Tag: Prevention

  • منکی پاکس وائرس: بچاؤ کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟

    منکی پاکس وائرس: بچاؤ کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟

    ریاض: سعودی محکمہ صحت نے منکی پاکس وائرس سے بچاؤ کے لیے اہم طبی ہدایات جاری کی ہیں اور ان پر عملدر آمد یقینی بنانے کی تاکید کی ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی محکمہ صحت عامہ (وقایہ) نے ان دنوں متعدد ممالک میں پھیلے ہوئے مرض منکی پاکس سے بچاؤ کے لیے مسافروں کو اہم مشورے دیے ہیں۔

    وقایہ نے تاکید کی ہے کہ اگر کوئی شہری یا مقیم غیر ملکی منکی پاکس کی کوئی علامت محسوس کر رہا ہو، یا منکی پاکس میں مبتلا ہو، یا متاثرہ شخص سے ملنا جلنا ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں بہتر ہوگا کہ بیرونی سفر نہ کیا جائے۔

    وقایہ نے ٹویٹر اکاؤنٹ پر منکی پاکس سے بچاؤ کے لیے جو اہم مشورے دیے ہیں وہ یہ ہیں۔

    منکی پاکس کے مریضوں سے ملنے جلنے سے پرہیز کیا جائے، اس سلسلے میں جلدی امراض سے متاثر افراد سے بھی میل ملاپ سے بچا جائے۔ ان کے بستر، ملبوسات اور ان کے زیر استعمال اشیا نہ استعمال کی جائیں۔

    مساج سمیت ایسے ہر کام سے پرہیز کریں جس میں جسمانی رابطہ ضروری ہوتا ہو۔

    بھیڑ بھاڑ والی جگہوں سے حتی الامکان دور رہا جائے اور ماسک کا استعمال کیا جائے۔

    پانی اور صابن سے ہاتھ دھونے کا خیال رکھیں، پانی و صابن نہ ہونے کی صورت میں سینی ٹائزر استعمال کریں۔

    جنگلی، مردہ یا زندہ جانوروں کو چھونے سے پرہیز کریں، ان میں چوہے اور بندر وغیرہ شامل ہیں۔ جانوروں کا گوشت بنانے یا استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ ماسک، دستانے، اسپیشل چشمے، کیپ اور چہرے کے بچاؤ کا بھی دھیان رکھیں۔

    سفر کے دوران منکی پاکس کی کوئی علامت نظر آجائے تو پہلی فرصت میں خود کو الگ کرلیں اور صحت کی نگہداشت کی کوشش کریں، علاج مہیا ہونے تک احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔

    سفر سے واپسی پر منکی پاکس کی کوئی علامت سامنے آجائے تو فوری طور پر خود کو الگ کرلیں اور وزارت صحت کے رابطہ مرکز 937 پر فون کر کے مناسب ہدایات حاصل کریں۔

  • سفر کرتے ہوئے متلی اور چکر کیوں محسوس ہوتے ہیں؟

    سفر کرتے ہوئے متلی اور چکر کیوں محسوس ہوتے ہیں؟

    کچھ افراد کی طبیعت مختلف اقسام کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے بگڑ جاتی ہے اور مختلف علامات جیسے سر چکرانے، قے اور متلی کا سامنا ہوتا ہے، یہ موشن سکنس نامی عارضے کی علامات ہیں۔

    اس حوالے سے ماہرین نے 2 خیالات پیش کیے ہیں۔ ایک سنسری کونفلیکٹ تھیوری ہے جس کے مطابق موشن سکنس کا سامنا توازن کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    توازن کو مستحکم رکھنا ہمارے اندرونی کان میں موجود نظام کا کام ہوتا ہے جو ہماری نظروں کے سامنے موجود چیزوں اور محسوسات کا تجزیہ کرتا ہے، اگر ہماری آنکھوں، اندرونی کان اور لمس یا دباؤ کی تفصیلات ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھیں تو عدم توازن کا احساس ہوتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ موشن سکنس ہماری حسوں کی معلومات کی عدم مطابقت کا نتیجہ ہوتی ہے جس کے دوران ہماری آنکھیں اور اندرونی کان جسم کو بتاتے ہیں کہ ہم حرکت کر رہے ہیں حالانکہ ہم ساکت بیٹھے ہوتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ ہم کسی ہموار اور سیدھی سڑک پر گاڑی میں سفر کر رہے ہوں تو سنسری تفصیلات میں عدم مطابقت کا امکان کم ہوتا ہے اور موشن سکنس کا سامنا نہیں ہوتا۔

    اس خیال کو موشن سکنس کے حوالے سے اب تک ٹھوس ترین وضاحت تصور کیا جاتا ہے، مگر ابھی بھی یہ سمجھنا باقی ہے کہ دماغ کے کونسے میکنزمز موشن سکنس کا باعث بنتے ہیں۔

    دوسری تھیوری کے مطابق موشن سکنس کی وجہ صرف سنسری انفارمیشن کی عدم مطابقت نہیں بلکہ اس کی وجہ اس سنسری انفارمیشن کے مطابق جسمانی انداز کو اپنانا نہیں ہوتا۔

    مگر اس تھیوری کی حمایت کے لیے شواہد زیادہ نہیں۔

    موشن سکنس کا اثر مختلف افراد پر مختلف انداز سے ہوتا ہے اور کوئی ایک وجہ نہیں جس سے وضاحت ہوتی ہو کہ کچھ افراد کو دیگر کے مقابلے میں اس کا زیادہ سامنا ہوتا ہے۔

    مگر کسی فرد کی بینائی اور توازن کے نظام کے کام کرنے کا انداز ضرور مختلف اقسام کی گاڑیوں پر سفر کے دوران ہمارے احساسات پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    مخصوص عارضے جیسے آدھے سر کے درد اور اندرونی کان کے امراض کے باعث موشن سکنس کا امکان بھی بڑھتا ہے۔

    عمر اور جنس بھی اس کے امکانات بڑھانے والے ممکنہ عناصر ہیں، جیسے کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ 9 سے 10 کی عمر میں اس کا تجربہ ہونے امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ یہ مسئلہ خواتین میں زیادہ عام ہوتا ہے۔

    اسی طرح گاڑیوں کی اقسام بھی موشن سکنس کے تجربے پر اثرانداز ہوتی ہیں، جیسے حرکت کا حجم جتنا بڑا ہوگا موشن سکنس کا اثر بھی اتنا زیادہ دیر تک رہے گا اور علامات کی شدت بدتر ہوگی۔

    مثال کے طور پر اگر کسی چھوٹی کشتی میں کسی طوفان میں 8 گھنٹے سے زیادہ وقت تک سفر کیا جائے تو اس سے زیادہ شدت کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے، جبکہ ایک گھنٹے کے ٹرین کے سفر کا اثر ممکنہ طور پر کافی کم ہوگا چاہے ٹریک مثالی طور پر ہموار نہ بھی ہو۔

    بیشتر افراد کی جانب سے اکثر موشن سکنس کی شکایت اس وقت کی جاتی ہے جب وہ کسی گاڑی کو چلا نہیں رہے ہوتے بلکہ ڈرائیور کے ساتھ سفر کررہے ہوتے ہیں، ایسا ممکنہ طور پر اس لیے ہوتا ہے کہ ڈرائیور کسی گاڑی کی حرکت کو زیادہ بہتر طریقے سے محسوس کرتے ہیں۔

    موشن سکنس حقیقی دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ ورچوئل ماحول میں بھی سائبر سکنس (اسی کی ایک اور قسم) کا سامنا ہوسکتا ہے، ایسا اکثر اس وقت ہوتا ہے جب ایسی ویڈیو گیمز کھیلی جائیں جو سنسری انفارمیشن میں عدم مطابقت کا باعث بن جائیں۔

    سنیما میں تھری ڈی فلموں سے بھی اسی وجہ سے موشن سکنس کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    کیسے بچا جاسکتا ہے؟

    موشن سکنس سے نمٹنے کے لیے سفر کرتے ہوئے فون پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے کو ترجیح دی جائے، ایسا کرنے سے متلی کے احساس کو کم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ بینائی کی تفصیلات اندرونی کان کے ساتھ زیادہ مطابقت پیدا کرسکیں گی۔

    ایسا ہی ٹرینوں اور کشتی کے سفر میں بھی کیا جاسکتا ہے جس کے دوران گزرتے مناظر پر توجہ مرکوز کرنا علامات کی شدت کم کرتا ہے۔

    علاوہ ازیں سفر سے قبل پیٹ بھر کر کھانے سے گریز کرنے، گاڑی میں ہوا کی نکاسی کو بہتر کرنے اور کئی جگہوں پر رکنے سے بھی اس کیفیت میں کمی ہوسکتی ہے، علامات بہت زیادہ ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے دوائیں بھی لی جاسکتی ہیں۔

  • کیا چار دیواری کے اندر فیس ماسک کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے؟

    کیا چار دیواری کے اندر فیس ماسک کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے؟

    کرونا وائرس سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بند جگہ پر فیس ماسک کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چار دیواری کے اندر فیس ماسک کے استعمال کے بغیر 2 میٹر کی سماجی دوری کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔

    میک گل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ چار دیواری کے اندر فیس ماسک کا استعمال ہوا میں موجود وائرل ذرات سے بیمار ہونے کا خطرہ 67 فیصد تک کم کرسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ فیس ماسک کا استعمال اور ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام کرونا وائرس کی زیادہ معتدل اقسام کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب موسم سرما کا آغاز ہورہا ہے اور فلو سیزن بھی شروع ہونے والا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ چار دیواری کے اندر 2 میٹر کی دوری کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کافی نہیں اور اس صورت میں جب وہ کوئی دفتر یا ایسا مقام ہو جہاں لوگ کچھ وقت کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے مقامات جہاں لوگوں نے فیس ماسک نہیں پہن رکھا ہوتا وہاں 70 فیصد سے زیادہ وائرل ذرات 30 سیکنڈ کے اندر 2 میٹر سے زیادہ دور پھیل جاتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں فیس ماسک کا استعمال کیا گیا تو ایک فیصد سے بھی کم وائرل ذرات 2 میٹر سے زیادہ دور جاتے ہیں۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے سیال اور گیسوں کے بہاؤ کی جانچ پڑتال کے لیے ماڈلز کا استعمال کر کے ایک کمپیوٹر پروگرام تیار کیا جو چار دیواری کے اندر کھانسی کے دوران خارج ہونے والے ذرات کی دوری کی پیمائش کرسکے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ہوا کی نکاسی، فرد کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کا انداز اور فیس ماسک پہننے سے وائرل ذرات کے پھیلاؤ کی روک تھام میں نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔

    کھانسی کو ہوا کے ذریعے پھیلنے والے وائرسز کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے اور محققین کے مطابق تحقیق سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ وائرل ذرات کسی ذریعے سے کیسے اپنے ارگرد پھیلتے ہیں اور پالیسی سازوں کو فیس ماسک کے حوالے سے فیصلے کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • موڈرنا ویکسین لگوانے سے کتنے عرصے کا تحفظ مل سکتا ہے؟

    موڈرنا ویکسین لگوانے سے کتنے عرصے کا تحفظ مل سکتا ہے؟

    کووڈ ویکسین لگوانے کے بعد اس بیماری سے کتنے عرصے تک تحفظ مل سکتا ہے اس حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں، اب حال ہی میں ایک اور نئی تحقیق نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے لا جولا انسٹی ٹیوٹ آف امیونولوجی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ موڈرنا ویکسین کی کم مقدار پر مبنی خوراک کا اثر کم از کم 6 ماہ تک برقرار رہتا ہے اور ویکسی نیشن کروانے والوں کو اضافی خوراک کی ضرورت نہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ وقت بہت اہم ہے کیونکہ اس عرصے میں حقیقی مدافعتی یادداشت تشکیل پانے لگتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق موڈرنا کووڈ ویکسین سے ٹھوس سی ڈی 4 پلس ہیلپر ٹی سی، سی ڈی 8 پلس کلر ٹی سیل اور اینٹی باڈی ردعمل ویکسی نیشن مکمل ہونے کے بعد کم از کم 6 ماہ بعد برقرار رہتا ہے۔

    اس سے عندیہ ملتا ہے کہ بیماری کے خلاف مدافعتی ردعمل زیادہ طویل عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اس ٹھوس مدافعتی یادداشت کا تسلسل ہر عمر کے گروپ بشمول 70 سال سے زائد عمر کے افراد میں برقرار رہتا ہے، جن میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مدافعتی یادداشت مستحکم رہتی ہے جو کہ متاثر کن ہے، جس سے ایم آر این اے ویکسینز کے دیرپا ہونے کا اچھا عندیہ ملتا ہے۔

    تحقیق کے لیے ایسے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن کو موڈرنا ویکسین کی 25 مائیکرو گرام کی خوراک کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں استعمال کروائی گئی تھی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ ایک خوراک کا چوتھائی حصہ استعمال کرنے سے بھی کسی قسم کا مدافعتی ردعمل بنتا ہے یا نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں موڈرنا ویکسین کے کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں شامل ایسے افراد کے نمونے حاصل کرنے کا موقع ملا جن کو ویکسین کے 25، 25 مائیکرو گرام کے انجیکشن 28 دن کے وقفے سے استعمال کروائے گئے تھے۔

    لوگوں کو موڈرنا ویکسین کی 100 مائیکرو گرام کی ایک خوراک استعمال کرائی جاتی ہے اور پہلے معلوم نہیں تھا کہ کم مقدار کس حد تک فائدہ مند ہے۔

    مگر اب اس نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کم مقدار بھی اسٹینڈرڈ ڈوز کی طرح ٹی سیل اور اینٹی باڈی ردعمل کو پیدا کرتی ہے اور اس کا تسلسل بھی کئی ماہ بعد برقرار رہتا ہے۔

  • ایک عام عادت جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    ایک عام عادت جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    کینسر ایک عام مرض بنتا جارہا ہے اور حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچنے کے لیے ایک عام عادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت بخش غذا اور دیگر طبی مسائل جیسے فشار خون اور ذیابیطس کو کنٹرول میں رکھنا امراض قلب کے ساتھ ساتھ کینسر کا خطرہ بھی کم کرتا ہے۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور دیگر اداروں کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 20 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا اور آغاز میں ان میں کوئی بھی کینسر کا شکار نہیں تھا۔

    15 سال کے دوران 2 ہزار 548 افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی اور محققین نے دریافت کیا کہ امراض قلب کا باعث بننے والے روایتی عناصر جیسے عمر، جنس اور تمباکو نوشی، کینسر سے بھی متعلق ہے۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ دل پر دباؤ ڈالنے والے عناصر سے کینسر کا امکان بھی 40 فیصد بڑھ گیا، اس کے مقابلے میں دل کو صحت مند رکھنے والی عادات جیسے بلڈ پریشر، کولیسٹرول، بلڈ شوگر اور جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور صحت بخش غذا کا استعمال کینسر کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض اور کینسر کے درمیان تعلق براہ راست نہیں مگر ہماری عادات یا رویے اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔

    تحقیق میں موٹاپے اور سگریٹ نوشی کے نتیجے میں جسم میں دائمی ورم اور کینسر کے درمیان تعلق کو بھی دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال دل کی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے جو کولیسٹرول کی سطح میں کمی کے ساتھ ورم سے لڑنے والے اجزا سے بھرپور ہوتے ہیں۔

  • دل کے امراض کا آسان علاج کیا ہے؟

    دل کے امراض کا آسان علاج کیا ہے؟

    بدلتے ہوئے غیر صحت مندانہ طرز زندگی نے امراض قلب میں تشویشناک حد تک اضافہ کردیا ہے، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ زندگی کی اس مصروفیت کو برقرار رکھتے ہوئے دل کا خیال کیسے رکھا جائے۔

    ماہرین صحت کے مطابق امراض قلب دنیا بھر میں انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ہیں، ہر سال دنیا بھر میں 1 کروڑ 80 لاکھ کے قریب افراد دل کی بیماریوں کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر امراض قلب ڈاکٹر فیصل ضیا نے شرکت کی اور اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

    ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ امراض قلب کی شرح میں اضافے کی وجوہات غیر صحت مندانہ طرز زندگی، بہت زیادہ کام کا بوجھ، نیند کا خیال نہ رکھنا، جنک فوڈ کا استعمال، ورزش نہ کرنا اور ذہنی تناؤ کی شرح میں اضافہ ہونا ہے۔

    انہوں نے کہا کم عمری میں سگریٹ کی لت لگ جانا بھی اس کی اہم وجہ ہے، اکثر 20 سے 25 سال کی عمر کے افراد کا بلڈ پریشر بھی اسی وجہ سے ہائی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی کے خاندان میں امراض قلب کی تاریخ موجود ہے تو ایسے شخص کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ اگر 24 گھنٹے کی مصروفیت میں صرف 1 گھنٹہ اپنے لیے مختص کیا جائے اور ہلکی پھلکی ورزش کرلی جائے تو دوران خون بہتر ہوتا ہے جس سے بلڈ پریشر اور امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    علاوہ ازیں روزمرہ کی خوراک کو بھی زیادہ سے زیادہ صحت مند اور متوازن بنایا جائے۔

    ڈاکٹر فیصل کے مطابق ہارٹ اٹیک اور کارڈیک اریسٹ میں فرق یہ ہے کہ ہارٹ اٹیک میں خون کا بہاؤ دل کی طرف رک جاتا ہے (عموماً خون کے لوتھڑے بننے کے سبب) جبکہ کارڈیک اریسٹ میں دل میں اچانک کوئی خرابی واقع ہوتی ہے اور وہ دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے۔

    انبہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ادھیڑ عمر افراد کی اکثریت کو صحت یابی کے بعد دل کی تکلیف کا سامنا ہوا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جس سے دل کو خون پمپ کرنے اور آکسیجن کھینچنے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اسی لیے وہ دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل نے مزید کہا کہ ایک دفعہ ہارٹ اٹیک ہوجانے کے بعد کسی بھی عمر کے شخص کو نہایت محتاط ہوجانا چاہیئے کیونکہ دوسرا دورہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

  • حکومت تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے پرعزم ہے، ڈاکٹرظفرمرزا

    حکومت تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے پرعزم ہے، ڈاکٹرظفرمرزا

    اسلام آباد : وزیر مملکت امور قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے حکومت پرعزم ہے، غیر معتدی امراض کی روک تھام حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی یوم انسداد تمباکو نوشی کے موقع پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ڈاکٹرظفرمرزا نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ حکومت ملک سے غذائی قلت کے خاتمے پر بھرپور توجہ دے رہی ہے اور خصوصی طور پر تمباکو نوشی پر قابو پانے کے لیے حکومت سنجیدہ اقدامات کررہی ہے۔

    پاکستان میں23.9 ملین افراد تمباکو کا استعمال کرتے ہیں دنیا بھر میں تمباکو کے استعمال سے ہرسال166000ہزار اموات ہوتی ہیں، ڈاکٹرظفرمرزا کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو ہیلتھ ٹیکس کی حمایت پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ہیلتھ ٹیکس سے حاصل ریونیو ہیلتھ بجٹ کے لیے مختص ہوگا۔

    مزیز پڑھیں: 2020تک ہر پاکستانی ہیلتھ انشورنس کی سہولت سے مستفید ہوگا، ڈاکٹر ظفر مرزا

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے انسداد پولیو مہم بابربن عطا کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی اولین ترجیح پاکستان کو مکمل فلاحی ریاست بنانا ہے، وزیر اعظم نے تمباکو نوشی کے انسداد کے لیے ذاتی دلچسپی لی۔

  • ہیٹ ویو کے دوران یہ احتیاطی تدابیر اپنائیں

    ہیٹ ویو کے دوران یہ احتیاطی تدابیر اپنائیں

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک بار پھر ہیٹ ویو الرٹ جاری کردیا گیا ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق یکم تا 3 مئی کراچی میں ہیٹ ویو ہونے کا امکان ہے۔

    شدید گرمیوں کے اس موسم میں احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ لو لگنے یا ہیٹ اسٹروک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس میں مریض کو فوری طور پر طبی امداد نہ دینے کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: دھوپ میں لو لگنے سے موت کیوں ہوتی ہے؟

    یہاں ہم آپ کو ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور ان سے محفوظ رہنے کے طریقے بتا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہیٹ اسٹروک ہے کیا اور اس کی علامات کیا ہیں۔

    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات

    گرم اور خشک موسم

    شدید گرمی میں پانی پیے بغیر محنت مشقت یا ورزش کرنا

    جسم میں پانی کی کمی

    ذیابیطس کا بڑھ جانا

    دھوپ میں براہ راست زیادہ دیر رہنا

    ہیٹ اسٹروک کی علامات

    سرخ اور گرم جلد

    جسم کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوجانا

    غشی طاری ہونا

    دل کی دھڑکن بہت زیادہ بڑھ جانا

    جسم سے پسینے کا اخراج رک جانا

    پٹھوں کا درد

    سر میں شدید درد

    متلی ہونا

    ہیٹ اسٹروک ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

    اگر آپ اپنے ارد گرد کسی شخص میں مندرجہ بالا علامات دیکھیں تو جان جائیں کہ وہ شخص ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوا ہے اور فوری طور پر اس کی مدد کی کوشش کریں۔

    مریض کو لٹا دیں اوراس کے پیر کسی اونچی چیز پر رکھ دیں۔

    ہیٹ اسٹروک کا شکار شخص کے جسم پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں یا ٹھنڈا پانی چھڑکیں۔

    مریض کو پنکھے کے قریب کر دیں، یا کسی چیز سے پنکھا جھلیں۔

    مریض کو فوری طور پر اسپتال پہنچانے کی کوشش کریں۔

    ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر

    مندرجہ ذیل تدابیر اپنا کر آپ شدید گرمی کے موسم میں اپنے آپ کو کسی نقصان سے بچا سکتے ہیں۔

    پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال

    گرم موسم میں پانی کا زیادہ استعمال کریں۔ روزانہ کم از کم 3 لیٹر پانی لازمی پیئیں۔ پانی کے ذریعے اپنے جسم میں نمکیات اور پانی کا توازن برقرار رکھیں۔

    مائع اشیا کا استعمال

    طبی ماہرین کے مطابق اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کھیرے کا جوس، ناریل کا پانی، لیموں کا جوس اور دیگر مائع اشیا کا استعمال کریں۔

    چائے کافی سے پرہیز

    شدید گرم موسم میں گرم اشیا، چائے، کافی کا استعمال کم کریں۔ الکوحل اور کیفین والے مشروبات سے پرہیز کریں۔ کولڈ ڈرنکس کے بجائے پانی، لسی، اور دیسی مشروبات کا استعمال کریں۔

    ڈھیلے کپڑے پہنیں

    سخت گرمیوں میں ڈھیلے لیکن مکمل اور ہلکے رنگوں کے ملبوسات کا استعمال کریں۔ ہوا دار کپڑے پہنیں، تاکہ پسینہ سوکھ جائے۔ تیز دھوپ میں نکلتے ہوئے آپ کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نہ ہونا چاہیئے ورنہ دھوپ براہ راست اس حصے پر پڑ کر جلد کو سرخ کر سکتی ہے۔

    کیا کھائیں؟

    گرمی کے موسم میں مائع اشیا جیسے خالص جوسز، سلاد، ہلکے پھلکے کھانے خاص طور پر سبزیاں کھائیں۔

    اپنا شیڈول ترتیب دیں

    شدید گرمی کے دنوں میں باہر نکلنے سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ باہر نکلنے والے کام صبح سورج نکلنے سے پہلے یا شام کے وقت نمٹالیں۔

    باہر نکلتے ہوئے احتیاط کریں

    گھر سے باہر نکلتے ہوئے سن اسکرین، دھوپ کے چشمے اور کیپ کا استعمال کیجیئے۔ اپنے ساتھ پانی کی ایک بوتل ضرور رکھیں اور ہر 20 سے 30 منٹ بعد پانی پیئیں۔

    عرق گلاب یا پیپر منٹ ایسنس پانی کے ساتھ ملاا ہوا اسپرے بھی ساتھ ہونا چاہیئے جس سے چہرے کو ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔

    اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کریں

    طبی ماہرین شدید گرمی میں اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ اس سے فالج کا خطرہ ہے۔

    باہر کا کھانا مت کھائیں

    سخت گرمیوں میں باہر کی تیل سے بھرپور اشیا، تلے ہوئے یا پیک شدہ کھانے کم کر دیں۔ اس کی جگہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں۔ خاص طور پر کچا سلاد اور ایسے پھل کھائیں جن میں پانی زیادہ ہو جیسے کھیرا، تربوز، کینو، خربوزہ وغیرہ۔

    گرم پانی میں نہانے سے پرہیز

    گرمیوں کے موسم میں گرم پانی سے نہانے سے بھی پرہیز کریں۔ یہ آپ کے دوران خون پر منفی اثرات ڈال کر شدید نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

    بچوں کو بند کار میں نہ چھوڑیں

    دن کے اوقات میں اگر باہر جانا ہو تو بند گاڑی میں کبھی بھی بچوں یا جانوروں کو نہ چھوڑیں۔ یہ عمل ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

  • ہیٹ اسٹروک کی وجوہات، علامات اور بچاﺅ کیلئے احتیاطی تدابیر

    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات، علامات اور بچاﺅ کیلئے احتیاطی تدابیر

    کراچی : کراچی سمیت ملک کے کئی شہروں میں گرمی کی شدید لہر برقرار ہے، محکمہ موسمیات نے گرمی کی شدید لہر سے خبردار کردیا، جو لوگ گھر سے باہر زیادہ وقت گزارتے ہیں اُن کو ہیٹ اسٹروک کا بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

    موسمِ گرما کے سخت دن نا صرف ماحول کو غیر آرام دہ بناتے ہیں بلکہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بھی بڑھا دیتے ہیں، جو مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔


    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات


    گرم ا ور خشک موسم

    شدید گرمی میں پانی پیئے بغیر مخنت مشقت یا ورزش کرنا

    جسم میں پانی کی کمی

    ذیابیطس کا بڑھ جانا

    دھوپ میں براہ راست زیادہ دیر رہنا


    ہیٹ اسٹروک کی علامات


    سرخ اور گرم جلد

    جسم کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوجانا

    غشی طاری ہونا

    دل کی دھڑکن بہت زیادہ بڑھ جانا

    جسم سے پسینے کا اخراج روک جانا

    پٹھوں کا درد

    سر میں شدید درد

    متلی ہونا


    کسی کو ہیٹ اسٹروک ہو جائے توکیا کیا جائے


    ہیٹ اسٹروک ہونے کی صورت میں مریض کو لٹا دیں اوراس کے پیر کسی اونچی چیز پر رکھ دیں۔ مریض کے جسم پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں یا ٹھنڈا پانی چھڑکیں، مریض کو پنکھے کے قریب کردیں، یا کسی چیز سے پنکھا جَھلیں۔ مریض کو فوری طور پر اسپتال پہنچانے کی کوشش کریں۔


    ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی اہم تدابیر


    گرمیوں میں ہیٹ اسٹروک کے امکانات ہوتے ہیں چنانچہ اس سے بچنے کےلئے تدابیر بھی اپنانی چاہیے تاکہ ممکنہ نقصان سے بچا جا سکے۔

    پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال

    گرم موسم میں پانی کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے روزانہ کم از کم تین لیٹر پانی تو لازمی پینا چاہیے، خاص طور پر پانی کے ذریعے اپنے جسم میں نمکیات اور پانی کا توازن برقرار رکھنا چاہیے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کھیرے کا جوس، ناریل کا پانی، لیموں کا جوس کا استعمال کرنا چاہیے، گرم اشیاء، چائے، کافی کا استمال کم کیجئے ۔

    ڈھیلے کپڑے پہنیں

    ڈھیلے اور ہلکے رنگوں کے ملبوسات کاٹن جیسے ہوا دار کپڑے پہنیں، تاکہ پسینہ سوکھ جائے، اگر آپ مچھروں کے کاٹنے کے وقت باہر ہوں، تو پوری پینٹیں اور بند جوتے پہنیں۔

    اگر آپ شام کے وقت پارک میں جائیں، تو جرابیں ٹخنوں سے اوپر چڑھائیں، اور شرٹ پینٹ کے اندر اڑس لیں۔

    گرم اشیاء اور الکوحلک مشروبات سے پرہیز کریں

    گرم اشیاء، چائے، کافی کا استمال کم کیجئے، جب الکوحل اور کیفین والے مشروبات سے پرہیز کرنا چاہیے، کولڈرنکس کے بجائے پانی، لسی، اور دیسی مشروبات کا استعمال کریں۔

    ایسی چیزیں جو آپ کو دھوپ سے محفوظ رکھیں

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاوجہ گھروں سے نہ نکلیں، زیادہ دیر تک دھوپ میں نہ رہیں، باہر نکلیں تو سر ڈھانپ کر رکھیں، اگر نکلنا بھی ہے تو گیلے کپڑے سے سر اور جسم ڈھانپ کر نکلیں اور اپنے ساتھ پانی کی ایک بوتل ضرور رکھیں اور ہر 20 سے 30 منٹ کے بعد پانی پیئے جبکہ ایک اسپرے بھی رکھنا چاہیے، جس میں عرقِ گلاب، یا پیپرمنٹ ایسنس پانی کے ساتھ ملایا جائے، جس سے چہرے کو ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔

    سن بلاک کا استعمال کریں

    اس میں کوئی شک نہیں کہ دھوپ وٹامن ڈی کا بہت اچھا ذریعہ ہے، لیکن الٹراوائیلٹ شعاعوں کا نقصان شدید اور طویل مدتی ہوسکتا ہے، جب بھی آپ باہر ہوں، تو اپنے جسم کے کھلے حصوں پر سن اسکرین لگائیں۔ اسے اپنے پورے جسم پر گھر سے باہر نکلنے سے کم از کم تیس منٹ پہلے لگائیں۔

    اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کریں

    طبی ماہرین نے شدید گرمی میں اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ اس سے فالج کا خطرہ ہے۔

    باہر کا کھانا مت کھائیں

    طبی ماہرین کے مطابق کیفین اور تیل سے بھرپور چیزیں، اور تلے ہوئے یا پیک شدہ کھانے کم کر دینی چاہیئں۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھا دینا چاہیے، خاص طور پر کچا سلاد اور ایسے پھل کھانے چاہیئں جن میں پانی زیادہ ہو جیسے کھیرا، تربوز، آم، کینو، خربوزہ، گاجر، وغیرہ۔

    اس موسم میں خاص طور پر گھر میں پکے ہوئے تازہ اور صاف ستھرے کھانے کھانے چاہیئں۔ گھر میں کھانے کو درست درجہ حرارت پر رکھنا چاہیے، اور جتنا ہوسکے، باہر کا کھانا کم سے کم کریں۔ تھوڑی سی بھی لاپرواہی مختلف اقسام کے انفیکشن ہوسکتے ہیں لہٰذا کھانے اور پینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔

    گرم پانی میں نہانے سے پرہیز کریں

    نیگلیریا فولیری کو گرم پانی بہت پسند ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ سوئمنگ پول میں کلورین اچھی طرح شامل ہو، یا پھر کم گہرے اور گرم پانی والی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے اجتناب کریں۔

    اس لاعلاج اور ہلاکت خیز مرض سے صرف بچا ہی جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ناک کے کلپ خریدیں، اور اپنا سر پانی سے اوپر رکھیں تاکہ پانی کو ناک میں جانے سے بچایا جا سکے۔

    اگر ہم یہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تو گرمی سے ناصرف بچا جا سسکتا ہے بلکہ صحت کو بھی متوازن رکھا جا سکتا ہے۔