Tag: PUTIN

  • امریکی صدر ٹرمپ کا روسی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ

    امریکی صدر ٹرمپ کا روسی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ

    ماسکو: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے روسی صدر پیوٹن سے یوکرین جنگ کے خاتمے کے حوالے سے رابطہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی اخبار نیویارک پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ 2022 کے اوائل کے بعد پیوٹن اور کسی بھی امریکی صدر کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ ہے۔

    اپنی انتخابی مہم میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم اس کے طریقہ کار کی تفصیل نہیں بتائی تھی۔

    امریکی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹرمپ سے سوال پوچھا گیا کہ انہوں نے پیوٹن سے کتنی بار بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ’بہتر ہے کہ میں اس بارے میں کچھ نہ کہوں، ٹرمپ نے کہا کہ پیوٹن چاہتے ہیں کہ لوگوں کا قتل عام نہ ہو۔

    روسی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ مختلف ذرائع سے مختلف معلومات مل رہی ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا ’یہ رابطے مختلف چینلز کے ذریعے کیے جاتے ہیں، ممکن ہے کہ مجھے کسی چیز کا علم نہ ہو، اس لیے میں اس خبر کی نہ تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تردید‘۔

    اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے ’خلیج میکسیکو‘ کو باضابطہ طور پر ’خلیج امریکا‘ کا نام دے دیا، اعلامیے پر دستخط بھی کردیے۔

    رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی کہا تھا کہ وہ خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا کا نام دیں گے۔

    امریکی صدر نے ’خلیج میکسیکو‘ کو باضابطہ ’خلیج امریکا‘ کا نام دیدیا

    امریکی صدر نے آج یہ اقدام سُپر بال دیکھنے کے لیے دوران پرواز کیا، جس کے بعد اُن کے جہاز میں بھی اعلان کردیا گیا کہ آج ہم پہلی بار خلیج امریکا پر پرواز کررہے ہیں۔ ٹرمپ نے برجستہ کہا کہ یہ بہت اچھا کام ہوا ہے۔

  • یوکرین سے مذاکرات ممکن ہیں، زیلنسکی سے نہیں، صدر پیوٹن

    یوکرین سے مذاکرات ممکن ہیں، زیلنسکی سے نہیں، صدر پیوٹن

    ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین کے ساتھ امن بات چیت ممکن ہے لیکن زیلنسکی کے ساتھ نہیں۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے منگل کو کہا کہ ان کا ملک یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات کر سکتا ہے، لیکن انھوں نے صدر وولودیمیر زیلنسکی سے براہ راست بات کرنے سے انکار کر دیا۔

    دوسری طرف روسی صدر نے یوکرینی صدر زیلنسکی سے ڈائیلاگ کے لیے مذاکرات کار مقرر کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ مقامی ٹی وی کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ یوکرین کو بیرونی رقم اور اسلحہ روک دیا جائے تو جنگ ڈیڑھ سے 2 ماہ میں ختم کی جا سکتی ہے۔

    صدر پیوٹن نے کہا کہ ’’اگر زیلینسکی مذاکرات میں حصہ لینا چاہتا ہے تو میں لوگوں کو حصہ لینے کے لیے مختص کر دوں گا۔‘‘ پیوٹن نے یہ کہتے ہوئے یوکرینی رہنما کو ’’نا جائز‘‘ قرار دیا، کہ ان کی صدارتی مدت مارشل لا کے دوران ختم ہو گئی تھی۔

    روس نے مشرقی یوکرین کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا

    انھوں نے مزید کہا ’’اگر مذاکرات کرنے اور کوئی سمجھوتہ کرنے کی خواہش ہے، تو پھر مذاکرات کی قیادت کوئی بھی کر سکتا ہے، فطری طور پر تو ہم اسی کی کوشش کریں گے جو ہمارے لیے بہتر ہو، جو ہمارے مفادات کے مطابق ہو۔‘‘

    زیلنسکی نے اس پر رد عمل میں ایکس پر لکھا ’’آج، پیوٹن نے ایک بار پھر تصدیق کی کہ وہ مذاکرات سے ڈرتے ہیں، وہ مضبوط لیڈروں سے خوف زدہ ہیں، اور جنگ کو طول دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔‘‘

  • ٹرمپ کے حلف کے فوراً بعد پیوٹن اور چینی صدر میں ویڈیو کال

    ٹرمپ کے حلف کے فوراً بعد پیوٹن اور چینی صدر میں ویڈیو کال

    ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف کے فوراً بعد روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور چین کے صدر شی جن پنگ میں ویڈیو کال ہوئی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کی جانب سے روس کے ساتھ تعلقات کو نئی سطح پر لے جانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے، اس سلسلے میں پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف کے چند گھنٹے بعد چینی صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ وڈیو کانفرنس کی۔

    دونوں اطراف کے سرکاری میڈیا کے مطابق چین کے صدر نے روس کے ساتھ مل کر بیرونی صورت حال کا مل کر جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا، اور کہا کہ دونوں ممالک کو اسٹریٹجک اور عملی تعاون کو گہرا کرنا چاہیے۔

    روس کے صدر کا کہنا تھا کہ امریکا کے زیر تسلط غیر منصفانہ عالمی نظام کی از سرِنو ترتیب دیے جانے کی ضرورت ہے، اور بین الاقوامی سطح پر سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔

    پیوٹن نے شی کو ایک ’’پیارا دوست‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس اور چین بیرونی دباؤ کے باوجود دوستی، باہمی اعتماد اور حمایت کی بنیاد پر تعلقات استوار کر رہے ہیں۔

    ٹرمپ کے اے آئی پروجیکٹ پر ایلون مسک کا سخت اعتراض، سیم آلٹمین کے ساتھ سوشل میڈیا پر جنگ

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز بیجنگ اور ماسکو دونوں کو ویسی ہی دھمکیاں دیں جس طرح انھوں نے مشرقِ وسطیٰ میں حماس کو دی تھی، انھوں نے چین کو ٹیرف کی دھمکی دی اور اسے ’غلط کار‘ قرار دیا، جب کہ ماسکو کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں کیا تو اس پر ’بڑی مصیبت‘ آئے گی۔

    تاہم، مذاکرات کے بعد خارجہ امور کے مشیر یوری یوشاکوف نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ویڈیو کال میں پیوٹن نے شی سے کہا کہ یوکرین کے کسی بھی تصفیے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں روسی مفادات کا احترام کیا گیا ہو۔

  • برطانیہ نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو وارننگ دے دی

    برطانیہ نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو وارننگ دے دی

    لندن: برطانیہ نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو جاسوس جہاز کے سلسلے میں وارننگ دے دی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی سمندری حدود میں روس کا جاسوس جہاز آنے پر برطانیہ نے صدر ولادیمیر پیوٹن کو وارننگ دے دی ہے۔

    برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی نے کہا کہ یہ واقعہ ’بڑھتی ہوئی روسی جارحیت کی ایک اور مثال‘ ہے، اور جانتے ہیں کہ پیوٹن کیا کر رہے ہیں، انھوں نے کہا ہم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے مضبوط اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

    واضح رہے کہ مغربی ممالک روسی جہاز کو انڈر واٹر کیبلز اور دیگر حساس انفراسٹرکچر کا نقشہ بنانے کے لیے استعمال ہونے والا جاسوس جہاز سمجھتے ہیں۔

    برطانوی نیوز گروپ نے شہزادہ ہیری سے معافی مانگ لی

    برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی نے بدھ کو پارلیمنٹ کو بھی آگاہ کہ رائل نیوی نے ایک روسی جاسوس جہاز کا سراغ لگایا جو برطانیہ کے پانیوں سے گزرا، ہیلی نے کہا کہ ینٹر (امبر) جہاز انٹیلیجنس اکٹھا کرنے اور برطانیہ کے اہم زیر آب انفراسٹرکچر کی نقشہ سازی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

    ہیلی نے کہا کہ یہ جہاز پیر کو ملک کے ساحل سے تقریباً 45 میل (72 کلومیٹر) دور برطانوی پانیوں میں داخل ہوا، رائل نیوی نے اس کی نگرانی کے لیے دو جہاز روانہ کیے تھے، ان کا کہنا تھا کہ جہاز برطانوی پانیوں سے گزر کر شمالی سمندر میں چلا گیا۔

  • پیشگی شرائط کے بغیر پیوٹن، ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کیلئے تیار ہیں: روس

    پیشگی شرائط کے بغیر پیوٹن، ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کیلئے تیار ہیں: روس

    ماسکو: کریملن نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے روسی صدر سے ملاقات کے بیان کو خوش آئند قرار دیدیا۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق کریملن کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پیشگی شرائط کے بغیر نو منتخب امریکی صدر سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔

    ترجمان کریملن کے مطابق ڈمٹری پیشکوو کا کہنا ہے کہ صدرپیوٹن نو منتخب امریکی صدر کے ساتھ رابطے کیلئے تیار ہیں، وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت بین الاقوامی رہنماؤں سے رابطے کیلئے تیار ہیں۔

    یاد رہے کہ نو منتخب امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے روسی صدر کے ساتھ ملاقات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے بعد امریکا کیوو کو اربوں ڈالر کی امداد فراہم کرچکا ہے۔

    دریں اثنا یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی بھی امریکی حمایت کے بغیر جنگ ہارنے کا اعتراف کرچکے ہیں۔

  • ٹرمپ نے پیوٹن سے متعلق بڑا دعویٰ کردیا

    ٹرمپ نے پیوٹن سے متعلق بڑا دعویٰ کردیا

    امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ان سے جلد از جلد ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایریزونا میں ایک پروگرام میں اس حوالے سے بات کی کہ وہ اگلے ماہ عہدہ سنبھالنے کے بعد خارجہ پالیسی پر کیا کریں گے۔

    اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ روس یوکرین جنگ کو جلد از جلد ختم کیا جانا چاہئے، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ روسی صدر جلد از جلد مجھ سے ملنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ جنگ اب ختم ہو۔

    نو منتخب صدر نے یوکرین کی جنگ کو ایک خوفناک جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو یہ جنگ کبھی شروع ہی نہ ہوتی۔

    اس سے قبل ٹرمپ نے اتوار کے روز تصدیق کی تھی کہ وہ مشرق وسطیٰ میں افراتفری اور یوکرین میں جنگ کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ”امریکا غیر ملکی جنگوں میں شامل ہونا بند کر دے گا، اگر میں صدر ہوتا تو یوکرین جنگ اور 7 اکتوبر کا واقعہ نہ ہوتا، میں روسی صدر سے ملاقات ضرور کروں گا۔“

    اپنی تقریر میں نو منتخب صدر کا کہنا تھا کہ وہ واشنگٹن میں بڑی تبدیلیاں کریں گے، اور نئے عہدے داروں کی نامزدگی کے لیے کانگریس میں ریپبلکن کی اکثریت ان کی حمایت کرتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ امریکا جن غیر ملکی جنگوں میں مضحکہ خیز انداز میں داخل ہوا ہے، انھیں بند کر دیا جائے گا، اور امریکا کی تاریخ میں ملک بدری کا سب سے بڑا آپریشن شروع کیا جائے گا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ جنگیں روک کر وہ تیسری عالمی جنگ کو شروع ہونے سے روکیں گے۔

    سزائے موت کے منتظر 37 قیدیوں کوخوشخبری سنادی گئی

    واضح رہے کہ ٹرمپ 20 جنوری کو صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، طویل عرصے سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ یوکرین سمیت مشرق وسطیٰ میں جنگوں کو ختم کریں گے۔

  • روس کو شام میں شکست نہیں ہوئی تمام گروپوں سے تعلقات ہیں: پیوٹن

    روس کو شام میں شکست نہیں ہوئی تمام گروپوں سے تعلقات ہیں: پیوٹن

    ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس کو شام میں شکست نہیں ہوئی تمام گروپوں سے تعلقات ہیں۔

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں کہا روسی افواج یوکرین میں مقاصد حاصل کرنے کے قریب ہیں، یوکرینی فوج کو روسی علاقے سے باہر نکال دیں گے، 2022 میں یوکرین میں فوج بھیجنے کے بعد سے روس مزید مضبوط ہوا۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ چار سال سے ڈونلڈ ٹرمپ سے بات نہیں کی، اگر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تو بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہوگا، امریکا کے ساتھ میزائل مقابلے کے لیے تیار ہیں، روسی ہائپر سونک بیلسٹک میزائل امریکی میزائل دفاعی نظام کو شکست دے سکتا ہے۔

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ یوکرین کے معاملے پر بات چیت کیلئے تیار ہیں لیکن یوکرین تنازع پر دوسری جانب کے فریق کے تیار ہونے کی ضرورت بھی ہے۔

    روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ چین سے تعلقات بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، اس کے علاوہ روس کو شام میں شکست نہیں ہوئی، شام میں تمام گروپوں سے تعلقات ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/assad-dispatched-250-million-cash-to-moscow/

  • روس کے صدر پیوٹن کا بشار الاسد سے ملاقات سے انکار؟

    روس کے صدر پیوٹن کا بشار الاسد سے ملاقات سے انکار؟

    ماسکو: شام میں چوبیس سالہ طویل اقتدار کے خاتمے کے بعد بشار الاسد نے اپنے خاندان سمیت روس کے دارالحکومت ماسکو میں پناہ حاصل کر لی ہے، جہاں ان سے روسی صدر کی ممکنہ ملاقات کے حوالے سے غیر مصدقہ خبریں آنے لگی تھیں۔

    کریملن نے اب ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا بشار الاسد سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے، صدر پیوٹن اور بشار الاسد کے درمیان کوئی ملاقات شیڈول نہیں ہے۔

    ادھر شامی حکام نے بھی بشار الاسد کی ماسکو میں موجودگی کی تصدیق کر دی ہے، ماسکو میں شامی حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بشار الاسد نے مشن سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

    روس کا کہنا ہے کہ شامی رہنما کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی گئی ہے، گزشتہ روز روسی میڈیا نے کریملن میں ایک نامعلوم ذریعہ کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’اسد اور ان کے خاندان کے افراد ماسکو پہنچے ہیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انھیں پناہ دی گئی ہے۔‘‘

    ماسکو میں شام کے سفارت خانے پر دمشق فتح کرنے والی فورسز کا جھنڈا لہرا دیا گیا

    الجزیرہ نے کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ شام کے معزول صدر بشار الاسد کو روس میں سیاسی پناہ دی گئی تھی، ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ صدر ولادیمیر پیوٹن نے ذاتی طور پر کیا تھا۔

    پیسکوف نے پیر کو ماسکو میں صحافیوں کے سوال پر اسد کے مخصوص ٹھکانے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ پیوٹن کا ان سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

  • ماسکو اب مغربی ممالک پر حملہ کر سکتا ہے: روسی صدر

    ماسکو اب مغربی ممالک پر حملہ کر سکتا ہے: روسی صدر

    روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ اب ماسکو کے پاس بھی مغربی ممالک پر حملہ کرنے کا ’حق حاصل ہے‘۔

    روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعرات کو ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک نے کیف کو روس پر حملہ کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے اب ماسکو کے پاس مغربی ممالک پر حملہ کرنے کا ’حق حاصل ہے‘۔

    روسی صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین میں تجرباتی بیلسٹک میزائل داغا، جس کے بعد کیف پر حملہ کیا گیا، کیف پر میزائل حملے مغربی ساختہ میزائلوں کے جواب میں تھا، پیوٹن کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ اب براہ راست امریکا اور برطانیہ کو بھی خطرہ ہے۔

    نئے میزائل کے بارے میں پیوٹن کا کہنا تھا کہ یہ آواز کی رفتار سے دس گنا زیادہ تیزی سے پرواز کرتا ہے، اس میزائل کو یوکرین کے کسی بھی اس اتحادی پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس کا میزائل کیف، روس پر داغے گا۔

    پیوٹن نے مزید کہا کہ حملہ نئے میزائل سسٹم اوریشنک کی آزمائش کے طور پر کیا ہے، پیوٹن نے یوکرین پر داغے گئے میزائل کا نام ’اورشینک‘ بتایا ہے جوکہ ایک درخت کا روسی نام ہے۔

  • یوکرین کو امریکی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت، صدر پیوٹن کی خاموشی نے سب کو پریشان کر دیا

    یوکرین کو امریکی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت، صدر پیوٹن کی خاموشی نے سب کو پریشان کر دیا

    ماسکو: مزید دو ماہ کے لیے امریکی صدر کے عہدے پر براجمان جو بائیڈن کی جانب سے جاتے جاتے یوکرین کو امریکی ہتھیاروں کے روس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت نے جہاں ایک طرف دنیا کو پریشانی میں مبتلا کیا ہے وہاں دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی خاموشی نے بھی سب کو اچنبھے میں ڈال رکھا ہے۔

    بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن کے یوکرین کو روس کے اندر امریکا کی طرف سے فراہم کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے نے روس میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، لیکن جو چیز واقعی اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ولادیمیر پیوٹن کیا کہتے ہیں، لیکن اتوار کی رات انھوں نے کچھ نہیں کہا۔

    لیکن روسی صدر پہلے ہی اس سلسلے میں بہت کچھ کہہ چکے ہیں، بی بی سی کے مطابق حالیہ مہینوں میں کریملن نے مغرب کے لیے واضح پیغام دیا: ’’ایسا نہ کریں، اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے استعمال پر عائد پابندیاں نہ ہٹائیں، کیف کو ان میزائلوں سے روسی سرزمین پر گہرائی تک حملہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔‘‘

    ستمبر میں صدر پیوٹن نے خبردار کیا تھا کہ اگر ایسا ہونے دیا گیا تو ماسکو اسے یوکرین کی جنگ میں نیٹو ممالک کی براہ راست شرکت کے طور پر دیکھے گا، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیٹو ممالک روس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔

    اگلے مہینے ولادیمیر پیوٹن نے روسی ایٹمی نظریے میں آنے والی تبدیلیوں کا اعلان کیا، اور کہا کہ روس جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس کا بہت واضح مطلب تھا کہ یوکرین کو روسی سرزمین پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

    بی بی سی نے لکھا کہ ’’ولادیمیر پیوٹن کی اگلی چالوں کا اندازہ لگانا کبھی بھی آسان نہیں رہا، لیکن انھوں نے اشارے چھوڑ رکھے ہیں۔ جون میں بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ایک میٹنگ میں پیوٹن سے پوچھا گیا تھا کہ اگر یوکرین کو یورپ کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں سے روس میں اہداف کو نشانہ بنانے کا موقع دیا جائے تو روس کیا ردعمل ظاہر کرے گا؟ صدر پیوٹن نے جواب دیا ’’سب سے پہلے ہم یقیناً اپنے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنائیں گے، ہم ان کے میزائلوں کو تباہ کریں گے۔‘‘

    پیوٹن نے مزید کہا ’’ہمارا ماننا ہے کہ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ہمارے علاقے پر حملہ کرنے اور ہمارے لیے مسائل پیدا کرنے کے لیے ایسے ہتھیاروں کو جنگی علاقے میں فراہم کرنا ممکن ہے، تو ہم اپنے اسی طبقے کے ہتھیار دنیا بھر کے ان خطوں کو کیوں نہیں فراہم کر سکتے جہاں وہ ان ممالک کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے جو روس کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں؟‘‘