Tag: PTI

پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس کی بنیاد 1996 میں پاکستانی کرکٹ کھلاڑی سے سیاست دان بننے والے عمران خان نے رکھی تھی۔

پی ٹی آئی 2011 میں ایک سیاسی قوت بن کر ابھری، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے شاہ محمود قریشی، پاکستان مسلم لیگ (ف) سے جہانگیر خان ترین اور دیگر اہم رہنماؤں نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر شمولیت اختیار کیی، اس کے علاوہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ان کی بھی ایک بڑی تعداد تھی جنہیں سیاسی حلقوں میں کوئی نہیں جانتا تھا، ان میں سرِ فہرست نام اینگرو کے سابق سی ای او اسد عمر کا ہے
پی ٹی آئی
PTI News
  • سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات

    سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات

    لاہور: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے اہم ملاقات کہتے ہیں حالات کی بہتری میں پر امید ہوں اگر بات نہ سنی گئی تو پھر کسی نہ کسی کا چالان لازمی ہوگا۔

    وزیراعلی پنجاب شہبازشریف سے ماڈل ٹاؤن میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ بہت سی ایسی قوتیں سرگرم ہیں جو نہیں چاہتیں کہ حالات بہتر ہوں لیکن ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ عمران خان سے بھی ملاقات کی ہے اور شہبازشریف کے سامنے بھی ایجنڈا رکھا ہے میں ابھی تک مایوس نہیں امید ہے کوئی صورتحال نکل آئے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اگر روڈ پر ٹریفک حادثہ ہواتو پھر چالان بھی ہوتا ہے ، سراج الحق نے کہا کہ طاہر القادری صاحب سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ اپنے مطالبات مذاکرت کے ذریعے منوائیں اگر حالات خراب ہوئے تو پھر کسی کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے اور ذمہ داروہی قوتیں ہوں گی جو کسی سمجھوتے پرتیار ہونے کو راضی نہیں۔

  • عمران خان، طاہرالقادری اور موجودہ نظام

    عمران خان، طاہرالقادری اور موجودہ نظام

    گو کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلابی ایجنڈا کافی وضاحت طلب ہے مگروہ عمران خان کے ایک یا دو نکاتی ایجنڈا سے زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان کا سارا فوکس دھاندلی، صاف شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن کی تبدیلی پر مرکوز ہے ایسے میں ان کے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ افتخار چوہدری کے جانے کے بعد عدلیہ مکمل طور پر غیر جانبدار یا پاک ہو کرایک مثالی عدلیہ بن چکی ہے؟موجودہ نظام عدل اور دستور پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ تو ہمیشہ سپریم ہی رہے گی توپھر اس بات کی بھی کیاگارنٹی ہے کہ آئندہ کبھی کوئی چیف جسٹس الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کریگا؟افتخار چوہدری بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ جو راستہ دکھاگئے ہیں اس کے اندھیرے میں آج نہیں تو کل پھر کوئی ایسا چیف جسٹس آ سکتا ہے جو اس بد مست ہاتھی کی بے انتہا طاقت کا ناجائز استعمال پھر سے شروع کر دے۔اس طاقت کے ناجائز استعمال کو کون کیسے روکے گا؟۔

    ہمارے دستور میں کسی بھی چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوئی دستوری نظیر موجود نہیں ما سوائے اس کے کہ جب بڑا ہاتھی چھوٹے ہاتھیوں کو دستور سمیت گھر بھیج دیتا ہے۔ان حالات میں آپ محض الیکشن کمیشن سے تمام توقعات کیسے وابستہ کر سکتے ہیں؟ تھوڑے دن پہلے تحریک انصاف کے ہی ایک ایم این اے علی خان صاحب یہ فرما رہے تھے کہ ان کی جماعت کے ایک ایم این اے کو ساٹھ ہزار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار تھے جو انھوں نے چندہ جمع کر کے پورے کئےتو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مہنگے نظام عدل سے آپ کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہو؟ جو بندہ ستر لاکھ دے کر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہا ہے اگر اسے انصاف مل بھی جائے تو وہ اس انصاف کے ملنے کے بعد کیا ایمانداری دکھائے گا؟جہاں محض ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار ہوں وہاں عوام کی حکمرانی کیسے ممکن ہے؟جمہور کا لیڈر ستر لاکھ سے کم حیثیت کا مالک نہ ہو اس سے زیادہ جمہوریت کی اور کیا توہین ہوگی؟اس سے زیادہ عدل کی کیا توہین ہوگی؟میرے خیال میں تو ایسا عدل اور دستورخود ایک توہین سمجھا جائے گا جو اس طرح کی شرط رکھے گا۔

    میڈیا سے لے کرہر سطحی سوچ کا مالک پاکستانی ہر وقت کرپشن کا راگ الاپتا رہتا ہے مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اس کی جڑیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔نظام عدل کی کمزوری نظام کی بنیادی ترین خرابیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں کرپشن کے سورج کو کبھی غروب نہیں ہونے دیتی۔اراکین الیکشن کمیشن کتنے ہی غیر جانبدار کیوں نہ ہوں لیکن وہ کوئی ولی پیغمبر تو نہ ہونگے۔یہاں دلوں کے حال کون جانتا ہے؟کیا بھٹو صاحب نے ضیاءکو آرمی چیف بناتے ہوئے سوچا تھا کہ وہ انھیں تختہ دار تک لے جائے گا؟ کیا میاں صاحب نے مشرف کے بارے میں سوچا تھا کہ وہ انھیں ملک سے ہی نکال دے گا؟کیا خود جنرل مشرف نے یہ سوچا تھا کہ محترمہ اور شریف برادران کو واپسی کی اجازت دینے اوردرجنوں نیوز چینلز کولائسنس اور ڈھیر ساری آزادی دینے کے بعد اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوگا؟بہترنظام کی جڑیں کسی فرد کے ساتھ نہیں بلکہ طاقت ورترین اداروں میں پنہاں ہوتی ہیں لہٰذا اداروں میں اصلاح کے بغیر بہتری کی کوئی گنجائش اورکوئی اُمید نہیں نکلتی۔اسی وجہ سے خان صاحب کے موجودہ مطالبات سے کسی تبدیلی یا نئے پاکستان کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

    طاہرالقادری کا ایجنڈا نظام عدل اور سستے انصاف کے حوالے سے نسبتا زیادہ واضع محسوس ہوتا ہے۔تاہم وہ بھی یہ واضع نہیں کرپاتے کہ موجودہ اعلی عدلیہ اور اس کے ججوں کے ساتھ یہ خواب کیسے ممکن ہے؟جبکہ افتخار چوہدری صاحب اپنی رخصتی سے پہلے بہت سے پسندیدہ افراد کو اعلی عدلیہ کا حصہ بنا گئے ہیں۔

    علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری پر معروف الزامات کچھ اس طرح کے ہیں۔”طاہرالقادری جھوٹ بہت بولتے ہیں“تو کیا میاں برادران اور دیگر سیاسی و مذہبی قیادت جھوٹ نہیں بولتی؟”طاہرالقادری لالچی ہیں “ کیا دیگر سیاسی و مذہبی قیادت لالچی نہیں ہے؟رہی بات قادری صاحب سے کوئی بڑی اُمید رکھنے کی تو وہ یقینا درست نہ ہوگی۔ وہ ایک مخصوس مذہبی فکر کے ترجمان ہیں اور مولوی کے لیبل کے نیچے پاکستان میں کبھی بھی مقبول سیاسی قیادت کے طور پر سامنے نہیں آسکتے۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ ریاست کے بعض بڑے معروف اور مقتول طبقات کی آواز بن کر ابھرے ہیں۔میرے نزدیک یہ ان کی بڑی کاوش ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کیونکہ ریاست یا ریاستی ادارے ان مظلوم طبقات کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے بلکہ وہ اُلٹا ایسے گروہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ملوث ہیں کہ جو ان مظلوم طبقات کے قتل میں شامل ہیں۔

    اگر کسی میں تھوڑی سی بھی معاملہ فہمی ہو تووہ بآسانی یہ حقیقت جان سکتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کو شہید ماننے والی جماعت اسلامی اب دستور کی باتیں کیوں کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی حکومت اور تحریک انصاف میں مفاہمتی کردار ادا کرنے کے لیے کیوں تیار ہو گئی ہے؟ کارکن عوامی تحریک کے مارے جا رہے ہیں مگر جماعت کی مفاہمتی کوششیں صرف تحریک انصاف اور حکومت تک محدود ہیں۔اس متعصب معاشرے کی ہر بدبودار گہرائی میں کہیں نہ کہیں فرقہ واریت کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم دوسرے کو جانے بغیریا آدھی بات سن کر حمایت یا مخالفت شروع کر دیتے ہیں ۔تحقیق کے بغیر لوگوں کو مکمل ہیرو یا ولن مان لیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی اکثریت کو افتخار چوہدری کی حمایت پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی طرح سے آصف زرداری کی حد سے زیادہ غیر معقول مخالفت بھی بہت سے لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔دوسری طرف ہمارے روشن خیال طبقات کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک طرف تو ہر طرح کے مولوی کو نفرت و معاشرتی برائی کا استعارہ تعبیر کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف اسے مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے اس سے پیغمبرانہ صفات کے متقاضی نظر آتے ہیں۔قادری صاحب نے آج تک مولویوں والی بات نہیں کی۔وہ اسی بے دست و پا دستور کے حوالے دیتے ہیں۔انھوں نے کبھی اپنی پسند کی شریعت کے نفاذ کا بھی نہیں کہا۔ان کے مذہبی چہرے سے ہٹ کر وہ تمام پاکستانی مولویوں یا ان سیاستدونوں سے بہتر ہی محسوس ہوتے ہیں کہ جو آج تک یو ٹیوب پر پابندی بھی ختم نہیں کرسکے۔ پاکستان کا دستور اور ریاست ہمیشہ ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ہاں ان کا باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عملدرآمد کا مطالبہ زمینی حقائق کے منافی تھااوراس پر وہ خودبھی شاید پورے نہیں اتر سکتے۔لیکن کیا کسی نے باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عمل کیا یا کروایا؟ کیا اٹھارہویں ترمیم پاس کروانے والوں نے جنرل ضیا کی ڈلوائی ہوئی اس شق کوختم کرنے کی کوشش کی؟اگر باسٹھ ،تریسٹھ درست ہے تو اس پر عمل کرو نہیں تو اس کو باہر کرو یہ منافقت اور جھوٹ کا رویہ اور پھر آئین کی پاسداری کے دعوے۔ یہ سب کیا ہے؟

    دوسری طرف بعض لبرل اور جمہوریت پسندلوگ طاہرالقادری کے تازہ بیانات کے بعد ان کے لیے طرح طرح کی سزائیں تجویز کر رہے ہیں۔میرا ان سب سے سوال ہے کہ آج تک آپ نے مولانا صوفی محمد اور مولانا عبدالعزیز جیسے لوگوں کا کیا بگاڑ لیا ہے جو آپ طاہرالقادری کو مجرم گردان کر سزا کی سفارشات مرتب کر رہے ہیں؟آپ کون سے آئین اور کیسی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں؟ایک فکر کے لوگ گزشتہ تین دھائیوں سے ریاست کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ،ان کے مدرسوں میں ہر طرح کے جہادی تیار ہوتے ہیں۔ ایکسپورٹ بھی ہوتے ہیں اور ملک میں بھی کام آتے ہیں۔اس بیمار ریاست اور اس کے اپاہج دستور نے کیا بگاڑ لیا؟ کیا ریاست نے حکیم اللہ محسودکو شہید کہنے والے منور حسن پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا؟ہم اتنے اندھے کانے اور متعصب کیوں ہیں کہ ہم انصاف کو برابری اور غیر جانبداری کی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں پاتے؟ہمیں عمران خان یا طاہرالقادری کے طرز سیاست یا دیگر نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔

  • وزیراعظم کا آج کا خطاب آخری خطاب ہوگا،فیض الاسلام

    وزیراعظم کا آج کا خطاب آخری خطاب ہوگا،فیض الاسلام

    لاہور:پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان فیض الاسلام نےکہا ہےکہ حکومت کےدن گنےجاچکے ہیں،وزیراعظم آج قوم سےآخری خطاب کریں گے۔

    اکستان عوامی تحریک کے ترجمان فیض الاسلام نے منہاج القرآن سیکریٹریٹ میں میڈیا سےگفتگو میں کہا ہےکہ وزیراعظم کا آج کاخطاب قوم سےان کا آخری خطاب ثابت ہوگا۔

    فیض الاسلام نےکہا کہ حکمران کنٹینروں کےپہاڑلگالیں،انقلاب کےسیلاب کا راستہ نہیں روک سکتے۔

    ترجمان عوامی تحریک نے کہا کہ چودہ اگست کو ہرحال میں اسلام آباد پہنچیں گےاورعوام کوانقلاب کی نوید سنائیں گے۔

  • وزیراعظم نواز شریف آج قوم سے خطاب کریں گے

    وزیراعظم نواز شریف آج قوم سے خطاب کریں گے

    اسلام آباد:وزیراعظم نوازشریف آج قوم سےخطاب کریں گے،جس میں وزیراعظم ملک کی سیاسی صورتحال پرقوم کواعتماد میں لیں گے۔

    وزیراعظم پاکستان کےمعاون خصوصی عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اپنے خطاب میں حکومت کی کارکردگی قوم کےسامنے رکھیں گے اورسیاسی صورتحال پر قوم کواعتماد میں لیں گے۔

    وزیراعظم کے خطاب کا وقت رات آٹھ بجےطے ہوا ہے، وزیراعظم یہ خطاب ایسے وقت کر رہے ہیں جب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک آزادی اور انقلاب مارچ کرنے جا رہی ہیں۔

    عمران خان نے وزیراعظم کے استعفے اور وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ کررکھا ہے، اورحکومت کی جانب سے بات چیت کی پیشکش مستردکر رکھی ہے۔

  • آزادی مارچ کرنا عمران خان کا جمہوری حق ہے،سراج الحق

    آزادی مارچ کرنا عمران خان کا جمہوری حق ہے،سراج الحق

    لاہور:امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کرنا عمران خان کا جمہوری حق ہےمگر وہ پاکستان میں آئین جمہوریت اورآزادیوں کےساتھ ہیں۔

    لاہورمیں عمران خان سےملاقات کےبعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ حکومت نے پنجاب اوراسلام آباد میں کنٹینرلگا کراپنی خوفزدگی پوری دنیا میں عیاں کردی ہے،احتجاج کرنااورآزادی مارچ نکالتے ہوئےاسلام آباد تک جانا عمران خان کا جمہوری حق ہے وہ اس بات سے خائف ہیں کہ احتجاج کےنتیجےمیں کہیں جمہوریت ڈی ریل نہ ہو جائے۔

    سراج الحق نےکہا کہ انکی جماعت پاکستان میں جمہوریت آزادیوں اورآئین کے حق میں ہے۔

  • پی ٹی آئی،پی اے ٹی کا مشترکہ اجلاس آج ہوگا

    پی ٹی آئی،پی اے ٹی کا مشترکہ اجلاس آج ہوگا

    لاہور:چودہ اگست کی حکمت عملی طے کرنےکیلئے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا مشترکہ اجلاس آج ہوگا۔

    آزادی اورانقلاب مارچ پرحکومتی حلقوں میں ہلچل کےبعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک بھی لائحہ عمل طے کر رہی ہیں،انقلاب مارچ روکنےکیلئےپنجاب حکومت نےسرجوڑے ہیں توعمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری، چوہدری برادران اور شیخ رشید کی گرفتاری کی باتیں بھی ہورہی ہیں،جس کے جواب میں چودہ اگست کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے پی ٹی آئی اورپی اے ٹی کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔

    تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اوراعجاز چودھری شریک ہوں گےجو پی اے ٹی کے رہنماؤں ڈاکٹر رحیق عباسی، خرم نواز گنڈا پور،شیخ زاہد فیاض اورقاضی فیض کے ساتھ حکمت عملی طے کریں گے۔

    تحریک انصاف کا وفد علامہ طاہرالقادری سے ملاقات بھی کرے گا، بتایا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کےسربراہ عمران خان آج شام داتا دربار حاضری دیں گے۔

  • جلسے جلوسوں پر پابندی: کمشنر اسلام آباد کا عمران خان اور طاہرالقادری کو خط ارسال

    جلسے جلوسوں پر پابندی: کمشنر اسلام آباد کا عمران خان اور طاہرالقادری کو خط ارسال

    اسلام آباد : چیف کمشنر اسلام آباد نے عمران خان اور طاہرالقادری کو خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں جلسے جلوسوں پر پابندی ہے۔

    تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو اسلام آباد کے چیف کمشنر نے خط ارسال کیا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے، جس کے تحت جلسے، جلوسوں اور مارچ کی بالکل اجازت نہیں دی جائے گی، چیف کمشنر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو جلسے کے لئے اسسٹنٹ کمشنر کی اجازت لینا ہوگی، خط میں کہا گیا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے باعث سیکیورٹی خدشات بھی ہیں۔

  • طاہر القادری سے انتخابی انقلاب کی بات کی جائے گی، عمران خان

    طاہر القادری سے انتخابی انقلاب کی بات کی جائے گی، عمران خان

    لاہور: عمران خان کہتے ہیں طاہر القادری سے انتخابات کے ذریعے انقلاب کی بات کی جائے گی، چودہ اگست کے بعد وہ خود وزیراعظم کو ملاقات کی دعوت دیں گے۔

    چودہ اگست کو آزادی مارچ اور انقلاب مارچ ساتھ ساتھ ہوگا اور عمران خان نے آزادی مارچ کے بعد اپنی پہلی ترجیح بھی بتا دی،تحریک  انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں یہ پورے پاکستان کی آزادی کا معاملہ ہے۔ علامہ طاہر القادری سے بات کی جائے گی کہ وہ انتخابی انقلاب کے ذریعے اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگیوں میں انقلاب لائیں۔

    عمران خان علامہ طاہر القادری سے انتخابی عمل میں اصلاحات کی بات کریں گے، کپتان پہلے ہی کہہ چکے ہیں وزیراعظم نواز شریف کے استعفے اور وسط مدتی انتخابات کے مطالبات کی منظوری تک وہ اسلام آباد میں بیٹھے رہیں گے،عمران خان کہتے ہیں چودہ اگست کے بعد وہ خود وزیراعظم کو ملاقات کی دعوت دیں گے۔

  • عمران خان آزادی مارچ کی قیادت کرنے کیلئے لاہور پہنچ گئے

    عمران خان آزادی مارچ کی قیادت کرنے کیلئے لاہور پہنچ گئے

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آزادی مارچ کی قیادت کرنے کیلئے لاہور پہنچ گئے ہیں۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آزادی مارچ کی قیادت کرنے لاہور پہنچ گئے،زمان پارک برقی قمقموں سے جگمگا اٹھا پرجوش کارکنوں نےاپنےقائدکا استقبال بھی پرجوش اوروالہانہ کیا، عمران خان جب بنی گالہ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے نکلے،توان گاڑیوں کا قافلہ بھی ساتھ نکلا،پرجوش کارکن اپنے قائد اور آزادی مارچ کیلئے نعرے لگاتے رہے، پولیس اسکواڈ سیکیورٹی دیتا رہا، گاڑی میں بیٹھے عمران خان کا پر اعتماد چہرہ چودہ اگست کے آزادی مارچ کی کہانی بتارہا تھا، ہشاش بشاش عمران خان کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے رہے۔

    PTI-PMLN

    دوسری جانب عمران خان کے لاہور پہچنے سےقبل لاہورکازمان پارک اکھاڑا بن گیا، زمان پارک لاہور میں عمران خان کی رہائش کے باہر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے کارکن آمنے سامنے آگئے  پتھراؤ اور جوابی پتھراؤسے کشیدگی پھیل گئی لیکن معاملہ وقتی طور پر ٹل گیا۔

    آزادی مارچ سےقبل تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد جانے کیلئے پرجوش ہیں، تو ن لیگ والے بھی موقع کی کھوج میں ہیں، مقابلہ سخت،اور فضاؤں میں کشیدگی پھیل چکی ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے سیاسی قیادت نے افہام و تفہیم کا مظاہرہ نہ کیا،تو نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔

  • عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کے چہرے بےنقاب کردیئے

    عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کے چہرے بےنقاب کردیئے

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نےانتخابات میں دھاندلی کے عوض مراعات حاصل کرنے والوں کوبے نقاب کردیا۔

    عمران خان نے بنی گالہ میں انتخابی دھاندلیوں کے ذریعےشریف برادران کو فائدہ پہنچا کر مراعات حاصل کرنیوالے کرداروں کوبےنقاب کیا، عمران خان نےبتایا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کوخدمت کےعوض ان کے بیٹے کو بورڈ آف انوسٹمنٹ کا چیئر مین بنایا گیا، عمران خان کے مطابق جسٹس رمدے کے بیٹےمصطفی رمدے، بھائی اسد رمدے اور بھتیجی کو بھی نوازا گیا، عمران خان نےکہا جسٹس انور محبوب کو ایک سال کی توسیع سمیت دیگر مراعات دے کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع دیا گیا۔

    عمران خان نے پینتیس پنکچر والے نجم سیٹھی کو ملنے والی مراعات کا پردہ چاک کیا ، عمران خان نےبتایا سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کو خدمت گزاری پر دو بار توسیع ملی، تحریک انصاف کےچیئر مین نے طارق باجوہ، شاہد خان، ریٹرننگ آفیسرز اور ڈی آر اوز کو بھی دی گئی خصوصی مراعات کا ذکر کیا۔

    عمران خان کا کہنا تھا ملکی مسائل کا حل مارشل لاء میں نکالنے والوں کی سوچ غلط ہے، اُن کا کہنا تھا چودہ اگست کو آنے والا سیلاب کوئی نہیں روک سکتا پولیس والے ملک بچائیں ایک خاندان کے ملازم نہ بنیں، جو بادشاہت سے تنگ ہیں وہ نئے پاکستان کے لئے باہر نکلیں۔