Tag: Raees amrohvi

  • ممتازشاعررئیس امروہوی کو ہم سے بچھڑے اٹھا ئیس برس بیت گئے

    ممتازشاعررئیس امروہوی کو ہم سے بچھڑے اٹھا ئیس برس بیت گئے

    کراچی : اردو کے نامور شاعر اور ادیب رئیس امروہوی کو اپنے مداحوں بچھڑے اٹھا ئیس برس بیت گئے،ان کے دلوں کو چھولینے والے اشعار آج بھی دنیا بھرمیں پسندیدگی کی انتہاء پر ہیں، معروف شاعر ،ادیب، کالم نگار رئیس امروہوی کی آج اٹھائیسویں برسی منائی جارہی ہے۔

    صُبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دِن
    یہ دِن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

    ہم اپنی زندگی تو بَسر کر چُکے رئیس
    یہ کِس کی زیست ہے جو بَسرکررہے ہیں ہم

    رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا اور وہ 12 ستمبر 1914ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا بھی ایک خوش گو شاعر اور عالم انسان تھے۔ رئیس امروہوی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔

    Books

    ممتاز شاعر، دانشور، کالم نگارکی بات کی جائے قطعہ نگاری یا پھر ہو وہ مقام اعلیٰ نثر نگاری کا رئیس امروہوی نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر بے پناہ پذیرائی حاصل کی جو ان کی شہرت کی وجہ بنی۔ شاعری کے علاوہ نثر نگاری میں بھی انہوں نے اپنا نام پیدا کیا۔ رئیس امروہی نے مختلف موضوعات پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔

    rais-890x395

    رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا، ملبوس بہار، آثار اور قطعات کے سات مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔

    اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
    کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
    کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
    آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
    کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
    اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

    قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور مقامی روزنامہ کراچی سے بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہوگئے، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی تا عمر جاری رہی۔

    رئیس امروہوی کے چھوٹے بھائی سید محمد تقی اور جون ایلیا بھی اردو ادب کی معروف شخصیات میں شامل ہیں۔

    بائیس ستمبر 1988ء کو اردو کے نامور شاعر اور ادیب رئیس امروہوی کراچی میں ایک نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ اورکراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

    ملک الموت سے ٹکرا کے رئیس
    دیکھنا ہے کہ کہا ں گرتے ہیں
    ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں
    سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں

     

  • رئیس امروہوی کومداحوں سےبچھڑے27 برس بیت گئے

    رئیس امروہوی کومداحوں سےبچھڑے27 برس بیت گئے

    کراچی : اردو کے نامور شاعر اور ادیب رئیس امروہوی کو اپنے مداحوں بچھڑے ستا ئیس برس بیت گئے،ان کے دلوں کو چھولینے والے اشعار آج بھی دنیا بھرمیں پسندیدگی کی انتہاء پر ہیں، معروف شاعر ،ادیب، کالم نگار رئیس امروہوی کی آج ستائیسویں برسی منائی جارہی ہے۔

    صُبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دِن
    یہ دِن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

    ہم اپنی زندگی تو بَسر کر چُکے رئیس
    یہ کِس کی زیست ہے جو بَسرکررہے ہیں ہم

    ادب سےمحبت کرنیوالےاردو کے اس عظیم سرمایہ کوبائیس ستمبر انیس سو اٹھاسی کو نامعلوم افراد نے قتل کرکے ابدی نیند سلا دیا۔

    ملک الموت سے ٹکرا کے رئیس
    دیکھنا ہے کہ کہا ں  گرتے ہیں
    ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں
    سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں

    ممتاز شاعر، دانشور،کالم نگار، بات کی جائےقطعہ نگاری یا پھر ہو وہ مقام اعلیٰ نثر نگاری کا رئیس امروہوی نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر بے پناہ پذیرائی حاصل کی جو ان کی شہرت کی وجہ بنی۔ شاعری کے علاوہ نثر نگاری میں بھی انہوں نے اپنا نام پیدا کیا۔ رئیس امروہی نے مختلف موضوعات پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔


    عظیم شاعر امروہہ کے معروف ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد علامہ سید شفیق بھی شاعر اور عالم تھے، رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا، کراچی آنے کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور ہمیشہ کیلئے کراچی میں ہی رچ بس گئے۔

    اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
    کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
    کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
    آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
    کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
    اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

    رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پسِ غبار، لالہِ صحرا، ملبوسِ بہار،حکایات، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں۔جبکہ مراقبے اور پیرا سائیکالوجی کے موضوعات پربھی ان کی تصانیف موجود ہیں۔ ان کا تعلق برصغیر کے ایک علمی ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے ایک بھائی جون ایلیا بھی صاحب طرز شاعر تھے۔