Tag: pregnancy

  • کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے، اس کی وجہ ماؤں کا حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی اور غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    سیزیرین ڈلیوری سے متعلق کچھ توہمات نہایت عام ہیں جن کا بڑا سبب کم علمی ہے۔ آج ہم ایسے ہی توہمات اور ان کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے جارہے ہیں۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد نارمل ڈلیوری ناممکن ہے

    ایک عام خیال ہے کہ ایک بار سیزیرین ڈلیوری کے بعد نارمل ڈلیوری کے ذریعے بچے کو جنم دینا ناممکن ہے، یہ خیال بلکل غلط ہے۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد ڈاکٹر ماں کا چیک اپ کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں بتاتے ہیں کہ آیا ان کا اندرونی جسمانی نظام اب اس قابل ہے کہ وہ مستقبل میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے گزر سکتی ہیں یا انہیں ہر بار سیزیرین آپریشن ہی کروانا ہوگا۔

    80 فیصد خواتین میں یہ خدشہ نہیں ہوتا اور ڈاکٹرز انہیں بالکل فٹ قرار دیتے ہیں جس کے بعد ان خواتین میں دیگر بچوں کی پیدائش نارمل طریقہ کار کے ذریعے ہوسکتی ہے۔

    زندگی میں کتنے سیزیرین آپریشن ہوسکتے ہیں

    یہ ماں بننے والی خاتون کے اندرونی جسمانی نظام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی بار اس تکلیف دہ عمل سے گزر سکتی ہے۔ بعض خواتین کے لیے ایک بار سیزیرین آپریشن کروانے کے بعد مزید سیزیرین آپریشن کروانا خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ایسی خواتین اگر بعد میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے نہ گزر سکتی ہوں تو انہیں ڈاکٹر کی جانب سے واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ ماں بننے سے گریز کریں ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    بعض خواتین متعدد بار سیزیرین آپریشن کے عمل سے گزر سکتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر خواتین کی اپنی قوت مدافعت، جسمانی نظام اور صحت مند جسم پر منحصر ہوتا ہے۔

    آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا

    بعض خواتین ڈلیوری کی تکلیف سے بچنے کے لیے سیزیرین آپریشن کروانا چاہتی ہیں تاکہ انہیں سن ہونے والی دوائیں دی جائیں اور انہیں کچھ محسوس نہ ہو۔

    ایسا نہیں ہے کہ سیزیرین آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا، ہلکا پھلکا دباؤ یا تھوڑی بہت تکلیف محسوس ہوسکتی ہے۔ البتہ آپریشن کے بعد درد، جسم میں کپکپاہٹ، متلی اور الٹیاں وغیرہ محسوس ہوسکتی ہیں۔

    صحتیابی کے عرصے میں فرق

    سیزیرین آپریشن کے 4 سے 5 دن بعد ماں کو گھر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ ان کی مکمل صحتیابی کا وقت بھی تقریباً مہینہ بھر ہوتا ہے۔

    اس کے برعکس نارمل ڈلیوری میں ایک سے دو دن بعد گھر جانے کی اجازت مل جاتی ہے اور مکمل صحتیابی بھی صرف 2 ہفتوں میں ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے تجاویز

  • حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    خواتین کے حاملہ ہونے میں جہاں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں وہیں ایک دلچسپ پہلو ایسا بھی ہے جو کچھ عرصہ قبل ہی ماہرین کے علم میں آیا ہے۔

    سنہ 2014 میں امریکن سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن جرنل میں ایک دلچسپ تحقیق شائع کی گئی جس کے مطابق حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘ یعنی متعدی ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی خاتون کسی حاملہ خاتون کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہے تو خود اس کے حاملہ ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین اس کی وجوہات یہ پیش کرتے ہیں کہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے مطابقت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ماحول کے مطابق ردعمل دیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    جب کوئی خاتون اپنی کسی حاملہ دوست سے ملاقات کرتی ہیں تو ان میں حمل کے بارے میں مثبت خیالات پیدا ہوتے ہیں اور اس کا اثر ان کی تولیدی صلاحیت پر پڑتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ نفسیاتی طور پر اثر انداز ہونا بھی ہے۔ جب خواتین اپنی دوستوں کو حاملہ دیکھتی ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ اس معاملے میں وہ ان سے پیچھے رہ گئی ہیں، یہ سوچ قدرتی طور پر ان کے حمل کی راہ ہموار کرتی ہے۔

    علاوہ ازیں جب خواتین اپنی ہم عمر دیگر خواتین کو اپنے بچوں کو صحیح سے سنبھالتے اور پرورش کرتے دیکھتی ہیں تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے کہ اگر وہ کر سکتی ہیں تو میں کیوں نہیں۔

    یہی سوچ بچوں کی تعداد پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، ایک بچے کی ماں، 3 بچوں کی ماں کو دیکھ کر خود کو کمتر خیال کرتی ہے۔

    اسی طرح جب وہ اپنے ارد گرد موجود دیگر خواتین کو کئی بچے سنبھالتے دیکھتی ہیں تب انہیں بھی خود پر اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی کئی بچے سنبھال سکتی ہیں۔

    کیا آپ اس دلچسپ حقیقت سے واقف تھے؟

  • روزانہ چہل قدمی، ماں بننے کے امکانات روشن

    روزانہ چہل قدمی، ماں بننے کے امکانات روشن

    نیویارک: دورانِ حمل طبی ماہرین خواتین کو کام کام اور چہل قدمی میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہیں تاہم امریکی ماہرین نے ماں بننے کے لیے چہل قدمی کو ضروری قرار دے دیا۔

     

    تفصیلات کے مطابق امریکی یونیورسٹی  Massachusetts Amherst کے ماہرین نے تحقیق کی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ وہ خواتین جو صاحبِ اولاد نہیں یا ماضی میں اُن کی  زچگیاں ضائع ہوئیں وہ اگر  روزانہ چہل قدمی کریں تو یہ اُن کے لیے سود مند ہے۔ تحقیق کے مطابق چہل قدمی سے جسمانی سرگرمی ہوتی ہے جو خواتین کو ماں بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    محقق لنڈ سے روسو نے کہا ہے کہ تحقیق کے دوران یہ حیران کُن بات بھی سامنے آئی کہ وہ خواتین جن کا ماضی میں دو سے تین بار حمل ضائع ہوچکا وہ بھی اگر چہل قدمی کریں تو ماں بننے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں علاوہ ازیں ایسی خواتین کو اپنے موٹاپے کی وجہ سے حاملہ نہیں ہوپاتی اُن کے لیے بھی یہ بہت زیادہ مفید ہے۔

    مطالعاتی مشاہدے میں 2 ہزار سے زائد خواتین کو شامل کیا گیا تاہم 1214 مائیں ایسی تھی جو روزانہ 10 منٹ چہل قدمی کرتی ہیں جبکہ بقیہ روزمرہ میں اس عادت سے دور ہیں۔

    مزید پڑھیں: حاملہ خواتین کا ڈانس سے علاج کرنے والا ڈاکٹر

    امریکی ماہرین نے تحقیق کے نتائج پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ایسی خواتین جو صاحبِ اولاد نہیں وہ ہرگز مایوس نہ ہوں بلکہ اپنے خوراک کا باقاعدگی سے خیال رکھتے ہوئے روزانہ چہل قدمی کریں۔

    دوسری جانب امریکی ماہرین نے حاملہ خواتین کو بھی متنبہ کیا ہے کہ وہ زچگی کے دوران ڈاکٹر سے مشورے کے بعد ہی چہل قدمی کریں تاکہ کسی بھی بڑے نقصان سے محفوظ رہا جاسکے۔

    یہ بھی پڑھیں: موٹاپا سیزیرین آپریشن کے رجحان میں اضافے کا سبب

    ماہرین کا کہنا ہے کہ حمل کا مرحلہ ہر خاتون کے لیے بہت زیادہ اچھا اور اہم تجربہ ہوتا مگر جیسے جیسے زچگی کے ایام قریب آتےہیں مریضہ کو ذہنی دباؤ اور شدید درد کا احساس ہوتا ہے اگر اس میں بے احتیاطی کی جائے تو صورتحال ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    ماں بننا ایک فطری عمل ہے اور یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جو نہایت احتیاط اور توجہ کی متقاضی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک بچے کی زندگی کا دار و مدار اس وقت سے ہوتا ہے جب ماں کے شکم میں اس کے خلیات بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

    اس وقت ماں کی عادات و غذا بچے کی صحت اور اس کی نشونما کا تعین کرتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جن بچوں کی پیدائش دیر سے ہوتی ہے اور انہیں ماؤں کے شکم میں زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملتا ہے وہ بچے دیگر بچوں کی نسبت زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

    دوران حمل ماؤں کو اپنا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا بچہ صحت مند پیدا ہو۔ ایسے میں کچھ عادات ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں اور ڈاکتڑز کے مطابق انہیں اپنانے سے سختی سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

    وہ عادات کیا ہیں آپ بھی جانیں۔

    ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا

    دوران حمل خواتین کو ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ یہ ان کی اور ان کے بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    وزن کا خاص خیال

    حاملہ خواتین کو اپنے وزن کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ یا بہت کم وزن پیدائش کے وقت کئی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    الکوحل اور سگریٹ نوشی سے پرہیز

    دوران حمل الکوحل کا استعمال اور سگریٹ نوشی بچے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہر سال 1 لاکھ 30 ہزار بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو منشیات کے مضر اثرات کا شکار ہوتے ہیں۔

    یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کی مائیں دوران حمل منشیات کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے اور وہ دنیا میں آنے سے قبل ہی منشیات کے خطرناک اثرات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بھرپور نیند

    ماں بننے والی خواتین کو اپنی نیند پوری کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نیند کی کمی بچے کی دماغی صحت پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

    جنک فوڈ سے پرہیز

    دوران حمل بھوک بڑھ جاتی ہے اور وقت بے وقت بھوک لگنے لگتی ہے۔ لیکن خیال رہے کہ حمل کے 9 ماہ کے دوران صحت مند اور غذائیت سے بھرپور غذاؤں کا استعمال کیا جائے اور جنک فوڈ، کیفین یا سافٹ ڈرنک سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کیا جائے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل پھلوں کا استعمال بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    کیفین کا کم استعمال

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دوران حمل چائے یا کافی کا زیادہ استعمال نہ صرف بچے کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خود خواتین کو بھی اس سے کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    سخت ورزش سے گریز

    حاملہ خواتین کو ہلکی پھلکی ورزش کرنی چاہیئے۔ سخت ورزش یا طویل دورانیے تک ورزش جسمانی اعضا کو تھکا دے گی جو تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔

    مائیکرو ویو سے دور رہیں

    مائیکرو ویو اوون سے نکلنے والی تابکار شعاعیں بچے کے دماغ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں لہٰذا مائیکرو ویو سے دور رہیں۔

    مچھلی سے محتاط رہیں

    کچی مچھلی میں مرکری موجود ہوسکتی ہے جو بچے کی دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے لہٰذا کچی مچھلی کی (پکانے سے قبل) صفائی سے پرہیز کریں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • غریب ماؤں کی کوکھ کرائے پردستیاب

    غریب ماؤں کی کوکھ کرائے پردستیاب

    کیو: غربت کا شکار یورپی ملک یوکرائن تیزی سے ’کرائے کی ماؤں‘ کا مرکز بنتا جارہا ہے‘ امیر ممالک کے ایسے جوڑے جو خود کسی وجہ سے بچے پیدا کرنے سے قاصر ہیں وہ یوکرائن کی نوجوان عورتوں کی کوکھ کو کرائے پرحاصل کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرائن میں سروگیسی (کرائے کی ماں ) کو قانونی حیثیت حاصل ہونے کے سبب بیشتر امیر ممالک کے باشندے اپنے لیے بچہ حاصل کرنے کے لیے یہاں کا رخ کررہے ہیں۔

    یوکرائن میں سینکڑوں ایسی عورتیں ہیں جو سروگیسی کی صنعت کا حصہ بن چکی ہیں۔ جب انڈیا، نیپال اور تھائی لینڈ میں سروگیسی کی صنعت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو لوگوں نے یوکرائن کا رخ کرلیا۔

    ایسی ہی ایک خاتون نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ سروگیسی (کرائے کی ماں) ) کے بارے میں انہیں معلومات ٹیلویژن کی خبروں کے ذریعے ہوئی۔ وہ ابھی سکینڈری سکول سے نکلی تھیں اور ہوٹل میں نوکری کرنے کا سوچ رہی تھیں جب انھیں سروگیسی کے بارے میں معلوم ہوا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ کسی ہوٹل کی نوکری میں انہیں زیادہ سے زیادہ 200 ڈالر تنخواہ مل سکتی تھی جبکہ وہ اپنی کوکھ کرائے پر دے کر 20ہزار ڈالر کما سکتی ہے۔

    مذکورہ خاتون کا خاندان غریب نہیں ہے۔ ان کی ماں ایک اکاونٹنٹ ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کی مدد کی ہے ۔لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ سروگیسی کی طرف اس لیے مائل ہوئیں کہ وہ زیادہ دولت چاہتی تھیں تاکہ گھر کی تزئین و آرائش کرسکیں، اور گاڑی بھی خرید سکیں۔

    خیال رہے کہ یوکرائن کے قانون کے مطابق صرف وہی عورت اپنی کوکھ کرائے پر دے سکتی ہے جس کی کم از کم اپنی ایک اولاد ہو۔ اس کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے ہ عورتیں بچے کی پیدائش پر جذباتی نہ ہو جائیں۔

    سڈنی میں قائم ایک خیراتی ادارے ’فیملیز تھرو سیروگیسی‘ سے تعلق رکھنے والے سیم ایورنگہیم کہتے ہیں کہ پچھلے دو برسوں میں یوکرائن میں سروگیسی کے واقعات میں ہزار فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ یوکرائن میں قوانین خواتین کو سروگیسی کی اجازت دیتے ہیں۔

    کچھ کلینک تو قانونی طریقے سے سروگیسی کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ ایسے بھی ہیں جو سروگیسی سے متعلق قوانین کا خیال نہیں کرتے ہیں اور ایسی شکایت عام ہیں کہ اگر سروگریٹ ماں کا بچہ ضائع ہو جائے تو وہ اسے معاوضہ بھی نہیں دیتے۔

    یوکرین کی ممبر پارلیمنٹ اولگا بوگومولیٹس جو خود ایک ڈاکٹر ہیں، سمجھتی ہیں کہ یوکرائن کی عورتوں کا سروگیسی کی طرف مائل ہونے کی وجہ یہاں کی معاشی حالت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ملک کی خراب ہوتی ہوئی معیشت عورتوں کو اپنی کوکھ کو کرائے پر دینے پر مجبور کر رہی ہے۔اولگا بوگومولیٹس کہتی ہیں سروگیسی کی صنعت کی کوئی نگرانی نہیں ہو رہی ہے جس کی ماؤں اور رقم ادا کرنے والے والدین دونوں کو نقصان ہو رہا ہے۔