Tag: presidential reference

  • آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ آج شام  5بجے سنایا جائے گا

    آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ آج شام 5بجے سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آرٹیکل تریسٹھ اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو آج شام پانچ بجےسنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے اور سوشل میڈیا کی شکایت کرتے ہوئے کہا عدم حاضری پر سوشل میڈیا پر میرے خلاف باتیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں۔

    اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل میں سوال کیا کیا آرٹیکل 63اےایک مکمل کوڈ ہے، کیا آرٹیکل 63اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا پارٹی پالیسی سےانحراف کر کےووٹ شمار ہو گا؟

    اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ عدالت ایڈوائزی اختیارمیں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے، صدارتی ریفرنس اورقانونی سوالات پرعدالت کی معاونت کروں گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے؟ کیا اپ کہہ رہے ہیں۔کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا۔ بطور اٹارنی جنرل اپ اپنا موقف لے سکتے ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعطم کی ایڈوائس پر فائل ہوا۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ حکومت کاموقف ہے؟ تو اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے بتایا کہ
    میراموقف بطور اٹارنی جنرل ہے ، سابق حکومت کامؤقف پیش کرنے کےلیے وکلاموجود ہیں، صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لیکر ریفرنس فائل کرناچاہیے تھا،انونی ماہرین کی رائےمختلف ہوتی توصدر ریفرنس بھیج سکتے تھے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے اور سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

    جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر 2 فریقین سامنے آئے ہیں، ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں، دوسرا فریقین سیاسی جماعت ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا۔ تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں، صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے، ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل نہیں آئینی معاملہ ہے، عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن در تسلیم خم کرتا ہوں، صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ ہر رائے مانگی جاسکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ارٹیکل 186 میں پوچھا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا، عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں، ارٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں، کیا اپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے حکومت کی طرف کوئی ہدایات نہیں ملی، اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں اچکا ہے۔ اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہو گا، جو پہلے تھا، میں بطور اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کروں گا۔

    اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے رکن اور سیاسی جماعت کےحقوق کو بھی دیکھنا ہے، انحراف پررکن کے خلاف کاروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت انخراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں آئے گی۔

    اشتر اوصاف نے کہا کہ صدر مملکت کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کاروایی پر اثر پڑے گا، آرٹیکل 63ون کے انحراف سے رکن خودبخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا، انحراف کرنے سے رکن کو شوکاز نوٹس سے وضاحت مانگی جاتی ہے، سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

    جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کیا صدر مملکت نے پارلیمنٹ میں اپنی سالانہ تقریر میں یہ معاملہ کبھی اٹھایا، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے کبھی کسی جماعت نے کوئی اقدام اٹھایا؟ کیا کسی سیاسی جماعت نے تریسٹھ اے کی تشریح یا ترمیم کے لیے کوئی اقدام اٹھایا۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سینٹ میں ناکامی کے بعد سابق وزیراعظم نے ارکان کو کوئی ہدایات جاری نہیں کی، عمران خان نے ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے بیان جاری کیا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ارکان اپنے ضمیر کے مطابق مجھے اعتماد کا ووٹ دینے کا فیصلہ کریں، مجھے ووٹ نہیں دیں گے تو گھر چلا جاؤں گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ ہدایات جاری کریں یا نہ کریں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت بھی وہی وزیراعظم تھے، سابق وزیر اعظم نے اپنے پہلے موقف سے قلا بازی لی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم اپنی ہدایات میں تبدیلی نہیں کر سکتا؟ کیا وزیراعظم کے لیے اپنی ہدایات میں تبدیلی کی ممانعت ہے؟

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم نے آئین کے تحت حلف لیا ہوتا ہے، وزیر اعظم اپنی بات سے پھر نہیں سکتا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید استفسار کیا کہ کیا انحراف کرنا بددیانتی نہیں ہے؟ کیا انحراف کرنا امانت میں خیانت نہیں ہوگا؟ کیا انخراف پر ڈی سیٹ ہونے کے بعد آرٹیکل 62( 1) ایف کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ کیا انحراف کرکے ڈالا گیا ووٹ شمار ہوگا۔ ان سوالات کے برائے راست جواب دیں۔

    اشتراوصاف نے کہا عدالت کےسوال کا جواب نہ دے پاؤں لیکن گزارشات دےسکتا ہوں، عوام کے سامنے ارکان جوابدہ ہیں، قانون میں 7سال سزا لکھی ہے تو سزائےموت نہیں دی جاسکتی۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیامنحرف کی سزا کے لیے قانون نہیں بنایاجاسکتا؟ اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ قانون بنایا جاسکتا ہے لیکن پارلیمنٹ نےقانون نہیں بنایا ؟

    جسٹس منیب اختر نے مزید استفسار کیا کس بنیاد پر کہتے ہیں آرٹیکل 63اے کا اطلاق نہیں ہوتا؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا آئین میں ترمیم تک آرٹیکل باسٹھ63 کااطلاق نہیں کرسکتے ، جس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ابھی تک آپ کہہ رہے ہیں قانون بن سکتا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے جسٹس منیب اختر سے مکالمے میں کہا عدالت آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی، آرٹیکل 62 اور 63 میں ترمیم پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، آئین پنالٹی فراہم کرتا ہے،ترمیم کےبغیراضافہ نہیں کیا جاسکتا،اٹارنی جنرل

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آئین کی فراہم پنالٹی کوقانون سے بڑھایا جاسکتا ہے۔

    سماعت کے اختتام پر عدالت کی پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کی سرزنش

    ریفرنس کی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کےوکیل بابر اعوان کی سخت الفاظ میں سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی نظر میں کوئی پارٹی چھوٹی بڑی نہیں سب برابر ہیں، عدالت بات کر رہی ہو تو مداخلت مت کریں ،بات سنیں ۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا مت بتائیں عدالت کو کہ کونسی بڑی پارٹی سے ہیں ، عدالت نےکیس پارٹی سائز نہیں بلکہ آئین کی تشریح کے لیےسنا ہے، آپ کا موقف ہم نے 2مرتبہ سنا آپ کےنکات ہمیں سمجھ گئے ہیں، اب آپ دو منٹ میں کیا کہنا چاہتےہیں ہم 2منٹ اوربیٹھ جاتے ہیں۔

    وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں 10منٹ لوں گا ، عدالت نےبابر اعوان کو10منٹ دیے جانے کی استدعا مسترد کر دی۔

    چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا آرٹیکل 63 اے ووٹنگ سے متعلق ارکان کو پابند بناتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ووٹ کے لیے پابند کیا جائے تو تحریک عدم اعتماد پر آرٹیکل 95غیر مؤثر ہو جائے گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کیاہارس ٹریڈنگ کے بغیر عدم اعتماد ہو سکتی ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت اپنےبنائےوزیر اعظم کوہٹا کر نیالا سکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا آرٹیکل 63 اے کی پیروی سے آرٹیکل 95 کیسے غیر مؤثر ہوگا؟ ایسی صورت میں صدر مملکت وزیر اعظم کواعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتےہیں، جس پر اشتراوصاف کا کہنا تھا کہ صدراسی جماعت کا ہو، جس کا وزیراعظم ہے تو اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہے گا۔

    عدالت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، صدارتی ریفرنس پر شام 5 بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔

  • پارلیمان نےخود سے نااہلی کی مدت کا تعین کیوں نہیں کیا؟ سپریم کورٹ کا سوال

    پارلیمان نےخود سے نااہلی کی مدت کا تعین کیوں نہیں کیا؟ سپریم کورٹ کا سوال

    اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، آج پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل دئیے۔

    پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل کے دلائل اور ججز کے سوالات

    سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ ن کے وکیل نے دلائل دئیے کہ عدالت صدارتی ریفرنس سننے کی قانونی طور پر پابند نہیں ہے، ریفرنس میں سوال قانونی نہیں سیاسی ہیں لہذا واپس بھجوایا جائے، حکومت چاہتی ہے آرٹیکل 63 اے میں درج نتائج سے بڑھ کر اسے ریلیف ملے، صدر نے عدالت سے پوچھا ہے کہہ ہارس ٹریڈنگ کیسے روکی جاسکتی ہے؟ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال کا جواب رائے نہیں بلکہ آئین سازی کے مترادف ہوگا۔

    مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ یہ تمام سوالات اٹارنی جنرل سے متعلق ہیں، اٹارنی جنرل ان سوالا ت کا جواب دے سکتے ہیں۔ حسبہ بل فیصلے کے تحت سپریم کورٹ کی رائے پر اطلاق لازم ہے۔

    وکیل ن لیگ نے کہا حکومت عدالتی فیصلے کی بجائے صدارتی ریفرنس کے ذریعے تاحیات نااہلی مانگ رہی ہے، حکومتی ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات مبہم اور عمومی نوعیت کے ہیں۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر عدالت اپنے 186 کے ایڈوائزری دائرہ اختیار میں صدراتی ریفرنس کی تشریح کرتی ہے تو پھر یہ صرف تشریح نہیں ہوگی بلکہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترداف ہوگا یہ محض ایک سیاسی معاملہ ہے ہارس ٹریڈنگ کو وجہ بنا کر اراکین اسمبلی کو ان کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی کی گئی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آئینی پراسس کو نہیں روکا جاسکتا۔

    وکیل ن لیگ کا کہنا تھا کہ آئین میں پارٹی پالیسی سے انحراف کی گنجائش رکھی گئی فرض کریں اگر حکومت اسلام کے خلاف یا سپریم کورٹ کے اختیارات پر قدغن لگانے کی کوشش کرتی ہے تو کیا حکومتی اراکین منحرف نہیں ہوسکتے حقیقت یہ ہے کہ ملک وقوم کے مفاد میں انحراف ہوسکتا ہے۔

    جسٹس جمال خان نے نون لیگ کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں رائے لے سکتا ہے؟ اور کیا اسمبلی عدالتی رائے کی پابند ہے؟کیا اسپیکر کی ایڈوائس پر صدر نے ریفرنس بھیجا ہے؟

    اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا، آپ کی گفتگو سے لگ رہا ہے پارٹی سے انحراف غلط کام نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل تریسٹھ اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جمہوریت کا حصہ ہے، دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جان بوجھ کر دیا گیا دھوکہ ہے، آرٹیکل 63 اے پارٹی سے انحراف کو غلط کہتا ہے، سوال یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف کیا اتنا غلط ہے کہ تاحیات نااہلی ہو؟، سینیٹ الیکشن میں پیسوں کے لین دین کا ذکر تھا، پیسوں کے معاملے میں ثابت کرنا لازمی ہونا ہے۔

    صدارتی ریفرنس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں مفروضہ پر بات کررہا ہوں اگر ایک ممبر اپنے ضمیر پر ووٹ دیتا ہے تو وہ ڈی سیٹ ہو گا، صرف چار شرائط پر عمل کرنے کے بعد ہی 63 اے لگے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اس دفعہ تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہورہی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ کیا کیا گیا؟ انحراف کرنے والے واپس اپنی پارٹیوں میں واپس لیے جاتے رہے ہیں، ممکن ہے پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والے کو پارٹی معاف کردے، عدالت آئین پر عمل درآمد کے لیے ہے، آئین کے آرٹیکل کو موثر ہونا ہے، سسٹم کمزور ہو تو آئین بچانے کے لیے سپریم کورٹ کو آنا پڑتا ہے۔

    ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ پارٹی سے انحراف لازمی نہیں غیر اخلاقی یا کرپشن کی بنیاد پر ہو، پارٹی سے انحراف اچھے مقصد کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، جسٹس جمال خان نے کہا کہ تریسٹھ اے پر عمل ووٹ ڈالنے سے شروع ہو گا، صدر کو کیسے معلوم ہو کہ حکومتی جماعت کے لوگ منحرف ہورہے ہیں؟۔جسٹس مظہر عالم نے عمران خان کی پارٹی اراکین کو دی گئی ہدایات کی کاپی ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کو فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ایک پارٹی سربراہ کی ہدایت کی کاپی میرے پاس ہے۔

    جسٹس جمال خان نے کہا کہ اگر پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر بات ختم ہوتی تو شوکاز کیوں دیا جاتا؟ عدالت منحرف ہونے کو گھناؤنا جرم قرار دے تو بھی وزیراعظم کی مرضی ہے کہ اس جرم پر ڈیکلریشن دے یا نہ دے۔

    ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ منحرف رکن کہہ سکتا ہے کہ وزیراعظم صاحب منشور کے خلاف کسی اقدام پر ووٹ نہیں دوں گا، منحرف رکن کہہ سکتا ہے اسمبلی میں تھا لیکن ووٹ نہیں ڈالا۔

    دوران سماعت جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیئے کہ منحرف رکن تاحیات نااہل ہوتے تو کیا کوئی اچھے کام کے لیے انحراف کریگا،وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے پارٹی ارکان منحرف ہوں یہ لازمی نہیں، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اتحادی ہی ساتھ چھوڑ جائیں۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد جیتنے والا سیاسی جماعت میں شامل ہو تو کیا یہ عوام کیساتھ بے ایمانی نہیں ہو گی؟ کیا کامیابی کے بعد سیاسی جماعت میں آنے والے پر ارٹیکل تریسٹھ اے لاگو نہیں ہوتا؟، وکیل ن لیگ نے کہا کہ آزاد امیدوار کا پارٹی میں شامل ہونا ووٹرز کیساتھ بے وفائی ہے۔

    عائشہ گلالئی کیس کا تذکرہ
    صدارت ریفرنس کی سماعت کے موقع پر عائشہ گلالئی کیس کا تذکرہ ہوا، ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے ہر معاملے کو دیکھ کر فیصلہ دیا، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ عائشہ گلالئی کیس میں پارٹی ہدایت ثابت نہیں ہوسکی تھی، پارٹی ووٹ ڈالنے سے روکےاور رکن ووٹ ڈال دے تو بات ختم ہوجاتی ہے۔جسٹس جمال خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پالیسی کیخلاف ووٹ پر بات ختم ہوتی تو شوکاز کیوں دیاجاتا؟ عدالت منحرف کو گھناؤناجرم قرار دے تو بھی وزیراعظم کی مرضی ہے۔

    وکیل مسلم لیگ ن نے اپنے دلائل میں کہا کہ سینیٹ الیکشن میں نشست ہارنے پر وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیا، وزیراعظم جاننا چاہتے تھے کہ پارٹی کو ان پر اعتماد ہے یا نہیں اب ریفرنس کی ٹائمنگ سے لگتا ہے صدر،وزیراعظم کیلئےکام کررہے ہیں۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کے پابند نہیں ہیں لیگی وکیل نے جواب دیا کہ صدر یقینی طور پر ایڈوائس کے پابند ہیں مگر نظر ثانی کا بھی کہہ سکتے ہیں۔

    بعد ازاں صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ہے۔

  • ‘ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں’، صدارتی ریفرنس پر جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس

    ‘ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں’، صدارتی ریفرنس پر جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ممکن ہےکہ ریفرنس واپس بھیج دیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    آج اٹارنی جنرل نے صدارتی ریفرنس سے متعلق اپنے دلائل دئیے اس دوران انہیں ججز صاحبان کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63اے نشست خالی ہونےکاجواز فراہم کرتا ہے، کیا آرٹیکل 63اے سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف لگےگا؟

    جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ کوئی رکن ووٹ ڈالنےکےبعد استعفیٰ دیدے تو کیاہوگا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت میں ایک رکن نےپارٹی کےخلاف ووٹ دیکراستعفیٰ دیاتھا، بھارتی عدالتوں نے مستعفی رکن کو منحرف قرار دیاتھا، پارٹی سےانحراف پر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔

    جسٹس جمال خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لوٹوں کی سپورٹ کرنےوالا میں آخری شخص ہوں گا، پارٹی سےانحراف کرنے والےکےخلاف الیکشن کمیشن موجودہے،کوئی چوری کرنے والےکا ساتھ جائےتو کیاہوگا؟صدر مملکت کو ایسا مسئلہ کیاہےجو رائےمانگ رہےہیں؟ صدر کے سامنے ایسا کونسا مواد ہےجس پر سوال پوچھے؟۔

     

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ صدر پاکستان نےآئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سےادھر ادھر نہیں جاسکتے، ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں، بعد ازاں کیس کی سماعت پیر کی دوپہر 1 بجے تک ملتوی کردی گئی، اٹارنی جنرل پیر کو اپنے دلائل مکمل کرلیں گے۔

    اٹارنی جنرل کے دلائل اور معزز ججز صاحبان کے ریمارکس

      اس سے قبل سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ  پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پرملتی ہیں، ان ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا۔

    اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفاداررہنا ہے یا نہیں تاہم خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپکے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں، کیا کوئی رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کاپابند رہے گا؟۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کیاممبر شپ فارم میں رکن ڈیکلریشن دیتاہےکہ ڈسپلن کا پابند رہےگا، اگرپارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہےتوخلاف ورزی خیانت ہوگی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہناہےیا نہیں لیکن خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے اور اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا گیا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم نےاپنےعہدےکاحلف اٹھایاہوتاہے، کیا کوئی رکن وزیراعظم پرعدم اعتمادکا اظہارکرسکتا ہے؟ اگروزیر اعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا رکن قومی اسمبلی پھرساتھ دینےکاپابندہے؟

    جس پر اٹارنی جنرل نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفیکٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے جبکہ وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ ووٹرانتخابی نشان پرمہرلگاتےہیں کسی کےنام پرنہیں، پارٹی نشان پر الیکشن لڑنےوالےجماعتی ڈسپلن کےپابند ہوتے ہیں۔

  • پاکستان تحریک انصاف  نے صدارتی ریفرنس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

    پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر جواب میں کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کی انفرادی حیثیت نہیں ہوتی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ، جس میں کہا ہے کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کی انفرادی حیثیت نہیں ہوتی۔

    تحریک انصاف نے جواب میں تاحیات نااہلی پرکوئی رائے نہیں دی اور کہا تاحیات نااہلی پرعدالت جو بھی رائے دے اس پر مطمئن ہوں گے تاہم الیکشن کمیشن عدالتی رائے کے نتیجےمیں عملدرآمد کا پابند ہوگا۔

    خیال رہے سپریم کورٹ بار ، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی صدارتی ریفرنس پر جواب جمع کرا چکی ہے۔

    سپریم کورٹ بار نے تحریک عدم اعتماد میں ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دے دیا اور کہا آرٹیکل63 کے تحت کسی ایم این اے کو ووٹ سے پہلے نہیں روکا جاسکتا۔

    (ن) لیگ نے صدارتی ریفرنس کو عدالت کے قیمتی وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے اور 95 واضح ہے، آئین کے تحت ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے کیونکہ ہر رکن اسمبلی کا کاسٹ کیا گیا ووٹ گنتی میں شمار بھی ہوگا۔

    جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) نے آرٹیکل 63 اے غیر جمہوری قرار دے دیا اور کہا اسپیکر کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ نے رائے دی تو الیکشن کمیشن فورم غیر مؤثرہوجائے گا۔

  • وفاقی حکومت کا صدارتی ریفرنس آج ہی فائل کرنے کا فیصلہ

    وفاقی حکومت کا صدارتی ریفرنس آج ہی فائل کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس آج ہی فائل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا ، جس میں قانونی ماہرین، اسد قیصر، ڈاکٹر بابر اعوان، اسد عمر اور فوادچوہدری نے شرکت کی۔

    اجلاس میں آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس آج ہی فائل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، قانونی ٹیم نے وزیراعظم کو صدارتی ریفرنس کے خدوخال پر بریفنگ دی۔

    وزارت پارلیمانی امور سمری وزیراعظم کو بھیجے گی ، وزیراعظم کی منظوری کے بعد ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے گا۔

    ریفرنس فائنل کرنے کیلئے اٹارنی جنرل اور بابر اعوان کو ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔

    اس حوالے سے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے بتایا کہ صدر آئین کے آرٹیکل63 اے کے تحت ریفرنس بھیج رہےہیں اور میری وزارت ریفرنس فائل کرنےکےحوالے سے سمری بھیج رہی ہے۔

    بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ریفرنس میں 2سوالات اٹھائے جائیں گے، اس حوالے سے سپریم کورٹ کافیصلہ موجود ہے، موجودہ چیف جسٹس 5 رکنی بینچ کے سربراہ تھے۔

    مشیر پارلیمانی امور نے کہا کہ اس فیصلے میں اصول طے کیے گئے ہیں، جہاں نااہلی کے عرصے کا تعین نہیں وہاں نااہلی تاحیات تصور ہوگی۔

    انھوں نے مںحرف ارکارن کو پیغام میں کہا کہ ہمارے ارکان کے پاس موقع ہےوہ واپس آجائیں، اگروہ واپس آجائیں توٹھیک ورنہ نااہلی تاحیات ہوگی، غیرمنتخب ارکان کا جس وقت چاہیں نام واپس لیا جا سکتا ہے۔

    ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد ناکام ہوگی اور حکومت 5سال پورے کرے گی تاہم قومی اسمبلی اجلاس کا فیصلہ اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے۔

  • ‘آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس 21 مارچ تک دائر کیا جائے گا’

    ‘آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس 21 مارچ تک دائر کیا جائے گا’

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پیر21 مارچ تک دائر کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63 کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اے آر وائی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر کام شروع کر دیا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس پیر21 مارچ تک دائر کر دیا جائےگا، سپریم کورٹ کی رائے کے بعد آرٹیکل 63 پر بحث ازخود ختم ہوجائے گی۔

    خالد جاوید خان نے مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں حکومت آئین اور قانون سے باہر نہیں جائےگی، جو کچھ بھی ہوگا آئین کے اندر رہتے ہوئے ہوگا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ منحرف ارکان کو 5 سال نااہل کرنے کا آرڈیننس تیار نہیں ہوا، 5 سال نااہلی کا اٹارنی جنرل آفس میں کوئی آرڈیننس نہیں بنا گیا ، آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس پرعدالت سے رائے کا فیصلہ ہوا، وزارت قانون کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز حکومت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس فائل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے رائے لی جائیگی پارٹی ممبرہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوتوووٹ کی کیاقانونی حیثیت ہوگی اور وفاداریاں تبدیل کرنے پر نااہلی زندگی بھرہوگی یا نہیں۔

    وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ ریفرنس میں رائے لی جائے گی کہ کیا ایسے ممبران کودوبارہ انتخاب لڑنے کی اجازت ہو گی؟ اور سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے گی کہ ریفرنس روزانہ سن کر فیصلہ کیا جائے

  • بڑی خبر ! وفاقی حکومت کا ہارس ٹریڈنگ کے خلاف صدارتی ریفرنس لانے کا  فیصلہ

    بڑی خبر ! وفاقی حکومت کا ہارس ٹریڈنگ کے خلاف صدارتی ریفرنس لانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے ہارس ٹریڈنگ کےخلاف صدارتی ریفرنس لانے کا فیصلہ کرلیا ، صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلےکی روشنی میں لایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کی زیرصدارت حکومتی سیاسی کمیٹی کااجلاس ہوا، جس میں ہارس ٹریڈنگ کے خلاف صدارتی ریفرنس لانے کا فیصلہ کرلیا گیا، صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کی روشنی میں لایا جائے گا۔

    وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں آئینی اور قانونی آپشنز پر غور کیا گیا اور اس حوالے سے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان اور اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو بریفنگ دی۔

    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت بنی گالہ میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا تھا ، جس میں پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اور وفاقی وزرا شریک ہوئے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ اہم مشاورتی اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور منحرف ارکان اسمبلی کیخلاف قانونی کارروائی کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔

    یاد رہے حکومت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس فائل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جس میں رائے لی جائیگی پارٹی ممبرہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوتوووٹ کی کیا قانونی حیثیت ہوگی اور وفاداریاں تبدیل کرنے پر نااہلی زندگی بھرہوگی یا نہیں۔

  • سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی تحریری رائے سامنے آگئی

    سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی تحریری رائے سامنے آگئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس میں تحریری رائے میں کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن کا انعقاد آئین اور قانون کے تحت ہوتاہے اور آرٹیکل 218 کے تحت شفاف الیکشن کاانعقادالیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی تحریری رائےسامنے آگئی ، صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ کی تحریری رائے 8 صفحات پرمشتمل ہے۔

    تحریری رائے میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ الیکشن آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کیلئے تمام اقدامات کر سکتا ہے اور تمام ادارے الیکشن کمیشن کیساتھ تعاون کے پابند ہیں۔

    سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن کاانعقاد آئین اور قانون کے تحت ہوتاہے، آرٹیکل 218 کے تحت شفاف الیکشن کاانعقادالیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے جبکہ انتخابی عمل کوکرپٹ عمل سے تحفظ فراہم کرنابھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

    تحریری رائے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کیلئے تمام ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر سکتا ہے، کرپٹ طریقہ کار روکنے سےمتعلق متعددعدالتی فیصلے موجود ہیں اور ورکرزپارٹی پاکستان کےایک کیس میں سب سےاہم فیصلہ واضح ہے کرپشن کیسےختم کی جائے۔

    عدالت نے نیاز احمد کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیلٹ پیپر خفیہ ہونے کے تعلق پر نیاز احمد کیس میں فیصلہ دے چکی ہے، نیاز احمد کیس میں واضح کیا گیا کہ بیلٹ پیپر کی سیکریسی حتمی نہیں، فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ جب ضرورت ہو تو خفیہ بیلٹ حتمی خفیہ نہیں رہ سکتا۔

    عدالت کا تحریری رائے میں کہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نےصدارتی ریفرنس پررائےسےانکارکیا، انتخابی عمل صاف شفاف،ایماندارانہ بنانے کیلئے الیکشن کمیشن تمام ضروری وسائل استعمال کرسکتا ہے اور انتخابی عمل کرپٹ پریکٹس سے محفوظ کرنے کیلئے بھی ٹیکنالوجی استعمال کی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن آئینی مینڈیٹ کےمطابق ٹیکنالوجی سمیت تمام ذرائع استعمال کرسکتی ہے۔

    سپریم کورٹ کی تحریری رائے کیساتھ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ صدر پاکستان کا ریفرنس 186 کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔