Tag: probe

  • برطانوی سفیر کی ای میل لیک، میٹروپولیٹن پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا

    برطانوی سفیر کی ای میل لیک، میٹروپولیٹن پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا

    لندن : میٹروپولیٹن پولیس نے امریکا میں تعینات برطانوی سفیرکی سفارتی ای میلز مبینہ طور پر لیک ہونے پر کرمنل انوسٹی گیشن شروع کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی حکومت کی جانب سے امریکا میں تعینات برطانوی سفیر سر کِم ڈاروچ نے ای میل کے ذریعے ٹرمپ انتطامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ،سفارتی ای میل لیک ہونے کے باعث صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خود پر تنقید کا علم ہوا تو انہوں نے سر کم کے ساتھ مزید کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔

    اسٹنٹ کمشنر نیل باسو کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ واقعے کے ذمہ دار کو سزا دینے میں عوام کی دلچسپی بھی شامل ہے۔

    امریکا میں تعینات برطانوی سفیر سر کم ڈاروچ نے ای میل لیک ہونے کے معاملے پر بدھ کے روز استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرے لیے مزید جاری رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا‘ قبل ازیں امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ امریکا سر کم کے ساتھ مزید کام نہیں کرسکتا ۔

    امریکی صدر نے برطانوی سفیرکی سفارتی ای میل لیک ہونے کے بعد جس میں انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو ’غیرمربوط اور خلفشار‘ کا شکارقرار دیا تھا، کو ’بے وقوف آدمی‘ قرار دیا ہے۔

    نیل باسو نے کرمنل انوسٹی گیشن کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’جس نے بھی ای میل لیک ہے وہ مطمئن تھا کہ برطانیہ کے عالمی سطح پر تعلقات خراب کردے گا، انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی اس واقعے کا ذمہ دار ہے اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    مزید پڑھیں: برطانوی سفیر کی ای میلز میں وائٹ ہاؤس پر تنقید، امریکی صدر برہم

    یاد رہے کہ برطانوی سفیر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران پالیسی کو غیرمربوط اور خلفشار کا شکار قرار دیا لیکن امریکی صدر کو مکمل طور پر نظرانداز نہ کرنے کا بھی مشورہ دیا تھا، ای میل میں امریکی صدر کا کیریئر بے عزتی کے ساتھ ختم ہونے کی پیش گوئی بھی کی گئی تھی۔

    کم ڈیروک کا کہنا تھا کہ امریکی صدرکا ایران پر حملے کو 10 منٹ پہلے یہ کہہ کر روک دینا کہ صرف 150 افراد مارے جائیں گے، سمجھ سے بالاتر ہے اور وہ کبھی بھی اس کے حق میں نہیں تھے، امریکی صدر بیرونی جھگڑوں میں شامل ہونے کی اپنی انتخابی مہم کے وعدے کے خلاف نہیں جانا چاہتے ہیں۔

    برطانوی سفیر کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے بعد جب تجارتی تعلقات بہتر ہوں گے تو برطانیہ اور امریکا کے درمیان آب و ہوا میں تبدیلی، میڈیا کی آزادی اور سزائے موت پر اختلاف سامنے آسکتے ہیں۔

  • سعودی عرب میں نائٹ کلب کا افتتاح، سعودی حکام کا تحقیقات کا آغاز

    سعودی عرب میں نائٹ کلب کا افتتاح، سعودی حکام کا تحقیقات کا آغاز

    ریاض : سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں نائٹ کلب کا افتتاح کردیا گیا تاہم اسلامی قوانین کے نفاذ کے باعث کلب میں شراب پیش نہیں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں مشرقِ اوسط کے ایک مقبول نائٹ کلب نے اپنی ایک شاخ کا افتتاح کردیا ہے، یہ نائٹ کلب سعودی عرب میں حالیہ برسوں کے دوران میں تفریح کے نام پر دی جانے والی آزادیوں اور بعض سماجی پابندیوں کے خاتمے کا ایک نیا مظہر ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں نائٹ کلب کے قیام کے باوجود مملکت میں نافذ اسلامی قوانین کے تحت اس کلب میں شراب پیش نہیں کی جائے گی۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ نائٹ کلب سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں سمندر کنارے قائم کیا گیا ہے۔ حکام کی جانب سے سخت اسلامی قوانین کے نفاذ کے باوجود نائٹ کلب میں لباس سے متعلق سخت ضابطہ اخلاق نافذ نہیں ہوگا۔

    واضح رہے کہ مملکت کے ضابطہ لباس کے تحت خواتین مکمل ستر والا لباس پہننے اور برقع اوڑھنے کی پابند ہیں۔

    ایڈمنڈ ہاسپٹلیٹی کلب کے مینجر ابلاغیات سرجی ٹراڈ نے امریکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ وائٹ کلب سعودی عرب میں ایک ماہ تک کھلا رہے گا، اس کا امریکی فن کار ’نی یو‘ کے فن کے مظاہرے سے آغاز ہورہا ہے۔

    مسٹر ٹراڈ کا کہنا ہے کہ اس کلب کے لیے ’عام اسمارٹ‘ لباس ہوگا، اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کلب میں آنے والی خواتین کو کھلے ملبوسات پہننے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    ٹراڈ نے بتایا ہے کہ اس کلب کے انسٹاگرام پر اکاؤنٹ کے پیروکاروں کی تعداد گیارہ ہزار تک پہنچ گئی تھی لیکن اس کے ناقدین کی رپورٹ کے بعد اس اکاؤنٹ کو فوری طور پر بند کردیا گیا ہے۔

    نائٹ کلب کی افتتاحی تقریب کے خلاف تحقیقات کا آغاز

    دوسری جانب عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی حکام نے نائٹ کلب کی افتتاحی تقریب کی متنازعہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے اور نائٹ کلب کی افتتاحی تقریب کے ماحول اور جگہ پر سوالات اٹھنے کے بعد قانونی طور پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ کچھ سوشل میڈیا صارفین اور کچھ مقامی خبر رساں اداروں کی جانب سے کہا ہے کہ مذکورہ تقریب معروف نائٹ کلب کے افتتاح کے موقع پر منعقد ہوئی تھی لیکن تقریب اور کلب میں شراب نوشی اور شراب پیش کرنے پر پابندی ہے۔

    سعودی حکام نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہا کہ ’حکام کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ تقریب (پروجیکٹ ایکس) قانونی طریقہ کار اور ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی ہے اور مذکورہ پروگرام کی حکام نے تصدیق بھی نہیں کی تھی۔

    عرب میڈیا کے مطابق سعودی حکام نے کسی اور پروگرام کے لیے لائسنس جاری کیا تھا۔ سعودی حکام کا کہنا تھا کہ کانٹریکٹر نے لائسنس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے سنجیدہ اور ناقابل قبول خلاف ورزی کی ہے۔

  • امریکا کے صدارتی انتخابات ٹرمپ اور روس کے درمیان کوئی رابطہ ثابت نہیں ہوا

    امریکا کے صدارتی انتخابات ٹرمپ اور روس کے درمیان کوئی رابطہ ثابت نہیں ہوا

    واشنگٹن : امریکی انتخابات کے دوران روسی مداخلت سے متعلق امریکی محکمہ صحت انصاف نے ملر رپورٹ کانگریس میں پیش کر دی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار کا کہنا ہے کہ 2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ اور روس کے درمیان کوئی رابطہ ثابت نہیں ہوا البتہ روس کی انٹیلی جنس نے ہیکرز کے ذریعے امریکی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ روسی ہیکرز نے کچھ ای میلز حاصل کرکے وکی لیکس جیسی ویب سائٹ کو بھی دیں تھیں۔

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رد عمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ نہ ہی رابطہ ثابت ہوا اور نہ ہی مداخلت کے ثبوت ملے، نفرت کرنے والوں اور ڈیموکریٹس کا ” گیم اوور“ ہو چکا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹ کے ذریعے سارا بوجھ صدر ٹرمپ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    قانونی مشاوروں کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں کہیں بھی یہ تحریر نہیں تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے روسی سازش کا حصّہ تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا تحقیقات میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے حتیٰ کہ انہوں نے رابرٹ ملر کو بھی ہٹانے کی کوشش کی تھی۔

    اتحقیقاتی رپورٹ اسپیشل کونسل رابرٹ ملر نے تحریر کی تھی، ادھر کانگریس اسپیکر نینسی پیلوسی نے چار سو صفحات پر مشتمل رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

  • ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اقوام متحدہ سے خاشقجی قتل کی تحقیقات کا مطالبہ

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اقوام متحدہ سے خاشقجی قتل کی تحقیقات کا مطالبہ

    انقرہ : برطانیہ کی غیر سرکاری انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ سے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے 100 روز مکمل ہونے پر آزادنہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں گمشدگی اور قتل سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ترکی میں سعودی سفارت خانے کے باہر مقتول صحافی کے قتل کے 100 روز مکمل ہونے پر احتجاج کیا۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل ترکی کے نمائندہ گوکسو اوزاہشالی نے سفارت خانے کے باہر احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ سے جمال خاشقجی کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جس صحافی نے سعودی عرب میں آزادی اظہار رائے کا محاز کھولا تھا ہم اسے انصاف دینے کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل ترکی کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ کے مینیجر کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی کو سفاکانہ طریقے سے قتل کیے 100 روز گزر گئے لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ جمال خاشقجی کو انصاف دلانے کےلیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔

    اینڈریو گارڈنر کا کہنا تھا کہ عالمی برادری نے ناقابل یقین حد تک کمزور مؤقف اپناتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات کو انسانی اقدار پر ترجیج دی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ترکی کے کارکنوں نے استنبول میں سعودی سفارت خانے کی شاہراہ کو صحافی جمال خاشجقی کے نام سے منسوب کرکے شاہراہ کا نام ’جمال خاشقجی اسٹریٹ‘ کا بورڈ نصب کردیا۔

    مزید پڑھیں : سعودی عرب والد کی لاش حوالے کرے، جمال خاشقجی کے بیٹوں کا مطالبہ

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے صحافی کے سعودی قونصل خانے میں قتل کی تصدیق کی ہے اور 18 سعودی شہریوں کو حراست میں لینے اور انٹیلی جنس کے 4 افسران کو معطل کرنے جیسے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن ترکی اور دنیا بھر کی جانب سے بار بار مطالبے کے باوجود صحافی کی لاش سے متعلق تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

  • صدارتی انتخابات میں‌ دھاندلی، تحقیقاتی حکام نے ٹرمپ کو ہٹانے کی تجویز دی تھی، دعویٰ

    صدارتی انتخابات میں‌ دھاندلی، تحقیقاتی حکام نے ٹرمپ کو ہٹانے کی تجویز دی تھی، دعویٰ

    واشنگٹن : اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والے حکام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدے سے ہٹانے کی تجویز پیش کی تھی جس پر عمل نہ ہوسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سنہ 2016 میں ہونے والے امریکا کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے معاملے پر تحقیقات کرنے والے عملے نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مسند صدارت سے ہٹانے کی تجویز دی تھی۔

    امریکی اخبار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کی ہی منتخب کردہ کابینہ کے افراد ناراض ہیں اور جنہوں نے ٹرمپ کو ہٹانے کا مشورہ گیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اخبار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والے حکام نے صدر ٹرمپ کی گفتگو ریکارڈ کرنے اور کابینہ کے ارکان کا تقرر کرنے کی ہدایات کی گئیں تھی۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں نئے ارکان کا تقرر کرنا آئین میں ترمیم کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاوس سے نکالنا تھا۔

    امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ مذکورہ تجاویز گذشتہ برس ایف بی آئی کے ڈائرریکٹر جیمز کومی کو عہدے سے برطرف کرنے کے بعد سامنے آئی تھیں جس پر مختلف وجوہات کے سبب عمل نہیں ہوسکا تھا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے معاملے پر تحقیقات امریکا کے لیے باعث شرم ہے، اسے روکا جائے۔

    یاد رہے کہ نومبر 2016 میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل ماہ اکتوبر میں امریکی حکومت نے روس پر ڈیموکریٹک پارٹی پر سائبر حملوں کا الزام عائد کیا تھا۔

    واضح رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما بھی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کرنے پر روس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

  • بورس جانسن کا عوام میں شہرت کے باعث پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے، جیکب موگ

    بورس جانسن کا عوام میں شہرت کے باعث پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے، جیکب موگ

    لندن : کنزرویٹو پارٹی کے رہنما جیکب موگ نے بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے تھریسا مے پر الزام عائد کیا ہے کہ ’تھریسا مے مسلم خواتین پر طنز کے معاملے پر بورس جانسن سے ذاتی انارکی نکال رہی ہیں‘۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے رہنما جیکب ریس موگ نے سابق وزیر خارجہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بورس جانسن کا پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے اور مذکورہ ٹرائل کا مقصد جانسن کو مستقبل کا لیڈر بننے سے روکنا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برٹش پارلیمنٹ اور کنزرویٹو پارٹی کے رکن نے وزیر اعظم تھریسا مے پر الزام عائد کیا کہ ’تھریسا مے مسلم خواتین پر طنز کی آڑ میں بورس جانسن سے ذاتی دشمنی نکال رہی ہیں‘۔

    برطانیہ کی ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ذرائع نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ سابق وزیر خارجہ کے خلاف کی جانے والی تحقیقات میں کسی قسم کی ذاتی انارکی شامل نہیں ہے۔

    ڈاؤننگ اسٹریٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پارٹی بورس جانسن کے خلاف موصول ہونے والی ہر شکایت پر تحقیقات کرے گی‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پارٹی کو موصول ہونے والی تمام شکایات کی جانچ پڑتال ایک آزاد پینل کرے گا اور وہی پینل جانسن کا معاملہ پارٹی بورڈ کے حوالے کرے گا، جس کے پاس پارٹی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین کو برطرف کرنے کا اختیار ہے۔

    جیکب موگ کا اپنے کالم میں کہنا تھا کہ ’برقعے کے معاملے پر میں بھی بورس جانسن سے اتفاق کرتا ہوں‘ لیکن یہ واضح کردوں کہ برقعے پر پابندی کی حمایت نہیں کرتا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کنزرویٹو پارٹی کے کچھ سینئر رہنماؤں کی جانب سے جانسن کو ’حسد اور نفرت‘ کے باعث نشانہ بنایا جارہا ہے کیوں کہ بورس جانسن نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ان کی شخصیت میں جازبیت ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز معروف مزاحیہ اداکار روون اٹکنسن (مسٹر بین) نے بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جانسن کا بیان ایک اچھا لطیفہ ہے‘ اور انہیں مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے جس پر انہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنے کالم میں کہا تھا کہ مسلمان خواتین برقعہ پہن کر ’لیٹر بُکس‘ اور بینک چوروں کی طرح لگتی ہیں۔ جس کے بعد بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بورس جونسن اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے معافی مانگنے سے بھی انکار کردیا ہے۔