Tag: PPP

  • پارٹی تنظیم نو، پی پی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ  شروع کر دی

    پارٹی تنظیم نو، پی پی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ شروع کر دی

    اسلام آباد: پارٹی تنظیم نو کے دوران پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ شروع کر دی۔

    پارٹی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی بلوچستان میں اختلافات شدت اختیار کرنے کے باعث پارٹی قیادت نے صوبے میں تنظیم نو رواں ماہ کرنے کا حکم دے دیا ہے، پیپلز پارٹی بلوچستان کی تنظیم نو آئندہ 2 ہفتوں میں ہوگی۔

    ذرائع کے مطابق پی پی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ شروع کر دی ہے، اور پارٹی قیادت سے رابطوں میں تیزی آ گئی ہے، صدر پی پی بلوچستان کے لیے 5، جب کہ جنرل سیکرٹری کے لیے 2 امیدوار مدمقابل ہیں۔

    صدر پی پی بلوچستان کے لیے صادق عمرانی اور ثنا اللہ زہری میں مقابلہ ہے، صدارت کے لیے صابر بلوچ، علی حسن زہری، اور عمر گوریج کی جانب سے بھی لابنگ جاری ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ میر علی حسن زہری صدر پیپلز پارٹی بلوچستان کے لیے مضبوط امیدوار ہیں، وہ آصف زرداری کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔

    پارٹی ذرائع کے مطابق جنرل سیکریٹری پیپلز پارٹی بلوچستان کے لیے سربلند جوگیزئی اور نورالدین کاکڑ مدمقابل ہیں، تاہم سربلند جوگیزئی فیورٹ ہیں۔

    یاد رہے کہ پارٹی قیادت کے حکم پر 28 ستمبر کو بلوچستان تنظیم تحلیل کی گئی تھی، اور صدر پی پی بلوچستان چنگیز جمالی اور جنرل سیکریٹری روزی خان کو ہٹایا گیا تھا، پی پی بلوچستان ڈویژنل، ضلعی عہدیدار صوبائی تنظیم کے مخالف تھے۔

    صوبے میں پارٹی کی تنظیم نو کے لیے ری آرگنائزنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے، بلوچستان ری آرگنائزنگ کمیٹی تنظیم نو پر سفارشات قیادت کو دے گی، یہ کمیٹی صادق عمرانی، عمر گورگیج، اقبال شاہ پر مشتمل ہے، اور ثنا اللہ زہری، میرباز کھیتران، صابر بلوچ ری آرگنائزنگ کمیٹی کا حصہ ہیں۔

  • حکومت نے پی پی ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے کا مطالبہ مسترد کر دیا، ذرائع

    حکومت نے پی پی ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے کا مطالبہ مسترد کر دیا، ذرائع

    اسلام آباد: مسلم لیگ ن کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب میں انتظامی معاملات پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ چند روز پہلے ہونے والی دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی ملاقات بے نتیجہ رہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق حکومت نے پی پی ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا،حکومتی ٹیم نے فنڈنگ کے مطالبے کے جواب میں کہا کہ فی الحال مجموعی منصوبوں کے لیے فنڈنگ کر سکتے ہیں۔

    حکومتی ٹیم نے یہ بھی کہا کہ ہم تو اپنے ارکان اسمبلی کو بھی الگ فنڈنگ نہیں کر رہے ہیں، جس پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے میٹنگ میں ناراضی کا اظہار کیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی میٹنگ کا اختتام ایک اور کمیٹی بنانے پر ہوا ہے۔

    ’’پیپلز پارٹی مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں‘‘ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ پی پی کا مکالمہ

    واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کا پاور شیئرنگ پر وفاقی حکومت سے اختلاف شدید تر ہوتا جا رہا ہے، وفاقی حکومت سندھ کے منصوبوں پر فنڈز جاری نہیں کر رہی ہے، اور بلوچستان کے مسائل پر بھی سنجیدہ نہیں ہے۔

    پیپلز پارٹی کے مطابق وفاقی حکومت کے پی کے اور پنجاب میں گورنرز کے ساتھ انتظامی امور بھی حل نہیں کر رہی ہے، پی پی پی رہنماؤں نے قیادت سے شکوہ کیا ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ووٹ دیے، لیکن بدلے میں ہمارے ووٹرز کے لیے کچھ نہیں ہو رہا ہے۔

  • پیپلز پارٹی نے صدر مملکت کو وفاقی حکومت سے مسائل حل کروانے کا ٹاسک دے دیا

    پیپلز پارٹی نے صدر مملکت کو وفاقی حکومت سے مسائل حل کروانے کا ٹاسک دے دیا

    کراچی: پاور شیئرنگ پر اختلافات کو دور کرنے کے لیے صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف سے آج شاہم اہم ملاقات کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو وفاقی حکومت سے مسائل حل کروانے کا ٹاسک دے دیا ہے، تاکہ پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان اختلاف کو دور کیا جا سکے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم پاکستان میں ملاقات ہوگی، دونوں رہنما وفاقی حکومت کے مسائل پر بات کریں گے، صدر پاکستان اور وزیر اعظم ملاقات میں پی پی خدشات اور اختلافات پر غور ہوگا۔

    پارٹی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کا پاور شیئرنگ پر وفاقی حکومت سے اختلاف ہے، وفاقی حکومت سندھ کے منصوبوں پر فنڈز جاری نہیں کر رہی ہے، اور بلوچستان کے مسائل پر بھی سنجیدہ نہیں ہے۔

    ’’پیپلز پارٹی مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں‘‘ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ پی پی کا مکالمہ

    پیپلز پارٹی کے مطابق وفاقی حکومت کے پی کے اور پنجاب میں گورنرز کے ساتھ انتظامی امور بھی حل نہیں کر رہی ہے، پی پی پی رہنماؤں نے قیادت سے شکوہ کیا ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ووٹ دیے، لیکن بدلے میں ہمارے ووٹرز کے لیے کچھ نہیں ہو رہا ہے۔

    ذرائع کے مطابق ملاقات میں دونوں رہنما مدارس رجسٹریشن ترمیمی بل پر بات چیت کریں گے، وزیر اعظم پاکستان مدارس بل پر صدر کے اعتراضات کے حل پر گفتگو کریں گے، صدر مملکت کی جانب سے مدارس بل پر 8 اعتراضات لگائے گئے ہیں۔

    وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری کو مولانا فضل الرحمٰن سے ہونے والی ملاقات پر بات بھی کریں گے، اور مولانا کے مطالبات اور خدشات صدر مملکت کے سامنے رکھیں گے۔

  • ’’پیپلز پارٹی مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں‘‘ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ پی پی کا مکالمہ

    ’’پیپلز پارٹی مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں‘‘ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ پی پی کا مکالمہ

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومتی کمیٹی کے مذاکراتی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے، جس میں پی پی نے کہا ’’ہمارے ساتھ سنگین مذاق کیا جا رہا ہے۔‘‘

    ذرائع کے مطابق حکومت کے ساتھ مذاکراتی اجلاس میں پی پی رہنما نے حکومتی وفد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے ساتھ کمیٹی کمیٹی کھیلا جا رہا ہے، حکومت واضح کرے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟ ہمارے ساتھ سنگین مذاق کیا جا رہا ہے، لیکن پیپلز پارٹی مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں ہے۔‘‘

    پی پی رہنما نے حکومتی وفد سے سوال کیا کہ کیا حکومت پیپلز پارٹی کے بغیر چل سکتی ہے، وفد نے جواب کہ وفاق پنجاب میں پی پی کے بغیر چلنا نا ممکن ہے، اس پر پی پی رہنما نے کہا ’’اگر حکومت چل نہیں سکتی تو پھر تنگ نہ کرے، پی پی کھیلنے لگی تو حکومت کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی۔‘‘

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی اور حکومت کی یہ پہلی مذاکراتی نشست گھنٹے سے زائد جاری رہی، پیپلز پارٹی اور حکومتی کمیٹی کی پہلی ملاقات شکوے شکایات پر مبنی تھی، پی پی نے مذاکراتی نشست کے دوران حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، ملاقات کے دوران اسحاق ڈار اور راجہ پرویز اشرف نوٹس لیتے رہے، فریقین نے میٹنگ منٹس لینے پر اتفاق کیا تھا۔

    پی پی ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ اور بلوچستان نے ترقیاتی فنڈز اجرا میں تاخیر کا معاملہ اٹھایا، پی پی نے سندھ اور بلوچستان کے ترقیاتی فنڈز کی عدم ریلیز پر تحفظات کا اظہار کیا، وفد نے کہا وفاق سندھ اور بلوچستان کے طے شدہ ترقیاتی فنڈز ریلیز نہیں کر رہا۔

    پی پی وفد نے عالمی اداروں میں پوسٹنگ میں نظر انداز کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا، اور کہا وہ عالمی اداروں میں تعیناتیوں میں عدم مشاورت پر شدید نالاں ہیں، وفاقی حکومت عالمی پوسٹنگز پر اعتماد میں نہیں لے رہی، پیپلز پارٹی کو عالمی پوسٹنگ میں ایڈجسٹ نہیں کیا جا رہا۔

    وفد نے کہا پنجاب میں بھی پی پی کو نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات برقرار ہیں، پیپلز پارٹی نے پنجاب کے پاور شیئرنگ فارمولے پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کیا، اور کہا وفاقی حکومت تحریری معاہدے پر عمل درآمد نہیں کر رہی، مراد علی شاہ نے دریائے سندھ پر لنک کینال کی تعمیر پر بھی تحفظات رکھے، گورنر پنجاب نے صوبے میں درپیش انتظامی مسائل پر تحفظات کا اظہار کیا، اور کہا کہ پنجاب حکومت اور گورنر کے درمیان آئیڈیل ریلیشن شپ نہیں ہے۔

    اجلاس میں گورنر پنجاب نے صوبے میں تعیناتیوں پر اعتماد میں نہ لینے کا شکوہ بھی کیا، گورنر کے پی نے صوبے بارے طے شدہ نکات پر عدم پیش رفت پر بات کی، اور وزیر اعظم کے وعدے پورے نہ ہونے کا شکوہ کیا، اور کہا کہ وفاقی حکومت کے پی سے متعلق کئی وعدوں سے انحراف کر رہی ہے۔

    پی پی وفد کا کہنا تھا کہ جب معاہدہ ہو چکا ہے تو اب مذاکرات سمجھ سے بالاتر ہیں، حکومت اس پر متعدد بار یقین دہانی کرا چکی لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا، حکومت یقین دہانیاں چھوڑ کر معاہدے پر فوری عمل درآمد کرے، اجلاس میں حکومتی وفد نے تحفظات دور کرنے کی ایک اور یقین دہانی کرائی۔

  • پی پی قیادت نے مذاکراتی وفد کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی ہدایت کر دی

    پی پی قیادت نے مذاکراتی وفد کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی ہدایت کر دی

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والے وفد کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی ہدایت کر دی ہے۔

    پی پی ذرائع کے مطابق آج پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی رپورٹ پی پی قیادت کو پیش کر دی گئی، مذاکراتی وفد نے پہلی ملاقات کی تحریری رپورٹ بلاول بھٹو کو پیش کی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے کسی صورت مطالبات سے دستبردار نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور پی پی قیادت نے مذاکراتی وفد کو مؤقف سے پیچھے نہ ہٹنے کی ہدایت کی ہے۔

    پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ وزرائے اعلیٰ اور گورنرز کے مطالبات اور تحفظات جائز ہیں اور عوامی نوعیت کے ہیں، پیپلز پارٹی عام آدمی، صوبوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے، حکومت کا طے شدہ باتوں پر دوبارہ مذاکرات کرنا افسوس ناک ہے۔

    سندھ کے لیے بڑی خبر، فارن فنڈنگ سے چلنے والی اسکیموں کے لیے سو ارب سے زائد کے فنڈز جاری

    پی پی ذرائع کے مطابق قیادت نے مذاکراتی وفد کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ پی پی طے شدہ تحریری معاہدے کے ہر نکتے کا بھرپور دفاع کرے گی، اور مذاکراتی وفد کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔

    پارٹی قیادت نے وفد کو مذاکرات سے متعلق تفصیلی رپورٹنگ کی بھی ہدایت کی، ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی اور حکومت میں مذاکرات کا دوسرا دور 24 دسمبر کو لاہور میں ہوگا۔

  • بلاول بھٹو اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟ بلاول نے کیا کہا؟

    بلاول بھٹو اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟ بلاول نے کیا کہا؟

    اسلام آباد: نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی بلاول بھٹو سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں اسحاق ڈار کا رویہ معذرت خواہانہ تھا۔

    تفصیلات کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے لیے رابطہ کیا تھا، ذرائع کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی جانب سے پی پی چیئرمین کو ایک بار پھر تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

    ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار نے کوآرڈینیشن کمیٹیوں کی جلد ملاقات کی یقین دہانی کرائی، جب کہ ان کے اصرار پر بلاول بھٹو نے ایک اور موقع دینے پر آمادگی ظاہر کی۔

    ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے اسحاق ڈار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پیپلز پارٹی کے صبر کا مزید امتحان نہ لے، حکومت پیپلز پارٹی کے تحفظات اور شکایات فوری دور کرے، مجھ پر اپنی جماعت کا شدید دباؤ ہے،۔

    انھوں نے کہا حکومت کوآرڈینیشن کمیٹیوں کی ملاقاتوں کا شوق پورا کر لے، کوآرڈینیشن کمیٹیوں کی ناکامی پر وزیر اعظم سے بات کروں گا۔ واضح رہے کہ حکومت اور پی پی کی کوآرڈینیشن کمیٹیوں کی ملاقات تاحال طے نہیں ہوئی۔

  • پیپلز پارٹی موجودہ دور حکومت میں پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھے گی، ذرائع

    پیپلز پارٹی موجودہ دور حکومت میں پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھے گی، ذرائع

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومت کے بگڑتے تعلقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے، تعلقات بہ ظاہر خراب ہیں لیکن دونوں کے درمیان بیک ڈور چینلز رابطے ہوئے ہیں۔

    پی پی ذرائع کے مطابق پارٹی سخت سیاسی بیانات سے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہ رہی ہے، اور دوسری طرف قیادت نے حکومت کو تحفظات اور شکایات سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس سخت زبانی احتجاج کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے، موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کوئی بڑا سیاسی فیصلہ لینے نہیں جا رہی، اس لیے حکومت کے ساتھ اتحاد برقرار رہے گا۔

    پی پی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارٹی موجودہ دور حکومت میں پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھے گی، کیوں کہ پی پی کے پاس حکومت کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے، اس لیے سخت بیانات اور احتجاج کے باوجود حکومتی اتحاد میں رہے گی۔

    ذرائع نے یہ بھی کہا کہ پارٹی کے متعدد اہم رہنما حکومتی رویے سے دل برداشتہ ہیں، وہ ترقیاتی اسکیموں کی عدم منظوری اور کام نہ ہونے پر نالاں ہیں، اور بلاول بھٹو سے شکایت کر رہے ہیں جس کی وجہ بلاول بھٹو پر حکومت سے احتجاج کے لیے شدید دباؤ ہے۔

  • آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا

    آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا

    اسلام آباد : وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے سمیت پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کے نکات بالآخر سامنے آگئے۔

    حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فارمولا سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کر دیا۔ وفاقی آئینی عدالت کیسے تشکیل دی جائے گی، اس ضمن میں حکومت نے ڈھانچہ تیار کر لیا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماری میمن نے اس پر تفصیلی گفتگو کی اور حکومت سمیت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مسودوں سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

    مجوزہ ترمیم کے حوالے سے حکومتی مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے۔

    مجوزہ ترمیم نے کہا کہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان اور بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا جبکہ دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے دو دو ارکان لئے جائیں گے۔

    صوبائی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرِ قانون، بار کونسل کے نمائندے پر مشتمل ہو گی، جج کی اہلیت رکھنے والے کے لئے نام پر مشاورت کے بعد وزیرِ اعظم معاملہ صدر کو بھجوائیں گے۔

    مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیرِ اعظم کو دیے جائیں گے۔

     آئینی ترمیم

    مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کے لئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدرِ مملکت دیں گے۔

    مجوزہ ترمیم کا کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہو گا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔

    مولانا فضل الرحمان

    جمیعت علماء اسلام (ف) کا آئینی مسودہ

    وفاقی آئینی عدالت کے قیام کیلئے جے یو آئی (ف) نے 24 ترامیم تجویز کی ہیں، جس کے تحت آرٹیکل 175اے میں ترمیم، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دینے، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 5 سینئر ججز پر مشتمل بینچ اور ہائیکورٹس میں چیف جسٹس سمیت 3 سینئر ججز پر مشتمل آئینی بینچ کی تجویز دی۔

    جے یو آئی (ف) نے 175 اے میں ترمیم، 19ویں ترمیم کا خاتمہ، 18ویں ترمیم کی مکمل بحالی، آرٹیکل 38، 203 اور 243 میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔

    مسودہ میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ کو آئینی تنازعات یا تشریح کا اختیار ہوگا، صوبائی آئینی بینچ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ آئینی بینچ میں ہوگی، صدر کی جانب سے بھیجے گئے سوال کی سماعت آئینی بینچ میں ہوگی۔

    جے یو آئی (ف) نے مجوزہ مسودہ میں تجویز دی ہے کہ سرکاری و نجی سطح پر یکم جنوری 2028سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے جبکہ ملک میں اسلامی مانیٹری سسٹم متعارف کروایا جائے۔

     بلاول بھٹو زرداری

    پیپلز پارٹی کا آئینی مسودہ

    پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 ختم کرنے کی تجویز دی کہ اس میں ترمیم سے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہوجائے گا اور ازخود نوٹس لینے کا اختیار پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس ہی رہے گا۔

    پیپلز پارٹی کے آئینی مسودے میں آرٹیکل 175اے میں ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو 5 ججز پر مشتمل ہوگی، جبکہ چیف جسٹس آئینی عدالت اس کی سربراہی کریں گے۔

    پی پی مسودے کے مطابق ہر صوبے سے باری کی بنیاد پر آئینی عدالت کے چیف مقرر ہوں گے، جبکہ چیف جسٹس کی اپنی مدت 3سال ہوگی جو روٹیشن پالیسی کی بنیاد پر ہوگی۔

    اس کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا اور کسی بھی فورم پر اپیل نہیں کی جاسکے گی۔ چار صوبائی آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس صوبائی آئینی عدالت ہوں گے اور باقی ججز کا تعین حکومت قانون کے مطابق کرے گی۔

    صوبائی آئینی عدالت کا فیصلہ وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج ہوسکے گا، پیپلز پارٹی کے مسودے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ججز کی تقرری کیلیے آئینی کمیشن آف پاکستان کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔

    آئینی کمیشن میں آئینی عدالت کے چیف جسٹس 2 سینئر ججز، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون ، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ اور قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے دو ارکان میں سے ایک حکومت کا اور دوسرا اپوزیشن کا ہوگا، جن کی نامزدگی اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے اور اسی طرح سینیٹ سے ایک رکن حکومت اور ایک اپوزیشن کا ہوگا۔

  • حکومت کا سربراہ پاکستان بیت المال کی تعیناتی کا فیصلہ، آصف زرداری کے ترجمان سمیت تین نام شارٹ لسٹ

    حکومت کا سربراہ پاکستان بیت المال کی تعیناتی کا فیصلہ، آصف زرداری کے ترجمان سمیت تین نام شارٹ لسٹ

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان بیت المال کی سربراہی کے لیے تین ناموں پر غور کیا جا رہا ہے، کیوں کہ حکومت پی پی کا تجویز کردہ امیدوار ایم ڈی کے طور پر تعینات کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان بیت المال کے ایم ڈی کے عہدے کے لیے آصف علی زرداری کے ترجمان عامر فدا پراچہ، سندھ سے پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور راولپنڈی سے پارٹی رہنما سمیرا گل کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔

    پیپلز پارٹی ایم ڈی کے لیے حتمی نام جلد حکومت کو بھجوائے گی، عامر پراچہ پی ڈی ایم دور حکومت میں بھی ایم ڈی بیت المال رہ چکے ہیں، جب کہ سمیرا گل این اے 55 راولپنڈی سے پی پی کی ٹکٹ ہولڈر رہ چکی ہیں۔

    پی پی ذرائع کے مطابق ایم ڈی کے لیے عامر فدا پراچہ مضبوط امیدوار ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں تعیناتی کا اختیار پی پی کو دیا ہے، اور حکومت پی پی کے تجویز کردہ امیدوار ہی کو ایم ڈی تعینات کرے گی۔

  • ن لیگ،ایم کیوایم اور پی پی سے ڈائیلاگ نہیں ہونگے، رؤف حسن

    ن لیگ،ایم کیوایم اور پی پی سے ڈائیلاگ نہیں ہونگے، رؤف حسن

    کراچی : پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے کہا ہے کہ ن لیگ، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پیپلز پارٹی سے ڈائیلاگ نہیں ہونگے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ملکی سیاسی حالات اور جیل میں گزارے ہوئے دنوں کے حوالے سے بہت سی اہم باتیں بتائیں۔

    انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کا واضح مؤقف ہے کہ ن لیگ،ایم کیو ایم اور پی پی سے ڈائیلاگ نہیں ہونگے، محمود اچکزئی نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں سے رابطے کریں۔

    انہوں نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے اچکزئی کو مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ رابطے کریں اور پروپوزل لائیں، محمود اچکزئی پرپوزل لائیں گے تو پھر اس پر پی ٹی آئی مشاورت کرے گی۔

    مرکزی رہنما پی ٹی آئی نے 22 اگست کے جلسے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں واضح طور پر کہا کہ جلسہ مقتدرہ کی خواہش پر ملتوی کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں آٹھ ستمبر کے جلسے کی این او سی مقتدرہ کی جانب سے دی گئی۔

    رؤف حسن نے کہا کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے تحریک انصاف اور مقتدرہ میں مذاکرات ضروری ہیں، گمان ہے کہ پی ٹی آئی اور مقتدرہ میں دوریاں کم ہوئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں ایک مذہبی جماعت کی جانب سے احتجاج کیا جارہا تھا اور سپریم کورٹ میں کوئی کیس سنا جارہا تھا مذہبی جماعتیں بھی موجود تھیں۔

    مذکورہ اسٹیبشلمنٹ نے اصرار کیا کہ جلسہ ملتوی کردیں، ہم نے اسٹیبلشمنٹ کو جواب دیا کہ یہ فیصلہ بانی پی ٹی آئی ہی کرسکتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کے ساتھ اسی لیے صبح7بجے جیل میں ملاقات کرائی گئی۔

    رؤف حسن نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے پھر جلسہ ملتوی کیا اور اسی دوران8ستمبر کا این او سی تھمادیا گیا تھا۔

    بانی پی ٹی آئی کی ملٹری کورٹ میں پیشی کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہے، امید ہے کہ ہماری پٹیشن کو جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور مقتدرہ میں ایک بریک تھرو موجود ہے، ہماری کوشش ہے کہ بریک تھرو کو بڑھایا جائے، ہماری کوشش ہے ایک مکمل مذاکرات کا آغاز کیا جائے، چاہتے ہیں مقتدرہ اور پاکستان کی بڑی جماعت کے درمیان ڈیڈلاک ختم کیا جائے۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ مولانا فضل الرحمان حکومت کے ساتھ نہیں جائیں گے۔

    بھارتی صحافی سے رابطے کے سوال پر رؤف حسن کا کہنا تھا کہ میں ایک بڑی سیاسی جماعت کا ترجمان ہوں صحافیوں سے رابطے رہتے ہیں لہٰذا کرن تھاپڑ ایک متعدل صحافی ہیں ان کے ساتھ بھی رابطے میں تھا۔

    صحافیوں سے رابطے ہونا کیا غلط بات ہے؟ کوئی ایسی چیزنہیں جس پر مقدمات بنائے جائیں، میرے فون ابھی تک واپس نہیں دیئے گئے۔

    رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اب حب الوطنی اورغداری کے سرٹیفکیٹ دینا بند ہونا چاہیے، ہم سب محب وطن ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے، ملک کا ایک آئین ہے،ہر ادارے کا دائرہ کار کا اندراج ہے۔ اپنی حدود سےتجاوز کیا جائے گا تو کرائسز کے گرداب سے نکل نہیں سکیں گے، ملک کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں جب تک قوم اکٹھی نہیں کی جاتی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بڑے مسائل میں ایک مسئلہ خود احتسابی کا نہ ہونا ہے، ایک ادارے میں خود احتسابی ہورہی ہے تو خوش آئند بات ہے، پاکستان کے باقی اداروں میں بھی خود احتسابی ہونی چاہیے۔