Tag: quaid e azam

  • قائد اعظمؒ کی 71ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    قائد اعظمؒ کی 71ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    کراچی: برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ تشخص، الگ پہچان اور ایک آزاد ملک کا تحفہ دینے والے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی 71 ویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے، مسلمانوں کے حقوق اورعلیحدہ وطن کے حصول کے لیے انتھک جدوجہد نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے۔

    سن 1930 میں انہیں تپِ دق جیسا موزی مرض لاحق ہوا، جسے انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقاء کے علاوہ سب سے پوشیدہ رکھا، قیام پاکستان کے ایک سال بعد11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

    بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو اس جہان فانی سے گزرے اکہتر برس بیت گئے، آج ان کی 71ویں برسی منائی جائے گی۔

    اس موقع پر ملک بھر میں مختلف مقامات پر قوم کے عظیم قائد کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ کراچی میں واقع قائد اعظم کے مزار پر اہم شخصیات اور شہری حاضری دیں گے اور اپنے عظیم قائد کو خراج عقیدت پیش کریں گی۔

    قائد اعظم کے اہم اقوال

    شہریوں کے مخلتف طبقات مزار قائد پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں گے اور فاتحہ پڑھیں گے، قائد اعظم کے یوم وفات کے سلسلے میں مختلف تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں سیمینارز اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں بانی پاکستان کو خراج عقیدت پیش کیا جائےگا۔

    قائد اعظم کی وفات کے 71سال بعد بھی ان کی تاریخ وفات کے موقع پر ہزاروں افراد کی ان کی لحد پر حاضری اورشہر شہرمنعقد ہونے والی تقریبات اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ پاکستانی قوم ان سے آج بھی والہانہ عقیدت رکھتی ہے۔

  • بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے

    بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے

    کراچی:  آج 25 دسمبر 2018 کو ملک بھر میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا 143 واں یومِ پیدائش مِلّی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، سرکاری سطح پر پاکستان میں تعطیل ہو گی اور جناح صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف تقاریب کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

    بابائے قوم قائدِ اعظم محمدعلی جناحؒ 25 دسمبر 1876 کو سندھ کے موجودہ دار الحکومت کراچی میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1882 میں کیا۔ 1893 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ روانہ ہوئے جہاں سے انھوں نے 1896 میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور وطن واپس آ گئے۔

    بابائے قوم نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1906 میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت سے کیا تاہم 1913 میں محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس دوران انھوں نے خود مختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کیے۔

    کراچی میں جناح پونجا کے گھر جنم لینے والے اس بچے نے برصغیر کی نئی تاریخ رقم کی اور مسلمانوں کی ایسی قیادت کی جس کے بل پر پاکستان نے جنم لیا۔ قائدِ اعظم کی قیادت میں برِصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف برطانیہ سے آزادی حاصل کی، بلکہ تقسیمِ ہند کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔

    قائدِ اعظم محمدعلی جناح کی زندگی جرات، ان تھک محنت، دیانت داری، عزمِ مصمّم ، حق گوئی کا حسین امتزاج تھی، برصغیر کی آزادی کے لیے بابائے قوم کا مؤقف دو ٹوک رہا، نہ کانگریس انھیں اپنی جگہ سے ہلا کسی نہ انگریز سرکار ان کی بولی لگا سکی۔

    مسلمانوں کے اس عظیم رہنما نے 11 ستمبر، 1948 کو زیارت بلوچستان میں وفات پائی اور کراچی میں دفن ہوئے۔

    مسلمانوں کے حقوق اورعلیحدہ وطن کے حصول کے لیے ان تھک جدوجہد نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ 1930 میں انھیں تپِ دق جیسا موزی مرض لاحق ہوا جسے انھوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقا کے علاوہ سب سے چھپائے رکھا۔ قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو محمد علی جناح خالقِ حقیقی سے جا ملے۔


    یہ بھی پڑھیں:  وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار


    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال میں گزارے، ان کا مرض شدت پر تھا اور آپ کو دی جانے والی دوائیں مرض کی شدت کم کرنے میں نا کام ثابت ہو رہی تھیں۔

    ان کے ذاتی معالج ڈاکٹرکرنل الہٰی بخش اوردیگر معالجین کے مشورے پر وہ 6 جولائی 1948 کو آب و ہوا کی تبدیلی اور آرام کی غرض سے کوئٹہ تشریف لے آئے، جہاں کا موسم نسبتاً ٹھنڈا تھا لیکن یہاں بھی ان کی سرکاری مصروفیات انھیں آرام نہیں کرنے دے رہی تھیں لہٰذا جلد ہی انھیں قدرے بلند مقام زیارت میں واقع ریزیڈنسی میں منتقل کر دیا گیا، جسے اب قائد اعظم ریزیڈنسی کہا جاتا ہے۔

    اپنی زندگی کے آخری ایام قائدِ اعظم نے اسی مقام پر گزارے لیکن ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور 9 ستمبر کو انھیں نمونیا ہوگیا ان کی حالت کے پیشِ نظر ڈاکٹر بخش اور مقامی معالجین نے انھیں بہترعلاج کے لیے کراچی منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔


    اسے بھی ملاحظہ کریں:  قائداعظم محمد علی جناح کی نایاب اور یادگار تصاویر


    گیارہ ستمبر کو انھیں سی وَن تھرٹی طیارے کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی منتقل کیا گیا جہاں ان کی ذاتی گاڑی اور ایمبولینس انھیں لے کر گورنر ہاؤس کراچی کی جانب روانہ ہوئی۔ بد قسمتی کہ ایمبولینس راستے میں خراب ہوگئی اور آدھے گھنٹے تک دوسری ایمبولینس کا انتظار کیا گیا۔ شدید گرمی کے عالم میں محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی اور قوم کے محبوب قائد کو دستی پنکھے سے ہوا جھلتی رہیں۔

    کراچی وارد ہونے کے دوگھنٹے بعد جب یہ مختصر قافلہ گورنر ہاؤس کراچی پہنچا تو قائدِ اعظم کی حالت تشویش ناک ہو چکی تھی اور رات دس بج کر بیس منٹ پر وہ اس دارِ فانی سے رخصت فرما گئے۔

    ان کی رحلت کے موقع پر انڈیا کے آخری وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناح اتنی جلدی اس دنیا سے کوچ کر جائیں گے تو میں ہندوستان کی تقسیم کا معاملہ کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیتا، وہ نہیں ہوتے تو پاکستان کا قیام ممکن نہیں ہوتا‘‘۔

    قائد اعظم کے بد ترین مخالف اور ہندوستان کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے اس موقع پر انتہائی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ایک طویل عرصے سے انھیں نا پسند کرتا چلا آیا ہوں لیکن اب جب کہ وہ ہم میں نہیں رہے تو ان کے لیے میرے دل میں کوئی تلخی نہیں، صرف افسردگی ہے کہ انھوں نے جو چاہا وہ حاصل کر لیا لیکن اس کی کتنی بڑی قیمت تھی جو انھوں نے ادا کی‘‘۔

  • ہزمیجسٹی کا نہیں،’آئینِ پاکستان کا وفاداررہوں گا‘: قائد اعظم

    ہزمیجسٹی کا نہیں،’آئینِ پاکستان کا وفاداررہوں گا‘: قائد اعظم

    قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا، اور دولتِ برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہونے والے ممالک میں صرف پاکستان کو شرف حاصل ہے کہ جس کے پہلے گورنر کے حلف نامے میں ’ہز میجسٹی سے وفاداری‘ کے الفاظ شامل نہیں تھے۔

    معروف محقق اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری کے مطابق چند برس پیشتر یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ قائد اعظم نہ صرف یہ کہ برطانوی پاسپورٹ کے حامل تھے بلکہ انہوں نے جب 15اگست 1947ء کو بطور گورنر جنرل پاکستان حلف اٹھایا تھا تو اس حلف میں ہزمیجسٹی جارج ششم بادشاہ برطانیہ سے وفاداری کے الفاظ شامل تھے اور اسے بنیاد بنا کر قائد پر تنقید بھی کی جاتی ہے جو کسی پاکستانی شہری کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہے ۔

    عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ جہاں تک قائد اعظم کے پاسپورٹ کا تعلق ہے، یہ بات بالکل درست ہے قائداعظم کی زندگی کا آخری پاسپورٹ جو 28 نومبر 1946ء کو جاری ہوا تھا، برٹش پاسپورٹ تھا کیونکہ اس وقت ہندوستان برطانیہ ہی کا حصہ تھا اور اس وقت اس خطے میں جو پاسپورٹ جاری ہوتے تھے وہ برطانوی پاسپورٹ ہی کہلاتے تھے۔ اس پاسپورٹ کے حوالے سے جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ پاسپورٹ کراچی سے جاری ہوا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے نہ کوئی بیرونی سفرکیا اور نہ ہی انھیں کسی پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت محسوس ہوئی۔

    ’’گزشتہ دنوں میں پاکستان کے نامور ماہر قانون جناب ایس ایم ظفر کی کتاب عدالت میں سیاست پڑھ رہا تھا تو اچانک مجھے قائد پر لگائے ‘‘گئے اس دوسرے الزام کا جواب بھی مل گیا۔ اس کتاب کے صفحہ 181 پر جناب ایس ایم ظفر لکھتے ہیں::

    ۔۔”ہم نے اپنی تحقیق پاکستان کے ابتدائی تاریخ سے شروع کی ۔ حلف کی اہمیت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب 15اگست 1947کو قائد اعظم محمد علی جناح کے بطور گورنر جنرل پاکستان حلف اٹھانے کا وقت آیاتو گورنر جنرل کے حلف کے الفاظ کو جناح صاحب کے اعتراض کی روشنی میں تبدیل کرنا پڑا۔ہوا یوں کہ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947ءجس کے تحت پاکستان اور بھارت کو آزادی ملی تھی اس کے مطابق نئی مملکت کے گورنر جنرل کو اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے مندرجہ حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ ہزمیجسٹی جارج ششم بادشاہ برطانیہ کے جاری کردہ پروانے کے مطابق حلف نامہ کے الفاظ یوں تھے۔

    میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں ہز میجسٹی کا پورا وفادار رہوں گا

    اور میں ہز میجسٹی اور ان کے جانشینوں کو وفاداری کا بھی یقین دلاتا ہوں

    قائد اعظم محمد علی جناح ایک نئی اسلامی مملکت قائم کرنا چاہتے تھے اور نئی مملکت کے اس تشخص کو ابتداہی میں واضح کردینا چاہتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ جب لارڈ ماو نٹ بیٹن نے یہ خواہش ظاہر کی کہ دونوں نوزائیدہ مملکتیں (پاکستان اور بھارت)انہیں مشترکہ طور گورنر جنرل بنا لیں اور کانگریس نے ان کی اس تجویز کو جی آیا نو ں کہا۔قائد اعظم نے اس تجویز کو رد کردیا کیونکہ اگر وہ یہ مان جاتے تو نظریاتی طور پر یہ ابہام پیداہو سکتا تھاکہ بھارت اور پاکستان کی فی الحقیقت علیحدگی نہیں ہوئی اور جلد ہی دونوں مملکتیں ایک ہوجائیں گی ۔ بہر حال حلف اٹھاتے وقت جناح نے ”ہزمیجسٹی کی وفاداری “کے الفاظ پر اعتراض کیااور اس کی جگہ جن الفاظ کی تبدیلی حکومت برطانیہ سے منوائی وہ یوں تھے۔

    ”میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں نافذالعمل آئینِ پاکستان سے وفاداررہوں گا۔۔۔۔۔۔“

    ہزمیجسٹی سے وفاداری کی بجائے آئین پاکستان سے وفاداری کی تبدیلی فقہی اور آئینی لحاظ سے کس قدر اہم تھی اس پر ابھی تک ہمارے مورخین نے کوئی زیادہ توجہ نہیں دی ہے ۔ قائداعظم نے شخصیت پرستی کی بجائے آئین کو اہمیت دی تھی ۔ وہ خود کوبھی آئین کا پابند بنانا چاہتے تھے اور قوم کو بھی آئین کی اہمیت بتارہے تھے ۔

    یہ بات بھی قارئین کو معلوم ہونی چاہئے کہ برطانیہ کے تحت جتنے بھی نو آبادیاتی ممالک کسی وقت بھی آزاد ہوئے، ان کے سربراہوں نے وقتِ آزادی وہی حلف اٹھایا جوہزمیجسٹی کے پروانہ میں درج تھا۔ الفاظ کی تبدیلی صرف پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے اصرار پر کی گئی تھی ۔

  • ترقی کا منصوبہ صرف بلاول کے پاس ہے: خورشید شاہ

    ترقی کا منصوبہ صرف بلاول کے پاس ہے: خورشید شاہ

    کراچی: اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ قائداعظم کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو اور بےنظیر حقیقی لیڈر تھیں، محترمہ بےنظیر بھٹو کے پاس وژن تھا۔

    ان خیالات کا اظہار پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

    انھوں نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو پاکستان کا مستقبل قرار دیتے ہوئے کہا، ہمیں ذوالفقارعلی بھٹو اوربے نظیرکی طرح لیڈرشپ چاہیے اور بلاول کے پاس سوچ ہے، عام آدمی کی ترقی کے منصوبے ہیں۔

    خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ لیڈروہ ہوتا ہے جو قوم کوساتھ لے کر چلے، حقیقی قیادت لوگوں کے مسائل اورحالات کی ترجمانی کرتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: عسکری حکام کی بریفنگ پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے خوش آئند ہے: خورشید شاہ

    انھوں نے امریکی دھمکیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کھل کر امریکا کے مدمقابل آنا ہوگا، اس کے لیے ہمیں ذوالفقار علی بھٹو اور بےنطیر بھٹو جیسی قیادت درکار ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک کے اندرونی وبیرونی حالات ٹھیک نہیں، ہمیں متحدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ میں بحیثیت اپوزیشن لیڈر عوامی مسائل پرحکومت سے سوال کرتا رہتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • لندن میں قائد اعظم کے مجسمے کی رونمائی

    لندن میں قائد اعظم کے مجسمے کی رونمائی

    لندن: برطانوی دارالحکومت لندن کے میئر صادق خان نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کانسی کے مجسمے کی رونمائی کی۔

    مجسمے کی تقریب رونمائی لندن کے تاریخی برٹش میوزیم میں انجام پائی۔ قائد اعظم کا یہ مجسمہ اسکاٹش مجسمہ ساز فلپ جیکسن نے تیار کیا ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے میئر لندن صادق خان نے اسے اپنے لیے ایک قابل فخر لمحہ قرار دیا۔

     

    تقریب رونمائی کے بعد مجسمے کو لنکز ان منتقل کردیا گیا جہاں سنہ 1896 میں قائد اعظم نے ایک عشائیے میں شرکت کی تھی۔

    تقریب میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس نے بھی شرکت کی جبکہ اس موقع پر پاکستان کی پہلی اوپرا گلوکارہ ہونے کا منفرد اعزاز رکھنے والی سائرہ پیٹر نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ملک بھرمیں یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے

    ملک بھرمیں یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے

    ملک بھرمیں یومِ آزادی روایتی جوش و خروش اور جذبے سے منایا جارہاہے۔ ملک بھر میں سرکاری عمارتوں، سڑکوں اور راستوں کو قومی پرچموں سے سجایا گیا ہے۔

    قوم آج 70 واں یوم آزادی ملی جوش و جذبے کےساتھ منا رہی ہے،یوم آزادی کے دن کا آغازدارالحکومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21-21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔ مساجد میں ملکی سلامتی اور خوشحالی کےلیےخصوصی دعائیں بھی کی گئیں۔

    کراچی میں مزارقائد پر گارڈز کی تبدیلی کی پُروقار تقریب منعقد ہوئی جہاں پاک بحریہ کے کیڈٹس نے مزارقائد پرگارڈزکے فرائض سنبھال لیے۔ تقریب کے مہمان خصوصی کمانڈنٹ نیول اکیڈمی کموڈور عدنان احمد تھے۔

    اس سے قبل مزارِ اقبال پر ہونے والی خصوصی تقریب میں پاک فوج کےدستےنے مزار اقبال پر گارڈز کے فرائض سنبھالے۔اس موقع پر تقریب کے مہمان خصوصی لیفٹیننٹ کرنل فیصل حمید نے پرچم کشائی کی۔

    پاک فوج سے پہلے پنجاب رینجرز نے مزار اقبال پر گارڈز کے فرائض سنبھال رکھے تھے۔

    یوم آزادی کے موقع پر شاہراہ دستور پر واقع ایوان صدر، پارلیمنٹ ہائوس، سپریم کورٹ، وزیراعظم آفس ،پاک سیکرٹریٹ اور دیگر عمارتوں کو نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔


    پاکستان کو قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنا کر دم لیں گے، آرمی چیف


    پاکستان کے70 ویں یوم آزادی کے سلسلے میں پاک فضائیہ کے ساتھ ساتھ ترکی اور سعودی عرب کی فضائیہ بھی جشن میں شریک ہوگی۔

    واضح رہے کہ ترک فضائیہ کی مشہور فضائی ٹیم ’سولوترک‘ اور رائل سعودی ائرفورس کی عالمی طور پر مشہور ٹیم ’سعودی ہاکز‘ پاکستان کی جشن آزادی خوشیوں میں پاک فضائیہ کےساتھ مل کر فضا میں رنگ بکھیریں گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • بارش : قائد اعظم کی جائے پیدائش گندے پانی کی آماجگاہ بن گئی

    بارش : قائد اعظم کی جائے پیدائش گندے پانی کی آماجگاہ بن گئی

    کراچی : شہر قائد میں ہونے والی دو روزہ بارشوں کے بعد بابائے قوم کی جائے پیدائش وزیرمینشن بھی بلدیاتی محکمے کی نااہلی کے سبب تعفن زدہ پانی سے گھری دکھائی دے رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ہونے والی دو دن کی بارش نے ایک طرف تو نظام زندگی درہم برہم کردیا تو دوسری جانب حکومتی دعوؤں کی قلعی بھی کھول دی، بابائے قوم کی جائے پیدائش وزیر مینشن بھی حکومتی اداروں کی غفلت اور لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    بابائے قوم محمد علی جناح کی جائے پیدائش وزیر مینشن شہری حکومت کی نا اہلی اور بے حسی کے باعث بارش اور گٹر کے پانی سے گھِرگئی ہے, تالاب کی منظر کشی کرنے والی گلیاں کچرے اور گندگی سے امڈ آئی ہیں۔

    تاریخی ورثے کے سامنے کؤگٹر کے پانی سے اٹھنے والی بدبو گندے پانی کی نہیں بلکہ معاشرے کی مردہ سوچ کی ترجمانی کررہی ہے۔

    کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش کے اطراف بارش اور گٹر کا پانی حکومت اور سیاستدانوں کی صفائی مہم کا حال بیان کر رہا ہے۔ علاقہ مکینوں کو نماز کیلیے مسجد تک جانے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

    بلدیاتی ادارے تاحال وزیر مینشن کے اطرف سے تعفن زدہ پانی کو صاف کرنے سےقاصر دکھائی دیتے ہیں، مذید بارش حالات کو خراب تر کرسکتی ہے۔

  • قائد اعظم محمد علی جناح‌ کی زندگی کا کٹھن سفر

    قائد اعظم محمد علی جناح‌ کی زندگی کا کٹھن سفر

    کراچی کی عمارت وزیر مینشن میں رہائش پذیر جناح پونجا اور ان کی اہلیہ مٹھی بائی کے گھر 25 دسمبر 1876ء کو اُس بچے کی پیدائش ہوئی جسے والدین نے محمد علی جناح کا نام دیا تو بر صغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیڈر کو قائد اعظم کے نام سے پکارا اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے نجات دہندہ رہنما کو بابائے قوم کا خطاب دیا.

    قائد اعظم محمد علی جناح کے آباؤ اجداد نے ہندوستان کے صوبے گجرات کے علاقے کاٹھیاوار سے ہجرت کر کے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی جہاں جناح پونجا نے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور ابتدائی تعلیم کے لیے اپنے بیٹے محمد علی جناح کو سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کروایا۔

    امتیازی نمبروں سے اپنے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے والے ہونہار بیٹے محمد علی جناح کو ان کے والد نے اعلیٰ تعلیم کے لیے 1891 میں برطانیہ بھیجوادیا، اس سے قبل ہی قائد اعظم کی شادی کم سنی ہی میں دور کے عزیز ایمی بائی سے انجام پائی۔

    quaid-e-azam-fb-3

    قائد اعظم نے برطانیہ میں اپنی اعلیٰ تعلیم ہی حاصل نہیں کی بلکہ والد صاحب کے کاروبار میں نقصان کے باعث کچھ عرصہ لندن میں ملازمت بھی کی تا کہ اپنے تعلیمی اخراجات اٹھا سکیں اور 1896 میں قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور وطن واپس لوٹ آئے۔

    اپنے والد  کے انتقال کے بعد قائد اعظم نے باقاعدہ وکالت کا آغاز کیا اور بہت مختصر عرصے میں اپنی مہارت، خطابت اور لیاقت کے باعث جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے اور کئی پچیدہ مقدمات میں فریق کو انصاف دلوانے کے باعث اپنی قدر ومنزلت اور بڑھا گئے۔

    quaid-e-azam-fb-5

    قائد اعطم نے وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں عملی طور پر حصہ لیا اور 1906 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور ابتدائی طور پر ہندو اور مسلمان کے اتحاد و اتفاق کی کوششوں میں جُت گئے اور انگریزوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا پرچار کرتے رہے۔

    کانگریس کے ساتھ سات سالہ طویل رفاقت میں قائد اعظم نے کانگریس کے ہندو رہنماؤں کے رویوں اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک کا قریبی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریز کے ہندوستان چلے جانے کے بعد ہندو مسلمانوں پر قابض ہو جائیں گے اور مسلمان قوم انگریزوں کے ہندو بنیئے کے غلام بن جائے گی۔

    quaid-e-azam-fb-6

    قوم کی بقاء کے لیے فکر مند قائد اعظم نے ہندو رہنماؤں کی چالوں کو بھانپتے ہوئے 1913 میں مسلم رہنماؤں سر آغا خان سوئم، علامہ اقبال اور چوہدری رحمت علی کی درخواست پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور تحریک آزادی کی داغ بیل ڈالی۔

    جلد ہی قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں میں نہایت مقبول ہو گئے اور 1916 میں انہیں مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا اور تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی، آپ نے نو جوانوں کو متحرک کیا اور اسکولوں، کالجوں میں نظریہ پاکستان کی ترویج کی۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔

    quaid-e-azam-fb-7

    جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماؤں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ 1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قراردادِ پاکستان منظورکی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔

    quaid-e-azam-fb-4

    دوسری جنگ عظیم کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے، جنگ کے ختم ہونے کے مختصرعرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لئے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔

    قائد اعظم نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کے قیام کے لیے شروع کی گئی تحریکِ آزادی کو گلی گلی اور قریہ قریہ پہنچا دیا اور کیا نوجوان کیا بچے اور کیا بوڑھے سب ہی یکساں جوش و خروش کے ساتھ اس تحریک سے ذہنی، نظریاتی اور روحانی طور پر ایسے جُڑے کہ انگریز قابضوں کو لندن کی راہ دکھائی تو ہندوؤں سے الگ وطن لے کر دنیا کودکھا دیا کہ مسلمان اپنی پر آجائیں تو کیا نہیں کر سکتے۔

    quaid-e-azam-fb

    محمد علی جناح نے اپنے تدبر، فہم وفراست، سیاسی دور اندیشی اور جہد مسلسل کے باعث نہ صرف انگریوں کو چلتا کیا بلکہ مسلمانوں کو ہندو بنیئے کے شکنجے سے بچاتے ہوئے 14 اگست 1947 میں ایک ایسی ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جہاں مسلمانانِ ہند اپنے مذہبی عبادات اور رسومات کو آزادی کے ساتھ ادا کرسکتے ہیں اور جہاں مسلمانوں کی جان، مال اور عزت و آبرو محفوظ بھی ہو اس ارضِ پاک کو پاکستان کہا جاتا ہے۔

    قیام پاکستان کے بعد ناکافی وسائل اور پہاڑ جیسے مسائل کا ڈٹ کر سامنے کیا اور نوزائیدہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیئے، مہاجرین آمد اور آباد کاری کا مسئلہ ہو یا سرحدوں پر کھڑے خطرات کا سامنا ہو، دفتری و فوجی اشیاء کی کمی ہو یا ناپید فنڈز ہو آپ نے یوں حل کیئے کہ دنیا حیران و پریشان ہو گئی۔

    quaid-e-azam-fb-2

    قائد اعظم محمد علی جناح علامہ اقبال کے خواب اور مسلمانوں کی خواہش پاکستان کو عملی طور پر قائم کرنے کے بعد محض ایک سال بعد بہی 11 ستمبر 1948 میں ہی 71 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جاملے یوں لگتا ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے قیام کے لیے ہی دنیا میں وارد ہوئے اور اپنا فیضہ ادا کرتے ہی دنیا سے منہ موڑ گئے۔

    quaid-e-azam-fb-1

    واضح رہے محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد سے اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔

    آپ کی جہد مسلسل اور خدمات کے پیش نظر نے سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے جب کہ قائد اعظم کا یومِ پیدائش بھی قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔

  • قومی ہیروز کو پاک فوج کاسلام ! 3شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین

    قومی ہیروز کو پاک فوج کاسلام ! 3شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین

    کراچی: پاکستان میں انسانیت کومتعارف کرانے والے عظیم بے مثال انسان عبدالستار ایدھی کو پورے فوجی اعزاز میں انیس توپوں کے ساتھ سپردخاک کردیا ۔

    ملکی تاریخ میں اس سے پہلے صرف تین شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، قومی پرچم میں لپٹے جسد خاکی کو پاک بحریہ کے سیکیورٹی حصار میں گن کیرج وہیکل پر میٹھا در سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔

    4

    نیشنل اسٹیڈیم میں درویش صفت ایدھی صاحب کے جسد خاکی کو آرمی کے جوان پورے اعزاز کے ساتھ جنازے کے مقام پر لائے، جہاں مولانا احمد خان نیازی کی امامت میں جنازہ پڑھایاگیا۔

    تینوں مسلح افواج کےسربراہان نے عبدالستار ایدھی کو سلامی پیش کی، پاک فوج کے مسلح جوانوں نےقوم کے محسن کو توپوں کی سلامی میں رخصت کیا، انسانیت کے خادم عبدالستار ایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا۔

    5

    سب سے پہلے بابائے قوم محمد علی جناح کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی وہ پہلی شخصیت تھے جن کی میت گن کیرج وہیکل پر لائی گئی تھی، بابائے قوم کاجسد خاکی لحد میں اتارتے وقت پاک فوج نےگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔

    3

    دوسری مرتبہ یہ اعزاز پاک فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کونصیب ہوا، انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا تھا۔

    1

    عبدالستارایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔

    6

    عسکری روایات کے مطابق فوجی اعزاز کے طور پر جنازے کو گن کیرج وہیکل پر لایا جاتا ہے، یہ روایت برطانیہ کے شاہی توپ خانے نے قائم کی تھی، برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کا تابوت بھی گن کیرج وہیکل پر ہی لایا گیا تھا۔

    2

     

    عموماً یہ اعزاز ایسی شخصیت کو دیا جاتا ہے جو اپنی وفات کے وقت سربراہ مملکت ہو، تاہم عبدالستار ایدھی کو سربراہ مملکت نہ ہونے کے باوجود یہ اعزاز دیا گیا۔

    گن کیرج وہیکل

    7