Tag: Precautions and treatment

  • دانتوں میں کیڑا لگنے کا آسان اور مؤثرعلاج

    دانتوں میں کیڑا لگنے کا آسان اور مؤثرعلاج

    انسان کے دانتوں کا جسمانی صحت سے براہ راست تعلق ہوتا ہے، بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہیں دانت گِرنے اور دانتوں میں کیڑا لگنے جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    دانتوں میں کیڑا لگ جانا ایک عام مسئلہ بن چکا ہے جو بچوں سے لے کر بڑوں تک ہر عمر کے افراد کو متاثر کرتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اگر دانتوں میں کیڑا لگ جانے کے بعد اس کا مؤثر علاج نہیں کیا جائے تو یہ باقی تمام دانتوں کو تباہ کرسکتا ہے۔

    دانتوں میں کیڑا لگنے کی بنیادی وجوہات میں ناقص غذا، میٹھے کھانوں کا زیادہ استعمال، منہ کی صفائی کا خیال نہ رکھنا اور بیکٹریا کی افزائش شامل ہیں۔

    ماہرینِ کے مطابق جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ا س کے چند ٹکڑے ہمارے دانتوں میں پھنس جاتے ہیں، جب دانتوں میں پھنسے ہوئے کھانے سے منہ میں موجود بیکٹیریا آملتے ہیں تو اس کی وجہ سے دانتوں میں پلاک جمنا شروع ہو جاتا ہے۔

    پلاک میں موجود بیکٹیریا ایک ایسا ایسڈ (تیزاب) خارج کرتے ہیں جو دانتوں کی جڑوں اور سطح کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ جسے کیڑا لگنا کہتے ہیں۔

    یہ کیڑے دانتوں میں چھوٹے سیاہ گڑھوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ دانتوں کو کھوکھلا کردیتے ہیں جس سے درد اور دیگر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

    اگر آپ دانتوں کے کیڑوں سے جلدی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے باورچی خانے میں موجود چند قدرتی چیزیں اس میں آپ کی مدد کر سکتی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ کون سی چیزیں ہیں اور انہیں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    لہسن (Garlic) : ایک یا دو جوے کچا لہسن چبا کر کھائیں۔ اس کے علاوہ لہسن کا پیسٹ بنا کر متاثرہ دانت پر لگا سکتے ہیں۔ ایک کپڑے میں لہسن لپیٹ کر دانتوں پر رکھنے سے بھی آرام مل سکتا ہے۔

    لونگ (Clove) : لونگ کو دانتوں کے درد کے لیے صدیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں قدرتی اینٹی سیپٹک اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو دانتوں کے کیڑوں کو ختم کرنے اور درد کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    لونگ کے تیل کو روئی کی مدد سے متاثرہ دانت پر لگائیں۔اگر لونگ کا تیل نہ ہو تو ایک لونگ کو چبا کر اس کا عرق متاثرہ جگہ پر لگا سکتے ہیں۔گرم پانی میں لونگ ڈال کر اس سے کلی کرنے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔

    ناریل کا تیل (Coconut Oil) : ناریل کا تیل دانتوں کی صحت کے لیے بے حد مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ایسے قدرتی اجزاء پائے جاتے ہیں جو بیکٹیریا کو ختم کرنے اور دانتوں کی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔

    ایک چمچ ناریل کے تیل کو منہ میں رکھ کر 10-15 منٹ تک گھمائیں اور پھر تھوک دیں (اسے نگلنے سے گریز کریں)۔ ناریل کے تیل کو روئی میں لگا کر متاثرہ دانت پر رکھیں۔اس تیل کو روزانہ برش سے پہلے استعمال کریں تاکہ دانتوں کو کیڑوں سے بچایا جا سکے۔

    نمکین پانی (Salt Water Rinse) : نمکین پانی کا غرارہ کرنا ایک سادہ مگر مؤثر طریقہ ہے جو دانتوں کے کیڑوں کو کم کرنے اور منہ کی صفائی میں مدد دیتا ہے۔ نمک میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہوتی ہیں جو دانتوں کے انفیکشن کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    نیم گرم پانی میں ایک چمچ نمک ملا کر اچھی طرح حل کریں۔اس پانی سے دن میں دو سے تین بار کلی کریں۔
    یہ نہ صرف دانتوں کی صفائی میں مدد دے گا بلکہ مسوڑھوں کی صحت کے لیے بھی مفید ثابت ہوگا۔

    اگر آپ دانتوں کو خراب ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو 6 ماہ میں ایک مرتبہ دانتوں کے ڈاکٹر سے چیک اپ ضرور کروائیں۔

    دانتوں کو دن میں دو مرتبہ ہلکے ہاتھوں سے اچھی طرح برش کریں، اور ایسے ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کریں جس میں فلورائیڈ ہو۔

    دن میں ایک مرتبہ فلاس ضرور کریں لیکن اس دوران ایک بات کو دماغ میں ضرور رکھیں کہ فلاس کے لیے صرف میڈیکل سے ہی فلاسنگ تھریڈ خرید کر اس سے فلاس کریں،

    دن بھر زیادہ سے زیادہ پانی پئیں کیونکہ خشک منہ میں بیکٹیریا پیدا ہونے کے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔ روزانہ سوڈا، کولڈ ڈرنکس اور جوسز کا استعمال نہ کریں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • منہ کی بدبو سے فوری چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    منہ کی بدبو سے فوری چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    کسی بھی شخص کے منہ سے آنے والی بدبو اس کے آس پاس کے لوگوں کیلیے انتہائی ناگوار ہوتی ہے، اس کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں۔

    یہ بدبو آخر ہے کیا اور کیوں اور کیسے پید اہوتی ہے؟ اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ مسلسل منہ سے بدبو آنے کی وجہ وہ جراثیم ہوتے ہیں جو منہ کے اندر موجود ہوتے ہیں۔

    یہ بیکٹیریا انسان کے منہ کے اندر ایسی گیس پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے منہ سے بدبو آنے لگتی ہے۔

    منہ کی بدبو

    منہ سے بدبو ایک عام مسئلہ ہے جسے ہیلیٹوسس کہا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں ناقص زبانی حفظان صحت، خشک منہ، تمباکو نوشی، کچھ غذائیں اور طبی مسائل شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ سانس کی نالی میں انفیکشن، خشک منہ، نظامی بیماریاں جیسے گردے، پھیپھڑوں یا جگر کی بیماری، ذیابیطس، معدے کے مسائل جن میں تیزابیت اور ہاضمے کے دیگر مسائل شامل ہیں۔

    احتیاط و علاج :

    اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے منہ میں حفظان صحت کی صورتحال کو بہتر بنائیں دانتوں کو دن میں دو بار برش کریں، فلاس کریں، اور زبان کو صاف رکھیں۔

    ماہرین کے مطابق پانی پی کر منہ کو تر رکھیں اور لوزینجز یا گم کا استعمال کریں۔ یاد رکھیں تمباکو نوشی بھی منہ کی بدبو اور مجموعی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

    صحت مند غذا کھائیں اور ایسی غذائیں کم کھائیں جو منہ کی بدبو کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو کوئی طبی مسئلہ ہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ اپنے دانتوں کا باقاعدگی سے معائنہ اور صفائی کروائیں۔

  • گرمی کے موسم میں دانوں کی مشکل کیسے دور ہو؟

    گرمی کے موسم میں دانوں کی مشکل کیسے دور ہو؟

    گرمی کا موسم  آتے ہی صحت سے متعلق پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں، حساس جِلد والوں کے لیے یہ موسم کافی مشکلات لاتا ہے جن میں ایک شکایت گرمی دانوں کی ہے جو کہ کافی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

    بہت زیادہ گرمی لگنے کی صورت میں کوئی بھی شخص بیمار ہو سکتا ہے تاہم، کچھ لوگوں کے لیں سنگین طور پر بیمار ہونے کا زیادہ خطرہ پایا جاتا ہے۔

    اس رہنمائی پر عمل کرنا ضروری ہے تاکہ آپ گرم موسم کے لیے تیار رہیں اور خود کو اور اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اقدامات کر سکیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض جِلد ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ گرمی میں جِلدی امراض سے بچنے کے لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ پانی زیادہ پئیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس موسم میں لوگوں کو پسینہ بہت آرہا ہے جس کی وجہ سے فنگل انفیکشن کی شکایات بہت زیادہ آرہی ہیں۔

    ڈاکٹر کاشف نے گرمی کے موسم میں سن بلاک لازمی لگائیں اور یاد رکھیں یہ آئلی نہ ہو سن بلاک واٹر بیس استعمال کریں۔

    ایکنی کے علاج کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلیے کولڈ ڈرنکس کے بجائے لیموں پانی یا کوئی جوس استعمال کریں اور گھی یا تیل میں تلی ہوئی کوئی چیز نہ کھائیں۔

  • کالا موتیا کیا ہے؟ اس سے بچاؤ کیسے ممکن

    کالا موتیا کیا ہے؟ اس سے بچاؤ کیسے ممکن

    کالا موتیا (گلوکوما) اندھے پن کی ایک بڑی وجہ اور اس کا آغاز ہے، بدقسمتی سے اس کے شروع ہونے کی کوئی واضح علامت نہیں ہوتی بس اچانک ہی ظاہر ہوتی ہے۔

    یہ وہ بیماری ہے جس میں پردہ بصارت سے دماغ کو معلومات منتقل کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، کالے موتیا کی بروقت تشخیص بہت ضروری ہے۔

    دنیا بھر میں 36کروڑ افراد اندھے پن کا شکار ہیں، جبکہ پاکستان میں 6فیصد شہری اس بیماری میں مبتلا ہوکر اپنی بینائی کھو چکے ہیں، بڑھتی عمر وٹامن اے کی کمی بھی کمزور بینائی کا سبب ہے، نابینا پن کی بنیادی وجہ کالا موتیا ہے۔

    آنکھ کے اندرونی حصوں کو خوراک فراہم کرنے کا کام خون میں موجود ایک مادہ سرانجام دیتا ہے۔ پانی جیسی شکل رکھنے والا یہ مادہ خوراک مہیا کرنے کے بعد پھر خون کا حصہ بن جاتا ہے۔

    کالے موتیا کے دوران اس مواد کے خون میں واپس جانے کے راستے میں رکاوٹ پڑ جاتی ہے اور وہ مواد آنکھ میں جمع ہونے لگتا ہے۔ جس سے آنکھ کا اندرونی دباؤ 22 ملی میٹر مرکری سے 50 ,40 اور بعض اوقات 100 تک پہنچ جاتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق یہ بیماری آنکھوں پر پڑنے والے پریشر کی وجہ سے ہوتی ہے، آنکھ کا دماغ کے ساتھ رابطہ منقطع ہو جانے سے ابتداء میں نظر کمزور ہوتی ہے جس کے بعد آدمی مکمل طور پر بینائی سے محروم ہو جاتا ہے۔

    اس بیماری کی ابتدائی علامت یہ ہے کہ مریض کو اپنے اطراف نظر نہیں آتا لیکن وہ اس پر دھیان نہیں دیتے اور جب نظر 60 سے ستر فیصد تک خراب ہوجاتی ہے تو اس کے بعد علاج شروع کرتے ہیں۔

    اگرچہ کالے موتیے کی وجہ سے ضائع شدہ نظر بحال نہیں ہو پاتی تاہم بروقت تشخیص اور علاج سے نظر کو مزید خراب ہونے اور مکمل زائل ہونے سے بچاؤ ممکن ہے۔ کالا موتیا لا علاج نہیں ہے، علاج مرض کی کیفیت کے مطابق ادویات، لیزر یا آپریشن کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔

  • موسم گرما جلدی امراض سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ ماہر صحت کے مفید مشورے

    موسم گرما جلدی امراض سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ ماہر صحت کے مفید مشورے

    موسم گرما میں جلد کی دیکھ بھال میں کوتاہی کئی جلدی امراض کا باعث بن سکتی ہے۔ درحقیقت اس موسم میں سورج کی روشنی، پسینے کا آنا، ہوا میں نمی کی کمی اور ماحول میں گردو غبار کی زیادتی جلد کے لیے کئی مسائل پیدا کرتے ہیں۔

    ان ایام میں عام طور پر جلدی امراض میں سن الرجی، کھجلی، جلد کا خشک ہونا گرمی دانوں کا نکلنا عام ہے ان مسائل سے خود کو محفوظ کیسے رکھا جائے؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈاکٹر کاشف نے ناظرین کو مفید اور کارآمد مشورے دیے۔

    انہوں نے بتایا کہ مرد ہوں یا خواتین گرمی کے موسم میں کالے رنگ کے لباس پہننے سے لازمی اجتناب کریں ہلکے رنگ کے کپڑے زیب تن کریں اور خصوصاً خواتین کالے عبائے یا برقعے نہ پہنیں۔ کیونکہ اس سے پسینہ زیادہ آتا ہے اور اسی سے بیماریوں اور صحت کے دیگر مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گرمی کی غذاؤں میں روزانہ کی بنیادوں پر پیاز کے ساتھ ساتھ کھیرا ضرور شامل کریں اور پھلوں میں تربوز بہت اہمت کا حامل ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ آج کل اسپتالوں میں ایکنی کے مریض بہت زیادہ تعداد میں آرہے ہیں اس کیلیے تلی ہوئی اشیاء کھانا بالکل چھوڑ دیں۔ اس کے علاوہ سر میں آنے والے پسینے سے بھی خارش اور دانوں کی شکایات بھی عام ہورہی ہیں۔

    ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ گرمی کی شدت سے بچنے کیلیے لیموں پانی بہت بہترین چیز ہے اور اگر جیب میں پیاز ساتھ رکھنے والا ٹوٹکا بھی کریں تو کوئی اس میں کوئی مضائقہ نہیں، کولڈ ڈرنک اور گرین ٹی کم سے کم پئیں کیونکہ یہ جسم میں پامی کی مقدار کو کم کرتے ہیں۔

    دوسری چیز ہے ستّو، یہ ایک بہترین چیز ہے، اس سے توانائی ملتی ہے، ڈی ہائیڈریشن ختم ہوگی، چہرے پر کیل مہاسے بن جاتے ہیں، اس کے علاوہ خارش اور فنگل انفیکشن کا بھی ستّو سے علاج ہو جاتا ہے۔

    گرمی میں جِلدی امراض سے بچاؤ کے لیے انہوں نے مزید بتایا کہ مرد ہو یا خواتین، اپنے پاس عرق گلاب کا اسپرے رکھیں اور بار بار چہرے پر اسپرے کرتے رہیں۔ مرد جب باہر نکلیں تو کیپ پہنیں، خواتین دوپٹے سے چہرے پر سایہ کریں۔

  • سینے کی جلن سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    سینے کی جلن سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    اکثر لوگوں کو کھانا کھانے کے بعد سینےکی جلن کا احساس شدت سے ہوتا ہے، بظاہر تو اس جلن کو خطرناک نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ کیفیت شدید بے سکونی کا باعث بنتی ہے۔

    سینے کی جلن کیوں ہوتی ہے؟

    جب معدے میں بننے والی تیزابیت غذا کی نالی میں داخل ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں جلن کا احساس ہوتا ہے اور سینے سے لے کر گردن تک شدید جلن کا احساس ہو سکتا ہے۔

    سینے کی جلن سے نجات حاصل کرنے کے لیے ادویات استعمال کی جا سکتی ہیں، تاہم گھریلو علاج اور طرزِ زندگی میں تبدیلی لا کر بھی اس سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔

    اس کیفیت کا سامنا غیر متوازن غذاؤں اور مشروبات جیسا کہ کافی، ٹماٹر، الکوحل، چاکلیٹ اور مصالحہ دار غذاؤں کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ اس کی دیگر وجوہات میں موٹاپا، سگریٹ نوشی، اضطراب، ذہنی دباؤ، اور درد اور سوزش کو کم کرنے والی خصوصیات کی حامل ادویات کا استعمال شامل ہے۔

    احتیاطی تدابیر:

    اس تکلیف سے چھٹکارا پانے کیلیے کھانے کے بعد کم از کم 3 گھنٹے تک لیٹنے سے گریز کریں۔ تمباکو نوشی مکمل چھوڑ دیں۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن کر پیٹ پر دباؤ ڈالنے سے گریز کریں۔

    اس کے علاوہ ایسی غذاؤں اور مشروبات کے استعمال سے پرہیز کریں جو تیزابیت اور سینے کی جلن کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اگر آپ کو ہفتے میں دو یا اس سے زیادہ بار سینے کی جلن ہوتی ہے اور آپ کی خوراک یا کھانے کے انداز میں تبدیلیاں کام نہیں کرتی ہیں تو ڈاکٹر سے لازمی مشورہ کریں۔

    یاد رکھیں سینے میں جلن، الٹی یا ابکائی جیسی کیفیت اگر زیادہ محسوس ہونے لگے تو صحت پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ آپ ایسیڈیٹی یعنی تیزابیت کا شکار ہیں۔

    ویسے تو بازاروں میں تیزابیت دور کرنے والی اینٹی ایسڈ ادویات دستیاب ہیں لیکن ان کے بے شمار مضر اثرات (سائیڈ ایفکٹس) بھی ہیں۔ اس لیے ان پر مکمل دارومدار بھی نقصان دہ ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اِن شکایات سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اگر یومیہ خوراک میں تھوڑی سی تبدیلی کرلی جائے تو اس مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • الرجی کو معمولی مت سمجھیں، ورنہ

    الرجی کو معمولی مت سمجھیں، ورنہ

    الرجی عموماً دو اقسام کی ہوتی ہے اس کی ایک قسم کا تعلق سانس اور دوسری کا جِلد سے ہے، جو حساس لوگوں کو مخصوص چیزوں کو چھونے سے ہونے لگتی ہے۔

    یہ بظاہر ایک عام سا مرض ہے، جسے زیادہ تر لوگ کوئی خطرناک مرض نہیں سمجھتے لیکن در حقیقت یہ ایک خطرناک مرض کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    مرض میں مبتلا افراد بظاہر نارمل نظر آتے ہیں، مگر وہ بر وقت ایسی چیزوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، جن کے سامنے آتے ہی انہیں الرجی ہونے لگتی ہے۔

    ہمارا مدافعتی نظام ہمیں بیماریوں والے بیکٹیریاز اور وائرسز سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایسے ہی کسی بھی عنصر کے مخالف ایک مضبوط مدافعتی رد عمل ہوتا ہے جو اکثر لوگوں کیلئے نقصان دہ نہیں ہوتا، یہ عنصر الرجی کہلاتا  ہے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ یہ کیفیت قوت مدافعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    الرجی ہے کیا اور کیوں ہوتی ہے؟

    صحت جرنل میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ الرجی دراصل انسان کے مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    صحت جرنل میں مدافعتی نظام سے متعلق بتایا گیا کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے، جو عام افراد کو سمجھ نہیں آتا، لیکن اس کی آسان تشریح یہ ہے کہ یہ انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جو جسم کی بیرونی چیزوں سے حفاظت کرتا ہے۔

    مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے مٹی، دھول، جانوروں کی جلد کے وائرسز، ہوا میں شامل نمی اور دیگر کئی چیزیں انسانی جسم میں داخل ہوکر ’الرجن‘ کا وائرس پیدا کرتی ہیں، جسے امیونوگلوبلین ای ( آئی جی ای) اینٹی باڈیز بھی کہا جاتا ہے جو بڑھ کر الرجی بن جاتا ہے۔

    الرجی کن چیزوں سے ہوتی ہے؟

    الرجی ایک حساس بیماری ہے، جو مختلف لوگوں کو بہت ہی حساس اشیاء سے بھی ہوتی ہے۔

    الرجی پھولوں، دُھول، مٹی کے ذرات، پالتو جانوروں اور پرندوں کے قریب رہنے سے بھی ہوتی ہے، کچھ خاص کھانوں اور پھلوں سے بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ روزہ مرہ کے استعمال میں آنے والی چیزوں میں بوسیدہ اور ملی ہوئی چیزوں سے بھی ہوتی ہے۔

    الرجی کے باعث ہونے والی چند بیماریاں

    نزلہ، زکام، کھانسی، ناک کا بند رہنا، یا بہتے رہنا۔ سانس ٹھیک سے نہ لے پانا، استھما۔ سینے میں درد، خارش، جلد میں خرابی، خشکی، بہت ہی گرمی لگنا، جلد پر سرخ دانے نکلنا۔ سر درد، آنکھوں کا لال رہنا، آنکھوں میں پانی رہنا۔ پیٹ کی خرابیاں، ہاضمے کی شکایات وغیرہ۔

    احتیاطی تدابیر

    الرجی عارضی ہو یا دائمی، اس کا مستقل علاج موجود نہیں ہے، یعنی اگر آپ کسی بھی قسم کی الرجی میں مبتلا ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔

    اگر اس کی ویکسین دستیاب ہے تو باقاعدگی سے ویکسین استعمال کریں، تاہم احتیاط کرنے سے ہی الرجی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

  • مثانے کی کمزوری کیوں ہوتی ہے؟ احتیاط و علاج کیا ہے؟

    مثانے کی کمزوری کیوں ہوتی ہے؟ احتیاط و علاج کیا ہے؟

    مثانہ ہمارے پیٹ کے نچلے حصے میں ایک کھوکھلا سا گیند کی شکل نما ایک عضو ہے جو پیشاب کو خارج کرتا ہے۔

    پیشاب میں فضلہ اور اضافی سیال ہوتا ہے جب جسم ان چیزوں کو جذب کر لیتا ہے جو ہم کھاتے اور پیتے ہیں۔

    گردے خون سے (ایسے مادے جن کی جسم کو ضرورت نہیں ہے) فضلہ جات کو نکالتے ہیں اور پیشاب بناتے ہیں، پیشاب یوریٹرس نامی نالیوں سے ہو کر مثانے تک پہنچتا ہے پھر پیشاب کی نالی (یوریتھرا) کے ذریعے جسم سے باہر نکل جاتا ہے۔

    اکثر لوگوں کو مثانے کی کمزوری یا اس میں گرمی کی شکایت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بار بار پیشاب آنے کی تکلیف ہوسکتی ہے جو مردوں اور خواتین دونوں کو متاثر کرتی ہے۔

    عام طور پر مردوں میں مثانے کی خرابی کی وجوہات زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں اور اس کے علاج کے لیے بہترین طریقے جاننے کی ضرورت ہے۔

    جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں، عمر بڑھنے پر ہمارے مثانے پر بھی اثر پڑتا ہے، مثانے کی صحت متاثر ہوتی ہے اور وہ اپنی لچک کھو دیتا ہے، جس کی وجہ سے پیشاب کرنے کی بار بار اور اچانک حاجت محسوس ہوتی ہے اور پیشاب کا غیر متوقع اخراج ہوتا ہے۔

    مؤثر طریقہ علاج

    جب مثانے کی کمزوری کی تشخیص ہوجائے تو علاج کا پہلا مرحلہ غالباً مشقیں اور طرز عمل میں تبدیلیاں ہوں گی، وہ چیزیں جو گھر پر خود کر سکتے ہیں۔

    متاثرہ شخص کو کافی اور الکحل کا استعمال کم کرنے یا کچھ پاؤنڈ وزن کم کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔

    آپ کا معالج آپ کو کم پانی اور مشروبات پینے کو کہہ سکتا ہے، خاص طور پر سونے سے پہلے کسی قسم کا لیکوئیڈ استعمال نہ کرنے کی ہدایت بھی مل سکتی ہے۔

    روز مرہ کے کاموں میں تبدیلی

    باربار پیشاب آنے کی شکایت کرنے والے مریض اپنی غذا میں تبدیلی اور روز مرہ کے کاموں میں ردو بدل کرکے اس طرح کی علامات سے جلد چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

    علاج کرنے میں پہلا قدم طرز زندگی میں تبدیلی سمجھا جاتا ہے اور کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے علاج کے ساتھ اپنی مصروفیات کا شیڈول بھی مرتب کرنا ضروری ہے۔

    اس کے علاوہ موٹاپے کی علامات سے بھی براہ راست خطرے کا اندیشہ ہے اضافی وزن مثانے کی کمزوری اور پیشاب کی نالی پر دباؤ ڈالتا ہے۔ وزن کو کنٹرول کرنے سے مثانے اور پیشاب کی نالی پر کم دباؤ پڑتا ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • بریسٹ کینسر سے بچاؤ کیلئے کون سی خوراک ضروری ہے؟

    بریسٹ کینسر سے بچاؤ کیلئے کون سی خوراک ضروری ہے؟

    بریسٹ کینسر اس وقت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا ایسا جان لیوا مرض ہے جس کا علاج تو ممکن ہے مگر وہ کافی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب سرطان کی تشخیص ابتدائی مراحل میں ہوجائے۔

    پہلے یہ مرض عام طور پر عمر رسیدہ خواتین میں پایا جاتا تھا، لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ بریسٹ کینسر کی مریض خواتین نہ صرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں پائی جاتی ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی خواتین بھی اس مرض کا شکار ہورہی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر 6 میں سے ایک موت کا سبب کسی قسم کا کینسر ہوتا ہے اور کینسر دنیا بھر میں اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ کینسر کے شکار ہونے یا بچنے میں آپ کی غذا کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔

    متعدد غذائیں ایسے مفید مرکبات سے بھرپور ہوتی ہیں جو کینسر کے پھیلنے کی رفتار کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

    حیدرآباد: ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ہر سال خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    امریکی ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر نیکول سیفیئر کا کہنا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    فیملی ہسٹری بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، روزانہ کی خوراک میں زیادہ ٹاکسن اور کاسمیٹک مصنوعات کا استعمال بھی اس بیماری کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔

    ایسی صورت میں ایک صحت مند غذا اور طرز زندگی اپنانا چاہیے تاکہ کینسر سے بچا جا سکے۔ اس سلسلے میں ذیل میں دیے گئے 5 غذاؤں کا استعمال بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

    پالک

    پالک میں کیروٹینوائڈز کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، جو بریسٹ کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنی غذا میں پالک کو باقاعدگی سے شامل کرتے ہیں، ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ 28 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

    لہسن

    لہسن بھی بریسٹ کینسر کے خطرے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لہسن میں ایسے خواص ہوتے ہیں جو کینسر کے خلیوں کو ختم کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ سوزش کو بھی کم کرتا ہے۔ اس لیے خواتین کو روزانہ لہسن کا استعمال کرنا چاہیے۔

    بلو بیریز

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ ایک مٹھی بلو بیریز کھانے سے بھی بریسٹ کینسر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ ان میں موجود flavonoids اور anthocyanins کینسر کی روک تھام کرتے ہیں۔

    مچھلی

    اس کے علاوہ جو خواتین باقاعدگی سے مچھلی کھاتی ہیں، ان میں بھی بریسٹ کینسر کا خطرہ 14 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    ہلدی

    اسی طرح، ہلدی بھی کینسر کی روک تھام میں بہت مؤثر ہے۔ ہلدی میں اینٹی انفلماٹری خصوصیات اور اینٹی آکسیڈینٹس کی کثرت ہوتی ہے، جو کینسر سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • آنکھوں میں انفیکشن : بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ احتیاط اور علاج

    آنکھوں میں انفیکشن : بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ احتیاط اور علاج

    اکثر لوگ بے دھیانی میں اپنی آنکھوں کو رگڑ لیتے ہیں، عام طور پر یہ عمل تقریباً روزانہ شعوری یا لاشعوری طور پر کیا جاتا ہے، جس میں تھکاوٹ کا عنصر بھی شامل ہے۔

    بظاہر تو آنکھیں رگڑنا کوئی خطرناک بات نہیں لیکن دوسری جانب یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے آنکھوں میں انفیکشن، الرجی یا جسمانی صحت کے حوالے سے کوئی اور بیماری بھی لاحق ہوسکتی ہے۔

    آنکھیں جسم کا وہ حصہ ہیں جن کو جلد کی طرح ہر طرح کے بیکٹیریا یا وائرس کا براہ راست سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے ان جراثیم کے باعث ان میں انفیکشن ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

    آنکھوں کے انفیکشن کی اکثر اقسام بہت تیزی سے پھیلنے والی ہوتی ہیں اور کسی بھی انسان سے دوسرے انسان میں تیزی سے منتقل ہوتی ہیں، اس میں آنکھوں کا سفید حصہ سرخی مائل گلابی ہو جاتا ہے۔

    آج کل بچے اور بڑے سبھی آنکھوں کے انفیکشن میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں۔آنکھوں میں ہونے والی خارش کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک الرجی اور دوسری انفیکشن ہے۔

    آنکھوں میں خارش اور سرخی ظاہر ہونے کی صورت میں سب سے پہلے اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ کیا یہ الرجی ہے یا انفیکشن۔

    یاد رکھیں انفیکشن کی صورت میں صرف آنکھوں میں سرخی دیکھنے میں آتی ہے جب کہ الرجی کی صورت میں آنکھوں میں ہونے والی الرجی اور خارش کے ساتھ چھینکیں اور ناک سے پانی بہنا بھی علامات میں شامل ہو سکتا ہے۔

    الرجی کی وجوہات جاننے کے بعد ایسی چیزوں سے محتاط رہنا چاہیے جن سے آپ کی آنکھوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    اگر بہت زیادہ دیر تک اسکرین کو دیکھتے رہیں تو اس سے نکلنے والی شعاعیں آنکھوں کو متاثر کرنے کا باعث بنتی ہیں جس کی وجہ سے آنکھوں میں خارش شروع ہو سکتی ہے اور آنکھیں خشک ہو کر سرخ ہو جاتی ہیں۔

    اس کے علاوہ اس حالت میں سر درد کی تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے کوشش کریں کہ بچوں کو موبائل فون اور ٹی وی دیر تک دیکھنے نہ دیں۔

    یاد رکھیں انفیکشن کے علاج کے لئے ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی بائیوٹک کا استعمال ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر انفیکشن ختم نہیں ہوتا۔