Tag: PROTEIN

  • بادام اور اخروٹ : گوشت سے پرہیز کرنے والوں کیلیے بہترین متبادل

    بادام اور اخروٹ : گوشت سے پرہیز کرنے والوں کیلیے بہترین متبادل

    اپنی غذا میں بادام اور اخروٹ جیسےگری دار میوے شامل کرنا کئی ضروری غذائی اجزاء کی مقدار کو یقینی بنانے کا ایک مؤثر طریقہ اور متعدد بیماریوں سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    بادام اور اخروٹ یہ دو ایسی سوغاتیں ہیں جو اپنے ذائقے اور افادیت کی بدولت میوہ جات میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ بادام کو تو میوہ جات میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا کی اشیاء شمار کیا جاتا ہے۔

    یہ دونوں ہی ان تمام بنیادی غذائی عناصر سے بھرپور ہیں جو یاد داشت اور دماغ کی عام کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔

    خشک میوہ جات بادام اور اخروٹ، گوشت کے استعمال سے دور بھاگنے والے سبزی خوروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، جو افراد گوشت نہیں کھاتے وہ ان میووں کے استعمال سے پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔

    بھارتی اخبار میں شائع ہونے والی یک رپورٹ میں ان دونوں میوہ جات کی غذائی خصوصیات اور دماغ کی مضبوطی کے لیے ان کی صفات کا موازنہ کیا گیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ صحت کو بہتر بنانے کے لیے ان میں سے خاص چیزکون سی ہے؟

    بادام

    بادام کو ڈرائی فروٹ یعنی خشک میوہ جات کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے، تقریباً 23 باداموں میں 164کیلوریز، 14 گرام فیٹ، 6 گرام پروٹین، 6 گرام کاربز جبکہ 3.5 گرام فائبر پایا جاتا ہے۔

    بادام سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں خوب چبا چبا کر کھانا چاہیے، بادام نہار منہ کھانے سے ذہانت میں اضافہ اور کمر پتلی ہوتی ہے۔

    بادام بھگو کر کھانے سے ان کی تاثیر ٹھنڈی ہو جاتی ہے، رات کو پانی میں باداموں کی 7 سے 9 گریاں بھگو کر رکھ دیں اور صبح نہار منہ کھا لیں، اس سے معدہ، آنکھیں اور دماغ تروتازہ رہتا ہے۔

    اخروٹ

    انسانی دماغی شکل سے مشابہت رکھنے والی گری اخروٹ میں وٹامن اور معدنی نمک پایا جاتا ہے جس سے ناصرف مسلز مضبوط ہوتے ہیں بلکہ اس سے میٹابالزم بھی تیز ہوتا ہے۔

    غذائی لحاظ سے 14 اخروٹ میں تقریباً 185 کیلوریز، 18.5 گرام فیٹ، 4 گرام پروٹین، 4 گرام کاربز جبکہ 1.9 گرام فائبر پایا جاتا ہے۔

    اخروٹ مقدار میں کم کھانے چاہئیں کیونکہ اِن میں کیلوریز، کولیسٹرول زیادہ اور فائبر کم پایا جاتا ہے۔

    یہ گلے میں خراش اور منہ میں چھالے بننے کا سبب بھی بن سکتا ہے، اخروٹ دن کے بجائے رات سونے سے قبل کھائیں، اخروٹ کھانے کے بعد چائے پینا نقصان دہ ہے ثابت ہو سکتا ہے۔

    اگرچہ اخروٹ اور بادام دماغی صحت کے لیے مفید ہیں تاہم اخروٹ اپنی غذائی ترکیب کے سبب یاد داشت بہتر بنانے میں شان دار کردار ادا کرتا ہے۔

    بہترین نتائج کے حصول کے لیے روزانہ اخروٹ اور بادام کا ایک حصہ اپنے جامع صحت بخش غذائی نظام کے جزو کے طور پر شامل کیا جاسکتا ہے، یہ گریاں بلاشبہ صحت بخش غذائی پلان کا بہترین حصہ ہیں۔

  • غذا کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں، یاد رکھیں !! ان میں پروٹین نہیں

    غذا کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں، یاد رکھیں !! ان میں پروٹین نہیں

    پروٹین ہمارے جسم کے لیے تعمیراتی مواد کی حیثیت لکھتا ہے اور ہر خلیے میں پایا جاتا ہے، صحت بخش اور متوازن غذائی پلان پروٹین کے بغیر ادھورا ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ضروری غذائی جزو ہے۔

    بہت سے لوگ اپنی روز مرہ کی خوراک میں پروٹین کی موجودگی کو اوّلیت دیتے ہیں اور ایسی غذاؤں کو اپنے دسترخوان پر سجاتے ہیں جو پروٹین سے بھرپور ہوں۔

    لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ کھانے کی کچھ اشیاء ایسی ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں پروٹین کی ایک بڑی مقدار پائی جاتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

    اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں پروٹین بالکل نہیں مگر اتنی کم ہوتی ہے جو جسم کو درکار تجویز کردہ روزانہ 15 گرام یا اس سے زیادہ مقدار کے لیے کافی نہیں ہوتی۔

    بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے نام نہاد ‘ہائی پروٹین’ کھانے پروٹین کے ثانوی ذرائع ہیں، اس حوالے سے بھارتی ماہر غذائیت سپنا پیرو ومبا کا کہنا ہے کہ ان کا زیادہ تر مواد دراصل میکرو اور چربی یا کاربوہائیڈریٹ میں شامل ہوتا ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں کھانے کی 8 اشیاء کا ذکر کیا جارہا ہے، جن کے بارے اکثر پروٹین سے بھرے ہونے کا گمان کیا جاتا ہے مگر ان میں پروٹین کی وافر مقدار نہیں پائی جاتی۔

    مونگ پھلی کا مکھن

    پیروومبا کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی کے مکھن میں پروٹین کی مقدار صرف چار گرام فی چمچ ہے

    چیا کے بیج

    غذائیت کے ماہر وینڈی لوپیز کا کہنا ہے کہ آپ دو کھانے کے چمچ چیا کے بیج کھا کر چار گرام پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔مگر یہ مقدار تب حاصل ہوگی جب انہیں اگرانہیں کسی ڈیری متبادل جیسے بادام کے دودھ میں بھگو دیا جائے۔

    پستہ

    پستے اور ہر قسم کے گری دار میوے بنیادی طور پر چربی کے ذرائع ہیں، جس میں اچھی پیمائش کے لیے تھوڑا سا پروٹین ملایا جاتا ہے لیکن پستے میں دیگر اقسام کے مقابلے قدرے زیادہ پروٹین ہوتے ہیں۔ پستے میں فی تیس گرام میں چھ گرام پروٹین ہوتی ہے۔

    کوئنوا

    کوئنوا کی شہرت اس کی یہ حقیقت ہے کہ اس میں آٹھ گرام فی ایک کپ سرونگ ہوتا ہے۔ یہ بہت سے دوسرے اناج کے برعکس ایک مکمل پروٹین ہے۔ لیکن یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ صرف جسم کی پروٹین کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

    انڈے

    انڈے یقینی طور پر پروٹین کا ایک قیمتی اور مکمل ذریعہ ہیں، لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہر انڈے سے صرف چھ گرام پروٹین حاصل ہوتا ہے۔

    حمص

    ڈاکٹر پیروومبا کے مطابق آدھا کپ چنے میں صرف سات گرام پروٹین ہوتا ہے۔ چنے کے پروٹین کے فوائد حاصل کرنے کے لیے انہیں مکمل طور پر اطمینان بخش کھانے کے لیے دیگر پروٹین سے بھرپور غذاؤں کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔

    دہی

    دہی پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہو سکتا ہے لیکن یہ منتخب کردہ قسم پر منحصر ہے۔ پیروومبا کا کہنا ہے کہ سادہ روایتی دہی میں فی 180 گرام سرونگ میں چھ گرام سے کم پر پروٹین ہوتی ہے۔

    ہڈیوں کا سوپ

    غذائیت کی دنیا میں ایک بڑا افسانہ ہے کہ آپ صرف ہڈیوں کا شوربہ پی کر پورے کھانے کو پروٹین میں بدل سکتے ہیں۔ یہ لیکویڈ کسی نہ کسی طرح وہ تمام پروٹین فراہم کرے گا جس کی ضرورت ایک شخص کو پیٹ بھرنے کے لیے ہوتی ہے، لیکن ہاربسٹریٹ کہتی ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک مناسب کھانا نہیں ہے۔

  • بال خورہ کیوں ہوتا ہے؟ احتیاط اور علاج

    بال خورہ کیوں ہوتا ہے؟ احتیاط اور علاج

    سر کے بال گرنا کسی بھی مرد یا خاتون کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہے اور خصوصاً خواتین کے لیے یہ چیز بہت بڑی پریشانی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

    بڑھتی عمر کے ساتھ بالوں کا سفید ہونا یا گرنا تو ایک قدرتی عمل ہے لیکن اگر یہ چیز وقت سے پہلے ظاہر ہونے لگے تو تشویش ہوجاتی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اسکن اینڈ ہیئر ایکسپرٹ ڈاکٹر خرم مشیر نے ناظرین کو اس کی وجوہات اور علاج سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ بال خورہ جسے ایلوپیشیا یا بال چر بھی کہا جاتا ہے، اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ ہماری غذا ہے، غذا میں پروٹین کا ہونا بہت ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ گرمی کے موسم میں مچھلی نہ کھائی جائے ایسا ہرگز نہیں ہے اعتدال میں رہ کر ہر چیز کھائی جاسکتی ہے۔

    ڈاکٹر خرم مشیر کے مطابق عام طور پر کم عمری میں بال خورہ اور بال گرنے کی سب سے بڑی وجہ ہارمونز کا عدم توازن ہوتا ہے، دوسرا مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی ہے اور تیسرا ذہنی تناؤ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بال گرنے یا بال خورہ اور دیگر مسائل سے بچنے کیلئے ہفتے میں دو مرتبہ سر میں تیل کی مالش کرنا، بھرپور نیند لینا اور پروٹین والی غذائیں بہت ضروری ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ بالوں کے گرنے کی کچھ وجوہات ہمارے قابو سے باہر ہیں اوران میں سرفہرست جینیاتی گنجا پن ہے۔ اس کے علاوہ ہارمونز کی وجہ سے ہونے والا گنج پن (اینڈروئیڈ ایلوپیسیا ) جو مردوں میں عام ہے اور خواتین میں نایاب سمجھا جاتا ہے۔

  • موٹاپے سے نجات کیلیے پروٹین کیسے استعمال کی جائے؟

    موٹاپے سے نجات کیلیے پروٹین کیسے استعمال کی جائے؟

    گزشتہ 20 سال میں دنیا بھر میں لوگوں میں موٹاپے کے شکار ہونے کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ لیکن آج ہم اپنے کھانے پینے کے حوالے سے زیادہ باشعور بھی ہوگئے ہیں۔

    پچھلے کچھ سالوں میں ہم سفید بریڈ کی جگہ براؤن بریڈ، آٹے کی بریڈ اور موٹے اناج سے بنی بریڈ استعمال کرنے لگے ہیں۔ ہم فل کریم دودھ کی جگہ سکمڈ دودھ لینے لگے ہیں۔ صحت کے حوالے ہمارے شعور کا مرکز پروٹین ہے لیکن کس طریقے سے پروٹین لینی چاہیے، کتنی کم یا کتنی زیادہ پروٹین ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صحت کے حوالے باشعور افراد یہ بات مانتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ پروٹین استعمال کرنی چاہیے لیکن اب تمام ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ زیادہ پروٹین والی یہ پروڈکٹس ہمارے لیے غیرضروری اور جیب پر بوجھ ہیں۔

    پروٹین ہمارے جسم کے نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ زیادہ پروٹین والی چیزیں جسے دودھ، گوشت، انڈے، مچھلی اور دالیں ہمارا جسم بنانے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔

    جب ہم ایسی چیزیں کھاتے ہیں، تو ہمارا معدہ انھیں توڑ کر امینو ایسڈز میں تبدیل کرتا ہے جسے ہماری چھوٹی آنت جذب کرتی ہے۔ یہاں سے یہ امینو ایسڈز ہمارے جگر تک پہنچتے ہیں۔ جگر یہ طے کرتا ہے کہ ہمارے جسم کے لیے ضروری امینو ایسڈز کون سے ہیں۔ انہیں الگ کر کے باقی ایسڈ پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج کر دیتا ہے۔

    کتنی پروٹین لینی چاہیے؟

    جو بالغ افراد زیادہ بھاگ دور یا محنت کا کام نہیں کرتے، انھیں اپنے جسم کے مطابق فی کلو وزن کے حساب سے 0.75 گرام پروٹین چاہیے ہوتی ہے۔ اوسطاً یہ اعداد مردوں کے لیے 55 گرام اور خواتین کے لیے 45 گرام روزانہ ٹھیک ہے۔ یعنی دو مٹھی گوشت، مچھلی، خشک میوہ جات یا دالیں کھانے سے روزانہ پروٹین کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔

    پوری مقدار میں ضروری پروٹین نہ لینے سے بال جھڑنا، جلد پھٹنا، وزن گھٹنا اور پٹھے کھچنے کی شکایتیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن کم پروٹین کھانے سے ہونے والی یہ پریشانیاں بہت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ عام طور پر یہ انہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں، جن کے کھانے پینے میں بڑی گڑبڑ ہو اور کھانے میں باقاعدگی نہ ہو۔

    اس کے باوجود ہم اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ باڈی بلڈنگ اور پٹھوں کی نشو و نما کے لیے پروٹین بے حد ضروری ہے۔ یہ کافی حد تک صحیح بھی ہے۔

    طاقت بڑھانے والی ورزش کرنے سے پٹھوں میں موجود پروٹین ٹوٹنے لگتی ہے۔ ایسے میں پٹھوں کو طاقتور بنانے کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پٹھوں کی مرمت ہو سکے۔ اس میں پروٹین میں پایا جانے والا لیوسن نامی امینو ایسڈ بہت مددگار ہوتا ہے۔

    کچھ محقق تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بہت مشکل ورزشیں کرنے کے بعد اگر ہم پروٹین سے بھرپور خوراک نہیں لیتے ہیں تو اس سے ہمارے پٹھے اور بھی زیادہ ٹوٹتے ہیں۔ یعنی ورزش سے تب فائدہ نہیں ہوتا، جب آپ پروٹین وغیرہ نہ لیں۔

    برطانیہ کی سٹرلنگ یونیورسٹی میں کھیلوں کے پروفیسر کیون کپٹن کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر لوگوں کو ان کی ضرورت بھر سے زیادہ ہی پروٹین ان کے کھانے سے مل جاتی ہے۔ کسی کو سپلیمینٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ آسانی سے اپنی روزمرہ کے کھانے پینے کی چیزوں کے کے ذریعے مناسب مقدار میں پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔

  • چھوٹے بچے روزہ رکھیں تو سحر اور افطار میں کیا کھلایا جائے؟

    چھوٹے بچے روزہ رکھیں تو سحر اور افطار میں کیا کھلایا جائے؟

    کراچی : گھر میں چھوٹے بچے بڑوں کو دیکھ کر روزہ رکھنے کی ضد کرتے ہیں، والدین کو بھی چاہیے کہ ان کی اس ضد کو کافی حد تک پورا کریں۔

    دیکھا یہی گیا ہے کہ زیادہ تر بچے ابتداء میں بڑے ذوق و شوق سے روزے رکھتے ہیں۔ باجماعت نماز ادا کرتے ہیں اور ہوم ورک بھی کرتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ پہلے تین چار روزے شدت کی پیاس محسوس ہوتی ہے۔ بعدازاں معمول کا حصّہ بن جاتی ہے۔

    چھوٹے بچوں کو روزہ رکھوانے کے بعد والدین کو ان کی صحت کی فکر پڑ جاتی ہے، جس کیلئے ان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر صحت ڈاکٹرعائشہ عباس نے بتایا کہ بچوں کو سات سال کی عمر کے بعد کچھ گھنٹوں کیلئے روزے کی پریکٹس کروانی چاہیے۔

    انہوں نے بتایا کہ بچے کو سحری میں انڈہ پراٹھہ اور لسی لازمی دیں کیونکہ اس میں پروٹین وافر مقدار میں ہوتا ہے، اس کے علاوہ بچہ دلیہ شوق سے کھاتا ہے۔

    ڈاکٹرعائشہ کا کہنا ہے کہ افطار میں تلی ہوئی چیزیں شوق سے کھائی جاتی ہیں اس میں سبزی ڈال کر بنائیں تاکہ اس میں ذائقے کے ساتھ غذائیت بھی ہو۔؎

    انہوں نے کہا کہ وتامنز کی کمی کے باعث بعض بچے روزہ رکھنے کے بعد سارا دن سوئے رہتے ہیں اور افطاری سے دس پندرہ منٹ قبل اٹھتے ہیں جو کہ اچھی بات نہیں۔

  • سبزی کے بیجوں سے مصنوعی گوشت تیار

    سبزی کے بیجوں سے مصنوعی گوشت تیار

    دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر غذائی قلت کا خطرہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے اور اس کے لیے متبادل ذرائع ڈھونڈے جارہے ہیں، اب حال ہی میں کچھ کمپنیوں نے گوشت کا متبادل تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گوشت کے متبادل ذرائع کی مارکیٹ فوڈ ٹیک کمپنیوں کے درمیان تیزی سے ترقی پانے والے رجحان کے طور پر سامنے آئی ہے۔

    یہ کمپنیاں ماحول دوست، آسانی سے تیار ہونے والی، معتدل قیمت اور سب سے اہم، لذیذ طریقے تلاش کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔

    اسی ضمن میں اسرائیلی اسٹارٹ اپ مور فوڈز نے کدو اور سورج مکھی کے بیجوں سے بنائے گئے متبادل پروٹین کی ایک نئی شکل تیار کی ہے۔

    یہ کمپنی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کدو اور سورج مکھی کے بیجوں کا تیل نکالنے کے بعد اس کے بچ جانے والے گودے کو استعمال کرتے ہوئے اسے گوشت کے ایک قابل عمل متبادل میں تبدیل کرتی ہے۔

    کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) لیونارڈو مارکووٹز کا کہنا ہے کہ لوگ جس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ اجزا کی واقفیت کے احساس سے آتا ہے جس میں بعض اوقات گوشت کا متبادل کمی کا حساس دلاتا ہے۔

    ہم سپر فوڈ اجزا کا استعمال کر کے اس احساس کو حاصل کرتے ہیں جس سے ہر کوئی واقف ہے، قیمتوں میں مسابقت کے ساتھ ساتھ کھانے کے اس نئے تجربے سے لطف اندوز ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافے کے لیے لیبل کو بہت مختصر اور سمجھنے میں آسان رکھا جاتا ہے۔

    اسرائیل میں کئی ریستورانوں نے پائلٹ پروجیکٹس شروع کیے ہیں جن میں کھانے کی مزید مصنوعات پیش کی جاتی ہیں، ان میں میکسیکا، پیٹا بستا اور کیفے بٹی شامل ہیں۔

    کمپنی اس سال کے آخر میں یورپی یونین کی مارکیٹ میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے۔

    ایک اور فوڈ ٹیک کمپنی، فلائنگ اسپارک نے اپنے گوشت کے متبادل کو فروٹ فلائی کے لاروا سے تیار کر کے قدرے زیادہ غیر روایتی بنایا ہے۔

    اگرچہ یہ سنتے ہی منہ میں پانی تو نہیں آتا، لیکن کمپنی کا دعویٰ ہے کہ لاروا سے حاصل ہونے والی مصنوعات کو پودوں پر مبنی حریفوں پر ایک فائدہ ہے۔

    حال ہی میں فلائنگ اسپارک نے تھائی فوڈ بنانے والی کمپنی تھائی یونین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جو اس کا 20 ٹن پروٹین پاؤڈر خریدے گی۔

    تھائی یونین پالتو جانوروں کی خوراک کی تیاری میں پروٹین کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو فلائنگ اسپارک کی مصنوعات کے لیے مثالی مارکیٹ ہو سکتی ہے۔

    کمپنی کے بانی اور سی ای او ایرن گرونیچ کہتے ہیں کہ ہمیں فلائنگ اسپارک کی مصنوعات اور ٹیکنالوجی پر تھائی یونین کے اعتماد کے اظہار پر فخر اور بہت زیادہ قدر ہے۔

  • سائنس دانوں نے پانی، بجلی اور ہوا سے غذا تیار کر لی

    سائنس دانوں نے پانی، بجلی اور ہوا سے غذا تیار کر لی

    ہیلسنکی: اور اب بجلی، پانی اور ہوا سے ’کھانے‘ تیار کیے جائیں گے، فن لینڈ کی ایک کمپنی ’سولر فوڈز‘ نے پروٹین سے بھرپور غذا بنانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر لیا ہے، آئندہ برسوں میں اس کی مدد سے پروٹین کی قلت کا عالمی مسئلہ حل کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے غذا بنانے کے لیے صرف ہوا، پانی اور بجلی درکار ہوتی ہے، جب کہ بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی استعمال کی جاتی ہے، تاکہ یہ پورا طریقہ ماحول دوست رہے۔

    اس طریقے پر تیار شدہ غذا کو سولین (Solein) کا نام دیا گیا ہے، جو ’سولر پروٹین‘ کا مخفف ہے، پروٹین بنانے کی یہ نئی تکنیک خاصی حد تک تخمیر (فرمنٹیشن) کے عمل سے مشابہ ہے، جس کا زیادہ استعمال شراب سازی کی صنعت میں کیا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق پہلے مرحلے کے دوران پانی میں سے بجلی گزار کر ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بلبلے خارج کروائے جاتے ہیں، پھر اس میں زندہ خوردبینی جان دار (مائیکروبز) شامل کیے جاتے ہیں، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی اور ہوا کا ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے، مختلف اقسام کے پروٹین بناتے ہیں، اور یہ محلول کی شکل میں ہوتے ہیں۔

    آخری مرحلے پر یہ محلول خشک کر لیا جاتا ہے، سفوف (پاؤڈر) کی شکل میں اس میں پروٹین باقی رہ جاتے ہیں، خشک حالت میں ’سولین‘ کا 50 فی صد حصہ پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ یہ دیکھنے اور کھانے میں گندم کے آٹے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

    سولر فوڈز کے مطابق، سولین کو کسی بھی قسم کی غذا میں شامل کر کے اس کی غذائیت میں غیر معمولی اضافہ کیا جا سکتا ہے، اس کی تیاری تجارتی پیمانے پر بھی کی جائے گی، سولر فوڈز کا منصوبہ ہے کہ 2021 تک سولین کی پیداوار بڑھا کر 2 ارب خوراک سالانہ تک پہنچائی جائے، واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں پروٹین کا سب سے بڑا ذریعہ گوشت ہے۔

  • پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ غذائی ضروریات بھی بڑھتی جارہی ہیں، جس کے لیے موجودہ وسائل ناکافی ہیں اور یوں دنیا کی ایک بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

    اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے چند نوجوانوں نے متبادل پروٹین کی پیداوار کا منصوبہ پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کے ماہرین کی پذیرائی حاصل ہوئی۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس کے تحت ہونے والے لیو ایبلٹی چیلنج میں دنیا بھر کے تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد کو ماحول دوست آئیڈیاز پیش کرنے کی دعوت دی گئی جس کے لیے سینکڑوں آئیڈیاز موصول ہوئے۔ ان تمام آئیڈیاز میں متبادل پروٹین کا آئیڈیا مقابلے کا فاتح ٹھہرا۔

    فاتح کمپنی

    متبادل پروٹین کا یہ منصوبہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے نوجوانوں کی ایک کمپنی صوفیز کچن نے پیش کیا۔

    اس پروٹین کو بنانے کے لیے مختلف غذائی اشیا کی تیاری کے دوران بچ جانے والے خمیر اور ایک قسم کی الجی کو استعمال کیا گیا ہے۔ ان دونوں اشیا کی آمیزش سے اگنے والا پودے میں وافر مقدار میں پروٹین موجود ہوتی ہے۔

    یہ پودا صرف 3 دن میں اگایا جاسکتا ہے جبکہ پروٹین حاصل کرنے کے روایتی ذرائع جیسے گائے کو نشونما کے لیے ایک عرصہ درکار ہے، جبکہ گوشت کی پیداوار کے لیے کم از کم 141 ایکڑ زمین چاہیئے۔ اس کے برعکس پروٹین کے اس پودے کو صرف 0.02 ایکڑ زمین درکار ہے۔

    اسی طرح اس پودے کی تیاری میں پانی بھی کم استعمال ہوگا جبکہ گائے کی افزائش کی نسبت اس کا کاربن فٹ پرنٹ (کاربن اخراج / اثرات) بھی بے حد کم ہوں گے۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    خیال رہے کہ پروٹین کے حصول کا ذریعہ یعنی مختلف مویشیوں کو رہائش کے ساتھ پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    الجی اور خمیر سے تیار کیے جانے والے اس پودے کو بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے جو انسانی جسم کو درکار غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

    اس آئیڈیے کو 10 لاکھ سنگاپورین ڈالر یعنی لگ بھگ 7 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام دیا گیا تاکہ اس منصوبے کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا بھر میں فروغ دیا جاسکے اور غذائی بحران اور قلت پر قابو پانے کے لیے قدم اٹھایا جاسکے۔

  • پروٹین والی غذاؤں کا بہت زیادہ استعمال نقصان کا سبب

    پروٹین والی غذاؤں کا بہت زیادہ استعمال نقصان کا سبب

    جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے پروٹین کا استعمال از حد ضروری ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بہت زیادہ پروٹین کھانا آپ کو نقصان سے دو چار کرسکتا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پروٹین والی غذائیں جیسے دودھ، دہی، پنیر، مچھلی اور انڈے اگر توازن کے ساتھ استعمال کیے جائیں تب تو یہ جسم کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی بے تحاشہ مقدار استعمال کی جائے تو یہ آپ کو بے شمار نقصانات پہنچا سکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق جسم کے وزن کے ایک کلو گرام کے لیے 0.8  گرام پروٹین کافی ہے۔ اس طرح ایک عام جسامت کے شخص کے لیے 46 سے 56 گرام پروٹین موزوں ترین ہے۔

    تاہم اس مقدار سے زائد پروٹین کا استعمال آپ کو ان نقصانات سے دو چار کرسکتا ہے۔

    گردوں کی خرابی

    گردے ہمارے جسم کا فلٹر ہوتے ہیں جو غذا میں سے غیر ضروری اشیا کو چھان کر انہیں جسم سے خارج کردیتے ہیں۔ اگر آپ بہت زیادہ پروٹین والی غذائیں کھائیں گے تو ان کے سخت ذرات کو چھاننے کے لیے گردوں کو زیادہ محنت کرنی ہوگی اور وہ دباؤ کا شکار ہوں گے۔

    گویا پروٹین کا زیادہ استعمال گردوں کو خرابی کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔

    پیٹ کے مسائل

    بہت زیادہ پروٹین کا استعمال آپ کو قبض اور گیس میں بھی مبتلا کرسکتا ہے جس کی وجہ ان غذاؤں میں فائبر یا ریشے کا نہ ہونا ہے۔

    ریشہ ہمارے نظام ہضم کو بہتر کرتا ہے جس سے کھائی جانے والی غذا جلد ہضم ہوجاتی ہے۔ تاہم پروٹین والی غذائیں اس عمل کو مشکل بنا سکتی ہیں۔

    وزن میں اضافہ

    یوں تو وزن میں کمی کے لیے پروٹین والی غذاؤں کو بہترین سمجھا جاتا ہے تاہم ان کا حد سے زیادہ استعمال آپ کو موٹاپے میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    منہ کی بدبو

    جب ہمارا جسم توانائی حاصل کرنے کے لیے پروٹین والی غذاؤں کو توڑتا ہے تو اس وقت ہمارا جسم کچھ کیمیائی مرکبات بھی پیدا کرتا ہے جو بو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جتنا زیادہ ہم پروٹین استعمال کریں گے، ہمارے منہ سے بو آنے کا اندیشہ بھی اتنا ہی ہوگا۔

    پریشان کن بات یہ ہے کہ منہ کی یہ بدبو برش کرنے یا ماؤتھ واش کے استعمال سے بھی کم نہیں ہوتی۔ اس سے چھٹکارے کا واحد حل پروٹین والی غذاؤں کا استعمال کم کردینا ہے۔

    موڈ کی خرابی

    کاربو ہائیڈریٹس ہمارے جسم میں ایسے ہارمونز پیدا کرتے ہیں جو ہمارے اندر خوش کن احساسات پیدا کرتے ہیں۔ کاربو ہائیڈریٹس کی کمی اور پروٹین کی زیادتی ان ہارمونز میں کمی کرتی ہے جس کے باعث ہم غصہ، اداسی اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    پیاس میں اضافہ

    پروٹین کا زیادہ استعمال ہمارے جسم کو شدید قسم کی پیاس میں مبتلا کردیتا ہے جس سے ہم معمول سے زیادہ پانی پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، تاہم پھر بھی ہماری پیاس نہیں بجھتی۔

    بار بار پانی پینے کی وجہ سے ہمارے گردے بھی دباؤ کا شکار ہوسکتے ہیں اور ان میں مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • انار سپر فوڈز میں سر فہرست ہے

    انار سپر فوڈز میں سر فہرست ہے

    کراچی (ویب ڈیسک) غذائی ماہرین کے نزدیک سپر فوڈ کے طور پروہ جن پھلوں کو منتخب کرتے ہیں ان میں انار سر فہرست ہے۔

    انار اینٹی آکسیڈنٹ، فائبر، وٹامنز، معدنیات اور دیگرغذائیت سے بھرپور وہ پھل ہے جس میں ہماری صحت مندی، لمبی عمراور بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی خصوصیات شامل ہیں۔

     اس کے بے شمار طبی فوائد ہیں ماہرین کے مطابق روزانہ انار کا جوس پینے سے کمر کے اردگرد چربی کا خاتمہ ہوتا ہے جبکہ ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے لیے بھی انار کے جوس کو بہترین ٹانک قرار دیا گیا ہے۔

    انار قدرت کا شاندار تحفہ ہے، اس کے درخت کی چھال، پھول، پھل کا چھلکا اور یہاں تک کہ پتیاں بھی مفید ہیں، پرانی کھانسی میں بھی سفوف استعمال کرنا فائدہ مند ہے۔ انار کے پھولوں کے جوشاندے میں تھوڑی سی پھٹکری ملا کر اس سے غرارے کرنا گلے کی خرابی کا بہترین علاج ہے۔

     انار کے درخت کی چھال کے جوشاندے سے کلیاں کرنا منہ اور مسوڑھوں کے زخم کے لئے فائدہ مند ہے، اس کی چھال کا گاڑھا جوشاندہ پیٹ کے کیڑوں سے نجات کے لئے انتہائی موثر ہے۔