ریاض: سعودی عرب ایک اور پھل کی کاشت میں خود کفیل ہوگیا، مملکت میں پپیتے کی سالانہ پیداوار 4 ہزار ٹن سے تجاوز کر چکی ہے۔
اردو نیوز کے مطابق وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں پپیتے کی کاشت میں کافی بہتری آئی ہے، سالانہ ز ہار ٹن سے زیادہ پپیتے کی کامیاب کاشت کی جا رہی ہے۔
وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت کی جانب سے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب پپیتے کی کاشت میں 95 فیصد تک خود کفیل ہو گیا ہے۔
مملکت میں پپیتے کا سیزن مئی سے اگست تک رہتا ہے، سعودی عرب کے مشرقی ریجن اور جازان کی کمشنری ہروب، ابو عریش ، صبیا اور ضمد میں پپیتے کی کاشت بہترین طریقے سے کی جا رہی ہے۔
اس وقت مشرقی ریجن اور جازان کے علاقے میں مختلف انواع و اقسام کے پپیتوں کی کاشت کامیابی سے کی جارہی ہے جن کی مقامی مارکیٹ میں کافی طلب ہے۔
ماہرین خوراک کا کہنا ہے کہ پپیتا انسانی صحت کے لیے متعدد فوائد کا حامل ہے، پپیتے کے استعمال سے انسان کا دل صحت مند رہتا ہے جبکہ یہ بالوں، ہڈی اور جلد کے لیے کافی مفید ہے۔
مجموعی طور پر پپیتے میں وٹامن، جیم، الف، میگنیشیئم، زنک اور وٹامن بی کے علاوہ کیلشیئم اور پوٹاشیئم کی بھی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں۔
نئی دہلی: بھارت دنیا بھر کی ہائی ٹیک کمپنیز کی اہم مارکیٹ بنتا جارہا ہے، گزشتہ برس بھارت میں آئی فونز کی پروڈکشن میں نمایاں اضافہ ہوا۔
ایپل کی جانب سے کافی عرصے سے بھارت میں آئی فونز کی پروڈکشن کی جارہی ہے مگر اب وہاں ڈیوائسز کی پروڈکشن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران ایپل نے 9.3 ارب ڈالرز مالیت کے آئی فون بھارت میں تیار کیے، مجموعی طور پر ایپل نے بھارت میں آئی فونز کی پروڈکشن میں 3 گنا زیادہ اضافہ کیا ہے۔
مارچ 2023 میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران ایپل نے بھارت سے 5 ارب ڈالرز سے زائد آئی فونز دیگر ممالک میں برآمد کیے جو 2021 کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایپل کے 2022 میں عالمی سطح پر تیار ہونے والے لگ بھگ 7 فیصد آئی فونز کی پروڈکشن بھارت میں ہوئی۔
اس سے قبل 2021 میں آئی فونز کی محض ایک فیصد پروڈکشن بھارت میں ہوئی تھی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایپل کی جانب سے آئی فون 15 سیریز کو چین کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اگر ایسا ہوا تو یہ پہلی بار ہوگا جب نئے آئی فونز کی پروڈکشن بیک وقت 2 ممالک میں ہوں گی۔
ریاض: سعودی عرب مملکت بھر میں تربوز کی پیداوار میں خود کفیل ہوگیا، مملکت میں تربوز کا موسم چھ ماہ تک چلتا ہے۔
اردو نیوز کے مطابق سعودی وزارت ماحولیات، پانی و زراعت نے کہا ہے کہ سعودی عرب تربوز کی پیداوار میں 99 فیصد سے زیادہ خود کفیل ہوگیا ہے، مملکت میں 23 ہزار ہیکٹر سے زیادہ رقبے میں سالانہ 6 لاکھ 24 ہزار ٹن سے زیادہ تربوز پیدا کیا جا رہا ہے۔
وزارت ماحولیات کا کہنا ہے کہ تربوز کی پیداوار میں سو فیصد خود کفیل بننے کے لیے خصوصی پروگرام نافذ کیا جارہا ہے جسے ریف کا عنوان دیا گیا ہے۔
مملکت میں تربوز کا موسم چھ ماہ تک چلتا ہے، اس کی کاشت کی شروعات فروری کے آخر میں ہوتی ہے اور اس کے سو دن بعد تربوز تیار ہو جاتے ہیں۔
سعودی عرب میں تربوز کے دو موسم ہیں، پہلا موسم ستمبر میں آتا ہے، اس دوران تربوزکی فصل کو شدید ٹھنڈ سے بچانے کے لیے ڈھک دیا جاتا ہے۔
فروری سے مارچ کے آخر تک اس کا اہتمام کیا جاتا ہے، پہلے موسم کا پھل زراعت کے 90 دن سے لے کر 120 دن تک آتا رہتا ہے، مملکت کے بیشترعلاقوں میں اس کی کاشت ہوتی ہے۔
تربوز کی کاشت زیادہ تر ریاض، الجوف، حائل، مکہ مکرمہ، القصیم اور جازان میں ہوتی ہے۔
تربوز مملکت بھر میں پسند کیا جانے والا پھل ہے، سعودی حکومت تربوز کا موسم شروع ہونے پر اللیث سمیت مختلف علاقوں میں تربوز میلہ لگاتی ہے۔
اسلام آباد: موجودہ حکومت کی بدلتی پالیسیز نے صنعتی ترقی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور صنعتکاروں کے لیے صنعتیں چلانا مشکل ہوگیا ہے۔
رواں مالی سال 23-2022 کے ابتدائی 2 ماہ میں مختلف صنعتیں شدید گھاٹے میں رہیں۔
ٹیکسٹائل کی صنعت میں 3 فیصد، پیٹرولیم کی صنعت میں 16 فیصد اور ادویہ سازی کی صنعت میں 32 فیصد کمی آئی۔
آٹو انڈسٹری کی پیداوار میں 19 فیصد اور مشینری کی پیداوار میں 38 فیصد کمی آئی ہے۔
صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں گیس اور بجلی بہت مہنگی کردی گئی ہے، ٹیکسز اور مارک اپ میں اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ قرضوں کی شرح سود بھی بڑھا دی گئی ہے۔
ایسی صورت میں یہاں مال تیار کرنا اور ایکسپورٹ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ وہی اشیا دیگر ممالک سستے داموں فروخت کر رہے ہیں، ان حالات میں ہم باہر کی مارکیٹس سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔
ایک اور صنعتکار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں ایکسپورٹ انڈسٹری تباہ ہوچکی ہے، تعمیری صنعت کا بھٹہ بیٹھ گیا، خام مال کی قیمت آج الگ ہوتی ہے چار دن بعد اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔
تاجروں اور صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہی روش اپنائے رہی تو ملکی معیشت تباہی کے گڑھے میں جا گرے گی۔
ریاض: سعودی عرب اپنی مشہور کافی کے بیجوں کی پیداوار کو دگنا کرے گا، اس کے لیے کسانوں کو آب پاشی کے جدید آلات اور پودوں کی صورت میں مدد فراہم کرنی شروع کردی گئی ہے۔
اردو نیوز کے مطابق سعودی عرب کا الباحہ شہر اپنی مشہور شداوی کافی بینز کی پیداوار کو دوگنا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، یہ ایک انیشیٹو ہے جس سے خطے کے لیے روزگار اور آمدنی پیدا ہوگی۔
الباحہ میں 200 سے زیادہ فارمز ہیں جہاں 22 ہزار سے زیادہ درخت ہیں جو اعلیٰ ترین معیار کی بینز اگاتے ہیں، الباحہ میں 1.6 ملین مربع میٹر کا مجموعی رقبہ دستیاب ہے جس میں 3 لاکھ درختوں کی گنجائش ہے۔
ریجن میں ماحولیات، پانی اور زراعت کی وزارت کے ڈائریکٹر فہد بن مفتاح الزہرانی نے کہا کہ کافی کی پیداوار میں 100 فیصد اضافہ ہوگا، اس سے ایک ہزار نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔ اس میں ایک کاروباری، تربیتی اور نمائشی مرکز ہوگا جو اس ریجن کو ایک الگ زرعی سیاحت کی منزل بنائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہاڑی علاقے میں درختوں کو پھلنے پھولنے کے لیے احتیاط سے کاشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
وزارت نے کسانوں کو پانی کے ذرائع تک رسائی اور 60 سے 240 ٹن تک ذخیرہ کرنے کے لیے ٹینک فراہم کرنا شروع کیے ہیں، کسانوں کو آب پاشی کے جدید آلات اور پودوں کی صورت میں بھی مدد فراہم کی گئی ہے، اس انیشیٹو سے اب تک 122 کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔
اس کے علاوہ، وزارت اپنے دیہی پروگرام کے ذریعے چھوٹے کسانوں کے لیے مالی مدد فراہم کر رہی ہے جس سے انہیں کافی بینز کی پیداوار، تیاری اور مارکیٹنگ میں مدد ملے گی۔
اسلام آباد: ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ چینی کی پیداوار بڑھ کر 7.5 ملین ٹن ہوگئی، یہ پیداوار گزشتہ سال 5.5 ملین ٹن سے 36.3 فیصد زیادہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی کی پیداوار بڑھ کر 7.5 ملین ٹن ہوگئی ہے۔
مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ یہ پیداوار گزشتہ سال 5.5 ملین ٹن سے 36.3 فیصد زیادہ ہے۔
Great news this year sugar production rose to 7.5 million tones, which is 36.3% higher from last year 5.5mn tones. Another record in place by PTI government!
اپنے ٹویٹ میں ترجمان نے کہا کہ یہ تحریک انصاف حکومت نے ایک اور ریکارڈ قائم کیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس کے آخر میں ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ جولائی تا اکتوبر سالانہ بنیادوں پر بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 3.56 فیصد اضافہ ہوا۔
ادارہ شماریات کے مطابق مذکورہ عرصے میں ٹیکسٹائل، فوڈ، مشروبات، تمباکو، فارما سیوٹیکل، آٹو موبیل اور آئرن مصنوعات کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا۔
کنری، سندھ: 28 سالہ شاد بی بی فصل سے مرچیں توڑنے میں مصروف ہیں، ان کے ساتھ ایک کمسن بچی، ایک شیر خوار بچے کو گود میں لیے موجود ہے۔ شیر خوار بچے نے رونا شروع کیا تو کچھ دیر بعد شاد بی بی نے مرچوں والے ہاتھوں سے ہی بچے کو اٹھایا اور اسے دودھ پلانے لگیں۔
ماں کے مرچ والے ہاتھ بچے کے چہرے پر لگے تو اس کے رونے میں اضافہ ہوگیا، تاہم تھوڑی دیر بعد وہ دودھ پیتے ہوئے چپ ہوچکا تھا، اس کی سرخ جلد جلن اور سوزش کا پتہ دے رہی تھی۔
یہ ایک معمول کا منظر ہے جو کنری کی مرچوں کی فصلوں میں نظر آتا ہے، یہاں مرچ توڑنے والی خواتین کی جلد اور آنکھوں کی جلن اور دیگر مسائل عام ہیں۔
بچے بھی اس سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں، پورے شہر کی فضا میں مرچوں کی دھانس ہے جو یہاں رہنے والوں کا سانس لینا دو بھر کیے ہوئے ہے۔
صوبہ سندھ کا علاقہ کنری سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور ہے اور یہاں لگنے والی منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے، تاہم مرچ کے کھیتوں اور منڈی میں کام کرنے والے کاشت کاروں اور تاجروں کی زندگی اتنی آسان نہیں۔
سرخ مرچوں کی کاشت کے لیے مشہور کنری، ضلع عمر کوٹ میں ہے جو ملک بھر میں فراہم کی جانے والی مرچ کا 85 فیصد پیدا کرتا ہے، یہ منافع بخش فصل سندھ کے دیگر مختلف علاقوں اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی اگائی جاتی ہے تاہم کنری کو اس حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کنری میں 80 سے 90 ہزار ایکڑ رقبے پر مرچ کاشت کی جاتی ہے
ایک زمانے میں کنری میں لگنے والی منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا، یہاں لگنے والی فصل ملک کی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد کی حصے دار ہے۔
سرخ مرچ کی فصل اگست سے تیار ہونا شروع ہوتی ہے اور اکتوبر تک یہ سرخ ہو کر مکمل طور پر تیار ہوجاتی ہے۔ کھیتوں سے چنائی کے بعد اسے منڈی لے جایا جاتا ہے جہاں اس کی نیلامی اور فروخت ہوتی ہے، یہ سلسلہ جنوری یا فروری تک جاری رہتا ہے۔
اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں کنری کی مرچ کی طلب زیادہ ہے
کنری کی مرچ اپنے تیکھے پن کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور اسی تیکھے پن کی وجہ سے اس کی طلب اور قیمت دیگر علاقوں میں اگنے والی مرچ سے زیادہ ہے، تاہم اس کی وہ قیمت نگاہوں سے اوجھل ہے جو اس فصل کے کاشت کاروں اور محنت کشوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
میرپور خاص اور کنری میں سرگرم عمل سماجی کارکن واجد لغاری بتاتے ہیں کہ مرچوں کی چنائی اور اس کی تجارت محنت کشوں کی صحت پر نہایت سخت اثرات مرتب کرتی ہے۔
ان کے مطابق کھیتوں سے مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، یہ محنت کش خواتین کھیتوں میں آتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے آتی ہیں جن میں شیر خوار اور بڑی عمر کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔
فصلوں سے اتارنے کے بعد مرچوں کو سکھایا جاتا ہے
بچوں کی نازک جلد مرچوں کا تیکھا پن برداشت نہیں کر پاتی لہٰذا بچے مختلف جلدی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، عموماً ان کی جلد پر زخم بن جاتے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
مرچیں توڑنے والی خواتین بھی مختلف طبی مسائل کا شکار ہوتی ہیں جن میں ہاتھوں اور چہرے پر جلن، خراشیں اور پھر ان کا زخم بن جانا، کھانسی اور گلے کی خراش عام مسائل ہیں۔
شہر کے وسط میں واقع مرچ منڈی
چنائی کے بعد مرچیں نیلامی اور فروخت کے لیے منڈی میں لائی جاتی ہیں جو شہر کے وسط میں واقع ہے۔ صوبائی محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر نہال دیپ کا کہنا ہے کہ آج سے 4 دہائیاں قبل جب یہ منڈی قائم کی گئی اس وقت کنری شہر میں اتنی آبادی نہیں تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی جس کے بعد اب یہ منڈی شہر اور آبادی کے وسط میں آچکی ہے۔
واجد لغاری بتاتے ہیں کہ منڈی میں لائے جانے کے بعد جیسے جیسے مرچیں سوکھتی جاتی ہیں ویسے ویسے ان کا تیکھا پن شدید اور نقصانات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، پورے شہر کی فضا میں تیکھا پن اور دھانس موجود ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔
کنری کی مرچ منڈی ایشیا کی بڑی مرچ منڈیوں میں سے ایک ہے
ان کے مطابق جن دنوں مرچ کی فصل عروج پر ہو ان دنوں اس کی دھانس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ آس پاس کے دکاندار اپنی دکانیں بند رکھتے ہیں جبکہ شہریوں کا سانس لینا دو بھر ہوجاتا ہے۔ نہ صرف منڈی کے آس پاس کی آبادیاں بلکہ پورا شہر ہی مجموعی طور پر مختلف مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔
واجد لغاری کا کہنا ہے کہ اس کاروبار سے منسلک محنت کشوں کو مختلف سانس کے اور جلدی مسائل عام ہیں، سانس کی نالیوں میں زخم ہو جانا، کھانسی، پھیپھڑوں کی خرابی، دمہ، جلد پر جلن، خراشیں اور زخموں کا بن جانا عام امراض ہیں۔
تمام امراض کے علاج کے لیے ایک اسپیشلسٹ
کنری تعلقہ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر مبارک علی درس کہتے ہیں کہ مرچ کی چنائی کے سیزن میں شہر بھر میں مختلف امراض میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان دنوں پورے شہر کی فضا میں مرچ کی دھانس ہوتی ہے اور خصوصاً منڈی کے قریب رہنے والے افراد نہایت تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک کے مطابق ان دنوں بزرگ، بچے اور ایسے افراد جو پہلے ہی سانس کے مسائل کا شکار ہوں ان کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جنہیں سانس کے مسائل، کھانسی اور آنکھوں اور جلد پر جلن کی شکایات ہوں۔ اسی طرح مرچ کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی جسم پر زخموں کی تکلیف کے ساتھ کنری کے واحد سرکاری اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہی تمام طبی مسائل چھوٹے بچوں کو بھی لاحق ہوجاتے ہیں اور کمزور قوت مدافعت کی وجہ سے وہ زیادہ شدت سے ان کا شکار ہوتے ہیں۔
مرچوں کی چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں
ڈاکٹر مبارک کے مطابق کنری میں صرف ایک ہی چیسٹ اسپیشلسٹ موجود ہے جو ضلعے کی تمام آبادی کے لیے ناکافی ہے، ان کے علاوہ علاقے میں آنکھوں یا جلد کا کوئی اسپیشلسٹ موجود نہیں۔
ایم ایس کا کہنا تھا کہ مرچوں کی دھانس سے متاثرہ مریض جب اسپتال آتے ہیں تو انہیں تاکید کی جاتی ہے کہ وہ خرابی طبیعت کی شدت سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور مرچوں کا کام کرنے والے دستانے ضرور پہنیں، ’لوگ سن کر اس پر ایک دو دن عمل کرتے ہیں، اس کے بعد تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں‘۔
نئی منڈی جو 14 سال سے زیر تعمیر ہے
کنری کے رہائشی اور مرچ کے کاروبار سے منسلک عظیم میمن بتاتے ہیں کہ سنہ 2007 میں کنری شہر سے باہر نئی مرچ منڈی کی تعمیر کی منظوری دی گئی جس کے لیے فنڈ بھی جاری کیے گئے اور فوری طور پر تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔
لیکن 14 برس گزر چکے ہیں اس منڈی کی تعمیر کا کام تاحال ادھورا ہے، یہ منصوبہ میگا کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔
اس منڈی کی تعمیر کا ابتدائی مجموعی تخمینہ 16 کروڑ روپے تھا جو فوراً جاری کردیے گئے تھے، تاہم اس وقت منڈی کی تعمیر میں نہایت ناقص مٹیریل کا استعمال کیا گیا۔ اس کے ہر کچھ عرصے بعد منڈی کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کے فنڈز جاری کیے جاتے رہے۔
سنہ 2017 میں نیب کراچی کے حکام نے منڈی کی تعمیر میں ہونے والی کرپشن کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا اور متعلقہ افسران سے پوچھ گچھ شروع کردی۔
عظیم میمن کا کہنا ہے کہ ان 14 سالوں میں منڈی کی تعمیر کے لیے 60 سے 70 کروڑ روپے جاری کیے جاچکے ہیں اور تاحال اس کی تعمیر مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس دوران بنائی گئی چند دکانیں ناقص مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوچکی ہیں۔
ان کے مطابق مرچ منڈی کی شہر سے باہر منتقلی سے شہریوں کی زندگی کچھ آسان ہوجائے گی اور شہر میں پھیلے مختلف امراض میں بھی کمی آئے گی۔ لیکن اس کا انحصار نئی منڈی کی تعمیر پر ہے، ’ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ جلد سے جلد اس منڈی کی تعمیر مکمل ہو اور ہم سکون کا سانس لے سکیں‘۔
سندھی اور اردو زبان کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے اپنی وائی میں لکھا ہے، جب ڈالیوں پر سرخ گلاب کھلیں گے، ہم تب ملیں گے۔ رواں سال وبا کے بیچ جب سرخ گلاب کھلے، تو عاشقوں کو محبوب سے ملن کا موقع تو مل گیا، لیکن فکر معاش نے انہیں کھل کر خوش ہونے نہ دیا۔
میلوں تک پھیلا کھیت اور اس پر جا بجا لگے سرخ گلاب، دیکھنے میں تو سحر انگیز منظر ہے، لیکن اپنے نگہبانوں کے لیے ایک پریشان کن نظارہ، جو جانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا نے اس سال ان پھولوں کے نصیب میں خاک میں مل جانا لکھا ہے۔
کرونا وائرس کی وبا نے جہاں پوری دنیا کو معطل کیا اور عالمی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، وہیں سرخ گلابوں کا کاروبار بھی ایسا ٹھپ ہوا کہ اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے چولہے سرد ہوگئے۔
گلشن کا مہکتا ہوا کاروبار
صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد، مٹیاری اور ٹنڈو الہٰ یار گلاب کی کاشت کے مرکز ہیں۔ یہاں لگے گلاب کے کھیت نہ صرف مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ انہیں باہر بھی بھیجا جاتا ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ مقامی استعمال سے زیادہ فائدہ مند بیرون ملک ایکسپورٹ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف ایکسپورٹ بلکہ مقامی کھپت بھی بے حد متاثر ہوئی اور گلاب کے کاروبار سے جڑے لوگوں کی زندگیوں میں معاشی بدحالی در آئی۔
کبیر حسین منگوانو مٹیاری میں 40 ایکڑ زمین کے مالک ہیں جس پر گلاب کاشت کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران گلاب کی مقامی کھپت میں 50 فیصد کمی آئی جبکہ بیرون ملک ایکسپورٹ مکمل طور پر رک گئی، اور گلاب کی پتیوں سے بھرے بورے یونہی گوداموں میں پڑے رہ گئے۔
کبیر حسین کے مطابق گلاب کا موسم سارا سال رہتا ہے لیکن کچھ ماہ ایسے ہیں جنہیں اس کا سیزن کہا جاتا ہے، یہ سیزن پیداوار کا بھی ہوتا ہے اور استعمال کا بھی۔ سیزن کے دوران ان کے 40 ایکڑ کے فارم سے روزانہ 2 سے ڈھائی ہزار کلو گلاب پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ یہ تعداد گھٹ کر 5 سو سے 6 سو کلو یومیہ چلی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گلابوں کا زیادہ استعمال درگاہوں میں کیا جاتا ہے، کرونا کی وبا سے پہلے کراچی کی صرف ایک عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ پر یومیہ 15 سو سے 2 ہزار کلو پھولوں کی پتیاں فروخت کی جاتی تھیں، درگاہوں پر پھولوں کی کئی مختلف دکانیں ہوتی ہیں اور یہ ان کی روزانہ مجموعی کھپت تھی، لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے اس کھپت میں 50 فیصد کمی ہوئی۔ کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں سال کا زیادہ تر حصہ درگاہیں اور مزارات ویسے بھی بند رہے، اور جب کھلے تب بھی لوگوں کی آمد و رفت پہلے جیسی نہیں تھی۔
گلاب کا دوسرا استعمال دواؤں اور کاسمیٹکس میں کیا جاتا ہے جبکہ گلقند بھی بنایا جاتا ہے، اور پھر اس کا سب سے بڑا حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔ برآمد کیا جانے والے حصہ گلاب کی خشک پتیاں ہوتی ہیں جنہیں سکھایا جاتا ہے اور پھر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ خشک پتیاں یورپ اور عرب ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں اور وہاں انہیں دواؤں اور کاسمیٹکس کے علاوہ چائے کی پتی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
گلاب کی کاشت کے حوالے سے کبیر حسین منگوانو نے بتایا کہ گلاب کو قدرتی اور آرگینک طریقے سے اگایا جاتا ہے اور مصنوعی کھاد یا کیڑے مار ادویات استعمال نہیں کی جاتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک درآمد کرنے کے بعد ان پتیوں کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اگر اس پر کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے جائیں تو ایسی چیز کو دوا یا کاسمیٹکس میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس سے مقامی بیوپاری اور پھر کاشت کار کے منافع پر فرق پڑتا ہے۔
گلاب کا پودا لگائے جانے کے بعد بڑھتا رہتا ہے اور ایک خاص حد تک بڑھنے کے بعد اسے تراش دیا جاتا ہے جس کے صرف 40 دن کے اندر وہ پھر سے گلاب کی پیداوار شروع کردیتا ہے۔ ایک پودے کی اوسط عمر 2 سال ہوتی ہے۔
گلاب کی چنائی کے لیے مقامی افراد کو رکھا جاتا ہے جو ان کا ذریعہ روزگار بن جاتا ہے۔ کبیر حسین منگوانو کے فارم پر کام کرنے والی روپی بھی انہی میں سے ایک ہے۔
روپی قریبی گاؤں دودو منگوانو کی رہائشی ہے اور وہ خود، اس کا شوہر اور بڑی عمر کے بچے سب ہی اس کام سے وابستہ ہیں۔ روپی کا کہنا ہے کہ ان کی ایک طے کردہ مزدوری ہوتی ہے جو کلو کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ یعنی جتنے کلو وہ پھول توڑتے ہیں اس حساب سے انہیں مزدوری ملتی ہے۔
روزانہ صبح 5 بجے فارم پر آجانے والی روپی خاصی بے دردی سے پھول توڑتی دکھائی دیتی ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اسے کم وقت میں زیادہ پھول توڑنے ہیں، اگر وہ نرمی و نزاکت سے پھول توڑنے لگے تو اس کے روز کے کوٹے میں فرق پڑے گا اور اجرت میں کمی آئے گی جو پہلے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے خاصی کم ہوچکی ہے۔
فارم پر کام کرنے والا ہر شخص روزانہ اوسطاً 12 سے 15 کلو پھول توڑتا ہے۔ روپی اور اس جیسے سینکڑوں مرد و خواتین اور بچے صبح ہی پھول توڑ کر انہیں بوریوں میں جمع کرتے جاتے ہیں، ان بوریوں کا وزن کیا جاتا ہے، اور پھر شہر سے آنے والی گاڑیاں انہیں لے کر روانہ ہوجاتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں برف کی سلیں بھی موجود ہوتی ہیں جو ان پھولوں کو تازہ رکھتی ہیں۔
چنے گئے پھول مارکیٹ بھجوائے جارہے ہیں
کبیر حسین منگوانو اور ان جیسے دیگر کئی کھیت مالکان کے فارم سے چلنے والی گاڑیاں کراچی کے علاقے تین ہٹی آ پہنچتی ہیں۔ یہ گلابوں کی منڈی کہلاتی ہے اور یہاں سے پورے شہر میں گلاب سپلائی کیے جاتے ہیں۔ یہاں پھولوں کی نیلامی اور خرید و فروخت کا عمل انجام پاتا ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والے دکاندار یہاں سے مختلف قیمتوں میں پھول اور پتیاں خریدتے ہیں، بعض اوقات وہ گلابوں کی چھانٹی بھی کرتے ہیں، اچھے اور بڑے گلابوں کی زیادہ قیمت بھی دے دیتے ہیں جبکہ چھوٹے گلاب کم قیمت میں بکتے ہیں۔
دلدار احمد کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں پھولوں کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی قواعد و ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے منڈی سے پھولوں کی فروخت 50 روپے سے لے کر، 60، 70 یا 100 سو روپے فی کلو بھی ہوتی ہے۔ چونکہ یہاں سے مختلف داموں پر خریداری ہوتی ہے، لہٰذا دکاندار آگے جا کر اپنی دکان پر بھی مختلف قیمت پر پھول فروخت کرتے ہیں۔
دلدار احمد کی دکان سے زیادہ تر شادی ہالز یا شادی کے گھروں میں پھول جاتے ہیں، لیکن کرونا وائرس کے دوران شادیوں میں سادگی کا رجحان بڑھ گیا جس سے ان کے کاروبار پر بھی فرق پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ پھولوں کی فروخت کا ایک روز شب برات بھی ہوتا ہے۔ اس دن پھولوں اور پتیوں کی فروخت دگنی تگنی ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ بعض فارم مالکان شب برات کے موقع پر خود ہی تین ہٹی آتے ہیں اور خرید و فروخت کے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔
کبیر حسین منگوانو کے فارم سے کچھ فاصلے پر گوادم ہے جہاں ایکسپورٹ ہونے والی پتیاں سکھائی جاتی ہیں، ان پتیوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے بعد ازاں بوروں میں بھر کر ایکسپورٹ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم کرونا وائرس کی وجہ سے امپورٹ ایکسپورٹ رک گئی تو پتیوں کے بورے گوداموں میں ہی پڑے رہ گئے۔
گلاب کی پتیاں سکھا کر انہیں ایکسپورٹ کیا جاتا ہےوبا کے دوران راستے بند ہونے سے پتیاں ایکسپورٹ نہ کی جاسکیں
گلاب سکھانے کے لیے استعمال کیے جانے والے گودام اکثر فارم مالکان ہی کی ملکیت ہوتے ہیں، ان کا شکوہ ہے کہ انہیں ایکسپورٹ تک براہ راست رسائی حاصل نہیں اور اس کے لیے انہیں درمیان میں بیوپاریوں اور ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کی مدد لینی پڑتی ہے جس سے منافعے میں کمی آتی ہے۔
کلائمٹ چینج سے پھولوں کی پیداوار متاثر
دنیا بھر میں بدلتے ہوئے موسم نے فصلوں کی تمام اقسام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور پھول بھی انہی میں سے ایک ہیں۔
ہارٹی کلچر سوسائٹی سے وابستہ ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ پھولوں کی فصل کا دارومدار دن میں سورج کی روشنی کی مدت پر ہوتا ہے، سورج کی تمازت میں کمی یا زیادتی بھی پھولوں کے کھلنے اور ان کی افزائش کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں مون سون کا سیزن تبدیل ہورہا ہے یعنی جن مہینوں میں بارشیں ہونا تھیں ان میں نہیں ہو رہیں جبکہ جن مہینوں میں بارشوں کا امکان نہیں ہوتا ان دنوں بادل برس رہے ہیں۔ یہ تبدیلی سب ہی فصلوں پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
علاوہ ازیں پانی کی کمی بھی تمام پھولوں کی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔
رفیع الحق نے کہا کہ گلاب کے پھولوں کی چنائی، ان کی مقامی طور پر فروخت اور درآمد سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے، پھولوں کی پیداوار میں کمی سے انفرادی اور مجموعی طور پر بھی منفی معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔
واشنگٹن: سائنس دانوں کو ایک تحقیق سے علم ہوا ہے کہ پودوں کے RNA میں تبدیلی سے ان کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ کیا جا سکتا ہے اور وہ خشک سالی کے حالات میں بھی زیادہ مزاحمت کر سکتے ہیں۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یونیورسٹی آف شکاگو، پیکنگ یونیورسٹی اور گوئی چو یونیورسٹی کی ٹیم نے آلو اور چاول کے پودوں میں ایک جین کا اضافہ کیا جسے ایف ٹی او کہا جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں ان میں خوراک پیدا کرنے کا عمل یعنی فوٹو سینتھسس کا سبب بننے والے عوامل میں اضافہ ہوا اور نتیجتاً پودے زیادہ بڑے بھی ہوئے اور ان کی پیداوار بھی کہیں زیادہ ہوئی۔
تجربہ گاہ میں انہوں نے اصل سے تین گنا زیادہ پیداوار فراہم کی جبکہ کھیتوں میں 50 فیصد زیادہ، ان کا جڑوں کا نظام بھی کہیں زیادہ بڑا نظر آیا جس کی وجہ سے وہ خشک سالی کی صورت میں زیادہ مزاحمت بھی دکھا رہے ہیں۔
تحقیق میں شامل چوان ہی کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی واقعی حیران کن ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ تکنیک اب تک ہر پودے پر کام کرتی دکھائی دے رہی ہے اور عمل بھی سادہ ہے۔
کیمسٹری، بائیو کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی کے معروف پروفیسر چوان ہی کہتے ہیں کہ ہم پودوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، لکڑی کے حصول سے لے کر خوراک، ادویات، پھولوں اور تیل تک ، یہ طریقہ پودوں سے حاصل کردہ ان چیزوں کی پیداوار بڑھانے کا بھی ذریعہ بنے گا۔
ان کے مطابق اس سے گلوبل وارمنگ کے اس ماحول میں پودوں کو بہتر بنانے کا موقع بھی ملے گا۔
یاد رہے کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب اس وقت غذائی تحفظ یا فوڈ سیکیورٹی بہت بڑا مسئلہ ہے جو کلائمٹ چینج، عالمی حدت اور ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے مستقبل قریب میں دنیا کو پیش آسکتا ہے۔
کراچی: مالی سال 21-2020 کی دوسری سہ ماہی میں ملک میں تیل کی پیداوار میں 6 فیصد اور گیس کی پیداوار میں 4 فیصد کمی ہوئی۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں تیل اور گیس کی دریافت سے متعلق رپورٹ جاری کردی گئی، رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں تیل کی پیداوار میں 6 فیصد کمی ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں گیس کی پیداوار میں 4 فیصد کمی ہوئی، دوسری سہ ماہی میں 5 آئل فیلڈز اور 4 گیس فیلڈز شامل ہوئیں۔ خام تیل کی پیداوار 6 فیصد کمی سے 76 ہزار 331 بیرل یومیہ پر آگئی۔
رپورٹ کے مطابق مردان خیل اور مکوڑی آئل فیلڈز سے پیداوار میں کمی سے خام تیل کی پیدوار میں پچھلے سال کے مقابلے میں 6 فیصد کمی ہوئی، چندا، مرم زئی اور مکوڑی ایسٹ سے خام تیل کی پیداوار میں 5 سے 46 فیصد تک اضافہ ہوا۔
رواں مالی کی دوسری سہ ماہی میں گیس کی پیداوار 4 فیصد کم ہو کر 3 ہزار 409 ایم ایم سی ایف ڈی رہ گئی، کنڈھ کوٹ اور قادر پور گیس فیلڈ سے 6 سے 18 فیصد ہیداوار میں کمی ہوئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 4 نئی گیس فیلڈز سے 20 ایم ایم سی ایف ڈی اضافی گیس سسٹم میں شامل ہوئی۔