Tag: provided

  • اڈیالہ جیل میں نواز شریف کو ’اے کلاس‘ الاٹ

    اڈیالہ جیل میں نواز شریف کو ’اے کلاس‘ الاٹ

    راولپنڈی : ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی قید با مشقت کا  آغاز ہوگیا، پہلی رات اڈیالہ جیل میں  گزری، جیل انتظامیہ کے مطابق نواز شریف کو اڈیالہ جیل کی اے کلاس الاٹ کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایوان فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ نواز شریف اور مریم نواز اڈیالہ جیل میں رات بھر سو نہ سکے اور دونوں کے لئے جیل میں پہلی رات بڑی بھاری ثابت ہوئی۔

    ذرائع جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نوازشریف کواڈیالہ جیل کی اے کلاس الاٹ کی گئی  ہے، ان کو وہیں منتقل کیا گیا جہاں یوسف رضا گیلانی نے قید کاٹی تھی  جبکہ  مریم نوازکوخواتین کی بیرک میں خصوصی سیل میں رکھا گیا ہے۔

    جیل میں نوازشریف کو ٹیلی ویژن، اخبار، اے سی، بیڈ اور ایک مشقتی کی سہولت دی گئی جبکہ جیل میں اٹیچ باتھ روم، پنکھا موجود ہے۔

    https://youtu.be/wAvMINqulco

    جیل انتظامیہ کے مطابق صبح ہوئی تو دونوں کو انڈے پراٹھے ناشتہ کی پیشکش کی تو مریم نواز  نے ناشتہ کیا تاہم نوازشریف نے صرف چائے اوردواہی لی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مجرمان باہرسےبھی اپنے کھانے کا بندوبست کروا سکتے ہیں لیکن ن لیگ کے کسی رہنما کی جانب سے نہ کوئی ناشتہ آیا نہ کوئی ملاقات کے لئے آیا ۔

    یاد رہے کہ نواز شریف اور مریم نوازکو لندن سے لاہور پہنچتے ہی گرفتار کرلیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے سے نیواسلام آباد ایئرپورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

    جیل میں میڈیکل چیک اپ کے بعد دونوں مجرموں کو قیدی نمبرالاٹ کرکے بیرکوں میں بھیج دیا گیا تھا۔

    دوسری جانب سہالہ ریسٹ ہاؤس کو سب جیل قرار دینے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق نوازشریف ودیگر کیخلاف دو ریفرنسز پر ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا، ان کیخلاف نیب کورٹ ون جیل میں مقدمہ سنے گی، اڈیالہ جیل میں ٹرائل احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکریں گے۔


    مزید پڑھیں : مجرم نوازشریف اور مریم نواز کو اڈیالہ جیل کی بیرکوں میں منتقل کردیا گیا


    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے چھ جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کومجموعی طورپر گیارہ سال اورمریم نوازکوآٹھ سال قید بامشقت اورجرمانے کی سزا سنائی تھی۔

    خیال رہے جیل میں قیدیوں کو تین کیٹگریز میں رکھا جاتا ہے، اے کلاس کیٹگری اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ، سابق وفاقی وزرا اور ان قیدیوں کو دی جاتی ہے جو زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہوں۔

    بی کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں تو ملوث ہوں تاہم اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں، گریجویشن پاس قیدی بھی بی کلاس لینے کا اہل ہوتا ہے جبکہ سی کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل، ڈکیتی، چوری، لڑائی جھگڑے اور معمولی نوعیت کے مقدمات میں سزا یافتہ ہوں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ  پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں کے حوالے

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں کے حوالے

    لاہور : پاکستان عوامی تحریک کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا۔ جسٹس باقر نجفی رپورٹ کی مصدقہ نقل حکومت پنجاب نے بالاخر فراہم کردی، سول سیکرٹریٹ کے باہر شہدا ماڈل ٹاون کے ورثا اور کارکنان کی نعرے بازی کی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کی کاپی لینے سول سیکریٹریٹ پہنچے، لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹاون کی رپورٹ ساڑھے تین سال بعد پاکستان عوامی تحریک کے رہنماوں کے حوالے کردی گئی۔

    سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزیرقانون مستعفی ہوں۔

    سول سیکرٹریٹ کے باہر تنظیم کے کارکنوں نے عدالتی حکم کوسراہا جبکہ پاکستان عوامی تحریک اور شہدا کے ورثا انصاف کے حصول کے لئے مزید جدوجہد کے لئے پرعزم دکھائی دیئے۔

    اس سے قبل خرم نوازگنڈاپور کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے ہر صفحے پر اختلاف ہے، رپورٹ کی لاہورہائی کورٹ سے تصدیق کرائیں گے۔


    مزید پڑھیں : لاہور ہائیکورٹ کا سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ 30 دن میں شائع کرنے کا حکم


    کارکنان کا کہنا تھا رپورٹ کی تصدیق کر کے لائحہ عمل طے کرینگے۔

    ، گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری کیا تھا جس کے بعد حکومتِ پنجاب کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی باقرنجفی کمیشن کی رپورٹ جاری کردی تھی اور ماڈل ٹاؤن واقعہ ملکی تاریخ کا بدترین سانحہ قراردیا گیا۔

    رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ حکومت نے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی،رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں اجلاس بھی سانحہ کا سبب بنا۔

    باقرنجفی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ خونی پولیس آپریشن روکنے کیلئے وزیراعلٰی کےاحکامات کہیں نہیں ملے، شہبازشریف بروقت ایکشن لیتےتوبہیمانہ قتل وغارت کو روکا جاسکتا تھا۔


    مزید پڑھیں : فائرنگ و تشدد سے ثابت ہوا کہ پولیس نے وہی کیا جس کا حکم دیا گیا، رپورٹ


    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فائرنگ اور تشدد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے پولیس حکام نے وہ ہی کیا جس کا حکم دیا گیا جب کہ حکومت پنجاب نےعدالتی احکامات کے باوجود بیریئز ہٹانے کیلئے ایڈووکیٹ جنرل سے رائے نہیں لی گئی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔