Tag: Prophet Muhammad

  • ترکی میں حضورﷺ کے جبہ مبارک کی زیارت جاری

    ترکی میں حضورﷺ کے جبہ مبارک کی زیارت جاری

    انقرہ:رمضان المبارک کے موقع پر ترکی میں حضورﷺ کا جبہ مبارک لوگوں کی زیارت کے لیے رکھ دیا گیا ہے، یہ جبہ حضرت اویس قرنی ؓ کے خاندان کے پاس رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کاٹن ، ریشم اور لیلن سے تیار کیے گئے جبہ مبارک سے متعلق روایت ہے کہ اسے حضورﷺ نے زیب تن کیا تھا اور خلافت عثمانیہ کے دور میں 17 ویں صدی میں اسے استنبول لایا گیا تھا۔ ہرسال ماہ رمضان میں مقامی افراد اورسیاحوں کی بڑی تعداد

    جبہ مبارک کی زیارت کے لیے آتی ہے۔

    رمضان کے پہلے جمعے سے لے کر پورا ماہ جبہ مبارک کو عام نمائش کیلئے رکھا جاتا ہے۔اس سلسلے میں ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں حضرت اویس قرنی کے خاندان کے ایک فرد اور سرکاری اہلکاروں نے شرکت کی۔ لوگوں کی بڑی تعداد جبہ مبارک کی زیارت کیلئے پہنچی تھی۔

    مذکورہ جبہ مبارک حضرت اویس قرنی کو اس وقت دیا گیا تھا جب وہ حضرت محمدﷺ سے ملنے مدینہ تشریف لے گئے لیکن ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ حضورﷺ کو جب علم ہوا تو انہوں نے اپنے ساتھوں کے ہاتھ مذکورہ جبہ حضرت اویس قرنی کے لیے یمن بھجوایا تھا۔

    حضرت اویس قرنی کی کوئی اولاد نہیں تھی لہذا وفات کے بعد جبہ مبارک ان کے بھائی کے پاس چلا گیا اور اب تک ان کے خاندان کے پاس ہے۔17 ویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان احمد اول نے اویس قرنی کے خاندان سے جبہ مبارک استنبول لانے کی درخواست کی اور اس وقت سے ترکی میں ہی محفوظ ہے۔

    استنبول میں منتقل کرنے کے بعد اسے ایک شیشے کے باکس میں رکھا گیا جس کی ایک چابی سلطان احمد اول اوردوسری حضرت اویس قرنی کے خاندان کو دی گئی۔16 ویں صدی میں جب سلطان سلیم نے مصر پر حملہ کیا تو اس وقت بھی حضورﷺ سے نسبت رکھنے والی بہت ساری اشیا کو ترکی منتقل کیا گیا تھا جس میں حضورﷺ کا دانت، نعلین مبارک، مے مبارک اور پانی پینے والا پیالہ بھی شامل ہیں۔

  • سات سو سال تک زندہ رہنے والے ہندوستانی صحابی رسولؓ

    سات سو سال تک زندہ رہنے والے ہندوستانی صحابی رسولؓ

    کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی بھارت کے ایک شہر بھٹنڈہ میں آسودۂ خاک ہیں، ان کی وہاں موجودگی سےآج بھی لوگ فیض حاصل کررہے ہیں۔

    بھارتی شہربھٹنڈہ سے تعلق رکھنے والے بابا رتن ہندی کا نام رتن ناتھ ابن نصر ہے اورروایت کے مطابق وہ ایک تاجر تھے ، جو کہ عرب ممالک میں اپنے مال کی فروخت کے لیے جایا کرتے تھے ۔

    بابا رتن ہندی کا تذکرہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی تصنیف ’الصحابہ جلد اول‘ میں کیا ہے۔علاؤ الدین سمنانی نے اپنی کتاب فصل الخطاب میں ان کا ذکر کیا ہے جبکہ شاہ ولی علی اللہ نے بھی ان کا تذکرہ کیا ہے، معروف مصنف اشفاق احمد نے بھی اپنی مشہورزمانہ تصنیف زاویہ میں ان سے منسوب ایک کرامت کا تذکرہ کیا ہے ۔

    روایت ہے کہ رتن ہندی اپنی جوانی میں عرب کا سفر کررہے تھے کہ ایک خوبصورت کمسن چرواہے کو ، جس کی عمر سات سال کے لگ بھگ تھی ، انہوں نے مشکل میں دیکھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی تو اس حسین نقوش کے حامل بچے نے حیرت انگیز طور پر انہیں سات بار دعا دی کہ ’اللہ تمہیں طویل عمر عطا کرے‘۔

    رتن اس کے بعد واپس ہند لوٹ آئے اور اپنے کاروبارِ حیات میں مشغول ہوگئے ،لگ بھگ 50 سال بعد ہند والوں نے شق القمر کا واقعہ دیکھا تو اس کا خوب تذکرہ ہوا، عرب سے آنے والے قافلے والوں نے بتایا کہ یہ کام وہاں قیام پذیر ایک ’اوتار‘ ( الہیٰ نمائندے ) نے کیا ہے ۔ یہ سن کر بابا رتن ہندی کے دل میں خواہش ہوئی کہ وہ اس اوتار کی زیارت کریں ، سو ایک بار پھر سامانِ تجارت لیا اور عرب کےسفر پر روانہ ہوئے ۔ مکے پہنچے توپتا چلا کہ چاند کے دو ٹکرے کرنے والی شخصیت یہاں سے جاچکی ہے اور اب مدینے میں قیام پذیر ہے۔

    اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے رتن ہندی مدینے چلے آئے اور سیدھے مسجدِ نبوی ﷺ پہنچے تو دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اصحاب کے جھرمٹ میں بیٹھے انہیں تعلیم فرما رہے ہیں۔ رتن کی آمد پر وہ ا ن کی جانب متوجہ ہوئے اور آمد کا مقصددریا فت کیا تو انہوں نے کہا کہ معجزہ دیکھنا چاہتا ہوں۔

    ہند سے مدینے آنے والے اس تاجر کی بات پراللہ کے رسول ﷺ شفقت سے مسکرائے اور فرمایا کہ اے رتن ہندی! کیا بچپن میں جو میں نے تجھے طویل عمر کی دعا دی تھی ، وہ مجھ پر ایمان لانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ سننا تھا کہ رتن ناتھ نے کلمہ حق بلند کیا اور حضرت رتن رضی اللہ تعالی ٰ عنہہ قرار پائے۔

    اس سےآگے روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ وہ پھر وہیں زندگی بھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہے ، کچھ کے نزدیک وہ چند دن وہاں گزار کر واپس اپنے وطن بھٹنڈہ لوٹ آئے اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت شروع کی۔

    مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بچپن میں دی دعا کی برکت سے وہ سات سو سال تک زندہ رہے اور برصغیر میں دین کی تبلیغ کرتے رہے۔شیخ رضی الدین علی ابن سعید لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے 624 ہجری میں ہند کا دورہ کیا تو حضرت رت ہندی حیات تھے ، اور انہوں نے شیخ کو خود رسول اللہ ﷺ کی مجلس کا آنکھوں دیکھا حال سنایا تھا۔