Tag: Quotes

  • ’محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری‘

    ’محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری‘

    لندن: آنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا کی آج 58 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے، شاہی خاندان سے الگ ہونے کے بعد بھی وہ مرتے دم تک شہزادی ہی کہلائی جاتی رہی کیونکہ وہ دلوں کی شہزادی تھی۔

    لیڈی ڈیانا حقیقی معنوں میں ایک شہزادی تھی۔ اس نے ساری زندگی ایک وقار اور تمکنت کے ساتھ گزاری۔ اس کے اندر ایک عام لڑکی تھی جو فطرت اور محبت سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ شاہی محل کی اونچی دیواروں میں قید تھی۔

    گو کہ دنیا کی نظر میں اس کی زندگی پریوں کی داستان جیسی تھی لیکن اس کے قریبی جاننے والوں کے مطابق شاہی محل میں گزارا جانے والا زندگی کا حصہ اس کی زندگی کا تکلیف دہ حصہ تھا۔

    ڈیانا نے اپنے کئی انٹرویوز میں ایسے خیالات کا اظہار کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ عام لوگوں کی طرح زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے لیکن شاہی قاعدے قانون اس کے پیروں کی زنجیر تھے جنہوں نے اسے سانس بھی لینا دوبھر کردیا تھا۔

    ستم بالائے ستم، اسے محبت کی محرومی کا غم بھی تھا۔ اس کے شوہر شہزادہ چارلس اور اس کے درمیان کبھی محبت و الفت کا رشتہ قائم نہ ہوسکا کیونکہ چارلس جب تک ڈیانا کا شوہر رہا، اپنی محبوبہ کمیلا پارکر کے غم میں گھلتا رہا جسے وہ غیر شاہی خاندان کی ہونے کے باعث نہ اپنا سکا تھا۔

    شوہر کی بے اعتنائی نے ڈیانا کو مزید غمزدہ کردیا تھا۔ وہ کہتی تھی، ’شادی کے اس بندھن میں 3 افراد جڑے تھے، سو یہ ایک خاصا پرہجوم بندھن تھا‘۔

    آئیں لیڈی ڈیانا کے کچھ خیالات جانتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی اس کے لیے کیا تھی اور وہ اسے کیسے گزارنا چاہتی تھی۔

    وہی کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے۔

    مجھے صرف ڈیانا کے نام سے بلاؤ، شہزادی ڈیانا کے نام سے نہیں۔

    محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری ہے۔

    میں اصولوں پر نہیں چلتی، میں دماغ کی نہیں، دل کی سنتی ہوں۔

    اگر آپ اس شخص کو ڈھونڈ لیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں، تو اسے کبھی نہ جانے دیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار اس نے کہا تھا، ’میں اس ملک کی ملکہ بننے کے بجائے دلوں کی ملکہ بننا پسند کروں گی‘۔

    ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنا میری زندگی کا اہم حصہ ہے، اور یہی میری منزل ہے۔

    کروڑوں دلوں کی دھڑکن یہ خوبصورت شہزادی 31 اگست 1997 کو پیرس میں کار کے سفر کے دوران جان لیوا حادثے کا شکار ہوگئی اور اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئی۔

  • ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘

    ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘

    دنیا بھر کی نامور اور مشہور خواتین نہ صرف اپنے کارناموں سے دوسری خواتین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں بلکہ ان کے کہے ہوئے الفاظ بھی دوسروں کی زندگیوں میں امید کی کرن جگاتے ہیں۔

    آج جبکہ دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے تو ہر اہم موقع کی طرح آج بھی گوگل نے اپنا ڈوڈل خواتین کے نام کیا ہے، اور دنیا بھر کی معروف خواتین کے کچھ اقوال پیش کیے ہیں۔

    ان میں سے کچھ خوبصورت اقوال آپ کے لیے بھی پیش کیے جارہے ہیں۔

    فریڈا کوہلو

    فریڈا کوہلو خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی معروف میکسیکن آرٹسٹ ہیں۔ ان کا قول ہے، ’مجھے پیروں کی کیا ضرورت ہے جب میرے پاس اڑنے کے لیے پر موجود ہیں‘۔

    مے جیمسن

    مے جیمیسن طبیعات داں اور خلا میں جانے والی پہلی افریقی نژاد خاتون ہیں۔ آج گوگل نے ان کا یہ قول پیش کیا ہے، ’دوسروں کے محدود تصورات تک محدود مت رہو‘۔

    یوکو اونو

    گلوکار اور سماجی کارکن جان لینن کی اہلیہ اور معروف آرٹسٹ یوکو اونو کہتی ہیں، ’اکیلا دیکھا جانے والا خواب صرف ایک خواب رہتا ہے، لیکن مل کر دیکھا جانے والا خواب حقیقت بن جاتا ہے‘۔

    میری کوم

    معروف بھارتی باکسر میری کوم کہتی ہیں، ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘۔

    مرینہ سویٹیوا

    روسی شاعرہ مرینہ سویٹیوا کا یہ قول گوگل ڈوڈل کی زینت بنا، ’پر اسی وقت آزادی کی نشانی ہیں جب انہیں اڑنے کے لیے کھولا جائے، علاوہ ازیں پشت پر ٹکے وہ صرف ایک بھاری بوجھ ہیں‘۔

  • ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کے اس دنیا میں آتے ہی اس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ وہ جو کچھ اپنے آس پاس دیکھتا اور سنتا ہے وہ اس کی شخصیت اور کردار پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    بہت بچپن میں پیش آنے والے واقعات بھی بچوں کے لاشعور میں بیٹھ جاتے ہیں جو عمر کے کسی نہ کسی حصہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ اپنے بچے کی کسی خاص خطوط پر تربیت کرنا چاہتے ہیں تو اسے بچپن ہی سے اس چیز سے روشناس کروائیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو کند ذہن بنانے والی وجہ

    مثال کے طور پر اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بڑا ہو کر فٹبالر بنے، تو اسے بہت چھوٹی عمر سے ہی سے ہی فٹبال کھیلنا سکھائیں، خود بھی اس کے سامنے کھیلیں، ٹی وی پر فٹبال میچ دکھتے ہوئے اس اپنے ساتھ بٹھائیں۔

    اسی طرح اگر آپ اپنے بچے کو مطالعہ کی عادت ڈلوانا چاہتے ہیں تو اسے بچپن سے ہی باتصویر کتابوں سے روشناس کروائیں۔

    یہ ایک نہایت آزمودہ طریقہ ہے۔ اگر آپ دنیا کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والے افراد کے بچپن میں جھانکیں گے تو وہ اپنے بچپن سے ہی اس میدان سے آشنا ملیں گے جس میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا جادو دکھایا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    اکثر شاعر، ادیب یا مصوروں نے اپنے بچپن میں خاندان کے کسی فرد کو کتابوں یا رنگوں سے الجھے ہوئے پایا اور ان کی ملکیت کتابوں اور رنگوں سے کھیلا۔ یہی وہ عادت ہے جو کسی حد تک بچے کے فطری میلان کی بھی تشکیل کرتی ہے۔

    امریکا میں رہائشی ایک ماں میگھن ایلڈرکن بھی انہی خطوط پر اپنی ننھی بیٹی کی تربیت کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی بڑی ہو کر ایک مضبوط عورت بنے جس پر معاشرہ فخر کرسکے۔

    بچپن سے ہی تربیت کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے اپنی بیٹی کے اسکول کے لنچ باکس میں ایک خاص قسم کا نیپکن رکھنا شروع کردیا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    یہ نیپکن کوئی معمولی نیپکن نہیں تھا، بلکہ اس پر میگھن تاریخ پر اثر انداز ہونے والی کسی مشہور خاتون کی تصویر بناتی اور ان کا کوئی قول لکھتی جو شخصیت اور کردار کی تعمیر اور زندگی کو حوصلے سے بسر کرنے سے متعلق ہوتا۔

    میگھن چونکہ ایک ادارے میں اسی تخلیقی کام سے منسلک ہیں لہٰذا ان کے لیے روزانہ ایک ڈرائنگ بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔

    وہ بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹی ہر روز بے تابی سے لنچ ٹائم کا انتظار کرتی ہے کہ کب وہ لنچ باکس کھولے اور نیپکن پر لکھا قول پڑھے۔ اس قول سے صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس کے دوستوں کو بھی دلچسپی ہے اور وہ ہر روز شوق سے اسے پڑھتے ہیں۔

    میگھن ہر روز کسی مشہور خاتون سیاستدان، ادیبہ، مصورہ، اداکارہ یا سماجی کارکن کا ایک قول اپنی بیٹی کو دیتی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کی بیٹی کا شمار بھی ایک دن انہی خواتین میں ہوگا جو اپنے ملکوں کے لیے باعث افتخار بنیں۔


    4

    انہوں نے اپنی بیٹی کو ملالہ یوسفزئی سے بھی روشناس کروایا جس کا قول ہے، ’ہم اپنی آواز کی اہمیت اس وقت جانتے ہیں جب ہم خاموش کروا دیے جاتے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار


    7

    امریکی خاتون اول مشل اوباما کا قول، ’آپ کوئی فیصلہ خوف کی بنیاد پر، یا اس بنیاد پر نہیں کر سکتے کہ آگے کیا ہوگا‘۔


    2

    امریکا کی سابق سیکریٹری خارجہ میڈیلین البرائٹ کا قول، ’مجھے اپنی آواز کو مستحکم بنانے میں ایک طویل عرصہ لگا ہے، اور اب میں خاموش نہیں ہوں گی‘۔


    6

    بیسویں صدی کی میکسیکو سے تعلق رکھنے والی مصورہ فریڈا کاہلو کا قول، ’مجھے پیروں کی کیا ضرورت ہے جب میرے پاس اڑنے کے لیے پر موجود ہیں‘۔


    1

    مشہور امریکی مصنفہ لوئیسا مے کا قول، ’میں طوفانوں سے خوفزدہ نہیں ہوں، کیونکہ اس سے میں سیکھ رہی ہوں کہ کشتی کو کیسے چلایا جاتا ہے‘۔


    5

    برطانوی مصنفہ میری شیلی کا قول، ’میں بے خوف ہوں، اس لیے طاقتور ہوں‘۔


    8

    ہالی ووڈ فلم سیریز ہیری پوٹر کی کردار ہرمائنی کا قول، ’میں دنیا میں کچھ اچھا کرنا چاہتی ہوں‘۔


    خلا میں جانے والی پہلی افریقی خاتون مے جیمیسن کا قول، ’دوسرے لوگوں کے محدود خیالات کی مناسبت سے خود کومحدود مت کریں‘۔


    3

    امریکی اداکارہ لوسی بال کا قول، ’میں ان کاموں پر پچھتانا پسند کروں گی جو میں نے انجام دیے بجائے ان کاموں کے جن کا مجھے پچھتاوا ہو کہ میں نے کیوں نہ کیے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بوم بوم آفریدی کے یادگار جملے

    بوم بوم آفریدی کے یادگار جملے

    کراچی : دلوں کے بادشاہ اور کراچی کنگز کے صدر شاہد آفریدی آج اپنی38 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، بوم بوم آفریدی کے کچھ یاد گار جملے جو ہمیشہ یاد رہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق یکم مارچ انیس سو اسی کو خیبر ایجنسی میں پیدا ہونے والے شاہد آفریدی نے انیس سو چھیانوے میں سینتیس گیندوں پر دنیا کی تیز ترین سنچری بنا کرراتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

    شاہد آفریدی کو بوم بوم آفریدی کا نام معروف کرکٹر اور روی شاستری نے دیا۔ ٹی ٹوئنٹی کا آغاز ہوا تو شاہد آفریدی کو اس کا بادشاہ تسلیم کیا گیا اور دو ہزار نو کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جتانے میں شاہد آفریدی کی بہترین بیٹنگ ہی وجہ بنی، آفریدی اپنی جارحانہ بلے بازی کی بدولت پوری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔

    بوم بوم آفریدی کے کچھ یاد گار جملے جو ہمیشہ یاد رہیں گے۔

    ’میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک کھلاڑی کا کھیل جارحانہ ہونا چاہئے کیونکہ اس کو طاقت اسی وجہ سے دی گئی ہے تاکہ وہ مشکل ترین حالات میں اچھی کارکردگی دکھا سکے۔‘

    ’جب بھی تم اپنے آپ کو کمزور سمجھو تو ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالی نے تمھارے لئے بہتر سوچ رکھا ہوگا۔‘

    ’اس دنیا میں لاکھوں لوگ ہیں. تو آپ کیوں پیدا ہوئے ہیں وجہ یہ ہے کہ، اللہ آپ سے کچھ توقع کر رہا ہے، جو لاکھوں لوگوں سے ممکن نہیں ہے۔‘

    ’ایک کھلاڑی کو کبھی بھی خود عرض نہیں ہونا چاہئے اور ہمیشہ ٹیم کی کامیابی کا حصہ بننا چاہئے۔‘


    مزید پڑھیں : شاہد خان آفریدی کو 38ویں سالگرہ مبارک


    ’میرے خاندان کے بہت سارے افراد پاک فوج میں ہیں، ان کا يونيفارم اور ان کی طرز زندگی میں نظم و ضبط دیکھ کر ہمیشہ میرے اندر ایک حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا تھا، اگر مجھے کرکٹ سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ نہیں ہوتا، تو میں اپنے ملک کے لئے ایک فوجی بن گیا ہوتا۔‘

    ’ہمیشہ سب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھانے اور تعلیم دینے کی کوشش کریں کہ کیا وجہ جو اللہ نے آپ کو زندگی بخشی ہے، اس کے بعد باقی زندگی سے لطف اٹھائیں۔‘

    ’مجھے کرکٹ سے محبت ہے اور ریٹائر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    دنیا کے ذہین ترین ناموں میں سے ایک، عظیم ترین فلسفی سقراط کا نام کسی شخص کے لیے انجان نہیں ہے۔ اسے دنیائے فلسفہ کا عظیم ترین معلم مانا جاتا ہے۔

    حضرت عیسیٰ کی آمد سے 470 سال قبل یونان میں پیدا ہونے والے سقراط نے یونانی فلسفے کو نئی جہت دی اور دنیا بھر میں فلسفی، منطق اور نظریات پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سقراط کے خیالات انقلابی تھے اور ایسے نظریات کی نفی کرتے تھے جس میں غلامی اور انسانی حقوق چھیننے کی حمایت کی جاتی ہو۔

    بے تحاشہ غور و فکر اور ہر شے کو منطقی انداز میں پرکھنے کی وجہ سے سقراط نے دیوتاؤں کے وجود سے بھی انکار کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں: خلیل جبران کے اقوال

    سقراط کے خیالات کی وجہ سے نوجوان اس کے پاس کھنچے چلے آنے لگے جس کی وجہ سے یونان کے بر سر اقتدار طبقے کو محسوس ہوا کہ اگر سقراط کا قلع قمع نہ کیا گیا تو انہیں بہت جلد نوجوانوں کی بغاوت کا سامنا ہوگا۔

    چنانچہ انہوں نے اس پر مقدمہ درج کر کے اسے موت کی سزا سنا دی۔ اس وقت سزائے موت کے مجرم کو زہر کا پیالہ پینے کے لیے دیا جاتا تھا۔

    زہر پینے کے بعد سقراط نے نہایت آرام و سکون سے اپنی جان دے دی۔

    وہ اپنے بارے میں کہتا تھا، ’میں کوئی دانش مند نہیں، لیکن ان احمق لوگوں کے فیصلے سے دنیا مجھے ایک دانش مند کے نام سے یاد کرے گی‘۔

    مزید پڑھیں: ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    زہر کا پیالہ پینے کے بعد اس نے کہا، ’صرف جسم مر رہا ہے، لیکن سقراط زندہ ہے‘۔

    آج ہم سقراط کے ایسے اقوال پیش کر رہے ہیں جو یقیناً آپ کے علم و دانش میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

    اپنے آپ کے بارے میں سوچو، اور خود کو جانو۔

    خوشی کا راز وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو۔ خوشی زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں لطف اندوز ہونے میں ہے۔

    سب سے مہربانی سے ملو۔ کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں کسی جنگ میں مصروف ہے۔

    میں کسی کو کچھ بھی نہیں سکھا سکتا۔ میں صرف لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہوں۔

    ایک مصروف زندگی کے کھوکھلے پن سے خبردار رہو۔

    اصل ذہانت اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہم زندگی، دنیا اور اپنے آپ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

    بے قیمت انسان کھانے اور پینے کے لیے جیتے ہیں، قیمتی اور نایاب انسان جینے کے لیے کھاتے اور پیتے ہیں۔

    علم کو دولت پر فوقیت دو، کیونکہ دولت عارضی ہے، علم دائمی ہے۔

    سوال کو سمجھنا، نصف جواب کے برابر ہے۔

    اگر تم وہ حاصل نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔

    تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔

    میں ایتھنز یا یونان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ دنیا کا شہری ہوں۔

    حیرت، ذہانت کا آغاز ہے۔

    موت شاید انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔

    تمہارا دماغ سب کچھ ہے۔ تم جو سوچتے ہو، وہی بن جاتے ہو۔

    میں اس وقت دنیا کا سب سے عقلمند آدمی ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

    مزید پڑھیں: عظیم فلسفی کنفیوشس کے 12 رہنما افکار

  • عظیم باکسر محمد علی کے 10 مشہور اقوال

    عظیم باکسر محمد علی کے 10 مشہور اقوال

    عظیم باکسر محمد علی آج صبح انتقال کر گئے۔ حوصلے اور عزم کا استعارہ محمد علی ایک عظیم کھلاڑی ہی نہیں عظیم انسان بھی تھے۔

    محمد علی ایک درد مند انسان تھے۔ وہ اکثر و بیشتر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھایا کرتے تھے۔ ویت نام جنگ کے دوران محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد انہیں ان کے اولمپک چیمپئن شپ کے اعزازات سے محروم کر کے 5 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد علی کو سزا سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔

    محمد علی زندگی کو ایک مثبت نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔ ان کے چند مشہور خیالات یقیناً آپ کی زندگی میں بھی تبدیلی لائیں گے۔

    دوستی ایسی چیز نہیں جو آپ کسی تعلیمی ادارے میں سیکھیں، بلکہ اگر آپ نے دوستی کے صحیح معنی نہیں سیکھے، تو آپ نے کچھ نہیں سیکھا۔

    مجھے اپنی ٹریننگ کا ہر لمحہ برا لگتا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ مجھے رکنا نہیں چاہیئے۔ میں ابھی تکلیف اٹھاؤں گا تو ساری زندگی چیمپئن کہلاؤں گا۔

    جو شخص مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا وہ کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔

    اگر تم مجھے ہرانے کا خواب بھی دیکھو، تو بہتر ہے کہ تم جاگ جاؤ اور اپنے اس خواب کی معافی مانگو۔

    قوم آپس میں جنگیں نقشوں میں تبدیلی لانے کے لیے لڑتی ہیں۔ لیکن غربت سے لڑی جانے والی جنگ زندگیوں میں تبدیلی لاتی ہے۔

    میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کیں، لیکن اگر میں اپنی زندگی میں کسی ایک شخص کی زندگی بھی بہتر کرنے میں کامیاب رہا تو میری زندگی رائیگاں نہیں گئی۔

    جو شخص خواب نہیں دیکھتا، وہ کبھی بھی اونچا نہیں اڑ سکتا۔

    کاش کہ لوگ دوسروں سے بھی ویسے ہی محبت کرتے جیسے وہ مجھ سے کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو دنیا بہت خوبصورت ہوجائے گی۔

    ویت نام کی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے کے بعد محمد علی نے کہا، ’یہ مجھ سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ میں یونیفار م پہن کر اپنے گھر سے 10 ہزار میل دور جاؤں، اور کالوں پر گولیاں اور بم برساؤں؟ یہ تو اپنے ہی ملک میں نیگرؤوں سے کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں‘۔

    زندگی بھر ناقابل شکست رہنے والا آج موت سے شکست کھا گیا۔ وہ زندگی کے بارے میں کہتا تھا۔۔

    زندگی بہت چھوٹی ہے۔ ہم بہت جلدی بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ یہ ایک احمقانہ بات ہے کہ ہم لوگوں سے نفرت کرنے میں اپنا وقت ضائع کردیں۔