Tag: PUTIN

  • شام میں کیمیائی حملہ ، روس کی امریکی فوجی کارروائی پر سنگین نتائج کی دھمکی

    شام میں کیمیائی حملہ ، روس کی امریکی فوجی کارروائی پر سنگین نتائج کی دھمکی

    ماسکو : شام میں کیمیائی حملے کے بعدخطے میں کشیدگی بڑھ گئی، امریکی صدر کی جانب سے کارروائی کی دھمکی کے بعد روس نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے امریکی فوجی کارروائی پرسنگین نتائج کی دھمکی دے دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شام کے شہردوما میں کیمیائی حملے میں درجنوں افراد کی ہلاکت نے ہلچل مچا دی، عالمی برادری کی جانب سے سخت مذمت کی جارہی ہے۔

    کیمیائی حملے کا ذمہ دار روس اورشامی حکومت کو ٹہراتے ہوئے امریکی صدر نے سخت کارروائی کی دھمکی دیتے ہوئے کیمیائی حملے کو ناقابل قبول قرار دیا تھا۔

    ٹرمپ کےبیان پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ ماہرین اور امدادی کارکنوں نے باغیوں کے علاقے سے نکل جانے کے بعد وہاں کا دورہ کیا ہے اور انھیں کسی قسم کے کیمیائی حملے کے کوئی آثار نہیں ملے۔

    روس نے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کیمیائی حملے کی خبر من گھڑت ہے اور اگر امریکا نے کارروائی کی توبھاری قیمت چکانا پڑے گی جبکہ شامی حکومت نے کیمیائی حملے کی تردید کی ہے۔

    دوسری جانب سلامتی کونسل کے اجلاس میں روس اور امریکہ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا،روسی سفیرکا کہناتھاکہ امریکہ کی فوجی کارروائی کےسنگین نتائج برآمد ہوں گے جبکہ امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ روس کے ہاتھوں پر شامی بچوں کا خون ہے۔

    اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے اقوام متحدہ سے کیمیائی حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

    اس سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک پر شام میں ہونے کیمیائی حملے کی کمزور الفاظ میں مذمت کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    واضح رہے کہ شام میں سرکاری افواج کی جانب سے جنوب مشرقی غوطہ کے قصبے دوما میں فضائی حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 70 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد خمی ہوئے تھے، ہلاک و زخمیوں میں زیادہ تر تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ –

    کیمیائی حملے کا الزام روس اور شامی حکومت پرعائد کیا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ شام کے علاقے دوما میں مبینہ کیمیائی حملے کے بعد لوگ نقل مکانی پر مجبور ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیاپر شیئر کریں۔

  • پیوٹن شام میں لڑائی ختم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، فرانس

    پیوٹن شام میں لڑائی ختم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، فرانس

    پیرس: فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا ہے کہ ولادی میر پیوٹن شام میں لڑائی ختم کرانے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ولادی میر پیوٹن سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کیا، فرانسیسی صدر نے شام میں عام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے اور فوجی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے روس سے موثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔

    فرانسیسی ایوان صدر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر میکرون کو توقع ہے کہ شام کے تنازع کے منصفانہ حل کے لیے دونوں ممالک منظم بات چیت کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

    فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ اگر شامی حکومت پر شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا دعویٰ ثابت ہوجاتا ہے تو امریکا اور فرانس کیمیائی حملے میں ملوث عناصر کو سزا دینے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

    فرانسیسی اور روسی صدر نے خطے میں داعش کے خلاف جاری لڑائی میں حصے لینے پر بھی زور دیا، واضح رہے کہ حال ہی میں فرانسیسی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ اگر شام میں کیمیائی حملوں کا ثبوت ملتا ہے تو ان کا ملک امریکا کے ساتھ مل کر دشمق کے خلاف کارروائی سے گریز نہیں کرے گا۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے شام سے فوری فوج کی واپسی کا عندیہ دیا تھا تاہم بعد انہوں نے کچھ عرصے کے لیے امریکی فوج کو شام میں موجود رہنے کی ہدایت کی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • برطانیہ: زہریلی گیس سے متاثرہ سابق روسی ایجنٹ کی بیٹی تیزی سے روبہ صحت

    برطانیہ: زہریلی گیس سے متاثرہ سابق روسی ایجنٹ کی بیٹی تیزی سے روبہ صحت

    لندن: اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں سابق روسی جاسوس سیرگی اسکریپال کی بیٹی زہریلی گیس سے متاثر ہونے کے بعد تیزی سے روبہ صحت ہورہی ہیں۔

    سالز بری اسپتال سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ گیس حملے سے متاثرہ یولیا اسکریپال تیزی کے ساتھ روبہ صحت ہیں تاہم اس کے والد کی حالت بدستور تشویشناک ہے البتہ دونوں کا علاج تیزی سے جاری ہے۔

    برطانوی پولیس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ماہرین نے پتہ چلایا ہے کہ گیس کی زیادہ مقدار اسکریپال کے گھر کے دروازے پر پھینکی گئی تھی جس کے نتیجے میں سابق روسی جاسوس زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

    برطانوی حکومت نے اس کا الزام روسی حکومت پر عائد کیا ہے جو لندن کے دعوے کی سختی سے تردید کرتا آرہا ہے، اس واقعے نے امریکا اور یورپ کو روس کے خلاف ایک محاذ پر اکٹھا کردیا ہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے کا سفارتی بائیکاٹ جاری ہے۔

    واضح رہے کہ چار مارچ کو سابق روسی جاسوس سیرگی اسکریپال اور اس کی بیٹی 33 سالہ یولیا اسکریپال پر انگلینڈ میں سالز بری کے مقام پر ان کے گھر کے باہر مبینہ طور پر زہریلی گیس سے حملہ کیا گیا تھا، جس کے بعد دونوں باپ بیٹی کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: روس کا 60 امریکی سفارتکاروں کی بے دخلی کا اعلان

    سابق روسی جاسوس اور ان کی بیٹی پر گیس حملے کے بعد سے روس کے مختلف ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کشیدہ ہیں، برطانیہ اور امریکا نے روسی سفیروں کو ملک بدر کردیا جبکہ جواب میں روس نے بھی دونوں ممالک کے سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • برطانوی وزیر خارجہ نے روسی صدر پیوٹن کو ہٹلر قرار دے دیا

    برطانوی وزیر خارجہ نے روسی صدر پیوٹن کو ہٹلر قرار دے دیا

    لندن: برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کو ہٹلر قرار دے دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کے جواب میں وزیر خارجہ بورس جانسن نے روسی صدر کا جرمنی کے ہٹلر سے موازنا کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہٹلر نے اولمپکس کو استعمال کیا تھا اسی طرح پیوٹن بھی فٹبال ورلڈ کپ کو استعمال کررہے ہیں۔

    برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ روسی صدر فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کو کے ذریعے اپنے ملک کا مقام اونچا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسا ہٹلر نے جرمنی میں اولمپکس کی میزبانی کرتے ہوئے اپنی ساکھ بہتر کرنے کی کوشش کی تھی۔

    روسی حکومت نے برطانوی وزیر خارجہ کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے شرمناک اور ناقابل قبول قرار دیا، ماسکو حکومت کے ترجمان ویمتری بسکوف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بورس جانسن نے الفاظ کسی معزز ملک کے وزیر خارجہ کے الفاظ نہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ولادی میر پیوٹن جرمنی کے ہٹلر نہیں ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانیہ اور روس کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے، برطانیہ نے روس کے 23 سفارتکاروں کو ملک بدر کردیا، جس کے جواب میں روس نے بھی برطانوی سفارتکاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا۔

    خیال رہے کہ روس رواں سال جون اور جولائی میں ہونے والے فیفا فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کررہا ہے، برطانوی وزیر اعظم تھریسامے پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ برطانیہ کا کوئی بھی وزیر اور شاہی خاندان کا رکن اس ایونٹ میں احتجاجاً شرکت نہیں کرے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ٹرمپ کا پیوٹن کو فون، صدارتی انتخابات جیتنے پر مبارک باد

    ٹرمپ کا پیوٹن کو فون، صدارتی انتخابات جیتنے پر مبارک باد

    ماسکو: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر ولادی میر پیوٹن کو ٹیلی فون کرکے مبارک باد دی ہے.

    تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ولادی میرپوٹن کو مبارکباد دی۔ روسی حکومت کے ایک بیان کے مطابق امریکی صدر نے روسی صدر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور ایک سمٹ منعقد کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔

    یاد رہے کہ اتوار کے روز صدارتی الیکشن میں ولادی میر پیوٹن چوتھی بار واضح برتری کے ساتھ صدر منتخب ہوئے تھے، انھوں نے الیکشن میں 74 فیصد ووٹ حاصل کیے. اس جیت کے بعد وہ وہ مزید 6 سال تک روس کے صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے.

    65 سالہ ولادی میر پیوٹن 1999 سے وزیراعظم اور پھر صدر کی حثیثت سے روس کی سربراہی کررہے ہیں. ان کا دور اقتدار اٹھارہ برس پر محیط ہے. یاد رہے، صدارتی الیکشن کے نتائج کے مطابق پیوٹن کو گذشتہ صدارتی انتخاب کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ 2012 میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں انہیں 64 فیصد ووٹ ملے تھے۔


    ولادی میر پیوٹن چوتھی بار روس کے صدر منتخب


    خیال رہے کہ روس کے اپوزیشن رہنما اور پیوٹن کے سب سے بڑے حریف الیکسی نیوالنی پر ان انتخابات میں حصہ لینے پرپابندی تھی۔

    تجزیہ کار پیوٹن کی روس اور خطے پر گرفت اور چین سے بڑھتے تعلقات کی وجہ سے دنیا کا طاقتور ترین شخص تصور کرتے ہیں. واضح رہے کہ روسی میں اطلاعات تک رسائی دشوار ہے۔ یورپ اور مغرب کو وہاں‌ رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں‌ زیادہ معلومات نہیں. اس اطلاعاتی جبر کے باعث مغرب میں‌ پیوٹن کو ایک آمر کے روپ میں‌ دیکھا جاتا ہے.


    برطانوی جاسوس کو زہر دینے کا الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہے، پیوٹن


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • برطانوی جاسوس کو زہر دینے کا الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہے، پیوٹن

    برطانوی جاسوس کو زہر دینے کا الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہے، پیوٹن

    ماسکو: روس کے نو منتخب صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ برطانوی جاسوس اور ان کی بیٹی کو زہر دئیے جانے کا الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، پیوٹن نے کہا کہ روس میں فٹ بال ورلڈ کپ سے قبل ایسے کسی اقدام کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ماسکو پر سابق برطانوی ایجنٹ سیرگی سکریپل کو زہر دینے کا الزام بے بنیاد ہے۔

    روسی صدر نے کہا کہ جس اعصابی گیس کا ذکر برطانیہ کی جانب سے کیا جارہا ہے ماسکو کے پاس وہ گیس موجود ہی نہیں، اگر یہ گیس استعمال ہوتی تو ایک یا دو افراد نہیں بہت سے لوگ متاثر ہوتے۔

    2024ء میں بھی روس کے صدر کے امیدوار بننے کے سوال کے جواب میں پیوٹن نے کہا کہ مجھے گنتی کرنے دیں، کیا میں اس وقت بھی روس کا صدر ہوں گا جب میری عمر سو برس سے زائد ہوجائے گی۔

    آخر میں پیوٹن نے اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے انہیں چوتھی بار روس کا صدر منتخب کروایا، روسی صدر نے وہاں پر موجود لوگوں کے ساتھ مل کر روس، روس کے نعرے بھی لگائے۔

    یہ پڑھیں: روس کا برطانیہ کے 23 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان

    واضح رہے کہ روس اور برطانیہ کے درمیان برطانوی جاسوس کو زہر دینے کے واقعے کو لے کر حالات کشیدہ ہیں، دونوں ملکوں کی جانب سے سفیروں کو ملک بدر کرنے کے اعلانات کئے جاچکے ہیں۔

    یاد رہے کہ برطانوی جاسوس سیرگی سکریپل اور ان کی بیٹی اس وقت برطانیہ کے ایک اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

  • روس کے صدارتی الیکشن، پیوٹن کا پلڑا چوتھی بار پھر بھاری

    روس کے صدارتی الیکشن، پیوٹن کا پلڑا چوتھی بار پھر بھاری

    ماسکو: روس میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل اختتام پذیرہوگیا، صدر ولادی میر پیوٹن کے چوتھی بار ملک کے سربراہ منتخب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق روس میں صدارتی انتخاب کے لیے صبح 8 بجے شروع ہونے والی پولنگ کا سلسلہ اختتام ہوگیا ہے، کچھ دیر بعد روس کے نئے صدر کا اعلان کیا جائے گا، صدر ولادی میر پیوٹن کے چوتھی بار ملک کے سربراہ منتخب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

    صدارتی انتخاب کے لئے ووٹنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا تھا جو رات 8 بجے تک جاری رہا، روس کے صدارتی انتخابات میں صدر پیوٹن کے انتخاب میں 7 امیدواروں نے الیکشن لڑا ۔

    صدارتی انتخاب میں روس کی ایک ارب سے زائد افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا، ووٹنگ کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ 70 فیصد تک رہنے کی توقع تھی جبکہ صدر پیوٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر روس کی عظیم سلطنت کے سربراہ منتخب ہوجائیں گے، کیوں کہ عوام مجھے ہی ’صدر کے فرائض انجام دینے کا حق دیں گے‘۔

    صدر ولادی میر پیوٹن کے مقابلے میں روس کے ارب پتی کمیونسٹ پاول گرودین، سابق ٹی وی انکر کسنیا شُبچک اور وٹیرین قوم پرست ولادی زیرینفسکی شامل ہیں۔

    یاد رہے کہ روس کے اہم اپوزیشن لیڈر الیکسی نوالنی کو دھوکہ دہی کے الزام کے باعث الیکشن میں حصّہ نہیں لینے دیا گیا، الیکسی نے عوام نے درخواست کی تھی کہ وہ اس الیکشن کا بائیکاٹ کردیں اور انہوں نے مبینہ طور پرپولنگ اسٹیشنز پر ہزاروں افراد بھی بھیجے تھے تاکہ الیکشن کے دوران انتشار پھیلایا جاسکے۔

    واضح رہے کہ 65 سالہ ولادی میر پیوٹن 1999 سے وزیر اعظم اور صدر کی حثیثت سے روس کی سربراہی کررہے ہیں۔

    پندرہ سو سے زائد عالمی مبصرین اور ہزاروں مقامی مبصرین صدارتی انتخاب کے لئے ووٹنگ کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے صدارتی انتخاب کو شفاف بنانے کے لئے دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • روسی صدر کی دھمکیوں‌ نے ہمارے تمام خدشات کی تصدیق کر دی: امریکی ردعمل

    روسی صدر کی دھمکیوں‌ نے ہمارے تمام خدشات کی تصدیق کر دی: امریکی ردعمل

    واشنگٹن :امریکی حکومت نے روسی صدر کے ناقابل تسخیر ہتھیار تیار کرنے کے دعوے کو اپنے خدشات کی تصدیق قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوریٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پوتن کا یہ بیان ان معلومات کی تصدیق ہے، جن کے بارے میں امریکا پہلے سے باخبر تھا۔ امریکی کانفرنس نے کچھ عرصے قبل بڑھتے روسی جوہری خطرے کی نشان دہی کی تھی اور پیوتن کا بیان اس کی تصدیق ہے۔

    پینٹاگون کے ترجمان ڈین وائٹ کا کہنا ہے کہ روسی صدر کے بیانات غیرمتوقع نہیں، البتہ امریکی عوام کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ ہم پوری طرح تیار ہیں۔ ادھر وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا کہ امریکا اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کر کے اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اس کی دفاعی صلاحیت دنیا میں کسی سے بھی کم نہ ہو۔

    یاد رہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن نے اپنے ایک خطاب میں ایسے ’ناقابل تسخیر‘ جوہری ہتھیار تیار کر لیے لیں، جو دنیا کے کسی بھی شہر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ اعلان انھوں نے اپنے آخری صدارتی خطاب میں کیا۔ اس طویل تقریر میں انھوں نے ان میزائلز کی ویڈیوز بھی چلائیں۔ روسی صدر نے نئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا دعویٰ اپنے چوتھے صدارتی انتخابات سے چند ہفتے قبل کیا۔


    ہم ناقابل تسخیر جوہری ہتھیار بنا چکے ہیں: پوتن نے حریفوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی


    دنیا کے طاقتور ترین شخص تصور کیے جانے والے روسی صدر کے اس سنسنی خیز دعویٰ نے امریکا کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا دی۔ ولادی میر پوتن نے کہا تھا کہ ہم ایسے ڈرون تیار کر رہے ہیں، جنھیں آبدوز سے چھوڑا جا سکے گا اور یہ جوہری حملہ کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہوں گے۔

    عالمی میڈیا کے مطابق پوتن کی تازہ تقریر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری طاقت بڑھانے اور مزید جوہری ہتھیار بنانے کے بیان کا ردعمل تھی۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ ان کے سیاسی کیریر کی سخت ترین تقریر تھی.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں

  • ہم ناقابل تسخیر جوہری ہتھیار بنا چکے ہیں: پوتن نے حریفوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    ہم ناقابل تسخیر جوہری ہتھیار بنا چکے ہیں: پوتن نے حریفوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    ماسکو: روسی صدر ولادی میر پوتن نے ایسے ناقابل تسخیر جوہری ہتھیار بنانے کا دعویٰ کیا ہے، جو دنیا کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

    دنیا کے طاقتور ترین شخص تصور کیے جانے والے روسی صدر کے اس سنسنی خیز دعویٰ نے امریکا کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا دی۔ انھوں نے کہا ، ہم ایسے ڈرون  تیار کر رہے ہیں، جنھیں آبدوز سے چھوڑا جا سکے گا اور یہ جوہری حملہ کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہوں گے۔

    یہ سنسنی خیز دعویٰ انھوں نے اپنے آخری صدارتی خطاب میں کیا۔ چند ہی روز میں ان کے چوتھے بار صدر منتخب ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ روس کے سرکاری ٹی وی چینل پر اپنی تقریر میں انھوں نے ان دو ہتھیاروں کی ویڈیوز بھی چلائیں، جنھیں بے بدل قرار دیا جارہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ روس کے اس نئے ہتھیار کو امریکی دفاعی نظام نہیں روک سکتا۔


    پیوتن کا چوتھی بار صدر کے عہدے کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ


    انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ان کی جوہری طاقت امن کے لیے خطرہ نہیں، لیکن اگر کوئی روس کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرے گام تو روس دوگنی طاقت سے اس کا جواب دے گا۔ عالمی میڈیا کے مطابق پوتن کی تازہ تقریر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری طاقت بڑھانے اور مزید جوہری ہتھیار بنانے کے بیان کا ردعمل ہے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ ان کے سیاسی کیریر کی سخت ترین تقریر ہے۔


    کیا چینی صدر دنیا کے طاقتور ترین شخص بننے والے ہیں؟


    یاد رہے کہ گذشتہ دنوں چین سے بھی ایسی آئینی ترمیم کی بازگشت سنائی دی، جس کے بعد موجودہ چینی صدر شی جن پنگ کی مسند اقتدار پر 2030 تک گرفت مضبوط ہوجائے گی۔ کمیونسٹ پارٹی کی اس تجویز کو منظور کرنے کے بعد صدر شی جن پنگ چینی تاریخ کی مضبوط اور بااثر ترین شخصیت بن جائیں گے۔

    چین اور روسی صدور کی اقتدار پر مضبوط گرفت اور خطے میں بڑھتے اثر سے امریکا سمیت پورے یورپ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • روسی صدر کا شام کے شہرغوطہ میں روز5 گھنٹے بمباری روکنے کا حکم

    روسی صدر کا شام کے شہرغوطہ میں روز5 گھنٹے بمباری روکنے کا حکم

    غوطہ : روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے شام کے شہر غوطہ میں روز 5 گھنٹے بمباری روکنے کا حکم دیدیا، بمباری روکنے کا فیصلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا۔

    ٖغیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق روس کی جانب سے مشرقی غوطہ میں جاری لڑائی میں روزانہ وقفے کا اعلان کردیا، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے شام کے شہر غوطہ میں روز 5 گھنٹے بمباری روکنے کا حکم دیدیا۔

    روسی صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ شام کے علاقے غوطہ کے مشرقی علاقے میں جاری بمباری روکنے کا فیصلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا۔

    غوطہ میں روزانہ5گھنٹے کی جنگ بندی کا آغاز آج سے ہوگا اور اس منصوبے میں شہریوں کو علاقے سے نکلنے کے لیے راستہ بنانے کی تجویز بھی شامل ہے۔

    شام میں باغیوں کے زیرِ قبضہ قصبہ غوطہ ایک ہفتے سے شامی حکومت کی شدید بمباری کا ہدف رہا ہے اور اس کارروائی میں شامی فوج کو روس کی حمایت حاصل ہے۔

    فلاحی ادارے کا کہنا ہے کہ آٹھ روز قبل لڑائی میں شدت آنے کے بعد سے حکومتی افواج کے فضائی حملوں اور گولہ باری میں اب تک کم سے کم پانچ سو اکتالیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جاں بحق افراد میں 100بچے بھی شامل ہیں۔


    مزید پڑھیں : شام میں وحشیانہ بمباری،خواتین و بچوں سمیت 540سے زائد شہید


    اقوام متحدہ نے ایک بار پھر عارضی جنگ بندی پر زور دیا ہے جبکہ روس اور شام پہلے اقوام متحدہ کی تیس روزہ جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کر چکے ہیں۔

    ترک صدر رجب طیب اردگان نے مطالبہ کیا تھا کہ شامی حکومت مشرقی غوطہ میں لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے، شامی علاقے مشرقی غوطہ میں قتل عام بند کیا جائے اور وہاں موجود افراد کو فوری طور پر امداد فراہم کی جائے، قتل عام پر عالمی برداری کو فوری ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے مطالبہ کیا  کہ جنگ بندی پر فوراً عمل کیا جائے لیکن ساتھ میں انھیں جنگ بندی کے حوالے سے شام پر شک بھی ہے۔

    انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ شامی حکومت کے فوجی دستوں اور فضائیہ نے باغیوں کے زیر قبضہ شہر مشرقی غوطہ پر مسلسل ایک ہفتہ بمباری کی ہے ‘ جس میں اب تک پانچ سو عام شہری مارے جا چکے ہیں۔

    شامی مبصر گروپ نے کہا تھا کہ مشرقی غوطہ میں مرنے والوں میں 121 بچے شامل ہیں۔ روسی افواج کی مدد سے شامی حکومت کی فورسز نے اٹھارہ فروری کو بمباری شروع کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔