Tag: punjabi

  • رانی مکھرجی تبدیل ہوگئی تھیں۔۔ مگر کیسے؟

    رانی مکھرجی تبدیل ہوگئی تھیں۔۔ مگر کیسے؟

    بالی ووڈ کی معروف اداکارہ رانی مکھرجی نے انکشاف کیا ہے کہ پیدائش کے بعد وہ ایک پنجابی خاندان کی بچی سے بدل گئی تھیں اور ان کی والدہ کافی دیر تک اس بچی کو رانی سمجھتی رہیں۔

    ایک پرانے انٹرویو میں، جو پھر سے وائرل ہورہا ہے، رانی مکھرجی نے بتایا کہ اپنی پیدائش کے بعد ایک دوسرے خاندان نے انہیں اپنی بچی سمجھ کر اٹھا لیا اور اپنے کمرے میں لے گئے۔

    اس خاندان کی بچی ان کی والدہ کے پاس آئی، لیکن ان کی والدہ نے کہا کہ میری بیٹی کی آنکھیں بھوری تھیں، اس بچی کی آنکھیں بھوری نہیں ہیں۔

    اس کے بعد اسپتال میں انہیں تلاش کیا گیا تو وہ پنجابی خاندان کے پاس سے ملیں، رانی کا کہنا تھا کہ اس وقت اس خاندان کے یہاں آٹھویں بیٹی پیدا ہوئی تھی۔

    اداکارہ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہیں گھر میں پنجابی کہہ کر چھیڑا جاتا ہے، اتفاق سے ان کے شوہر بھی پنجابی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

    سنہ 1996 میں راجہ کی آئے گی بارات سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والی رانی کی حالیہ فلم بنٹی اور ببلی 2 گزشتہ برس ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے 10 سال بعد بڑی اسکرین پر واپسی کی تھی۔

  • اک اوردریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو

    اک اوردریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو

    شاعری میں جداگانہ اسلوب اور منفر د لب و لہجے کے حامل   اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کا آج 91 واں یوم پیدائش ہے، الگ اور بے باک انداز انہیں  دیگرشعراء سے ممتاز کرتا ہے۔

    اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں9 اپریل  1928 میں پیدا ہوئے۔انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات، ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

    منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔ منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔

    کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن

    کج گَل وچ غم دا طوق وی سی

    کج شہر دے لوک وی ظالم سن

    کج مينوں مَرن دا شوق وی سی

    منیر نیازی اردواور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اردو میں ان کے تیرہ شعری مجموعے شائع ہوئےجن میں تیزہوا اور تنہا پھول، دشمنوں کے درمیان شام، جنگل میں دھنک، سفید دن کی ہوا، ماہ منیر، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

    معروف شاعر کے پنجابی میں‌ بھی تین شعری مجموعے شائع ہوئے اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا اسی لیے غزل میں بھی ان کا لب ولہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں

    ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

    اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو

    بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

    بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

    کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

    حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو

    ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں

    معروف شاعر منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے شاعر 26 دسمبر سنہ 2006 کو لاہور میں وفات پاگئے۔شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعرسے ہوتی ہے۔

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

    میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا