Tag: Rabies

  • ریبیز کا عالمی دن: کتا کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیئے؟

    ریبیز کا عالمی دن: کتا کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیئے؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے ہونے والی مہلک بیماری ریبیز کا عالمی دن منایا جارہا ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کتا کاٹ لینے کے فوراً بعد کچھ احتیاطی تدابیر کرلی جائیں تو ریبیز جیسے مہلک مرض سے بچا جاسکتا ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 56 ہزار افراد ریبیز کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ریبیز سے جاں بحق ہونے والے افراد کی بڑی تعداد افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی کا تناسب اور مرض کے مہلک ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک بار یہ بیماری جڑ پکڑ لے تو ناقابل علاج بن جاتی ہے، ریبیز کا شکار بہت کم افراد زندہ بچ پاتے ہیں۔

    ریبیز کیا ہے؟

    ریبیز ایک وائرس ہے جو پالتو اور جنگلی جانوروں بالخصوص کتوں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہو کر سینٹرل نروس سسٹم کو تباہ کر دیتا ہے، اگر بروقت علاج نہ کروایا جائے تو دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت ہو جاتی ہے۔

    کتے کے علاوہ یہ بندر، بلی، گیدڑ، لومڑی اور چمگادڑ کے کاٹنے سے بھی انسان کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ منتقل ہونے والا مرض ہے اور ریبیز کے متاثرہ مریض سے تعامل کی صورت میں دوسرے انسان کو بھی منتقل ہوسکتا ہے۔

    علامات

    اس بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار اور جانور کے کاٹنے سے متاثرہ مقام پر سنسناہٹ شامل ہو سکتی ہے اور ان علامات کے بعد پرتشدد سرگرمی، بے قابو اشتعال، پانی کا خوف، جسم کے اعضا کو ہلانے کی ناقابلیت، ذہنی انتشار اور ہوش کھونا جیسی کوئی ایک یا کئی علامات ہوتی ہیں۔

    علامات ظاہر ہونے کے بعد، ریبیز کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے۔ مرض کی منتقلی اور علامات کے آغاز کے درمیان کی مدت عام طور پر ایک سے تین ماہ ہوتی ہے۔ تاہم، وقت کی یہ مدت ایک ہفتے سے کم سے لے کر ایک سال سے زیادہ تک میں بدل سکتی ہے۔

    کتا کاٹ لے تو کیا کرنا چاہیئے؟

    طبی ماہرین کے مطابق ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کتے کے کاٹنے کی صورت میں کیا کام فوری طور پر کرنے چاہئیں، یہ بنیادی معلومات کسی انسانی جان کے بچاؤ کا سبب بن سکتی ہیں۔

    یاد رکھیں کہ ہر کتے کے کاٹنے سے ریبیز نہیں ہوتا لیکن کتے کے کاٹنے کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی کو کتا کاٹ لے تو فوری طور پر یہ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

    زخم کا معائنہ کریں

    فوری طور پر زخم کا معائنہ کیا جائے کہ آیا صرف جلد پر خراشیں ہیں یا کتے کے دانتوں نے گوشت پھاڑ دیا ہے۔ معمولی خراشیں ہوں تو ان کا علاج گھر میں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کتا دانت گاڑنے میں کامیاب ہوگیا ہے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔

    زخم کو دھونا کیوں ضروری ہے؟

    جس جگہ کتے کے کاٹنے کا زخم ہو، اس متاثرہ حصے کو بہت زیادہ صابن اور نیم گرم پانی سے کئی منٹ تک دھوئیں۔ اس عمل سے زخم میں موجود کتے کے منہ سے منتقل ہونے والے جراثیموں کو صاف کرنے میں مدد ملے گی۔

    اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اگر جراثیم کش صابن موجود ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

    خون روکیں

    زخم کسی جانور کے کاٹے کا ہو یا کوئی اور ہر دو صورت میں زخم سے خون کا بہاؤ روکنا بے حد ضروری ہے، بصورت دیگر زیادہ خون بہہ جانے سے بھی بعض اوقات جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

    خون روکنے کے لیے زخم کو کسی صاف تولیے یا کپڑے سے دبائیں اور کچھ دیر دبائے رکھیں، خون کا بہاؤ رک جانے کے بعد اینٹی بائیوٹک مرہم لگا کر بینڈج کریں۔

    اگر خون کا بہاؤ نہیں رک رہا تو ایسی صورت میں کتے کے کاٹنے سے متاثرہ شخص کو فوری طبی امداد کی ضروری ہے جس کے لیے قریبی صحت مرکز یا اسپتال سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

    زخم کا باقاعدگی سے معائنہ

    ابتدائی طبی امداد اور ویکسی نیشن کے بعد زخم بھرنے کے دورانیے میں انفیکشن کی دیگر علامات پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہے۔

    اگر زخم میں انفیکشن کا امکان نظر آئے تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں، عام طور پر انفیکشن کی علامات کچھ ایسی ہوسکتی ہیں: درد بڑھ جانا، سوجن، زخم کے ارگرد سرخی یا گرمائش کا احساس، بخار اور مواد خارج ہونا۔

    اینٹی ریبیز ویکسین

    کتے کے کاٹنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو اینٹی ریبیز ویکسین دینا بے حد ضروری ہے، یہ صرف اسی صورت میں نہیں دی جاتی جب متاثرہ شخص کو حتمی طور پر معلوم ہو کہ جس کتے نے اسے کاٹا ہے، اس کی ویکسی نیشن ہوچکی ہے اور بالخصوص اسے اینٹی ریبیز ویکسین لگائی گئی ہے۔

    پاکستان جیسے ممالک میں جہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہے وہاں مریض کو اینٹی ریبیز ویکسین نہ لگانے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔

    ویکسین کا پہلا شاٹ جانور کے کاٹنے کے بعد جس قدر جلد ممکن ہو مریض کو لگ جانا چاہیئے، جتنی زیادہ تاخیر کی جائے گی اتنا زیادہ مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    ویکسین کی مقدار اور شاٹس کی تعداد کا تعین ڈاکٹر مریض کی جنس، عمر اوراس کے جسمانی خدو خال جیسا کہ قد اور وزن کو دیکھتے ہوئے طے کرتا ہے، لہٰذا ویکسین کسی مستند ادارے سے ہی لگوانی چاہیئے۔

    یاد رہے کہ ریبیز کی ویکسین مرض کی علامت ظاہر ہونے سے پہلے لگوانا ہوتی ہیں، یہ وائرس دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، ایک بار اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے تو پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

    پاکستان ریبیز کے حوالے سے خطرناک ملک

    عالمی ادارہ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان میں ہر سال ریبیز کی وجہ سے 2 سے 5 ہزار اموات ہوتی ہیں، تاحال اس بیماری اور اس سے ہونے والی اموات سے متعلق معلومات کو حکومتی سطح پر جمع نہیں کیا گیا۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔

    سنہ 2010 میں پاکستان میں سگ گزیدگی کے 97 ہزار واقعات بنیادی صحت کے مراکز سے رپورٹ ہوئے تھے۔ نجی اسپتالوں، حکیموں اور روحانی علاج کے لیے جانے والے ریبیز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کتے کے کاٹنے کے بعد کے خطرات سے یا تو بے خبر ہے، یا ایسے واقعات کے بعد درست علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

  • پاکستان میں ہر سال ریبیز سے ہزاروں اموات رپورٹ

    پاکستان میں ہر سال ریبیز سے ہزاروں اموات رپورٹ

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے ہونے والی مہلک بیماری ریبیز کا عالمی دن منایا جارہا ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ریبیز کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات ویکسین کی عدم فراہمی اور حکومتی اداروں کی غفلت ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 56 ہزار افراد ریبیز کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ریبیز سے جاں بحق ہونے والے افراد کی بڑی تعداد افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی کا تناسب اور مرض کے مہلک ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک بار یہ بیماری جڑ پکڑ لے تو ناقابل علاج بن جاتی ہے، ریبیز کا شکار بہت کم افراد زندہ بچ پاتے ہیں۔

    ریبیز سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ محض کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں بلکہ بندر، ریچھ یا بلی کے کاٹنے سے بھی ریبیز ہوسکتا ہے تاہم کتے کے کاٹنے سے اس کا تناسب 99 فیصد ہے۔

    ریبیز کا مرض لاحق ہونے سے مریض میں ہائیڈرو فوبیا ہوجاتا ہے، وہ پانی اور روشنی سے ڈرنے لگتا ہے، مریض پر جو گزرتی ہے وہ تو وہی جانتا ہے لیکن اسے دیکھنے والے بھی بڑی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے مریضوں کو اپنے ہی ہاتھوں تشدد سے بچانے کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر رسیوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والے مرض کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض اوقات متاثرہ شخص یا اس کے گھر والے زخم کی معمولی نوعیت کے سبب اس واقعے کو سنجیدگی سے
    نہیں لیتے اور اس کے علاج کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے روایتی قسم کی مرہم پٹی یا زخم میں مرچیں بھر کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    جب مرض کی شدت بڑھتی ہے، مریض کو تیز بخار، کپکپی، جھٹکے اور رال ٹپکنا شروع ہوتی ہے تو اس وقت علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تب تک یہ مرض لا علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان ریبیز کے حوالے سے خطرناک ملک

    عالمی ادارہ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان میں ہر سال ریبیز کی وجہ سے 2 سے 5 ہزار اموات ہوتی ہیں، تاحال اس بیماری اور اس سے ہونے والی اموات سے متعلق معلومات کو حکومتی سطح پر جمع نہیں کیا گیا۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔

    سنہ 2010 میں پاکستان میں سگ گزیدگی کے 97 ہزار واقعات بنیادی صحت کے مراکز سے رپورٹ ہوئے تھے۔ نجی اسپتالوں، حکیموں اور روحانی علاج کے لیے جانے والے ریبیز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کتے کے کاٹنے کے بعد کے خطرات سے یا تو بے خبر ہے، یا ایسے واقعات کے بعد درست علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

    عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں ریبیز کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات ویکسین کی عدم فراہمی اور حکومتی اداروں کی غفلت کو قرار دیا ہے۔

  • کتے کے کاٹنے سے انسان پاگل کیوں ہوتا ہے ؟ جانیے

    کتے کے کاٹنے سے انسان پاگل کیوں ہوتا ہے ؟ جانیے

    کتے کے کاٹنے کے بعد اس کے لعاب میں موجود ریبیز وائرس انسان کے لئے جان لیوا ہوسکتا ہے، اس لئے سگ گزیدگی یعنی کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش آنے کے بعد اینٹی ریبیز ویکسین (اے آروی) لگانا ضروری ہوتا ہے۔

    ہمارے پورے جسم میں نروز کا جال پھیلا ہوا ہے، جو کہ ہمارے جسم اور دماغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے اور ریبیز کو دماغ تک جانے کے لیے ان نروز کا راستہ لینا پڑتا ہے۔

    کتے ایک وائرس "ریبیز” کی وجہ سے پاگل ہوتے ہیں۔ جب ریبیز کا وائرس کتے پر حملہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں کتا پاگل ہو جاتا ہے اورکتے کے لعاب (تھوک) میں بھی ریبیز وائرس موجودرہتا ہے، جب یہی پاگل کتا کسی انسان کو کاٹتا ہے تو وہ اپنے لعاب کے ذریعے متاثرہ شخص کی خون میں اپنے جراثیم ان میں منتقل کردیتا ہے۔

    یہ وائرس جب انسانی وجود میں عروج پر پہنچ جاتے ہے تو پھر اس کا علاج ناممکن ہوجاتا ہے اور انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ ریبیز وائرس نروس سسٹم کے ذریعے انسانی دماغ پر حملہ اور ہوتا ہے۔

    پاگل کتے کے کاٹنے کے بعد انسان میں جب یہ وائرس منتقل ہوتا ہے تو اس وائرس کے نتیجے میں انسان میں کچھ علامات پائے جاتی ہیں جیسا کہ پانی سے ڈرنا۔غصہ ہونا ،کنفیوز ہونا، دہشت ، رویے میں تبدیلی وغیرہ وغیرہ۔

    کتا اگر کسی حلال جانور کو کاٹ لے اور جانور پاگل ہو جائے تو اس کو ذبح کرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے سے انسان پاگل کیوں نہیں ہوتا؟ اس کے بارے میں میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ اگر ہم ریبیز سے متاثرہ جانور کا گوشت کا استعمال کریں تو ریبیز کا وائرس تقریباً 50 ڈگری سینٹی گریڈ پر ختم ہوجاتا ہے۔

    ریبیز یا باولے کتے کا کاٹا کیا کرے؟ جانئے اس خبر میں

    اس لیے کھانے کو اچھے سے پکایا (گرم کیا )جائے تو ریبیز وائرس ختم ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد ریبیز کو معدے کا تیزاب بھی ختم کرتا ہے اور نظام انہضام کے اینزیمز بھی اور پھر نرو میں داخل ہونے کا چانس بھی نہیں رہتا اور اس بات کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے کہ گوشت کھانے سے ریبیز ہوگا مگر پھر بھی احتیاط ضرور کرنی چاہیے۔

    ریبیز کا وائرس کرتا کیا ہے ؟

    ریبیز کا وائرس دماغ اور حرام مغز میں جاکر وہاں انفلیمیشن کرواتا ہے اور اپنی تعداد بڑھتا ہے جس سے مختلف قسم کے مسائل سامنے آتے ہیں جیسے کہ فالج وغیرہ جو کہ ریبیز کی علامات بھی ہیں۔ ریبیز کو دماغ تک جانے کے لیے ان نروز کا راستہ لینا پڑتا ہے یعنی کہ ریبیز کا وائرس ان نروز کے اندر سے

    لیلتہ القدر ،کتوں کی خاموشی اور حلال گوشت۔۔۔۔مشتاق خان - مکالمہمکالمہ

    دماغ اور حرام مغز تک جاتا ہے یعنی کہ جب ایک جانور یا انسان کے جسم میں ریبیز کا وائرس داخل ہوگیا اور وہ وہاں پر اپنی تعداد بھی بڑھانے لگ گیا مگر تب تک ریبیز کا اثر یا علامات نہیں ہونگی جب تکہ یہ ریبیز کسی نروز میں داخل ہوکر دماغ تک نہیں پہنچ جاتا۔ اس کام کے لیے ریبیز کا وائرس کسی موٹر نروز (جو دماغ کا سگنل جسم تک لے کے آتی ہے) میں داخل ہوتا ہے۔

  • کتے کے کاٹنے سے 22 سالہ نوجوان ریبیز کا شکار

    کتے کے کاٹنے سے 22 سالہ نوجوان ریبیز کا شکار

    کراچی: صوبہ سندھ میں کتے کے کاٹنے سے ہونے والی جان لیوا بیماری ریبیز کا ایک اور کیس رپورٹ ہوا ہے جس کے بعد 22 سالہ مریض کو جناح اسپتال میں داخل کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ نور خان کو 45 دن پہلے کتے نے کاٹا تھا، کتے نے نور خان کے ہاتھ اور کہنی پر کاٹا تھا۔

    ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ نور خان نے اینٹی ریبیز ویکسین نہیں لگوائی، ویکسین نہ لگوانے سے جان لیوا مرض ریبیز ڈویلپ ہوگیا۔

    22 سالہ نور خان کا تعلق سندھ کے علاقے کوٹری سے ہے جسے ریبیز رپورٹ ہونے کے بعد اسپتال میں داخل کرلیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ جناح اسپتال میں اب تک کتے کے کاٹے کے 8 ہزار 650 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں، جناح اسپتال میں جان لیوا مرض ریبیز کا یہ آٹھواں کیس ہے۔

  • سندھ میں آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے 75 کروڑ روپے کا منصوبہ

    سندھ میں آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے 75 کروڑ روپے کا منصوبہ

    کراچی: صوبہ سندھ میں آوارہ کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا، منصوبے میں کتوں کو کنٹرول کرنے اور کاٹنے سے روکنے کے لیے جدید طریقے استعمال کیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں 18 لاکھ آوارہ کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا، منصوبے کے تحت 75 کروڑ روپے سے زائد رقم سے انڈس اسپتال کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔

    جاری کردہ دستاویزات کے مطابق محکمہ بلدیات نے ریبیز کنٹرول پروگرام کا نیا منصوبہ منظور کرلیا ہے، آوارہ کتوں کو ویکسین، چپ اور ٹیگ سمیت دیگر مد میں 75 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔

    دستاویز میں کہا گیا ہے کہ 18 لاکھ کتوں کی آبادی میں 40 فیصد بچے، 35 فیصد مادہ اور 25 فیصد نر کتے ہیں، آوارہ کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے 80 ڈاکٹر بھی بھرتی ہوں گے۔

    آوارہ کتوں کو لگائی جانے والی ویکسین کا 3 سال تک اثر ہوگا، منصوبے میں کتوں کو کنٹرول کرنے اور کاٹنے سے روکنے کے لیے جدید طریقے استعمال کیے جائیں گے۔

  • ریبیز کا عالمی دن: عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار

    ریبیز کا عالمی دن: عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے ہونے والی مہلک بیماری ریبیز کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ دنیا میں ہر سال 59 ہزار افراد ریبیز کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے سنہ 2030 تک ریبیز سے ہونے والی اموات کا خاتمہ ممکن بنانا۔

    ریبیز سے جاں بحق ہونے والے افراد کی بڑی تعداد ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی کا تناسب اور مرض کے مہلک ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک بار یہ بیماری جڑ پکڑ لے تو ناقابل علاج بن جاتی ہے، ریبیز کا شکار بہت کم افراد زندہ بچ پاتے ہیں۔

    ریبیز سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ محض کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں بلکہ بندر، ریچھ یا بلی کے کاٹنے سے بھی ریبیز ہوسکتا ہے تاہم کتے کے کاٹنے سے اس کا تناسب 99 فیصد ہے۔

    ریبیز کا مرض لاحق ہونے سے مریض میں ہائیڈرو فوبیا ہوجاتا ہے، وہ پانی اور روشنی سے ڈرنے لگتا ہے، مریض پر جو گزرتی ہے وہ تو وہی جانتا ہے لیکن اسے دیکھنے والے بھی بڑی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے مریضوں کو اپنے ہی ہاتھوں تشدد سے بچانے کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر رسیوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والے مرض کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض اوقات متاثرہ شخص یا اس کے گھر والے زخم کی معمولی نوعیت کے سبب اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس کے علاج کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے روایتی قسم کی مرہم پٹی یا زخم میں مرچیں بھر کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    جب مرض کی شدت بڑھتی ہے، مریض کو تیز بخار، کپکپی، جھٹکے اور رال ٹپکنا شروع ہوتی ہے تو اس وقت علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تب تک یہ مرض لا علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان ریبیز کے حوالے سے خطرناک ملک

    عالمی ادارہ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے اور ہر سال ملک میں ریبیز کی وجہ سے 2 ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔

    سنہ 2010 میں پاکستان میں سگ گزیدگی کے 97 ہزار واقعات بنیادی صحت کے مراکز سے رپورٹ ہوئے تھے۔ نجی اسپتالوں، حکیموں اور روحانی علاج کے لیے جانے والے ریبیز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کتے کے کاٹنے کے بعد کے خطرات سے یا تو بے خبر ہے، یا ایسے واقعات کے بعد درست علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

    عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں ریبیز کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات میں جدید ویکسین کی عدم فراہمی اور سیاسی عوامل کو قرار دیا ہے۔

  • کراچی: محکمہ صحت کی غفلت، ریبیز کا شکار ایک اوربچہ جاں بحق

    کراچی: محکمہ صحت کی غفلت، ریبیز کا شکار ایک اوربچہ جاں بحق

    کراچی: محکمہ صحت، سندھ کی غفلت کا ایک اور کیس سامنے آگیا، معصوم بچہ مناسب علاج نہ ہونے کے باعث ریبیز کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار گیا.

    تفصیلات کے مطابق شکارپور کے رہائشی 8 سالہ معصوم رضوان کی ریبیز نے جان لے لی. بچہ کراچی کے ایک اسپتال میں زیرعلاج تھا.

    رضوان اور دیگر 4 افراد کو ایک مہینہ پہلے پاگل کتے نے کاٹا تھا، اہل خانہ بچے کو شکارپور، لاڑکانہ کے اسپتال لے گئے جہاں اینٹی ریبیز ویکسین نہیں تھی.

    اندرون سندھ میں اینٹی ریبیز ویکسین کی قلت اور علاج میں‌ تاخیر نے مریض کی جان لے لی. چند روز قبل ریبیزسے سانگھڑ کا رہائشی 11 سال کا بچہ جناح اسپتال میں انتقال کرگیا تھا.

    مزید پڑھیں: کراچی: کتے کے کاٹے کی ویکسین کی قلت، 11 سال کا لڑکا جاں بحق

    ڈائریکٹر جناح اسپتال سیمی جمالی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جناح اسپتال میں کتے کے کاٹنے کے5 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوچکے ہیں.

    خیال رہے کہ رواں برس کتے کے کاٹے کا علاج نہ ہونے کے باعث 4 اموات ہوچکی ہیں.

    ریبیز پاگل کتے، بلی اور لومڑی کے کاٹنے سے انسانوں میں پھیلنے والی ایک بیماری ہے، جو دماغی سوجن کا سبب بنتی ہے اور اگر علاج نہ کروایا جائے، تو موت بھی واقع ہوسکی ہے.