Tag: pregnant women

  • حاملہ خواتین بلڈ پریشر سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟

    حاملہ خواتین بلڈ پریشر سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟

    حمل کا دورانیہ خواتین کے لیے ایک تکلیف دہ اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے، اکثر خواتین کو حمل کے ایام میں بلڈ پریشر میں اضافے کی شکایات درپیش ہوتی ہیں۔

    اس حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ دوران حمل خواتین کی بڑی تعداد بلڈ پریشر اور بےبی شوگر کا سامنا کرتی ہے۔

    اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے محققین نے بتایا کہ عام طور پر سن اسکرین، میک اپ اور ذاتی نگہداشت کی دیگر مصنوعات میں پائے جانے والے کیمیکلز حمل کو متاثر کرکے بلڈ پریشر میں اضافے کا سب بن سکتے ہیں۔

    ان مصنوعات میں موجود فینولز اور پیرابینز حمل کے 24 سے 28 ہفتوں میں حاملہ خواتین میں بلڈ پریشر کے خطرے کو 57 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں۔

    اس تحقیق کی اہم محقق جولیا ورشاوسکی جو کہ بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں ہیلتھ سائنسز کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں کا کہنا ہے کہ ہمیں روزمرہ کے صابن، لوشن، میک اپ، سن اسکرین اور دیگر ذاتی نگہداشت کی مصنوعات میں ایسے کیمیکل ملے جو پورٹو ریکو میں حاملہ خواتین میں ہائی بلڈ پریشر کے خطرہ کو بڑھاتے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ فینول اور پیرا بینز کو سن اسکرینز میں یووی فلٹر کے طور پر جبکہ میک اپ میں نقصان دہ بیکٹیریا کی افزائش کو روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ حمل میں ہائی بلڈ پریشر، فینول اور پیرابینز کے درمیان تعلق پریشان کن ہے۔

    اس کی وجہ یہ کہ حمل کے دوران ہائی بلڈ پریشر نال میں خون کے بہاؤ کو کم کر دیتا ہے، اس طرح جنین آکسیجن اور غذائی اجزاء سے محروم ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں نشوونما متاثر ہوسکتی ہے۔

    اسی طرح ہائی بلڈپریشر صرف جنین کو ہی نہیں بلکہ حاملہ ماؤں کے لیے بھی خطرناک ہے، جس سے ان کی پیچیدگیوں جیسے پری لیمپسیا اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ ماں اور بچہ دونوں میں یہ امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ وہ حمل کے طویل عرصے بعد ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دل کی بیماری میں مبتلا ہوں سکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں محققین نے شمالی پورٹو ریکو میں 1000 سے زیادہ حاملہ خواتین کی صحت کی جانچ پڑتال کی، جس میں تمام حاملہ خواتین کے پیشاب کے نمونوں کا ٹیسٹ کرایا گیا تو سب ہی میں فینول اور پیرابینز پائے گئے۔

    واضح رہے کہ تحقیق میں شامل تمام خواتین کا بلڈ پریشر ابتدا اور بعد میں حمل کے دوران ٹیسٹ کیا گیا تھا۔

     

  • عالمی یوم خواتین: غزہ میں 60 ہزار حاملہ خواتین غذائی قلت کا شکار

    عالمی یوم خواتین: غزہ میں 60 ہزار حاملہ خواتین غذائی قلت کا شکار

    8 مارچ خواتین کے عالمی کے موقع پر غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ غزہ کے مشکل ترین حالات میں اب بھی تقریباً 5000 خواتین ہر ماہ بچوں کوجنم دے رہی ہیں۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی بمباری سے تباہ حال غزہ میں 60 ہزار حاملہ خواتین کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    غزہ میں حاملہ خواتین اور نئی ماؤں کو خوراک، پانی اور طبی امداد کی زبردست قلت کے درمیان خود کو اور اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے مسلسل جدوجہد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    اقوام متحدہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع کے دوران قابض اسرائیلی فوج نے غزہ میں تقریباً 9000 سے زائد خواتین کو قتل کیا ہے۔

    اقوام متحدہ کی ایجنسی، جو صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پرعزم ہے، کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ غزہ میں روزانہ قتل عام کا سلسلہ جاری ہے، اوسطاً 63 خواتین روزانہ کی بنیاد پر لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ جس سے ان کے خاندان تباہ ہو گئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ غزہ کی 2.3 ملین آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے، خواتین سخت جدوجہد کا سامنا کررہی ہیں جیسے کہ ملبے کے نیچے یا کوڑے دان سے کھانا تلاش کرکے گزر بسر کررہی ہیں۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں 60,000 کے قریب خواتین حاملہ ہیں اور ہر روز تقریباً 180 خواتین ناقابل تصور حالات میں بچے پیدا کررہی ہیں۔

    غزہ میں صحت کے نظام کی اگر بات کی جائے تو دو تہائی ہسپتال اور تقریباً 80 فیصد صحت کی سہولیات ناپید ہوچکی ہیں حاملہ خواتین ملبے کے درمیان یا خیموں یا کاروں میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔

    اسرائیل نے قبریں کھود کر 47 میتیں غزہ واپس بھیج دیں

    اقوام متحدہ کے مطابق، پانچ میں سے چار خواتین، یا 84 فیصد، رپورٹ کرتی ہیں کہ ان کے گھر والے نصف یا اس سے کم کھانا کھاتے ہیں جو وہ تنازعہ شروع ہونے سے پہلے کھاتے تھے۔ ماؤں اور بالغ خواتین کو کھانا جمع کرنے کا کام دیا گیا ہے۔ خواتین اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے خود ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتیں۔

  • سیلاب زدہ حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے غذائی ساشے متعارف کرانے کا فیصلہ

    سیلاب زدہ حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے غذائی ساشے متعارف کرانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: ملک بھر میں سیلاب زدہ حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے ایک خصوصی غذائی ساشے متعارف کرایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی غذائی ساشے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    وزارت قومی صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ غذائی ساشے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود غذائی قلت کی شکار حاملہ خواتین اور لاغر بچوں کو فراہم کیے جائیں گے۔

    یہ ساشے حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے ضروری منرلز اور ضروری غذائی اجزا سے بھرپور ہوں گے، جو دن میں ایک بار کھایا جا سکے گا۔

    ذرائع کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں کے لیے غذائی ساشے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تعاون سے مرحلہ وار بھجوائے جائیں گے۔ پہلے فیز میں مخصوص اضلاع کی 4 لاکھ خواتین، اور بچوں کو طبی معائنے کے بعد غذائی ساشے فراہم ہوں گے۔

    ذرائع کے مطابق ہر فرد کو 7 عدد غذائی ساشے فراہم کیے جائیں گے۔ ہیلتھ ورکرز غذائی قلت کی جانچ کے لیے حاملہ خواتین اور بچوں کے قد، وزن، بازو کی پیمائش کریں گے۔

    ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں دستیاب 4 لاکھ غذائی ساشے میں سے 30 فی صد سندھ جب کہ 25 فی صد بلوچستان کو فراہم کیے جائیں گے۔ 15 فی صد غذائی ساشے خیبر پختون خوا، اور 15 فی صد پنجاب جب کہ بقیہ 15 فی صد آزاد کشمیر، گلگت بلستان اور اسلام آباد کی حاملہ خواتین اور لاغر بچوں میں تقسیم کیے جائیں گے۔

    حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے غذائی ساشے عالمی ادارے یونیسیف کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں، جب کہ مقامی طور پر تیار کردہ غذائی ساشے بھی تقسیم کیے جائیں گے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں غذائی ساشے کی تقسیم مقامی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے تعاون سے کی جائے گی۔

  • حاملہ ماؤں کی کووڈ ویکسی نیشن بچوں کے لیے بھی فائدہ مند

    حاملہ ماؤں کی کووڈ ویکسی نیشن بچوں کے لیے بھی فائدہ مند

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسے نومولود بچے جن کی ماؤں نے حمل کے دوران کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کروائی ہوتی ہے، ان میں پیدائش کے بعد بیماری سے اسپتال داخلے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسی نیشن سے نہ صرف حاملہ خواتین کو تحفظ ملتا ہے بلکہ ان کے نومولود بچوں کو بھی بیماری کے اثرات سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

    یو ایس سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جن خواتین نے حمل کے دوران موڈرنا یا فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کیں، ان کے بچوں میں پیدائش کے 6 ماہ بعد تک کووڈ 19 سے اسپتال میں داخلے کا خطرہ کم ہوگیا۔

    سی ڈی سی کے شعبہ اطفال کی سربراہ ڈاکٹر ڈانا مینی ڈالمین نے بتایا کہ سی ڈی سی ڈیٹا میں حقیقی دنیا کے شواہد فراہم کیے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حمل کے دوران کووڈ 19 کا استعمال خواتین کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کو بھی کم از کم 6 ماہ تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر ان بچوں میں ماں میں بیماری کے خلاف لڑنے والی اینٹی باڈیز منتقل ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جب خواتین حمل کے دوران کووڈ ویکسین استعمال کرتی ہیں تو ان کے جسم میں بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور یہ اینٹی باڈیز آنول کی نالی کے خون میں بھی موجود ہوتی ہیں۔

    تحقیق کے مطابق اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس طرح اینٹی باڈیز بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں معلوم تھا کہ اس طرح بچوں میں اینٹی باڈیز منتقل ہوتی ہیں مگر اس تحقیق سے قبل اس کو ثابت کرنے والا ڈیٹا ہمارے پاس نہیں تھا۔

    تحقیق کے دوران جولائی 2021 سے جنوری 2022 کے دوران 6 ماہ سے کم عمر بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا، اس مقصد کے لیے اسپتال میں داخل ہونے والے 379 بچوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے 176 کووڈ جبکہ باقی دیگر وجوہات کے باعث طبی مراکز میں داخل ہوئے تھے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ حمل کے دوران ماں کی ویکسی نیشن بچوں کو کووڈ سے متاثر ہونے پر اسپتال میں داخلے کے خطرے سے بچانے کے لیے 61 فیصد تک مؤثر ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ویکسینز کی افادیت اس وقت 80 فیصد ہوجاتی ہے جب ماؤں نے حمل کے 21 ویں ہفتے کے بعد اور بچے کی پیدائش سے 14 دن پہلے ویکسی نیشن مکمل کی ہو۔

    اسی طرح 21 ہفتے سے قبل ویکسی نیشن کروانے والی ماؤں کے بچوں میں ویکسین کی افادیت 32 فیصد تک رہ جاتی ہے۔

    اس تحقیق میں ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی افادیت کے ڈیٹا کو شامل نہیں کیا گیا تھا یا یہ نہیں دیکھا گیا کہ حمل سے قبل ویکسی نیشن کروانے سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ تھا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے 88 فیصد بچوں کی پیدائش ایسی ماؤں کے ہاں ہوئی تھی جن کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی تھی۔

    انہوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ حمل کے آغاز میں ویکسینز کی افادیت کے تخمینے کو احتیاط سے لینا چاہیئے کیونکہ تحقیق کا پیمانہ زیادہ بڑا نہیں تھا۔

  • کورونا ویکسینیشن : این سی او سی کی حاملہ  خواتین کیلئے اہم ہدایات جاری

    کورونا ویکسینیشن : این سی او سی کی حاملہ خواتین کیلئے اہم ہدایات جاری

    اسلام آباد : نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو بھی ویکسین لگانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کورونا ویکسین اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت پر اثر نہیں کرتی۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو بھی ویکسین لگانے کی ہدایت کردی اور کہا حاملہ،دودھ پلانےوالی خواتین کیلئے ویکسین محفوظ اورمؤثرہے۔

    ان سی او سی کا کہنا تھا کہ کورونا ویکسین حمل کے کسی بھی مرحلےمیں لگائی جاسکتی ہے، کورونا ویکسین اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت پراثرنہیں کرتی۔

    خیال رہے پاکستان میں کورونا صورتحال میں بہتری آنے لگی ہے، ملک میں مثبت کیسز کی شرح 4 فیصد ہوگئی ہے ، این سی او سی کے مطابق ملک میں ایک دن میں 81 مریض جاں بحق ہوگئے جبکہ 1800 سے زائد کیسز سامنے آئے۔

  • کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے؟

    کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے؟

    کراچی : ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کورونا وبا کے دوران سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں،  محدود پیمانے پر کی گئی تحقیق کے دوران کورونا متاثرہ حاملہ خواتین میں شرح اموات آٹھ فیصد ہے، ویکسین لگوانے سے بچے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا, ترجیحی بنیادوں پر  ویکسین لگائی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی کے زیراہتما م آگہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا ، جس میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے انفیکشن ڈیزیز کی پروفیسر اسما نسیم ، سول اسپتال کراچی گائنی وارڈ کی پروفیسر ڈاکٹر نازلی حسین اور پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر ڈائریکٹر پروفیسر سارا قاضی نے شرکت کی۔

    ماہرین صحت نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام آراگ آڈیٹوریم میں "کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے” کے عنوان سے آگہی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کورونا سے متاثرہ حاملہ خواتین میں شرح اموات کی مصدقہ معلومات ابھی دستیاب نہیں تاہم محدود پیمانے پر کی گئی تحقیق کے مطابق کورو ناکی پیچیدگیوں کے باعث حاملہ خواتین میں شرح اموات آٹھ فیصد ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی افواہوں کا شکار ہونے کے بجائے حاملہ خواتین کو ترجیحی بنیادوں پر کورونا ویکسین لگائی جائے، اس سےجنم لینے والےبچے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا جب کہ دودھ پلانے والی ماؤں کے بچوں کے جسم میں دودھ کے ذریعے اینٹی باڈی منتقل ہو جائیں گے۔

    آگہی پروگرام میں ماہرین کے پینل نے شرکاء کے سوالوں کے جواب بھی دیئے، پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ حمل کے دوران خواتین کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں نمونیہ اور انفلوئنزا سمیت مختلف بیماریاں حملہ آور ہو سکتی ہیں، کورونا سے پہلے بھی خواتین کو انفلوئنزا سمیت دیگر ویکسین لگائی جاتی تھیں ۔

    آگہی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اسماء نسیم نے کہا کہ کورونا پاکستان کی حاملہ خواتین میں بہت سے مسائل کو جنم دے رہا ہے، حمل کے دوران خواتین مختلف قسم کے خطرات میں گھری ہوتی ہیں، اس لئے لازم ہے کہ ویکسین لگوائی جائے۔

    پروفیسر اسماء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دستیاب تمام ویکسین عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور شدہ ہیں، اس موقع پر انہوں نے پاکستان میں دستیاب تمام ویکسین کے بنانے کے طریقے کار اس کے مثبت اثرات اور تاثیر کے حوالے سے بھی روشنی ڈالی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ دنیا میں کورونا سے پہلے دنیا میں آر این اے ویکسین نہیں بنائی گئی، کورونا کے دوران دنیا میں پہلی مرتبہ آر این اے ویکسین بنائی گئی ہے، ابیولا کے وقت تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ آر این اے ویکسین بنائی جا سکتی ہے۔

    پروفیسر اسماء کا کہنا تھا کہ ان ایکٹیویٹڈ وائرس( یعنی وائرس کو غیر فعال کرنے) کےطریقے سے ویکسین بنانے کے لیے طویل تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، اس لئے کسی بھی قسم کی افواہوں کا شکار ہوئے بغیرکورونا کی ویکسین لگوائی جائے۔

    انھوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے تمام ویکسین کے مؤثر ہونے کی شرح بھی بتائی ہے، اکثر ویکسین 50 فیصد سے زیادہ مؤثر ہیں بالفرض کوئی ویکسین پچاس فیصد بھی موثر ہے تو وہ لگوائی جاسکتی ہے کورونا سے کم از کم پچاس فیصد تو تحفظ کرے گی ایسی صورت میں جب حاملہ خواتین رسک پر ہو ں تو مزید رسک نہ لیا جائے۔

    اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر نازلی حسین نے کہا کہ حاملہ خواتین میں کورونا کی شرح اموات کے حوالے سے پاکستان میں مصدقہ اعداد و شمار تودستیاب نہیں لیکن ایران میں اس موضوع پر تحقیق ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں واضح ہوا ہے کہ کورونا سے متاثرہ خواتین میں قبل از وقت بچوں کی پیدائش، ماں کے پیٹ کے اندر بچوں کی موت اور آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ گئی ہے۔

    نازلی حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں محدود پیمانے پر جمع کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق زچگی کے دوران متاثرہ خواتین میں کورونا کی پیچیدگیوں کے باعث موت کی شرح آٹھ فیصد ہیں اسے روکنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گائنی وارڈز میں مریض کے ساتھ ڈاکٹر بھی سب سے زیادہ خطرے میں ہیں کیونکہ ان کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے ، پی سی آر کی رپورٹ کا انتظار نہیں کیا جاسکتا ، ڈاکٹر کو فوری اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں ڈاکٹرز کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کورونا ویکسین لگوانے کے باوجود حفاظتی لباس اور احتیاط لازمی ہے۔

    پروفیسر سارہ قاضی کا کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی جانب سے آ گہی پروگرام کا مقصد لوگوں زندگی کے تحفظ کا شعور پیدا کرنا ہے۔

  • برطانیہ میں نصف سے زیادہ حاملہ خواتین موٹاپے یا زائد وزن کا شکار

    برطانیہ میں نصف سے زیادہ حاملہ خواتین موٹاپے یا زائد وزن کا شکار

    لندن : برطانیہ کی حاملہ خواتین میں موٹاپے اور زائد وزن کی شرح میں ہوش ربا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ، دوران حمل زائد وزن اسقاط حمل اور پیدائش سے پہلے موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل میٹرنٹی اینڈ پیرنٹل یونٹ نے بتایا ہے کہ ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں نصف سے زیادہ حاملہ خواتین موٹاپے یا زائد وزن کا شکار ہوتی ہیں۔

    جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ حاملہ خواتین اپنی پریگیننسی کی شروعات میں ہی زائد وزن کے مسئلے سے دوچار ہوتی ہیں، جس کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

    این ایچ ایس کے مطابق زیادہ وزن ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے پیچید گیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

    اس نئی رپورٹ کے مطابق 714,000 جن حاملہ خواتین کو لے کر یہ رپورٹ بنائی گئی ان میں 309,854 خواتین پہلے سے ہی وزن بڑھنے کے مسئلے سے دوچار تھیں اور 18,379 ایسی تھیں جن میں موٹاپا کسی بیماری کا اشارہ دے رہا تھا۔

    این ایچ ایس کا کہنا تھا کہ دوران حمل زائد وزن اسقاط حمل، پیدائش سے پہلے موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگر حاملہ عورت خصوصا 30 سال سے زائد عمر کی عورت کا باڈی ماس انڈیکس تین گنا زیادہ بڑھ جائے تو یہ ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھا دیتا ہے۔

    رائل کالج کے بچوں کے ماہر ڈاکٹر کے مطابق زائد وزن والے والدین کے بچے بھی موٹاپے کا شکار ہوسکتے ہیں اور ایسے بچوں میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے، دوران حمل خواتین اور ڈلیوری کے بعد بہترین معاونت فراہم کرنے سے ماں اور بچے دونوں کی صحت کے حوالے سے اچھے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔