Tag: Principal

  • 19 سالہ طالبعلم آپے سے باہر، کالج پرنسپل سے بدتمیزی اور تشدد

    19 سالہ طالبعلم آپے سے باہر، کالج پرنسپل سے بدتمیزی اور تشدد

    بھارتی ریاست گجرات میں ایک طالبعلم نے خاتون لیکچرر کے ساتھ بدزبانی کے بعد، پرنسپل کو شکایت پر پرنسپل پر بھی حملہ کر کے زخمی کردیا۔

    افسوسناک واقعہ گجرات کے شہر جام نگر کے آرٹس اینڈ کامرس کالج میں پیش آیا جہاں 19 سالہ طالبعلم یوگیش نے اساتذہ کے خلاف پرتشدد رویہ اپنایا۔

    بدھ کے روز یوگیش لیکچر کے دوران بغیر اجازت کلاس روم کے اندر داخل ہوا، جب کلاس میں موجود خاتون لیکچرر نے اسے روکا اور کلاس سے باہر انتظار کرنے کو کہا تو یوگیش آپے سے باہر ہوگیا اور لیکچرر کے ساتھ زبانی بدتمیزی شروع کردی۔

    بعد ازاں اس نے بدتمیزی کی انتہا کرتے ہوئے لیکچرر کو کلاس سے باہر جانے کا کہا جس کے بعد لیکچرر فوراً پرنسپل کے کمرے میں گئیں اور انہیں کلاس میں لے آئیں۔

    پرنسپل نے آ کر یوگیش سے بات کرنے کی کوشش کی تو یوگیش نے نہ صرف ان سے بھی بدتمیزی کی بلکہ ہاتھا پائی بھی شروع کردی، یوگیش کے دھکے سے پرنسپل زمین پر گر گئے اور انہیں معمولی چوٹیں بھی آئیں۔

    اس موقع پر دیگر اسٹاف ممبر اور طالبعلموں نے یوگیش کو قابو کیا، یوگیش نے جاتے ہوئے پرنسپل کو دھمکی دی کہ وہ اس کے خلاف کسی سے شکایت کر کے دکھائیں اور انہوں نے ایسا کیا تو وہ انہیں جان سے مار دے گا۔

    بعد ازاں پرنسپل نے پولیس کو بلوایا جنہوں نے آ کر کالج کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کا جائزہ لیا۔

    ٹیچرز کا کہنا ہے کہ یوگیش اس سے قبل بھی کئی استادوں سے بدتمیزی کرچکا ہے جبکہ وہ امتحانات میں نقل بھی کرتا رہتا ہے۔ پولیس میں شکایت درج کروانے کے بعد مذکورہ طالبعلم روپوش ہوچکا ہے۔

  • اسکول میں صفائی کرنے والی خاتون برسوں بعد پرنسپل بن گئیں

    اسکول میں صفائی کرنے والی خاتون برسوں بعد پرنسپل بن گئیں

    ہر انسان کی زندگی معجزوں سے بھری پڑی ہے، بعض اوقات زندگی میں ایسے ایسے معجزے رونما ہوتے ہیں جو کسی انسان کی پوری زندگی بدل دیتے ہیں۔

    امریکی خاتون پام ٹلبرٹ کی زندگی بھی ایسا ہی ایک معجزہ لگتی ہے تاہم یہ معجزہ انہوں نے اپنی انتھک محنت، لگن اور جذبے سے کیا۔ امریکی ریاست لوزیانا کی یہ خاتون آج اس اسکول میں بطور اسسٹنٹ پرنسپل کام کر رہی ہیں جہاں کبھی وہ خاکروب کی ملازمت کیا کرتی تھیں۔

    پام نے لوزیانا کے ایک اسکول میں صفائی کرنے اور بس ڈرائیور کی ذمہ داری نبھائی، یہی نہیں وہ ایک مرض کی وجہ سے لکھنے اور پڑھنے میں بھی مشکلات کا شکار تھیں۔

    وہ بتاتی ہیں کہ بعض وفعہ وہ کوئی معمولی سا لفظ بھی نہیں پڑھ پاتی تھیں جس کے بعد وہ فرسٹریشن کا شکار ہو کر کئی گھنٹوں تک روتی رہتی تھیں۔

    پام نے اپنی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی تھی۔ جب ان کے یہاں بچوں کی پیدائش ہوئی تو پام نے بچوں کی کتابوں کے ذریعے پھر سے لکھنے پڑھنے سے اپنا رشتہ جوڑا۔

    انہی کتابوں کی وجہ سے وہ پھر سے پڑھنے کی جانب مائل ہوئیں اور اپنی تعلیم کا ادھورا سلسہ دوبارہ جوڑا۔ جلد ہی لوزیانا کی سدرن یونیورسٹی سے انہوں نے بیچلرز اور پھر ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرلی۔

    پھر اسی ادارے سے انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ پی ایچ ڈی بھی کرلیا۔

    پام اب اسی اسکول کی اسسٹنٹ پرنسپل بن چکی ہیں جہاں کبھی وہ صفائی کی ملازمت کیا کرتی تھیں۔ وہ اپنی زندگی کے بارے میں کہتی ہیں، ’معجزے رونما ہوتے ہیں، یقین نہیں آتا تو میری زندگی دیکھ لیں جو کسی معجزے سے کم نہیں‘۔

    وہ اپنے بچوں کی بھی بے حد شکر گزار ہیں جن کے حوصلہ دلانے کی وجہ سے ہی وہ آج اس مقام پر ہیں۔ ’میرے بچے میرے استاد ہیں، اگر وہ مجھے ہمت نہ دیتے تو میں آج یہاں نہ ہوتی‘۔