اسلامی ادب اور تصوف میں ایک بڑا نام آر اے نکلسن کا ہے جو انگریز مستشرق تھے۔ انھیں 13 ویں صدی کے صوفی عالم اور شاعر مولانا جلال الدّین رومی پر سند مانا جاتا ہے جن کی شخصیت اور کلام پر آر اے نکلسن نے انگریزی زبان میں تراجم کر کے شہرت پائی۔
انگلستان میں 1868ء میں آنکھ کھولنے والے نکلسن نے 27 اگست 1945ء کو وفات پائی۔ ان کی تعلیم یبرڈین یونیورسٹی اور ٹرینیٹی کالج سے بذریعۂ کیمبرج ہوئی۔ شروع ہی سے انھیں زبانیں سیکھنے اور ادب میں دل چسپی تھی اور یہی ان کی وجہ شہرت بنا۔ وہ 1901ء سے 1902ء تک یونیورسٹی کالج لندن میں فارسی زبان کے پروفیسر رہے۔ 1902ء سے 1926ء تک انھوں نے فارسی کے لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پھر کیمبرج میں 1926ء سے 1933ء تک عربی کے سر تھامس ایڈمز کے پروفیسر‘ رہے۔ نکلسن نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ اس کے مختلف ادوار کا گہرائی سے مطالعہ کیا جس میں تصوف نے ان کی دل چسپی اپنی جانب کھینچ لی تھی۔ ہندوستان میں رائج زبانوں پر عبور رکھنے کے سبب انھیں تصوف پر عربی، فارسی اور عثمانی ترکی کی ان کتابوں کو پڑھنے اور اس کی تشریح کرتے ہوئے اپنی زبان یعنی انگریزی میں ڈھالنے میں بہت سہولت ہوئی۔ وہ دو کتابوں کے مصنّف بھی ہیں جن میں لٹریری ہسٹری آف عرب اور دی مائسٹکس آف اسلام شامل ہیں۔ نکلسن کا شاہکار، مثنوی مولانا روم پر ان کے کام تھا۔ یہ کتاب 1925ء سے 1940ء کے درمیان آٹھ جلدوں میں شائع ہوئی۔ اس کے لیے انھوں نے مثنوی کے پہلے اہم فارسی ایڈیشن کو سامنے رکھا اور اس کی بنیاد پر انگریزی میں مکمل ترجمہ اور تشریح نکلسن نے کی۔ اسے ان کا سب سے بڑا اور شاندار کام تصور کیا جاتا ہے۔
پروفیسر رینالڈ ایلیین نکلسن کو اختصار سے آر اے نکلسن لکھا جاتا تھا جو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے بی اے کے تحقیقی مقالہ کے ایک ممتحن بھی رہے تھے۔ اقبال کے یورپ میں قیام کے زمانے میں نکلسن وہاں فارسی کے استاد تھے اور اسلامی تصوف اور رومی پر ان کی بات کو سند کا درجہ دیا جاتا تھا۔ علامہ اقبال کی پہلی شعری تصنیف ‘اسرارِ خودی’ کا انگریزی ترجمہ بعنوان The Secrets of the Self بھی اسی انگریز مستشرق نے کیا تھا جو 1920 میں لندن سے شائع ہوا تھا۔ اس ترجمہ کی بدولت علامہ اقبال کی شہرت یورپ بھر میں پھیلی۔
آر اے نکلسن نے اپنی ساری زندگی رومی کی شاعری اور فکر پر تحقیق جاری رکھی اور خود کو رومی کا ایک عاشق اور ادب دوست ثابت کیا۔ وہ رومی کی مثنوی کے بارے میں کہتے ہیں: ” مثنوی ایک باوقاراورعظیم الشان بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے… پرسکون اور گہرا، جو راستے کے ہرنشیب و فراز سے بے نیاز ایک لامتناہی سمندر سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔ ان کا دیوان جھاگ اڑاتی ہوئی پرجوش لہروں کی مانند پہاڑوں کی پاکیزہ تنہائیوں میں کھوجا تا ہے۔ رومی ہر دور کا عظیم ترین صوفی شاعر ہے۔”