Tag: Qatar

  • فٹ بال ورلڈ کپ، قطر کا شایقین کے لیے اہم فیصلہ

    فٹ بال ورلڈ کپ، قطر کا شایقین کے لیے اہم فیصلہ

    دوحہ: قطر نے فٹ بال ورلڈ کپ شائقین کے لیے کرونا ویکسینیشن کی شرط ختم کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق قطر کی وزارت صحت نے رواں برس ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے کووِڈ نائنٹین کی ویکسین لگوانے کی شرط ختم کر دی ہے۔

    گلف نیوز کے مطابق وزارت صحت نے اپنے بیان میں کہا کہ کرونا کیسز میں اضافے کی صورت میں کھلاڑیوں اور میچ انتظامیہ کو ’بائیو ببل‘ میں رہنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

    خیال رہے کہ قطر میں فٹ بال کے عالمی مقابلے 20 نومبر سے شروع ہوں گے، 2019 میں کرونا وبا پھیلنے کے بعد یہ 29 روزہ فیفا ورلڈ کپ پہلا بڑا عالمی ایونٹ ہوگا، قطری منتظمین نے توقع ظاہر کی ہے کہ 10 لاکھ سے زائد شائقین اس ایونٹ میں شرکت کریں گے۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اگر کرونا کیسز میں اضافے کے سبب بائیو سیکیور ببل کا نفاذ کیا گیا، تو اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ٹورنامنٹ سے باہر کیا جا سکتا ہے۔

    قطری ہیلتھ گائیڈ لائنز کے مطابق 6 برس سے زائد عمر کے شائقین کو قطر کی پرواز لینے سے قبل کرونا وائرس منفی آنے کی رپورٹ دکھانا ہوگی۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ وبا کی صورت حال فی الحال کنٹرول میں ہے، اس لیے شائقین کے لیے ویکسینیشن کی لازمی شرط ختم کر دی گئی ہے۔

    قطری حکام کے مطابق یکم نومبر سے صرف اُن شائقین کو داخلے کی اجازت ہوگی جن کے پاس ٹکٹ ہوں گے، جب کہ ایک ٹکٹ کے ساتھ 3 لوگوں کو آنے کی اجازت ہوگی۔

    قطر آنے والے شائقین کے پاس خصوصی فین پاس، حایا کارڈ اور قطر کی کووِڈ ہیلتھ ایپلیکیشن ’اہتراض‘ لازمی موجود ہونی چاہیے۔

    فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا کا کہنا ہے کہ یہ ایک میگا ایونٹ ہوگا جو اس بات کی علامت ہوگا کہ دنیا سے کووِڈ کی شرح میں کمی آ گئی ہے۔

  • چار سالہ کمسن طالبہ اسکول بس سے مردہ حالت میں ملی، خوفناک واقعہ

    چار سالہ کمسن طالبہ اسکول بس سے مردہ حالت میں ملی، خوفناک واقعہ

    شدید گرم موسم میں بچے کو گاڑی کے اندر چھوڑنا یا بھول جانا ہیٹ اسٹروک اور دم گھٹنے کا باعث بنتا ہے اور یہ کہ 10 منٹ سے بھی کم وقت میں موت کا باعث بن سکتا ہے۔

    کچھ ایسا ہی واقعہ الوکرہ میں پیش آیا جو قطر کا دارالحکومت ہے۔ تفصیلات کے مطابق بھارت سے تعلق رکھنے والی چار سالہ طالبہ منسا مریم جیکب اپنی اسکول بس میں مردہ پائی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کنڈرگارٹن اسکول کی چار سالہ بھارتی نژاد طالبہ منسا مریم جیکب گزشتہ روز چار گھنٹے سے زیادہ اسکول بس میں اکیلی بند رہنے کے بعد دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئی۔

    رپورٹ کے مطابق یہ بھی ایک افسوسناک اتفاق ہے کہ متوفیہ بچی کی اسی روز سالگرہ بھی تھی۔

    خبر کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بس ڈرائیور اور دیگر بچے اس بچی کو نہیں دیکھ سکے، جو شاید بس میں سو گئی تھی، جب دوسرے تمام بچے اسکول بس سے اتر کر اسکول چلے گئے تو عملے نے بس کو خالکی سمجھ کر بند کردیا جس میں بچی اکیلی سو رہی تھی۔

    اسکول بس میں بچی کی موجودگی کا علم دوپہر کو اس وقت ہوا جب کلاسز ختم ہونے کے بعد ڈرائیور اور اس کا ساتھی دیگر بچوں کو لے کر بس کی جانب آئے۔

    ذرائع کے مطابق مذکورہ بچی کو بے ہوش دیکھ کر اسے فوری طور پر مقامی اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کردی۔

    یاد رہے کہ اتوار کے روز قطر میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 36سینٹی گریڈ سے 43سینٹی گریڈ تک تھا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ضروری قانونی کارروائی کے بعد منسا کی لاش کو بھارت روانہ کیا جائے گا۔

  • سعودی عرب اور قطر کا بڑا مشترکہ فیصلہ

    سعودی عرب اور قطر کا بڑا مشترکہ فیصلہ

    ریاض: سعودی عرب اور قطر نے ادائیگی کا ایک مشترکہ نظام متعارف کرا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی سینٹرل بینک ’ساما‘ نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان ریٹیل سیل کے لیے مشترکہ ادائیگی نظام متعارف کرایا گیا ہے۔

    سبق ویب سائٹ کے مطابق سعودی ادائیگی سسٹم ’مدی‘ اور قطری ادائیگی سسٹم ’نابس‘ کے درمیان تعاون ہوگا۔

    ساما نے کہا ہے کہ مدی کارڈ کے حامل افراد قطر میں خریداری پر ادائیگی کر سکتے ہیں، جب کہ نابس کارڈ کے حامل قطری شہری سعودی عرب میں اپنے کارڈ سے خریداری کی ادائیگی کر سکیں گے۔

    ساما کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان ریٹیل سیل پر ادائیگی خلیجی سسٹم کے تحت ہوگا۔ خیال رہے کہ خلیجی ادائیگی سسٹم کے تحت تمام خلیجی ممالک کے شہری اور مقیم غیر ملکی جن کے پاس مقامی بینکوں کے کارڈ ہیں، وہ کسی بھی ملک کے اے ٹی ایم کو استعمال کر سکتے ہیں۔

  • فیفا فٹبال ورلڈکپ ٹرافی کی پاکستان آمد، تقریب رونمائی کہاں ہوگی؟

    فیفا فٹبال ورلڈکپ ٹرافی کی پاکستان آمد، تقریب رونمائی کہاں ہوگی؟

    اسلام آباد: دنیا بھر کا سفر کرنے والی فیفا فٹبال ورلڈکپ ٹرافی چھ جون کو پاکستان پہنچے گی، ٹرافی کو کن کن شہروں میں رونمائی کے لئے پیش کیا جائےگا؟

    تفصیلات کے مطابق ازبکستان سے سات جون کو فٹ بال ورلڈ کپ کی چمچاتی ٹرافی پاکستان آئے گی، پاکستان آمد سے قبل ٹرافی کی منزل کو تبدیل کردیا گیا ہے، سابقہ شیڈول کے مطابق ٹرافی کو اسلام آباد میں رونما ئی کے لئے پیش کیا جائے گا تاہم اب اسے تبدیل کردیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے بجائے ٹرافی کو لاہور لے جایا جائے گا جہاں مقامی ہوٹل میں ورلڈکپ ٹرافی کی رونمائی کرائی جائے گی، ایک روزہ مختصر قیام کے بعد ٹرافی سعودیہ عرب کے لئے روانہ ہوجائے گی۔

    یہ بھی پڑھیں: فیفا ’لوگو‘ کی نمبر پلیٹ کی تاریخی نیلامی، خوش نصیب افراد کون؟

    یہ مسلسل دوسرا موقع ہوگا کہ فیفا ورلڈ کپ ٹرافی پاکستان کا رخ کرے گی، اس سے قبل بھی دوہزار اٹھارہ میں یہ ٹرافی لاہور لائی گئی تھی، ٹرافی کے ہمراہ فرانس کے فٹبال ورلڈ کپ ونر کرسٹن کیرمبایو بھی پاکستان آئے تھے جنہوں نے ٹرافی کو نمائش کیلئے پیش کیا تھا۔

    فیفا قوانین کے مطابق اس ٹرافی کو تھامنے کا حق یا تو ورلڈ کپ جیتنے والے کھلاڑی یا فیفا صدر یا پھر سربراہان مملکت کو ہی ہے،منتظمین کے مطابق اس بار بھی ٹرافی کے ساتھ فرانسیسی ورلڈ چیمپین کرسٹن کیرمبایو ہی پاکستان آئیں گے۔

  • کویتی اور قطری شہریوں کو بڑی سہولت دے دی گئی

    کویتی اور قطری شہریوں کو بڑی سہولت دے دی گئی

    کویت : یورپی کمیشن نے بدھ کو کویت اور قطر کے شہریوں کے لیے ویزا کی شرائط ختم کرنے کی تجویز پیش کی۔

    اس تجویز کے تحت ایک بار متفق ہونے کے بعد بائیو میٹرک پاسپورٹ رکھنے والے کویتی اور قطری شہریوں کو کاروبار، سیاحت یا خاندانی مقصد کے لیے کسی بھی 180 دن کی مدت میں 90 دن تک کے مختصر قیام کے لیے یورپی یونین کا سفر کرنے پر مزید ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    یہ تجویز کمیشن کی جانب سے بے قاعدہ ہجرت، عوامی پالیسی اور سیکورٹی، اقتصادی فوائد اور یونین کے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات سمیت متعدد معیارات کا جائزہ لینے کے بعد سامنے آئی ہے جو کہ خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کرے گا۔

    یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے جوزپ بوریل نے کہا کہ "قطری اور کویتی شہریوں کے لیے ویزا کی شرائط ختم کرنے کی ہماری تجویز پورے خطے کے لوگوں کے لیے یورپی یونین کا سفر آسان بنانے کے لیے پہلا قدم ہے۔

    حتمی مقصد علاقائی ہم آہنگی کو یقینی بنانا اور بالآخر خلیج تعاون کونسل کے تمام ممالک کے لیے ویزا فری سفر کا حصول ہے۔ خلیج پر ہماری آنے والی مشترکہ کمونیکیشن کے ساتھ ساتھ یہ تجویز مجموعی شراکت داری کو تقویت دے گی اور یورپی یونین اور خلیج تعاون کونسل کے درمیان تعاون کو مضبوط کرے گی۔

    اپنی طرف سے یورپی کمیشن کے نائب صدر مارگارائٹس شیناس نے کہا کہ آج ہم بائیو میٹرک پاسپورٹ کے حامل قطری اور کویتی شہریوں کے لیے روابط، کاروباری، سماجی اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے یورپی یونین کے لیے شارٹ اسٹے ویزا فری سفر کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔

    یہ دور رس اصلاحات کے حصول میں قطر اور کویت کی حکومتوں کی کامیابی کا نتیجہ ہے اور یہ دونوں ممالک کے ساتھ یورپی یونین کے تعلقات کی بڑھتی ہوئی شدت اور گہرائی کی عکاسی کرتا ہے۔

    یہ دونوں خطوں کے شہریوں کے لیے ایک اہم کامیابی ہے اور مجھے امید ہے کہ یورپی پارلیمنٹ اورکونسل ہماری تجویز کو تیزی سے اپنائیں گے۔

    یورپی یونین کی کمشنر برائے داخلہ امور، یلوا جوہانسن نے کہا کہ "قطر اور کویت کے شہریوں کے لیے ویزا سے استثنیٰ کی تجویز کاروباری سفر، سیاحت اور خاندان کے لیے یورپی یونین کے دوروں میں سہولت فراہم کرتی ہے۔

    یہ خلیجی خطے میں مضبوط علاقائی ہم آہنگی کی طرف بھی ایک قدم ہے جب بات ویزا نظاموں کی ہوگی۔ یورپین یونین باقی ماندہ ویزہ درکار خلیجی ممالک کے ساتھ مشغولیت جاری رکھے گا جو یورپین یونین میں ویزا فری سفر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

    ویزا کی ضروریات سے متعلق یورپی یونین کے قوانین میں طے شدہ معیارات کے جائزے کے بعد، کمیشن نے کہا کہ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قطر اورکویت میں غیر قانونی نقل مکانی کے خطرات کم ہیں اور وہ یورپی یونین کے ساتھ سیکورٹی کے معاملات پر تعاون بڑھا رہے ہیں۔

    یہ ممالک بائیو میٹرک پاسپورٹ جاری کرتے ہیں جو کہ یورپی یونین میں ویزا کے بغیر سفر کے لیے ایک شرط ہے۔ قطر اور کویت یونین کے لیے خاص طور پر توانائی کے شعبے میں اہم اقتصادی شراکت دار ہیں۔

    اب یہ یورپی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کی کونسل کے لیے ہے کہ وہ اس تجویز کا جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ آیا قطر اور کویت کے شہریوں کو یورپی یونین میں ویزا فری سفر کی اجازت دی جائے۔

    اگر یورپی پارلیمنٹ اور کونسل کی طرف سے اس تجویز کو منظور کیا جاتا ہے تو یورپی یونین قطر اور کویت کے ساتھ بالترتیب ویزا چھوٹ کے معاہدے پر بات چیت کرے گی تاکہ یورپی یونین کے شہریوں کے لیے ویزا کی مکمل ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

    اس نے کہا کہ قطر اور کویت کے شہریوں کے لیے یورپی یونین کے لیے ویزا فری سفر ویزا چھوٹ کے معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد درخواست دینا شروع کر دے گا۔

    یورپی یونین کی ایگزیکٹو باڈی نے کہا کہ یورپی یونین ویزہ کے لیے ضروری خلیج تعاون کونسل کے باقی ماندہ ممالک جو یورپی یونین میں ویزا فری سفر میں دلچسپی رکھتے ہیں کے ساتھ مشغولیت جاری رکھے گی۔

    کمیشن جلد ہی ان شراکت داروں کے ساتھ ویزا سے استثنیٰ کے معیار کی تکمیل پر ویزا ریگولیشن تکنیکی بات چیت کا آغاز کرے گا۔ یورپی یونین کے پاس اس وقت 60 سے زیادہ ممالک اور خطوں کے ساتھ ویزا فری نظام موجود ہے۔

    ویزا استثنیٰ کے تحت مسافر آئرلینڈ کے علاوہ تمام یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ ساتھ شینگن سے منسلک چار ممالک (آئس لینڈ، لیختنسٹین، ناروے اور سوئٹزرلینڈ) کا دورہ کر سکتے ہیں۔ برسلز میں یورپی یونین میں کویت کے مشن نےکویت کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے یورپی کمیشن کے اعلان کا خیرمقدم کیا جن کے شہریوں کو شینگن ویزا سے استثنیٰ دیا جائے گا۔

    ایک بیان میں اس نے نوٹ کیا کہ یہ کویت اور یورپی یونین کے درمیان باضابطہ حتمی مذاکرات کے سلسلے کا آغاز ہے جس کا مقصد کویتی شہریوں کو شینگن ویزا سے استثنیٰ دینا ہے تاہم یہ اعلان دونوں فریقوں کے درمیان تھا۔

    سطحوں پر اعلیٰ اور مضبوط تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس فیصلے کے نفاذ کے لیے وقت درکار ہے، اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ شینگن علاقے کا سفر کرنے کے خواہشمند شہریوں کو ان طریقہ کار کی تکمیل اور وزارت خارجہ کے باضابطہ اعلان تک مطلوبہ ویزا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

    یورپی یونین، نیٹو اور بیلجیئم میں کویت کے سفیر جاسم البداوی نے بدھ کو یورپی کمیشن کی طرف سے کویتی شہریوں کے لیے شینگن ویزا کی شرائط ختم کرنے کے فیصلے کو "کویت کے لیے ایک اہم دن” قرار دیا۔

    البداوی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پرکہا کہ "آج ہمیں ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن کے شہریوں کو مختصر مدت کے قیام کے لیے شینگن علاقے میں ویزا سے استثنیٰ دیا جائے گا۔

    یہ بہت سے لوگوں، ساتھیوں کی بہت زیادہ محنت کا نتیجہ ہے، انہوں نے کہا کہ کویت کے لوگ سیاحت، تعلیم، صحت، سرمایہ کاری، کاروبار اور بہت کچھ کے لیے یورپ اور یورپی یونین کے تمام رکن ممالک کی طرف تیزی سے دیکھ رہے ہیں۔

    انہوں نے زور دیا کہ "یہ پیش رفت مثبت طور پر اس رجحان کو آسان بنائے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کویت اہم شراکت دار رہے گا”۔ انہوں نے کہا کہ کویت اور یورپی یونین کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے جو اس نئے فیصلے سے مزید گہرا ہوتا رہے گا۔ کویتی سفیر نے

    "یورپی یونین کے اعلی نمائندے جوزپ بوریل اور ان کی ٹیم کی کوششوں کے لیے کویت کے شہریوں کے لیے ویزا فری سفر کے حصول کے لیے اس کی رہنمائی اور مدد کے لیے بہت شکریہ” کا اظہار کیا۔

    انہوں نے یوروپی کمیشن کے نائب صدر مارگارائٹس شیناس کی انتھک حمایت اور مدد اور مشورے کے لئے ان کا شکریہ بھی ادا کیا اوریورپی یونین کے کمشنر برائے داخلہ امور یلوا جوہانسن کا اپنے شہریوں کے لئے شینگن ویزا چھوٹ حاصل کرنے کے لئے کویت کی کوششوں کو مسلسل آگے بڑھانے اور ان کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

    البداوی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر مزید کہا کہ "وہ ہمارے یورپی یونین کے شراکت داروں کے ساتھ مزید قریبی تعاون کے منتظرہیں۔

  • لندن میں ملکہ برطانیہ سے زیادہ پراپرٹی رکھنے والا خلیجی ملک

    لندن میں ملکہ برطانیہ سے زیادہ پراپرٹی رکھنے والا خلیجی ملک

    تقریباً ساڑھے 11 ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلے اس چھوٹے سے خلیجی ملک کی آبادی 29 لاکھ افراد پر مشتمل ہے تاہم اس کی سرمایہ کاری اور جائیدادیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔

    ہم بات کر رہے ہیں قطر کی جو قدرتی گیس و تیل کے ذخائر سے مالامال ہے۔ تیل و گیس کے وسیع ذخائر اس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    دنیا ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے تیل اور گیس پر انحصار کم کر رہی ہے جس سے عرب ممالک کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہے۔ ایسے میں دیگر ممالک کی طرح قطر بھی تیل اور گیس پر معاشی انحصار ختم کر کے متبادل توانائی پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

    قطر 334 ارب ڈالرز سے زائد مالیت کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کا 11واں بڑا خود مختار انویسٹمنٹ فنڈ بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں بے شمار قیمتی املاک قطر کی براہ راست زیر ملکیت ہیں یا پھر اس کے سرمایہ کار اور کمپنیاں ان املاک میں حصہ دار ہیں۔

    لندن میں اس کی زیرِ ملکیت املاک ملکہ برطانیہ کی جائیداد  سے بھی زیادہ ہے۔ صرف یہی نہیں قطر ہالی وڈ میں مہنگے ترین (Miramax Studios)  خرید چکا ہے۔

    لندن میں قطر کی پراپرٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لندن کی 15 مہنگی ترین عمارتوں میں سے 34 فیصد قطری کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کی زیرِ ملکیت ہیں۔

    قطر کا کاروباری گروپ لندن میں ایچ ایس بی سی اور شادر ٹاور کا مالک ہے۔لندن کا ایک علاقہ قطری کوارٹرز کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں کی 25 فیصد املاک قطری سرمایہ کاروں کی ہیں۔

    قطر نے جائیداد کی خریداری کے علاوہ دیگر شعبوں ، جن میں ایوی ایشن، اسپورٹس اور ٹیکنالوجی کے شعبے شامل ہیں، میں بھی کر  رکھی ہے۔ قطر لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ کے 20 فیصد کا مالک ہے۔

    بیرون ملک سرمایہ کاری کو مزید بڑھانے کی غرض سے قطر نیشنل ویژن  2030ء متعارف کرایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن میں دیگر ممالک کی طرح قطری سرمایہ کاری زیادہ دیکھنے کو ملے گی۔

    اس کے علاوہ قطر نے 2016 میں سنگاپور میں ایشیا اسکوائر ٹاور 2.5 ارب ڈالر میں خریدا جو سنگاپور کی تاریخ میں کسی بھی آفس بلڈنگ کی سب سے زیادہ قیمت تھی۔

  • قطر: تارکین وطن کو بڑی سہولت کی فراہمی، نیا قانون نافذ

    قطر: تارکین وطن کو بڑی سہولت کی فراہمی، نیا قانون نافذ

    کویت : قطری وزارت صحت نے مملکت میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کو صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی سے متعلق خوشخبری سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق قطر میں آجروں کو تارکین وطن اور ان کے خاندانوں کے لیے ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کا پابند کر دیا گیا۔

    اس حوالے سے ایک سینئر قطری عہدیدار نے کہا ہے کہ قطر میں آجر (کفیل) ملک کے امیر کے جاری کردہ ایک نئے قانون کے تحت مزدوروں، غیر ملکی ملازمین اور ان کے خاندانوں کے لیے ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔

    فی الحال غیر ملکی باشندے اور زائرین سرکاری ہیلتھ کارڈ کی برائے نام قیمت ادا کرکے مفت صحت کی بنیادی دیکھ بھال حاصل کر سکتے ہیں جبکہ آجروں (کفیل) کو اپنے ملازمین کے لیے کوئی اضافی نجی ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

    قطر میں وزارت صحت عامہ نے بدھ کے روز جاری کردہ بیان میں کہا کہ "نئے قانون کی بنیاد پر ملک میں آنے والے تمام تارکین وطن اور زائرین کے لیے ان کے انشورنس کوریج سسٹم کے مطابق لازمی ہیلتھ انشورنس سسٹم نافذ کیا جائے گا جو انہیں نگہداشت کی سروس فراہم کرنے والے متعدد سرکاری اور نجی شعبے بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

    یہ قانون جو کہ قطر نیوز ایجنسی نے شائع کیا تھا سرکاری اخبار میں شائع ہونے کے چھ ماہ بعد نافذ العمل ہوا ہے۔ نئے قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قطر آنے والے تمام زائرین کو صحت کا انشورنس پلان لینا ہو گا جو کہ اس ملک میں رہتے ہوئے اگلے سال فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا۔

  • کسی سرپرست کے بغیر 200 افغان بچے قطر کیسے پہنچے؟، جانئے دلخراش داستان

    کسی سرپرست کے بغیر 200 افغان بچے قطر کیسے پہنچے؟، جانئے دلخراش داستان

    بغیر کسی سرپرست یا رشتے دار کے قطر پہنچنے والے افغان مہاجر بچے اپنی روزمرہ زندگی میں بار بار کیے جانے والے سوالات کی زد میں ہیں، ’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘ اور’ کیا مجھے چپس مل سکتے ہیں؟‘

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتوں میں کابل سے پروازوں کے تقریباً 200 افغان بچے دوحہ پہنچے ، انہیں ایک سینٹر میں رکھا گیا ہے جہاں وہ اپنے ساتھ ناخوشگوار تجربات کے صدمے سے نبرد آزما ہیں۔

    ان بچوں کی عمریں آٹھ سے سترہ برس کے درمیان ہیں، قطر چیریٹی اور دیگر ادارے ان بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں،ایک امدادی کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بچے جس صدمے سے گزر رہے ہیں اس کا تصور کرنا بہت مشکل ہے، تمام بچے صدمے کی حالت میں ہیں، جیسا کہ ہم نے عراق اور شام جیسے علاقوں میں بچوں کے ساتھ دیکھا جو (داعش) کے علاقوں میں رہ چکے تھے۔

    اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق چودہ اگست کے بعد بغیر کسی سرپرست کے تین سو بچوں کو افغانستان سے قطر، جرمنی اور دیگر ممالک بھیجا گیا، یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یہ بچے کیسے ایئرپورٹ تک پہنچے اور پھر قطر جانے والی پروازوں میں کیسے سوار ہوئے؟ تاہم اس کے جوابات بمشکل دستیاب ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے ازبکستان، اب افغان پائلٹوں کی اگلی منزل کونسی؟، فیصلہ ہوگیا

    ایک فرانسیسی پولیس افسر جو کابل ایئرپورٹ کے دروازوں پر موجود تھا، نے ایک خاتون کے بارے میں بتایا کہ ’اس نے اپنے بچے کو فرانسیسی اسپیشل فورسز کی جانب پھینکا، جنہوں نے بچے کو اٹھایا اور امریکی میڈکس کے حوالے کیا، انہوں نے مزید بتایا کہ بچے کا علاج کیا گیا اور اس کو دوحہ بھیجا گیا، وہ بہت چھوٹا تھا، اس کی ماں ہجوم میں غائب ہوگئی۔اسی افسر نے مزید بتایا کہ ایک آدمی تین بچوں کے ساتھ ایئرپورٹ کے دروازے پر آیا اور ان کو لے کر اندر آگیا، وہ یتیم بچے تھے، اس نے شاید ان بچوں کو دروازہ کھولنے کے لیے استعمال کیا۔ ان بچوں کو بھی دوحہ روانہ کیا گیا۔

    یونیسیف کی سربراہ ہینریتا فور کے مطابق والدین سے جدا ہونے والے بچے دنیا کے سب سے زیادہ کمزور اور غیر محفوظ بچوں میں سے ہیں، ایک امدادی ادارے کے رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ بہترین صورتحال وہ ہوتی ہیں جب ہم بچوں کے قریبی رشتہ دار ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بہت سارے کیسز میں ہم ایسا نہیں کر پاتے۔

    یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس طرح کی کہانیاں افراتفری کو اجاگر کرتی ہیں، وہ کہانیاں اس ناکامی کی تاریخ کا حصہ ہوں گی۔

  • افغانستان سے انخلا، امریکی جنرل کا اہم انکشاف منظرعام پر

    افغانستان سے انخلا، امریکی جنرل کا اہم انکشاف منظرعام پر

    واشنگٹن: افغانستان سے امریکا کا انخلا قصہ پارینہ بن چکا، کیا اب بھی امریکی کابل میں موجود ہے؟ اہم دعویٰ سامنے آگیا ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق افغانستان سے انخلا کے موقع پر ستاون ہزار افراد کو کابل سے نکال کر قطر منتقل کیا، تاہم اب بھی چودہ سو کے قریب افراد امریکی بیس پر موجود ہیں۔

    بریگیڈیئر جنرل جیرالڈ ڈونوہ نے صحافیوں کو بتایا کہ قطر سے نکالے جانے افراد میں سے کچھ ابھی امریکا میں ہیں جب کہ بعض یورپ میں ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ قطر میں اب تک موجود ایک ہزار چار سو افراد میں سے زیادہ تر کو جلد وہاں سے نکال دیا جائے گا جب کہ ایک چھوٹا سا گروپ جسے طبی امداد کی ضرورت ہے وہ وہاں سفر کے قابل ہونے تک رہے گا۔

    جنرل جیرالڈ کا کہنا تھا کہ افغان اور دوسرے افراد کو الیودید بیس لے جایا گیا اور ایک وقت میں وہاں سترہ ہزار پانچ سو افراد بھی موجود تھے، انہوں نے بتایا کہ انخلا کے مشن کے دوران اس ایئربیس پر نو بچے بھی پیدا ہوئے۔

    افغانستان سے جلدی انخلا کے بعد ہزاروں ایسے افراد جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھے یا ان کی ویزا کی درخواستیں زیر غور تھی یا ایسے خاندان کے افراد جن میں سے کچھ کا امیگریشن اسٹیٹس کلیر نہیں تھا اب تیسرے ملک میں امریکا روانگی کے لیے انتظار کر رہے ہیں، ان افغانوں کو اب امریکہ میں داخلے کے لیے امیگریشن کی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا۔

    واضح رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد امریکا نے افغانستان سے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار امریکی، افغان اور دوسرے ممالک کے شہریوں کو نکالا۔