Tag: precautions

  • ڈینگی اور ملیریا سے خود بھی بچیں، دوسروں کو بھی بچائیں لیکن کیسے؟

    ڈینگی اور ملیریا سے خود بھی بچیں، دوسروں کو بھی بچائیں لیکن کیسے؟

    ملک بھر میں ہونے والی موم سون کی موسلا دھار بارشوں اور اس کے نتیجے میں جگہ جگہ کھڑے رہنے والے پانی میں مچھروں کی افزائش ملیریا اور ڈینگی پھیلنے کا باعث بن رہی ہے۔

    ملیریا اور ڈینگی ایک مہلک بیماری ہے جو انسانوں میں مادہ مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے پھیلتی ہے، مون سون کی بارشوں کے بعد مچھروں کی افزائش کے باعث ملیریا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    پاکستان میں ہر سال کئی افراد ڈینگی وائرس اور ملیریا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈینگی بخار بھورے رنگ کے مادہ ایڈیس مچھر کے جبکہ ملیریا اینو فلیس مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے، اِن مچھروں کی افزائش کھڑے پانی میں ہوتی ہے۔

    پاکستان موسم، آبادی کی کثافت اور دیگر مختلف عوامل کی وجہ سے ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے سے ہر سال دو چار رہتا ہے, تاہم اِس وائرس سے بچاؤ کو یقینی بنانے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہم سب کے لئے ضروری ہے۔

    اگر آپ ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں یہ بیماریاں عام ہے تو اس سے بچاؤ کے لیے درج ذیل حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔ گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے صبح اور شام کے اوقات میں بند رکھیں اور ممکن ہو تو ان پر جالی لگائیں۔

    مچھر دانی کا استعمال کریں اور اس پر مچھر مار اسپرے بھی کریں، اس بات کا یقین کرلیں کہ مچھر دانی کہیں سے پھٹی ہوئی نہ ہو اور اس کے تمام سرے بستر میں صحیح طرح اندر گھسے ہوئے ہوں۔

    ہو سکے تو ایئر کنڈیشنر یا پھر پنکھے کا استعمال کریں تاکہ مچھر بھاگ جائیں۔ ایسی جگہوں پر نہ جائیں جہاں جھاڑیاں اور پانی جمع ہو کیونکہ وہاں مچھر منڈلاتے اور انڈے دیتے ہیں۔

    گھر میں اور اس کے اِردگِرد ان جگہوں کو ختم کریں جہاں مچھر انڈے دے سکتے ہیں۔ جسم کے کُھلے ہوئے اعضا پر ناریل کا تیل لگائیں یہ صبح سے شام تک ایک اینٹی بائیوٹک تہہ کی طرح کام کرتا ہے۔

    اگر کسی کو ڈینگی ہوجائے تو سبز الائچی کے بیج منہ میں دونوں طرف رکھیں، خیال رکھیں، انہیں چبانا نہیں ہے۔ اسے خالی منہ میں رکھنے سے خون کے ذرات نارمل ہو جاتے ہیں اور پلیٹ لیٹس میں فوری اضافہ ہو جاتا ہے۔

    ڈینگی کے مریض کو پپیتے کے پتوں کا رس شہد کے ساتھ ملا کر دیا جائے۔ ملیریا یا ڈینگی ہونے کی صورت میں جلدازجلد اپنا علاج کروائیں۔

    یاد رکھیں کہ ان کی علامات مچھر کے کاٹنے کے ایک سے چار ہفتے بعد تک ظاہر ہو سکتی ہیں۔

    اس کی علامات میں ابتداً بخار ہوتا ہے، پھر سر درد اور سردی محسوس ہوتی جبکہ علاج نہ کیے جانے کی صورت میں یہ بیماری سنگین صورت اختیار کرسکتی ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

  • شدید گرمی آنے کو تیار: ہیٹ ویو سے کیسے بچا جائے؟

    شدید گرمی آنے کو تیار: ہیٹ ویو سے کیسے بچا جائے؟

    شدید گرمی کے اس موسم میں احتیاطی تدابیر اپنانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ لُو لگنے یا ہیٹ اسٹروک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس میں مریض کو فوری طور پر طبی امداد نہ دینے کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    موسم گرما کا ابھی آغاز ہوا ہی ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر کے کئی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں اور ابھی گرمیوں کی شدت کے مہینے یعنی جون اور جولائی آنے باقی ہیں۔

    ایسے میں اس تپتی جان لیوا لُو، دھوپ اور ہیٹ ویو سے بچنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے چند مثبت عادات اپنا کر گرمی کے مضر اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر خالد شفیع نے بتایا کہ گرمی کے اثرات اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے کیسے بچا جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس موسم میں پانی اور مشروبات زیادہ سے زیادہ پیئں اور پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بھی کافی حد تک بڑھا دیا جائے۔ جسم میں نمکیات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے او آر ایس اور لیموں کا پانی پیئیں۔

    پروفیسر خالد شفیع کا کہنا تھا کہ گرمی سے حالت غیر محسوس ہونے پر فوراً نہائیں، پنکھے کا رخ اپنی طرف کرلیں تاکہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت کم ہوسکے۔ انتہائی شدید درجہ حرارت کی صورت میں اپنی گردن، بغلوں، گھٹنوں اور پیٹھ پر برف کے ٹکڑے رکھیں۔

    انہوں نے کہا کہ بچوں کی صحت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ لازمی پلائیں اور چھ ماہ بعد ٹھوس غذائیں دیں اور ویکسین کا مکمل کورس کروائیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ شدید گرمی کے دنوں میں باہر نکلنے سے ہر ممکن پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ باہر نکلنے والے کام صبح سورج نکلنے سے پہلے یا شام کے وقت نمٹا لیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے سن اسکرین، دھوپ کے چشمے اور کیپ کا استعمال کریں۔

  • بچوں کے نازک کاندھوں پر بھاری بستے کا حل نکل آیا

    بچوں کے نازک کاندھوں پر بھاری بستے کا حل نکل آیا

    آج کے جدید دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور سمٹ کر ایک موبائل فون میں سما گئی لیکن پھر بھی اسکول کے بچوں کے بیگز بے تحاشا بھاری ہوتے جارہے ہیں۔

    بعض اوقات تو یہ بیگز اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ اسے  اٹھا کر بچوں کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے، ان بھاری بیگز سے بچوں کے گھٹنے اور ریڑھ کی ہڈی  پر زور پڑتا ہے جن سے ان کی ذہنی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کے اسکول بیگ میں وہی چیزیں ڈالیں جن کی اسکول کے اوقات کار کے دوران ان کو ضرورت پڑتی ہے۔

    اسکول کا بستہ کتنا بھاری ہونا چاہیے؟ - ایکسپریس اردو

    سیدتی کی رپورٹ کے مطابق یاد رکھیں کہ یہ بیگ تھوڑی دیر بعد کافی دیر کے لیے آپ کے بچے کی پیٹھ پر ہو گا اور آپ کی غلط منصوبہ بندی کا بوجھ اس کو اٹھانا پڑے گا۔

    بھولنا یہ بھی نہیں کہ بات صرف اضافی بوجھ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے بچے کی سیکھنے کی کارکردگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ رپورٹ میں تعلیمی گائیڈ شیما الشیخ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کون سی چیزیں بیگ میں نہ ڈالیں۔ آپ کو بچے کی چیزوں کا احتیاط سے انتخاب کرنا چاہیے۔

    دھاتی اشیاء

    بازار میں کئی ایسی اشیا ملتی ہیں جو پلاسٹک یا لکڑی کی بھی ہوتی ہیں اور دھات کی بھی، جیسے پیمانہ وغیرہ، اس کے تیکھے کونوں سے بچے خود کو یا کسی اور کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے خریداری کرتے وقت خیال رکھیں کہ ان کے لیے پلاسٹک یا لکڑی کی اشیا خریدیں۔

    پنکھوں والی اور دوسری آرائشی اشیاء

    ظاہری خوبصورتی رکھنے کے باوجود یہ چیزیں بچوں کے لیے مفید نہیں ہیں، خصوصاً چھوٹی کلاسز کے بچوں کے لیے، ممکن ہے کہ جب بچہ لکھنے کے لیے پن نکالے تو اس کے پنکھوں کی جانب متوجہ ہو جائے اور

    طالب علموں کے ناتواں کندھے اور بھاری بستوں کا بوجھ - ایکسپریس اردو

    لکھنے کا وقت ان سے کھیلنے یا پھر اکھاڑنے میں صرف کر دے۔ اس سے ایک تو بچے کا وقت ضائع ہو گا اور دوسرا اردگرد گندگی کا باعث بھی بنے گا اور بچے کی توجہ بھی بٹائے رکھے گا۔

    اسی طرح بچے کے لکھنے کی چیزیں ہلکی بھی ہونی چاہییں کیونکہ وزنی چیزوں سے بچے کے چھوٹے پٹھوں پر بوجھ پڑتا ہے اور ان کو تھکن کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔

    کارٹون کرداروں کی شکل والی سٹیشنری

    ضروری بات یہ بھی ہے کہ آپ کو بچوں کے لیے کارٹون کرداروں کی شکل والی اسٹیشنری نہیں خریدنی چاہییں چاہے وہ کتنی ہی پرکشش نہ ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلاس کو پلے کلاس میں بدل دے گی اور اس سے بچے کی توجہ بٹی رہے گی۔

    جس پر بچے کو استاد کی سرزنش کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ بچے کو عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ دادا کے ساتھ کھیلنے اور پڑھائی کو الگ الگ دیکھے۔ آپ کو اس کے بیگ اچھے رنگوں والی اشیا ہی رکھی چاہییں۔

  • بالوں کو کلر کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال لازمی رکھیں

    بالوں کو کلر کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال لازمی رکھیں

    بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بالوں میں سفیدی کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں اس کے برعکس 75 سے 80 فیصد لوگ بالوں کی سفیدی چھپانے کے لیے مخصوص رنگ کا استعمال کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ خواتین میں آج کل فیشن کے لیے بھی بالوں کو رنگوانا عام سی بات ہوگئی ہے اور ایسا ایک یا دو بار نہیں بلکہ متعدد بار کیا جاتا ہے جو بالوں کی صحت کیلئے اچھی مثال نہیں یعنی بال کلر کروانا اب بہت آسان ہوگیا ہے۔

    ہیئر کلرنگ ایک نازک مرحلہ ہے جس کے لیے اس کے بارے میں علم اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق بالوں کے رنگنے کے لیے پیشہ ور افراد کے مشورے کی ضرورت ہوتی ہے۔بالوں کے رنگ میں کوئی تبدیلی کرتے وقت نیچے درج کی گئی ان 10 غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

    ہیئر سیلون میں نہ جانا

    اس میدان میں ماہرین کی مہارت کا استعمال بالوں کا صحیح رنگ منتخب کرنے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس فیلڈ کے ماہرین بالوں کے رنگ کا تعین کرنے میں مدد کرتے ہیں جو جلد کے رنگ سے ملتے ہیں۔

    وہ متوقع نتیجہ حاصل کرنے کی ضمانت دیتے ہیں، اس کے ساتھ بالوں کی دیکھ بھال کا طریقہ کار بھی بتاتے ہیں جس کے بعد بالوں کی رنگت میں استحکام رہتا ہے۔

    بالوں کے ماہرین پر اندھا اعتماد

    بالوں کا رنگ منتخب کرنے میں ذاتی رائے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا آپ کو اپنے بالوں کا رنگ منتخب کرنے کے بارے میں اپنی رائے رکھنی چاہیے۔ جہاں تک ہیئر ڈریسنگ کے شعبے میں ماہرین کے کردار کا تعلق ہے، اس کا انحصار بالوں کے مناسب رنگ کا انتخاب کرنے اور اسے صحیح طریقے سے نافذ کرنے کے لیے مشورے فراہم کرنے پر ہے۔

    بالوں کا گہرا رنگ منتخب کرنا

    بالوں کے بہت گہرے رنگ کو اپنانے سے چہرے کی چمک مدھم ہو جاتی ہیں جبکہ ہلکے رنگ اسے روشن کرتے ہیں۔ جہاں تک اس قاعدے کی پیروی کی جانی چاہیے۔ ایسا بالوں کا رنگ منتخب نہیں کرنا چاہیے جو آئی برو کے رنگ سے زیادہ گہرا ہے۔

    گہرا رنگ منتخب کرنا

    بالوں کے رنگ کو مستقل تبدیل کرنا ایک خطرہ ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے مستقل رنگنے کے مرحلے پر جانے سے پہلے عارضی بالوں کا رنگ اپنایا جائے۔

    گھر میں بالوں کا رنگ ہلکا کرنا

    بالوں کا رنگ ہلکا کرنا ایک انتہائی نازک مرحلہ ہے اس کے لیے ماہرین کی مہارت کی ضرورت ہے۔ گھر پر لگانے سے بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگر بالوں کا رنگ دو ڈگری سے زیادہ ہلکا ہو جائے تو نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

    جلد کے رنگ اور آنکھوں کے ساتھ بالوں کے رنگ کا میچ نہ ہونا

    بالوں کا قدرتی رنگ عام طور پر جلد اور آنکھوں کے رنگ جیسا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی قسم کی تبدیلی مسئلے کا باعث بنتی ہے اور نتائج کی ضمانت نہیں دی جاتی۔

    بالوں کے رنگ کا ناقص انتخاب جلد کو پھیکا یا بے جان بنا سکتا ہےجبکہ آنکھوں کو تھکا ہوا اور چمک سے خالی بنا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عام اصول یہ ہے کہ ہلکی جلد ہلکے رنگ کے بالوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور سیاہ جلد سیاہ بالوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔

    دوسرا رنگ چھپانے کے لیے بالوں کا نیا رنگ منتخب کریں

    متوقع رنگ حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اس کے اوپر کوئی اور رنگ نہ لگائیں۔ بلکہ بالوں کے لیے ہلکا پھلکا شیمپو اپنائیں جس سے مختصر عرصے میں نتائج بہتر ہوں گے۔ ہیئر ڈریسنگ کے شعبے کے ماہرین سے بھی مشورہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ غلطی کو درست کریں جو کہ رنگنے کے دوران کی گئی ہے۔

    عارضی رنگ تبدیل کرنے کے لیے نئے رنگ کا انتخاب کرنا

    عارضی بالوں کا رنگ منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مستقل نہیں رہے گا اور یہ بالوں کے بار بار دھونے سے غائب ہو جاتا ہے لہذا اسے مستقل رنگ میں چھپانے کی ضرورت ہے۔

    مہندی کا سہارا لینا

    مہندی کو قدرتی اجزا میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو بالوں کا رنگ بدلنے میں مدد کرتا ہے لیکن اس فیلڈ میں تجربے کی کمی کی صورت میں اس کا اطلاق پیچیدہ ہے اور اس کی درخواست میں آسانی کی وجہ سے اسے نیم مستقل رنگنے کے ساتھ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس میدان میں ماہرین کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہیئر ڈریسنگ سیلون میں مہندی لگائی جا سکتی ہے۔

    بالوں پر رنگ لگاتے وقت ان کی حالت کو نظر انداز کریں

    خراب اور بے جان بالوں کو رنگنا ایک مشکل کام ہے۔ چاہے وہ عارضی ہو یا مستقل۔ اس معاملے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بالوں کو رنگنے سے پہلے ان کی حالت کو بہتر بنایا جائے اور یہ کام ہیئر ڈریسنگ سیلون کے ماہرین کو تفویض کیا جائے خاص طور پر رنگے ہوئے بالوں کی صورت میں جو رنگ میں نئی ​​تبدیلی لاتے ہیں۔

  • ذیابیطس سے بچنے کے لیے بہترین اور نہایت آسان طریقہ

    ذیابیطس سے بچنے کے لیے بہترین اور نہایت آسان طریقہ

    یابیطس ایک مرض ہے جو ایسی صورت میں ہوتا ہے جب آپ کا جسم خون کے گلوکوز کو مناسب طرح سے استعمال نہیں کرسکتا ہے۔ ہمارا جسم خون میں گلوکوز کو توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    جب ہم کوئی ایسی غذا کھاتے ہیں یا پیتے ہیں جس میں کاربوہائیڈریٹ ہو، جیسے کہ چپاتی، چاول، بریڈ، آلو، پاستا، بسکٹس، مٹھائیاں، مشروبات اور پھلوں کا رس تو خون میں گلوکوز کی سطح بڑھ جاتی ہے۔

    جب آپ کو ذیابیطس ہوتا ہے تو، آپ کے خون میں گلوکوز کی سطحیں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ آپ کا جسم اس توانائی کے لیے اس گلوکوز کو مناسب طور پر استعمال نہیں کرپاتا جس کی اسے ضرورت ہے۔

    اگر اسے درست نہ کیا جائے تو یہ سنگین پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے جس کے سبب آپ اندھے ہوسکتے ہیں، آپ کو دل کا دورہ یا فالج ہوسکتا ہے یا یہاں تک کہ عضو کاٹنے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

    ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس کا علم اکثر اس کے شکار افراد کو نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ خاموش قاتل کہنے کی وجہ ذیابیطس کے نتیجے میں جسم میں ہونے والی جان لیوا پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔

    تاہم روزانہ کچھ مقدار میں پھلوں کو کھانا ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرسکتا ہے۔ یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی جس کے نتائج جریدے جرنل آف کلینکل اینڈوکرینولوجی اینڈ مٹابولزم میں شائع ہوئے۔

    اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ذیابیطس کے مریض کے دوران خون میں شکر کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور ایک اندازہ کے مطابق 2019میں اس کے شکار افراد کی تعداد 46 کروڑ سے زیادہ تھی۔ اس وقت بھی 37 کروڑ افراد میں ذیابیطس ٹائپ ٹو تشکیل پانے کا خطرہ ہے جو اس بیماری کی سب سے عام قسم ہے۔

    آسٹریلیا کی ایڈتھ کوون یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن بھر میں پھلوں کی کچھ مقدار کو کھانا اگلے5 برسوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے کا خطرہ 36 فیصد تک کم کردیتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ایسا پھل کھانے سے ہوتا ہے اور پھلوں کے جوس سے ایسا کوئی فائدہ دریافت نہیں ہوا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت بخش غذا اور طرز زندگی میں پھلوں کو کھانے کی عادت کو اپنانا ذیابیطس سے تحفظ کے لیے زبردست حکمت عملی ہے۔

    اس تحقیق میں 7 ہزار 6 سو سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جن کی جانب سے پھلوں اور پھلوں کے جوس پینے کے بارے میں تفصیلات جمع کرائی گئی تھیں۔

    محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ پھل کھانے کے عادی ہوتے ہیں ان میں 5 برسوں میں ذیابیطس کا خطرہ 36 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    محققین نے پھلوں کے کھانے اور انسولین کی حساسیت کے درمیان ایک تعلق دریافت کیا، یعنی جو لوگ زیادہ پھل کاتے ہیں ان میں بلڈ گلوکوز کی سطح کو کم کرنے کے لیے انسولین کی مقدار بھی کم بنتی ہے۔

    یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ انسولین کی زیادہ مقدار کی گردش سے خون کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ذیابیطس کے ساتھ ہائی بلڈ پریشر، موٹاپے اور امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • کورونا وائرس : سعودی وزارت صحت نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس : سعودی وزارت صحت نے خبردار کردیا

    ریاض : سعودی حکومت نے شہریوں کو ہدایات دی ہیں کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں، ایس او پیز پر عمل نہ کیا گیا تو کیسز میں اضافہ ہوجائے گا۔

    اس حوالے سے سعودی وزیر صحت ڈاکٹر توفیق الربیعہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب گذشتہ عرصے کے دوران کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے لیے مقرر تدابیر کی پابندی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر صحت نے نئے کورونا وائرس کی تازہ صورت حال کے حوالے سے کہا کہ ان دنوں دنیا کے متعدد ملکوں میں کورونا وائرس کی دوسری لہر آئی ہوئی ہے، متاثرہ ممالک حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد میں بے پروائی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

    توفیق الربیعہ نے خبردار کیا کہ اگر سعودی عرب میں وبا سے تحفظ کے لیے مقرر حفاظتی تدابیر کی پابندی میں بے پروائی برتی گئی تو یہاں آئندہ ہفتوں کے دوران کورونا وائرس کے کیسز بڑھ جائیں گے۔

    سبق ویب سائٹ کے مطابق وزیر صحت نے کہا کہ سعودی عرب دنیا بھر میں کورونا ویکسین کے حصول کے لیے جاری جدوجہد اور تحقیق پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کورونا ویکسین تیار ہوتے ہی اپنے یہاں مہیا کرے گا۔

    وزارت صحت کے مشیر اور کنگ سعود یونیورسٹی فار ہیلتھ سائنس میں معاون پروفیسر ڈاکٹر ناصر توفیق نے خبردار کیا کہ کورونا کی دوسری لہر پہلی لہر سے زیادہ خطرناک اور سخت ہوگی، انفلوئنزا اور نئے کورونا وائرس میں فرق صرف ٹیسٹ کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔

  • کرونا وائرس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟   احتیاطی تدابیر اور ہدایات

    کرونا وائرس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ احتیاطی تدابیر اور ہدایات

    کراچی : پاکستان میں کروناوائرس کی تصدیق کے بعد ماہرین صحت نے وائرس سےبچنےکی شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کردی ہے اور کہا ، اس وائرس کےعلاج کیلئے کوئی خاص گولی یادوائی نہیں ، اگربخارہےتوپیناڈول کھائیں اور پانی کا استعمال زیادہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں کروناوائرس کی تصدیق کےبعدلوگوں میں شدیدتشویش کی لہر دوڑگئی، ماہرین صحت کا کہنا ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں ، وائرس سےبچنےکی شہری احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

    کرونا وائرس ایک ڈروپلیٹ انفیکشن ہے، یعنی اس سے متاثرہ شخص اگر کھانسے یا چھینکے اور اسکے منہ سے نکلنے والے ذرے یا بوندیں آپ تک پہنچیں تو یہ وائرس آپ کو متاثر کرسکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے، تاہم احتیاط کے ذریعے اس سے بچا جا سکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر


    اگر کوئی شخص کھانسی یابخار مبتلا ہوں تو متاثرہ شخص لوگوں سےایک میٹر کا فاصلہ رکھے۔

    کھانسی یاچھینک آنےکی صورت میں منہ، ناک کوٹشو یا کپڑےسےڈھانپے اور ہاتھ کااستعمال نہ کرے۔

    ٹشو استعمال کے بعد ٹشو کو ضائع کردیں اور آلودہ ہاتھ سے آنکھ، ناک یا منہ کونہ چھوئیں۔

    بیماری کی صورت میں گلےملنے یا ہاتھ ملانے سے گریز کریں جبکہ ہاتھ صابن اورصاف پانی سےدھوئیں۔

    بخار،کھانسی اورسانس لینےمیں دشواری کی صورت میں فوی طور پر ڈاکٹرسے رجوع کریں۔

    شہریوں کو ہدایات 


    دوسری جانب ڈاکٹرفیصل کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے کہا کہ لوگوں کاکام ہےعلامات ظاہرہونے پر گھبرائیں نہیں، ضعیف، دمے کے مریض، پھیپڑوں کے مریض زیادہ متاثر ہوتے ہیں، حفاظتی تدابیر میں ہاتھ صاف رکھنا بہت ضروری ہے۔.

    ڈاکٹرفیصل کا کہنا تھا کہ باہرجائیں تو منہ ،ناک اور آنکھ کو محفوظ رکھیں، عام لوگوں کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے ، کروناوائرس کی رینج ایک کلومیٹر تک ہوتی ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ وائرس والے علاقے کا سفر کرنیوالے شہری گھرمیں ہی رہیں، کروناوائرس کسی کو لگتا ہے تو 14 دن میں سامنے آجاتا ہے، اس وائرس کے علاج کیلئے کوئی خاص گولی یادوائی نہیں ، آپ کواگر بخار ہے تو پیناڈول کھائیں اور پانی کا استعمال زیادہ کریں۔

    ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کچھ ادویات پرتحقیق ضرورہورہی ہےمگرنتائج ابھی نہیں آئے، کرونا وائرس گرمیوں کےموسم میں کم ہوجائےگا، شہری اینٹی بائیوٹک کا استعمال نہ کریں۔

  • نیگلریا کا خطرناک جراثیم آپ کے گھر میں بھی ہوسکتا ہے

    نیگلریا کا خطرناک جراثیم آپ کے گھر میں بھی ہوسکتا ہے

    معروف ثنا خواں ذوالفقار علی حسینی دماغ کی سوزش کے مرض نیگلریا کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگئے، ماہرین نے اس موسم کے لیے نیگلیریا الرٹ جاری کرتے ہوئے لوگوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں جنرل فزیشن ڈاکٹر وجاہت نے گفتگو کرتے ہوئے اس مرض کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر وجاہت کا کہنا تھا کہ یہ ایسا مرض ہے جو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اور 2 سے 4 دن میں انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔

    یہ مرض کس طرح اپنا شکار کرتا ہے؟

    ڈاکٹر وجاہت نے بتایا کہ نیگلیریا کا جراثیم بظاہر صاف دکھنے والے پانی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ پانی جو میٹھا ہو، اور اس کا درجہ حرارت گرم ہو اس میں نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ جراثیم سوئمنگ پولز اور جھیلوں سمیت دیگر کھڑے ہوئے پانیوں میں ہوسکتا ہے۔

    اگر اس پانی میں نہایا جائے تو یہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور دماغ کو سوزش کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔ 4 سے 5 دن میں دماغ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    علامات

    اس جراثیم کے حملہ آور ہونے کا فوری طور پر علم نہیں ہوتا، تاہم یاد رکھیں اس مرض کی علامات میں:

    جھیل یا سوئمنگ پول میں نہانے کے 2، 4 دن کے اندر سونگھنے کی صلاحیت میں تبدیلی آنا

    گردن توڑ بخار ہونا

    گردن میں اکڑ محسوس ہونا

    چڑچڑا پن محسوس ہونا

    اور الٹیاں ہونا شامل ہے۔

    یاد رکھیں

    مندرجہ بالا علامات اگر اس وقت محسوس ہوں جب 2 یا 3 دن قبل آپ کسی جھیل یا سوئمنگ پول میں نہائے ہوں تو فوری طور پر الرٹ ہوجائیں اور ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔

    ان علامات کے لیے گھریلو ٹوٹکے اپنانے سے گریز کریں۔

    اگر 2 سے 3 دن کے اندر اس مرض کی تشخیص ہوجائے اور علاج شروع کردیا جائے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    ماہرین کے مطابق گرم اور مرطوب موسم نیگلیریا جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے چنانچہ اس موسم میں کھڑے پانی میں نہانے سے گریز کریں۔

    سوئمنگ کرتے ہوئے ناک کے لیے نوز پیڈز کا استعمال کریں۔

    پکنک پر جاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جس پول میں نہا رہے ہیں اس میں کلورین کی مناسب مقدار موجود ہے۔ غیر محفوظ پولز کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔

    کیا گھر میں بھی یہ جراثیم موجود ہوسکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق ہمارے گھروں میں آنے والا پانی بھی نہایت غیر محفوظ ذرائع سے ہم تک پہنچتا ہے چنانچہ اس میں بھی نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اس سے بچنے کے لیے مرطوب موسم میں وضو کرتے ہوئے ناک میں ڈالنے کے لیے منرل واٹر یا ابلا ہوا پانی استعمال کریں۔

    گھر میں موجود پانی کے ذخائر میں مناسب مقدار میں کلورین شامل کریں۔

    کسی بھی قسم کے بخار کو معمولی مت سمجھیں اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • امراض قلب کی وجوہات، علامات اور احتیاطی تدابیر

    امراض قلب کی وجوہات، علامات اور احتیاطی تدابیر

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کروڑ سترلاکھ افراد عارضہ قلب میں مبتلا ہو کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

    دل کی بیماریوں میں اضافے کی بڑی وجہ معلومات کی کمی، ذہنی دباؤ، تمباکو نوشی، شوگر، بلند فشار خون، آرام پسندی، نمک کازیادہ استعمال، غیر متحرک طرز زندگی، موٹاپا، بسیار خوری اور باقاعدگی کے ساتھ ورزش نہ کرنا ہے۔

    ویسے تو امراض قلب کی ایک عام علامت سینے میں تکلیف ہونا ہے۔ سینے میں شدید تکلیف ہونے کی صورت میں ہی ہم ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن اس میں بعض دفعہ اتنی دیر ہوجاتی ہے کہ ہمارے دل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے اور نتیجتاً ہمیں تکلیف دہ آپریشنز سے گزرنا پڑتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسی خاموش علامات سے واقف کروا رہے ہیں جو دل کی خرابی کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اگر آپ میں ان میں سے کوئی بھی علامت موجود ہے تو آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    امراض قلب کی وجوہات اور علامات


    ڈپریشن

    ڈپریشن آج کل کے دور میں ایک عام بیماری بن گئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن دل کی تکلیف کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔

    سر میں درد

    کیا آپ کو اکثر سر میں درد کی شکایت کا سامنا رہتا ہے؟ ماہرین کے مطابق یہ امراض قلب کی ایک علامت ہو سکتی ہے۔ دل کے 40 فیصد مریضوں کو اکثر سر درد کی شکایت رہتی ہے۔

    چکر آنا

    آپ نے اکثر اوقات جم میں وارننگ سائن لکھے دیکھے ہوں گے کہ بھاگنے، سائیکلنگ کرنے یا ورزش کرنے کے دوران آپ کو چکر آنے شروع ہوجائیں تو فوراً اپنی ورزش روک دیں۔ جسم کی حرکت کے دوران چکر آنا امراض قلب کی واضح علامت ہے۔

    شدید تھکن

    شدید تھکن کو ہم مشقت طلب کاموں اور نیند کی کمی کا نتیجہ خیال کرتے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اگر آپ شدید تھکن کا شکار رہتے ہیں تو یہ امراض قلب کی طرف ایک اشارہ ہے۔

    یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے دل کو پورے جسم میں آکسیجن فراہم کرنے میں سخت جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ اسی وجہ سے آپ کا جسم تھکن کا شکار ہوجاتا ہے۔

    چلنے کے دوران تکلیف

    اگر آپ کو چلنے پھرنے اور کام کرنے کے دوران جوڑوں میں تکلیف کا سامنا ہے اور آرام کرنے کے بعد یہ ٹھیک ہوجاتا ہے تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی دل کی رگوں میں کچھ گڑبڑ ہے اور یہ ٹھیک سے اپنا کام انجام نہیں دے رہیں۔

    سوجن

    بہت زیادہ سفر کرنے والے افراد یا حاملہ خواتین میں پیروں کی سوجن ایک عام بات ہے۔ لیکن اگر آپ کا شمار ان دونوں میں نہیں ہوتا پھر بھی آپ کے پاؤں سوجن کا شکار ہیں تو آپ کو فوراً کسی ماہر امراض قلب سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    سونے کے دوران دل کی دھڑکن سنائی دینا

    اکثر افراد کو رات سوتے میں اپنے دل کی دھڑکن بھی سنائی دیتی ہے۔ اس سے نجات کے لیے سونے کی پوزیشن تبدیل کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ یہ دل کے والو میں خرابی کی علامت ہے اور اس کا شکار افراد کو ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    بچاؤ کیسے ممکن ہے؟


    امراض قلب سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ تو باقاعدگی سے ہلکی پھلکی ورزش کرنا اور فعال زندگی گزارنا ہے۔

    پھلوں اور سبزیوں کا استعمال دل و دماغ کو صحت مند رکھتا ہے جبکہ تیز مرچ مصالحے اور چکنائی والے کھانے امراض قلب سمیت متعدد بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق دن کے آغاز میں ناشتے میں زیادہ کیلوریز لینا اور رات کے وقت کم کھانا کھانا امراض قلب، فالج اور خون کی شریانوں سے متعلق دیگر کئی امراض کا خطرہ کم کردیتا ہے۔

    سبز چائے بھی ذیابیطس اور دل کے امراض سمیت کئی بیماریوں سے بچاؤ میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    روزانہ خشک میوہ جات کا معمولی مقدار میں استعمال دل کے امراض سے بچاؤ اور کولیسٹرول کی سطح میں کمی لانے میں مفید ہے۔