضمانت ہونے والی ہے: چوہدری منظور کا دعویٰ

    شہباز شریف کی ضمانت ہونے والی ہے: چوہدری منظور کا دعویٰ

    لاہور: چوہدری منظور نے دعویٰ کیا ہے کہ میاں شہباز کی ضمانت ہونے والی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے دعویٰ کیا ہے کہ شہباز شریف کی ضمانت ہونے والی ہے۔

    ن لیگ کی جانب سے پیپلز پارٹی پر مک مکا کرنے کے الزام کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سب کو اپنے لہجے درست اور الفاظ کا چناؤ بہتر کرنا ہوگا، کل جو احسن اقبال نے گفتگو کی وہ بالکل قابل قبول نہیں۔

    چوہدری منظور نے کہا پنجاب میں بلا مقابلہ سینیٹ الیکشن ہوئے ہم نے تو مک مکا نہیں کہا، مریم نواز کی ضمانت ہوگئی ہم نے تو مک مکا کا الزام نہیں لگایا، حمزہ شہباز باہر آ گئے، جب کہ خورشید شاہ ابھی بھی جیل میں ہیں۔

    انھوں نے مزید کہا پنجاب میں بلدیاتی ادارے بحال ہوئے ہم نے کچھ نہیں کہا، ہمارا مطالبہ ہے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے فیصلے کیے جائیں، باہر بیٹھ کر فیصلے کر کے پی ڈی ایم پر نہ تھوپے جائیں۔

    پی پی کے جنرل سیکریٹری وسطی پنجاب نے کہا طے ہوا تھا کہ پی ڈی ایم کا فیصلہ متفقہ رائے سے ہوگا، ایسا ماحول بن گیا ہے کہ جے یو آئی اور ن لیگ پہلے معاملات طے کر لیتی ہیں، اور پھر آ کر اپنے فیصلے پی ڈی ایم پر تھوپ دیتی ہیں۔

    چوہدری منظور نے کہا ہم نے ن لیگ کو پیغام دیا کہ یوسف گیلانی کو کچھ دیر کے لیے اپوزیشن لیڈر بننے دیں، لیکن اس پر سلیکٹڈ کی باتیں کی جا رہی ہیں، کیا پنجاب میں عثمان بزدار کا وزیر اعلیٰ بننا پی ٹی آئی اور ن لیگ کا مُک مکا نہیں؟

  • پی ڈی ایم سے راہیں جدا؟ پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی سے تعلقات استوار کر لیے

    پی ڈی ایم سے راہیں جدا؟ پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی سے تعلقات استوار کر لیے

    لاہور: منگل کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہی اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ابھرنے والا شدید اختلاف ایک نئے موڑ میں داخل ہو گیا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم اتحاد کو مسترد کرنے والی اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آج لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے ساتھ ملاقات کی، جو پیپلز پارٹی کی توقعات کے مطابق نتیجہ خیز رہی۔

    دل چسپ امر یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے پی ڈی ایم کا حصہ بننے سے دو ٹوک انکار کیا تھا، اور سراج الحق کی جانب سے مسلسل اس اتحاد پر تنقید کی جاتی رہی ہے، گزشتہ روز ہی ملتان میں جلسے سے خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہی ہیں، ان کی لڑائی مفادات کے لیے ہے۔

    تاہم آج دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے میں اتفاق ہو گیا ہے، بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اصلی اور بنیادی عوامی جماعتیں ہیں، جب کہ سراج الحق نے کہا کہ بلاول بھٹو سے الیکشن اصلاحات پر مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوا ہے، ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آپس میں مذاکرات اور مشاورت ہو۔

    پی پی کے استعفوں پر تحفظات، پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان

    ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی چیئرمین نے کہا ہماری کوشش ہے جماعت اسلامی کی تاریخ اور تجربے سے فائدہ اٹھائیں، ملک میں ایسی جماعتیں ہیں جوگالم گلوچ کے علاوہ کام بھی کرنا چاہتی ہیں، جماعت اسلامی سے یہ ملاقات آخری نہیں ہوگی، ساتھ مسائل پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

    انھوں نے کہا الیکشن اصلاحات، احتساب، اور کشمیر ایشو پر پی پی اور جماعت کا مؤقف ایک ہے، جماعت اسلامی کی تاریخ پاکستان اور جمہوریت سے جڑی ہے، سیاسی نظریہ الگ ہو سکتا ہے لیکن ضروری ہے آپس میں رابطے بڑھائیں۔

    آصف زرداری ن لیگ پر کیوں بھڑکے، اندرونی کہانی سامنے آ گئی

    امیر جماعت سراج الحق نے کہا بلاول بھٹو سے الیکشن اصلاحات پر مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوا ہے، اگر اصلاحات نہ ہوئیں تو ڈسکہ کا الیکشن ہمارے سامنے ہے، نیب کے ادارے کو بھی آزاد ہونا چاہیے، ہر حکومت نے نیب کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی، الیکشن ہارنے کے بعد حکومت کا الیکشن کمیشن سے استعفیٰ مانگنا آمرانہ سوچ ہے، جماعت اسلامی چاہتی ہے آئندہ الیکشن سے پہلے انتخابی اصلاحات ہو ں۔

    انھوں نے کہا بلاول ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے شکریہ ادا کرتا ہوں، ان سے کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اصلاحات کی طرف جانا پڑے گا، اصلاحات کے لیے نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، تحریک انصاف کو بھی نیشنل ڈائیلاگ میں شامل ہونا چاہیے، حکومت چاہتی ہے ایک تابعدار الیکشن کمیشن ہو، یہ سوچ پاکستان اور جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے، خوش حال پاکستان کے لیے آزاد الیکشن کمیشن، آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے۔

  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ٹھن گئی، بلاول کا مریم نواز پر بڑا طنز

    پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ٹھن گئی، بلاول کا مریم نواز پر بڑا طنز

    لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی بطور اپوزیش اتحاد، راہیں جدا ہوتی نظر آ رہی ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے مریم نواز اور ن لیگ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کا خاندان ہے جو ماضی میں سلیکٹ ہوتا رہا۔

    تفصیلات کے مطابق آج جماعت اسلامی پاکستان کے مرکز منصورہ میں بلاول بھٹو زرداری نے امیر جماعت سراج الحق کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہا ہماری رگوں میں سلیکٹ ہونا شامل نہیں، لاہور کا ایک خاندان ماضی میں سلیکٹ ہوتا رہا ہے۔

    بلاول نے کہا مسلم لیگ ن کی نائب صدر (مریم نواز) کو جواب دینا ہوتا تو اپنے نائب سے صدر سے دلواتا۔

    بلاول بھٹو نے کہا ہماری تیاری مکمل تھی، لانگ مارچ ملتوی نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ سوال ضرور کروں گا کہ لانگ مارچ کو استعفوں سے جوڑنے کا مشورہ کس کا تھا۔

    انھوں نے کہا کوشش ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا، میاں صاحب جو مطالبہ آج کر رہے ہیں پی پی وہ 3 نسلوں سے کر رہی ہے۔

    پی پی چیئرمین کا کہنا تھا ہم سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کا کام حکومت کو نقصان پہنچانا ہے، پنجاب حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانا موزوں ہے، جلسے جلسوں کی بجائے پنجاب کے خلاف عدم اعتماد سے زیادہ فائدہ ہوگا۔

    بلاول نے کہا ہمارے کمرے تک ہوٹل میں بک ہو چکے تھے، استعفے لانگ مارچ سے جوڑنے تھے تو فیصلے کرتے وقت کرتے، نہ کہ 10 دن پہلے، ہم نے حکومت کو نقصان الیکشن لڑنے میں ہی پہنچایا اور حکومت کو ٹف ٹائم دیا، جمہوری اصول ہے جس کی اکثریت ہوتی ہے اس کا اپوزیشن لیڈر بھی ہونا چاہیے۔

  • اسٹیبلشمنٹ سے غیر جانب داری کی امید رکھنا بری بات نہیں: بلاول بھٹو

    اسٹیبلشمنٹ سے غیر جانب داری کی امید رکھنا بری بات نہیں: بلاول بھٹو

    حیدر آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نیوٹرلٹی کی امید رکھنا کوئی بری بات نہیں، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جائز ووٹوں کو مسترد کر کے شارٹ ٹائم کے لیے سنجرانی کو کرسی دلوائی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق بلاول بھٹو زرداری حیدر آباد میں سندھ لائیو اسٹاک ایکسپو کی اختتامی تقریب سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پی ڈی ایم کو کامیابی ملی ہے، 49 ووٹ آپ کے ہیں تو جیت بھی آپ کی ہے، 48 والے ووٹ کی نہیں۔

    بلاول نے کہا آپ نشان پر مہر لگاتے ہیں یا نام پر ووٹ جائز ہے، جائز ووٹ کو مسترد کر کے شارٹ ٹائم کے لیے کرسی سنجرانی کو دلوائی گئی، پریزائیڈنگ افسر نے جائز ووٹ مسترد کیا ہے، امید ہے عدالت انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گی۔

    پی پی چیئرمین کا کہنا تھا اسٹیبلشمنٹ کی نیوٹرلٹی کی امید رکھنا کوئی بری بات نہیں، ہم چاہتے ہیں ہر ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے اور مداخلت نہ کرے، ہمیں نیوٹرلٹی حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرنا پڑے گی، کچھ سالوں میں اسٹیبلشمنٹ پر بہت تنقید ہوئی، ان کی مداخلت کے باوجود ضمنی اور سینیٹ الیکشن میں ہم جیتے، یہ شارٹ ٹائم نہیں لانگ ٹرم جدوجہد ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کا بائیکاٹ کرتے تو دھرنے میں بیٹھے ہوتے اور وزیر اعظم خوشیاں منا رہے ہوتے، پی ڈی ایم کے یہ اچھے فیصلے تھے کہ الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی ملی، جتنی شکست پی ڈی ایم نے حکومت کو دلوائی وہ پارلیمان میں رہ کر دلوائی ہے، اور اپر ہاؤس، لور ہاؤس میں حکومت کی اکثریت کا بھی پتا چل گیا، پنجاب میں بھی ان کی اکثریت کم ہو رہی ہے۔

    پی پی چیئرمین نے کہا استعفوں کے معاملے پر آگے کا لائحہ عمل پی ڈی ایم طے کرے گی، استعفوں کو ایٹم بم کی طرح لاسٹ کارڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔

  • چیئرمین سینیٹ الیکشن کے نتائج چیلنج کرنے کے لیے آئینی پٹیشن کا مسودہ تیار

    چیئرمین سینیٹ الیکشن کے نتائج چیلنج کرنے کے لیے آئینی پٹیشن کا مسودہ تیار

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ الیکشن کے نتائج چیلنج کرنے کے لیے آئینی پٹیشن کا مسودہ تیار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ چیئرمین کا انتخاب ہارنے کے بعد پیپلز پارٹی نے نتائج چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی نے آئینی پٹیشن کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی لیگل ٹیم نے آصف علی زرداری کو آئینی مسودے پر بریفنگ دی، پی پی قیادت نے مجوزہ پٹیشن کے مسودے کی منظوری دے دی۔

    پی پی آرٹیکل 199 کے تحت چیئرمین سینیٹ الیکشن نتائج چیلنج کرے گی، اور اس سلسلے میں کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے گی۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کی لیگل ٹیم نیئر بخاری، فاروق ایچ نائیک، اور لطیف کھوسہ پر مشتمل ہے، واضح رہے کہ چیئرمین سینیٹ انتخاب میں 7 ووٹ مسترد کرنے کا عمل چیلنج کیا جائے گا۔

    صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب

    یاد رہے کہ دو دن قبل چیئرمین سینیٹ الیکشن کے نتائج عدالت میں چیلنج کرنے کے لیے فاروق ایچ نائیک نے ایک درخواست تیار کی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نام پر مہر لگانا مسترد نہیں کیا جا سکتا، 7 مسترد ووٹوں کو گیلانی کےحق میں شامل کیا جائے تو 49 ووٹ بنتے ہیں، جان بوجھ کر ووٹوں کو نام کے اوپر مہر لگنے پر اعتراض کیا گیا، مسترد ووٹوں کو گیلانی کے حق میں کاؤنٹ کرنے سے گیلانی جیت جائیں گے۔

  • یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کیلئے پی پی سینیٹرز کو ذاتی تعلقات استعمال کرنے کی ہدایت

    یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کیلئے پی پی سینیٹرز کو ذاتی تعلقات استعمال کرنے کی ہدایت

    اسلام آباد : پیپلزپارٹی نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں یوسف رضاگیلانی کی کامیابی کیلئے پارٹی سینیٹرز کو ذاتی تعلقات استعمال کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کل ہوگا ، پیپلزپارٹی نےیوسف رضاگیلانی کی کامیابی کیلئےانتخابی مہم تیزکردی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی قیادت نے پارٹی اراکین کو حکومتی،اتحادی سینیٹرز سے انفرادی رابطوں اور پارٹی سینیٹرز کو ذاتی تعلقات استعمال کرنے کی ہدایت کردی اور کہا یوسف رضاگیلانی کی کامیابی کیلئے ہرایک ووٹ اہم ہے۔

    ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے خیبرپختونخوا سے 2 آزاد سینیٹر سے رابطے کرکےیوسف رضاگیلانی کی حمایت کی درخواست کی ہے ، جس پر آزادسینیٹرز نے سوچنے کیلئے وقت مانگ لیا ہے۔

    خیال رہے چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کا انتخاب کل ہوگا ، حکومتی اتحاد کے صادق سنجرانی اور اپوزیشن اتحاد کے یوسف رضا گیلانی کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

    نمبر گیم میں اپوزیشن اکیاون ووٹ کے ساتھ آگے ہے، حکومتی اتحاد کے پاس اڑتالیس ووٹ ہیں، سو کے ایوان میں چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے لیے اکیاون ووٹ درکار ہوں گے۔

  • کیا پی ڈی ایم حکومت مخالف تحریک سے پیچھے ہٹ گئی؟ اجلاس میں نئے اختلافات سامنے آ گئے

    کیا پی ڈی ایم حکومت مخالف تحریک سے پیچھے ہٹ گئی؟ اجلاس میں نئے اختلافات سامنے آ گئے

    اسلام آباد: کیا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت مخالف تحریک سے پیچھے ہٹ گئی ہے؟ آج پی ڈی ایم کے اجلاس میں اس اہم معاملے کی بازگشت نئے اختلافات کی صورت میں سامنے آ گئی۔

    پی ڈی ایم اجلاس میں شاہ اویس نورانی پرانی باتیں بھی لے کر بیٹھ گئے، جس پر ماحول میں تلخی کا ذائقہ گھول گیا، وزیر اعظم کے اعتماد کے ووٹ کو کچھ جماعتوں نے اسے اتحاد کے لیے حکومتی پیغام بھی سمجھا۔

    شاہ اویس نورانی اور پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ میں اس وقت تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جب کہ نورانی نے ایک پرانا ذکر چھیڑ دیا، انھوں نے سوال کیا کہ فضل الرحمان کو صدر پاکستان کے الیکشن میں کیوں سپورٹ نہیں کیا گیا؟ اس پر کائرہ نے جواب دیا کہ 3 سال قبل صدر انتخاب کا معاملہ پی ڈی ایم بننے سے پہلے کا ہے۔

    تلخی بڑھنے سے روکنے کے لیے اویس نورانی کو ایک طرف فضل الرحمان نے خاموش کرا دیا، تو دوسری طرف شاہد خاقان عباسی نے بھی بات کا رخ موڑ دیا، قمر زمان کائرہ نے اویس نورانی کا یاد دلایا کہ ہم مختلف الخیال سیاسی جماعتیں ہیں اور اتحادی ہیں، ہم ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوئے۔

    پی ڈی ایم اجلاس میں حکومت کے خلاف تحریک پر توجہ دینے کی تجویز شد و مد سے سامنے آئی، یہ تجویز ن لیگ کی جانب سے دی گئی تھی، شرکا نے گفتگو میں سوال اٹھایا پی ڈی ایم کیوں مرکزی مقصد سے دور ہو رہی ہے؟ کیا پی ڈی ایم کے قیام کا مقصد اِن ہاؤس تبدیلی تھا؟

    یہ سوال جے یو آئی، ن لیگ اور بعض دیگر رہنماؤں کا تھا، جس پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے علاوہ دیگر جماعتوں نے ن لیگ اور جے یو آئی سے اتفاق کیا، شرکا نے کہا ضمنی اور سینیٹ انتخابات جیسے امور میں اتحاد کو الجھایاگیا۔

    اس موقع پر بلاول بھٹو نے پی ڈی ایم سربراہان سے سوال کیا کہ ہم آپ کی بات مان کر سینیٹ اور ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرتے تو آج کہاں کھڑے ہوتے؟

    یوسف رضا گیلانی بطور چیئرمین سینیٹ امیدوار نامزد

    اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ پر بھی تبصرے کیے گئے، کہا گیا کہ وزیر اعظم نے اعتماد کا ووٹ لے کر پی ڈی ایم کو پیغام دیا ہے، اعتماد کے ووٹ سے حکومت کو شہ ملی۔ پی ڈی ایم اجلاس کے مقام کی تبدیلی بھی موضوع بحث رہی، شرکا نے تحفظات پیش کیے کہ ہوٹل میں یہ مشاورت کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟

    شرکا نے کہا پی پی کے کہنے پر سندھ ہاؤس سے مقامی ہوٹل کی جگہ رکھی گئی، پہلے زرداری ہاؤس پھر سندھ ہاؤس اور بعد میں ہوٹل بلایا گیا۔ اجلاس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اپوزیشن لیڈر کے لیے امیدواروں کا معاملہ بھی طے نہ ہو سکا، لانگ مارچ اور اس کے مطلوبہ نتائج کی حکمت عملی پر بھی مشاورت کی گئی۔