Tag: Psychology

  • چھینکنے کے ساتھ اس بات کا لازمی خیال رکھیں، ورنہ !!

    چھینکنے کے ساتھ اس بات کا لازمی خیال رکھیں، ورنہ !!

    چھینکنا طبی لحاظ سے ایک فائدے کی بات ہے لیکن چھینکنے کے ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی علامت بھی ہے جو ہماری چھپی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔

    چھینکنے سے پہلے اس بات لازمی خیال رکھیں کہ آپ کا یہ انداز آپ کی شخصیت کا تعین کرسکتا ہے کیونکہ چھینکتے ہوئے لاکھ کوشش کے باوجود آپ خود پر قابو نہیں پاسکتے۔

    اس حوالے سے امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق زور دار اور بلند آواز سے چھینکنے والے لوگ ملنسار اور دوستانہ رویہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔

    sneezing

    تحقیق کے مطابق چھینکنے کے مختلف انداز آپ کی شخصیت کے چھپے راز ظاہر کرتے ہیں۔ تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ صاف گو اور دوستانہ رویہ رکھنے والے لوگ کھل کر بلند آواز میں چھینکتے ہیں جبکہ شرمیلے افراد سانسوں کے ساتھ اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ انسانی چھینک بھی قہقہوں اور ہنسی کی طرح ہوتی ہے، کچھ لوگ زوردار آواز میں ہنسنے اور قہقہے لگانے کے عادی ہوتے ہیں تو کچھ دبی دبی ہنسی یا مسکراہٹ پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔

    لہٰذا چھینکیے اور کھل کر چھینکیے تاکہ لوگ آپ کی شخصیت سے متاثر ہوں اور آپ کے حلقہ احباب میں مزید وسعت پیدا ہو۔

     

  • شادی کے بعد پڑھائی چھوڑنے والی سعودی خاتون نے بڑھاپے میں کس مضمون میں گریجویشن کی؟

    شادی کے بعد پڑھائی چھوڑنے والی سعودی خاتون نے بڑھاپے میں کس مضمون میں گریجویشن کی؟

    ایک سعودی خاتون ھدی العبیدا نے 40 برس بعد 63 سال کی عمر میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔

    الاخباریہ ٹی وی کے مطابق سعودی خاتون شادی کے بعد پڑھائی چھوڑ کر گھر داری میں مصروف ہو گئی تھیں، اپنی خانگی زندگی میں شوہر کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے انھوں نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے، تاہم شوہر کی حوصلہ افزائی کے ساتھ آخرکار انھوں نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جوڑ لیا۔

    ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ھدی العبیدا نے بتایا کہ انھیں گریجویشن آنرز کرنے کا شوق اپنے بچوں کو دیکھ کر آیا، جب بچے یونیورسٹی جاتے اور راتوں کو پڑھا کرتے تو انھیں بھی پڑھنے کا شوق ہوا۔

    ھدی العبیدا کو شروع میں انگریزی کی تیاری میں کافی دشواری پیش آئی، لیکن محنت اور شوق سے انھوں نے فاؤنڈیشن ایئر کامیابی سے مکمل کیا اور سائیکالوجی میں گریجویشن کر لی۔ خاتون نے بتایا کہ یہ ان کا پسندیدہ مضمون تھا۔

    سعودی خاتون کے مطابق ان کی اس کامیابی میں ان کے شوہر کا بڑا ہاتھ ہے، کہ انھوں نے ہمیشہ ان کی پذیرائی کی، اور ہمت دلاتے رہے۔

  • اسمارٹ فون بچوں میں نفسیاتی مسائل کا سبب

    اسمارٹ فون بچوں میں نفسیاتی مسائل کا سبب

    اسمارٹ فون کا زیادہ استعمال بچوں اور بڑوں دونوں پر سنگین اثرات مرتب کرتا ہے اور حال ہی میں ایک تحقیق نے بچوں کے لیے اس کے ایک اور سنگین خطرے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم سیپین لیب نے اپنی ایک تحقیق میں کہا ہے کہ بچوں کا کم عمری میں اسمارٹ فونز استعمال کرنا مستقبل میں ان کے لیے نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

    شاؤمی انڈیا کے سابق سی ای او منو کمار جین نے اسی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ابتدائی عمر میں اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ استعمال کرنے سے بچوں کی ذہنی صحت پر پڑنے والے خطرناک اثرات پر روشنی ڈالی ہے اور والدین پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کو اسمارٹ فون نہ دیں۔

    انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ والدین اپنے بچوں کی ابتدائی عمر میں اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کے استعمال سے ذہنی صحت پر پڑنے والے خطرناک اثرات کے بارے میں بات کریں۔ ایک دوست نے سیپین لیب کی یہ رپورٹ شیئر کی ہے جس میں چھوٹے بچوں تک اسمارٹ فونز (اور ٹیبلٹس) کی جلد رسائی اور بالغوں کے طور پر ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کے بڑھتے ہوئے امکانات کے درمیان گہرے تعلق کو اجاگر کیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تحقیق کے مطابق جن خواتین نے پہلی بار اسمارٹ فون 10 سال کی عمر میں استعمال کیا، ان میں سے 60 سے 70 فیصد کو ذہنی صحت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

    جن افراد نے پہلی بار اسمارٹ فون 18 سال کی عمر میں استعمال کیا ان میں یہ تناسب 46 فیصد رہا، اسی طرح اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 45 سے 50 فیصد مرد، جو 10 سال کی عمر سے پہلے اسمارٹ فونز استعمال کرتے تھے، کو بھی اسی طرح کی ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔

    منو کمار جین کا کہنا تھا کہ میں والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بچے رو رہے ہوں، کھانا کھا رہے ہوں، یا گاڑی میں ہوں تو انہیں فون دینے سے گریز کریں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اپنے بچوں کی ذہنی حالت کا خیال رکھنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے اور بہت زیادہ سکرین ٹائم کے سنگین نتائج ہیں۔

  • انسانی نفسیات کے یہ اصول آپ کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں

    انسانی نفسیات کے یہ اصول آپ کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں

    انسانی نفسیات ایک پیچیدہ گتھی ہے۔ آج تک کوئی سائنسدان یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ وہ انسانی دماغ کو پوری طرح سمجھ سکا ہے۔

    ہمارے دماغ میں بلین کے قریب خلیات ہیں اور ہر شخص میں ان بلین خلیات کا کچھ حصہ کام کرتا ہے۔ ان خلیات کی اقسام ہر شخص میں الگ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان علیحدہ عادات، نفسیات اور فطرت کا مالک ہوتا ہے۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق کچھ اصول ایسے ہیں جو تقریباً ہر شخص پر لاگو ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ ان اصولوں سے واقفیت حاصل کرلیں تو یقیناً آپ لوگوں کو بہتر طور پر سمجھنے لگیں گے اور آپ کی زندگی آسان ہوجائے گی۔

    وہ اصول یہ ہیں۔

    کسی انٹرویو پر جانے سے قبل تصور کریں کہ انٹرویو لینے والا شخص آپ کا پرانا دوست ہے اور آپ اس سے ملنے جارہے ہیں۔ یہ چیز آپ کے دماغ کو پرسکون کرے گی۔

    اگر آپ کسی سے ملتے ہوئے خود کو خوش اور پرجوش ظاہر کریں تو اگلی بار ان سے ملتے ہوئے آپ غیر ارادی طور پر خوشی محسوس کریں گے۔ یہ فطرت کتوں میں بھی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار اپنے مالک سے ملتے ہوئے اس قدر پرجوش ہوتے ہیں جیسے کئی عرصہ بعد مل رہے ہیں۔

    جب آپ کوئی ایسا کام کریں جسے کرتے ہوئے آپ کنفیوز ہو رہے ہوں تو اس دوران چیونگم چبائیں یا کچھ کھائیں۔ یہ آپ کے دماغ کے اس حصہ کو تحریک دیتا ہے جو آپ کے جسم کو سب ٹھیک ہونے کا سگنل بھیجتا ہے۔

    کسی شخص کے غصہ ہونے پر اگر آپ پرسکون رہیں تو اس شخص کو مزید غصہ آسکتا ہے۔ لیکن غصہ ختم ہونے کے بعد وہ شخص ضرور نادم ہوگا۔

    کسی سے گفتگو کے دوران اگر کوئی آپ کو مختصر جواب دے تو اس سے آئی کانٹیکٹ برقرار رکھیں اور خاموش رہیں۔ اس سے اس شخص کو خودبخود احساس ہوجائے گا کہ اس کا جواب آپ کی تشفی نہیں کرسکا اور وہ مزید گفتگو کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

    اگر آپ کسی میٹنگ کے دوران اپنی صلاحیتوں کی آزمائش چاہتے ہیں تو سربراہ کے بالکل قریب بیٹھ جائیں۔ وہ قدرتی طور پر آپ کی طرف بار بار متوجہ ہوگا اور کام دیتے ہوئے سب سے پہلے آپ کی طرف دیکھے گا۔

    جذبات، جذبات کو پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو زبردستی مسکرائیں اور ہنسیں۔ آہستہ آہستہ آپ کا دماغ بھی آپ کی اس اداکاری کے مطابق عمل کرنے لگے گا اور آپ سچ مچ خوش رہنے لگیں گے۔

    جب لوگوں کا کوئی گروپ آپس میں ہنس رہا ہوتا ہے تو ہنستے ہوئے ذہنی طور پر ایک دوسرے سے قریب افراد غیر ارادای طور پر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔

    اگر کوئی آپ کو کسی بڑے معاملے پر مدد کرنے سے انکار کرے تو وہ احساس شرمندگی سے زیر بار ہوتے ہوئے کسی چھوٹے کام میں آپ کی مدد کرے گا۔

    اگر دکانوں پر کاؤنٹر کے پیچھے ایک آئینہ رکھ دیا جائے تو گاہک خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں گے۔ کوئی بھی اپنے آپ کو بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کرخت صورت آئینے میں نہیں دیکھنا چاہے گا۔