اسلام آباد: آئندہ ہفتے ہونے والی ممکنہ بارشوں سے پنجاب بھر میں پھیلی اسموگ ختم ہونے کا امکان ہے جبکہ بلوچستان اورسندھ میں آج اور کل بارش متوقع ہے جس کے بعد شہرِ قائد میں موسمِ سرما کی پہلی ٹھنڈی لہر شروع ہوجائے گی۔
تفصیلات کے مطابق آج رات اور پیر کےروز بلوچستان میں کہیں کہیں جبکہ سندھ میں چند مقامات پر گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے ‘ جس کے اثرات کراچی پر بھی مرتب ہوں گے اور سردی کا آغاز ہوجائے گا۔
دوسری جانب پیر سے بدھ کے دوران خیبرپختونخوا، فاٹا ، اسلام آباد، بالائی پنجاب(راولپنڈی، سرگودھا، گوجرانوالہ ، لاہور، فیصل آباد، ساہیوال ڈویژن)، کشمیر، گلگت بلتستان میں کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری جبکہ جنوبی پنجاب(ملتان، ڈی جی خان، بہاولپور ڈویژن) میں چند مقامات پر بارش کا امکان ہے۔
محکمہ موسمیات کے ماہرین کے مطابق شہری علاقوں میں چھائی ہوئی اسموگ اگلے ہفتے بارش اور درجہ حرارت میں کمی کے باعث بتدریج ختم ہو جائے گی ۔
آئندہ 48گھنٹوں کا موسم
کوئٹہ سمیت بلوچستان ، خیبرپختونخوا، فاٹا، اسلام آباد، بالائی پنجاب (راولپنڈی، لاہور، گوجرنوالہ، فیصل آباد، ساہیوال ڈویژن) کشمیر اور گلگت بلتستان میں کہیں کہیں جبکہ ڈی جی خان، ملتان، بہاولپور، کراچی ، لاڑکانہ ڈویژن میں چند مقامات پر گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان۔ جبکہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں شدید دھند/اسموگ رات اور صبح کے وقت پڑنے کا امکان ہے۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان ، خیبرپختونخوا، فاٹا، اسلام آباد، بالائی پنجاب (راولپنڈی، لاہور، گوجرنوالہ، فیصل آباد، ساہیوال ڈویژن) کشمیر اور گلگت بلتستان میں کہیں کہیں جبکہ ڈی جی خان، ملتان، بہاولپور، کراچی ، لاڑکانہ ڈویژن میں چند مقامات پر گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کا موسم
گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم خشک ر ہا۔ جبکہ پنجاب کے میدانی علاقے شدید دھند تاہم سکھر، ڈی آئی خان اور پشاور ڈویژن دھند کی لپیٹ میں رہے۔آج ریکارڈ کیےگئےسرد ترین مقامات کے درجہ حرارت: سکردو میں منفی 03، گلگت،کالام، استور 00 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
آج ریکارڈکیے گئے کم سےکم اور گزشتہ روز زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت(سینٹی گریڈ)، صبح کے وقت ہوا میں نمی کا تناسب اور اگلے 24 گھنٹوں کا موسم۔۔۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد : محکمہ موسمیات نے آئندہ ہفتےملک میں بارش کی پیشگوئی کردی ہے، جس کے بعد اسموگ ختم ہونے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق ملک میں موسم بدلنے لگا ہے، سردی نے آنے کا اشارہ دے دیا، محمکہ موسمیات نے اتوار سے بلوچستان اور سندھ میں بارش کی پیش گوئی کردی، جس سے اسموگ میں کافی حد تک کمی متوقع ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اتوار سے ملک کے مختلف علاقوں میں بارش ہوگی، اتوار کی رات سے موسم بدل رہا ہے ، بلوچستان اور سندھ میں چند مقامات پرگرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے جبکہ اگلے ہفتے کی شروعات خیبرپختونخواہ ،فاٹا ، اسلام آباد، بالائی پنجاب ،کشمیراور گلگت بلتستان کے پہاڑوں پر برفباری اور بارش سے ہوگی۔
بارشوں کی وجہ سے اسموگ کی شدت میں کافی حد تک کمی متوقع ہے۔
دوسری جانب محکمہ موسمیات نے آئندہ چوبیس گھنٹوں کےدوران ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم خشک رہنے کی پیشگوئی کی ہے، لاہور،فیصل آباد ، ملتان سمیت پنجاب کے بیشتر علاقوں میں شدید دھند اور اسموگ چھائے رہے گی جبکہ ڈی آئی خان، پشاور اور سکھر میں رات اورصبح کےاوقا ت میں دھند پڑنے کا امکان ہے۔
محکمہ موسمیات نے سندھ کے چند مقامات پر ہلکی بارش کی پیش گوئی کی ہے، گزشتہ روز سب سے کم درجہ حرارت اسکردو میں منفی چارڈگری سینٹی گریڈ رہا۔
خیال رہے کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں دھند اور اسموگ کا راج برقرار ہے، جس سے معمولات زندگی متاثر ہیں اور شہریوں کومشکلات کا سامنا ہے جبکہ ،اسموگ کی شدت سے گلےاورسانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
سال 2017 موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے حوالے سے ایک تباہ کن سال ثابت ہوا۔ فرسٹ ورلڈ امریکہ سے لے کر تیسری دنیا کے جنوبی ایشیا تک طوفانوں اور سیلابوں نے وہ تباہی مچائی کہ دنیا لرز اٹھی۔
یہ بات اب دنیا کو سمجھنی ہوگی کہ گو کہ ہم نے زمین سے مماثلت رکھنے والے کئی سیارے دریافت تو کرلیے ہیں، لیکن فی الحال ہمارے پاس رہنے کے لیے صرف ایک ہی سیارہ زمین ہے جہاں باقاعدہ زندگی ہے اور انسانی زندگی کو مطلوب مکمل ضروریات موجود ہیں، اور بدقسمتی سے اب اس زمین کا کوئی بھی حصہ قدرتی آفات سے محفوظ نہیں رہا جسے عاقبت نا اندیش انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے دعوت دی۔
اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر چند بین الاقوامی ماہرین سے گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ قدرتی آفات میں اور ان کی تباہ کن شدت میں اس قدر اضافہ کیوں ہوگیا ہے، اور ان سے نمٹنا یا ان کی شدت کو کم کرنا ممکن ہے۔
اس سے قبل ہم گزشتہ 2 ماہ میں دنیا کے کئی ممالک کو متاثر کرنے والے سمندری طوفانوں، سیلابوں اور ان سے ہونے والے نقصانات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔
جنوبی ایشیا کا تباہ کن مون سون
بارشوں کا سیزن مون سون ایک قدرتی عمل ہے جو جنوبی ایشیا میں جون سے ستمبر تک ہر سال آتا ہے تاہم سینٹر فار ریسرچ آن دا ایپیڈ مولوجی آف ڈیزاسٹر کے مطابق 2017 کے مون سون کا آخری سائیکل جس کا آغاز اگست میں ہوا، نے جنوبی ایشیائی ممالک نیپال، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں بے تحاشہ تباہی مچائی۔
اس اسپیل نے چاروں ممالک میں لگ بھگ 13 سو افراد کو لقمہ اجل بنایا جبکہ مجموعی طور پر 4 کروڑ افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے اور ناقابل تلافی نقصانات کا شکار بنے۔
اس آخری سائیکل نے بیک وقت بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال کو اپنا نشانہ بنایا۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں اس نوعیت کی تباہی دیکھنے میں نہیں آئی جیسی ان 3 ممالک میں نظر آئی۔
بھارت
مون سون کی یہ معمول کی بارشیں جب غیر معمولی صورت اختیار کر گئیں تو انہوں نے بھارت کے شمالی حصے بشمول ممبئی اور بھارتی ریاستوں آسام، مغربی بنگال، بہار اور اتر پردیش کو بدترین طور پر متاثر کیا۔
اس سیلاب نے 3 کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا، 8 لاکھ سے زائد گھر بہہ گئے جبکہ ریاست آسام میں واقع نایاب نسل کے گینڈوں اور چیتوں پر مشتمل کازی رنگا نیشنل پارک بھی سیلاب کی زد میں آگیا۔
بعد ازاں وہاں کئی گینڈوں اور چیتوں کی لاشیں بھی تیرتی ہوئی پائی گئیں۔
بھارتی شہر ممبئی بھی مذکورہ سیلاب سے بے حد متاثر ہوا، لگاتار پورا دن ہونے والی بارش کے نتیجے میں شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، ممبئی کے ریلوے ٹریکس بھی زیر آب آگئے۔
بھارت میں امدادی کاموں میں تاخیر اور غفلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنوب ایشیائی شہری ہونے کی حیثیت سے یہ اس خطے کا معمول کا حکومتی رویہ ہے اور خود عوام بھی اس رویے کو سہنے کی عادی ہے۔
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ اور مختلف شمالی و مشرقی حصوں میں معمول کی بارشیں اچانک شدت اختیار کرنے سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جس سے 60 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ 7 لاکھ گھر تباہ ہوئے، جبکہ 46 لاکھ 80 ہزار ہیکٹرز پر کھڑی فصلیں بہہ گئیں۔
ڈھاکہ بارشوں کے بعد
نیپال
نیپال میں ان تباہ کن بارشوں نے 143 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جبکہ مجموعی طور 17 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوئے۔ 4 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے جبکہ 34 ہزار مکانات بالکل تباہ ہوگئے۔
سب سے بڑا نقصان مہندرا ہائی وے کو ہوا جو ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ تھی اور یہ ہائی وے ان بارشوں میں بہہ گئی۔
سیلاب سے برات نگر ایئرپورٹ کا رن وے بھی زیر آب آگیا جس کے باعث ایئرپورٹ کو بند کرنا پڑا۔
سیلاب کے بعد برات نگر ایئرپورٹ کا ایک منظر
زرعی ماہرین کے مطابق بارشوں اور سیلاب میں چاول کی فصلیں بھی بہہ چکی ہیں جو نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے، اور نیپال میں بہت جلد ایک غذائی قلت اور مہنگائی کا عفریت سر اٹھانے والا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیپال کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا اور کم ترقی یافتہ اور دیہی علاقے خاص طور پر اس کا نشانہ بنے۔
پاکستان
پاکستان میں مون سون کے اس آخری سائیکل نے اس نوعیت کی تباہی تو نہ مچائی تاہم سندھ کے کئی دیہی علاقے زیر آب آگئے جبکہ کراچی جیسا میٹرو پولیٹن شہر بھی اربن فلڈ کی زد میں آگیا۔
یاد رہے کہ رواں سال مون سون شروع سے پاکستان کے لیے کچھ اچھا نہ تھا اور مختلف سائیکل ملک کے مختلف حصوں میں تباہی مچاتے رہے جن میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نشیبی اور دیہی علاقے شامل ہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سیلاب ہر سال ہی پاکستانی مون سون کا حصہ ہیں۔
ماہرین روز اول سے چیخ رہے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب خود ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ سال کا آدھا حصہ ہم پیاس سے مرتے ہیں جبکہ بقیہ سال سیلاب ہمیں مارتا ہے۔
اگر سیاسی جھگڑوں کو چھوڑ کر دانشمندانہ حکمت عملی سے کام لیا جائے تو ڈیمز اور دیگر جدید ذرائع سے اس پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے جو سیلابی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس طرح نہ تو سیلاب پیدا ہوں گے اور نہ سال کے کسی حصے میں کہیں خشک سالی کی صورتحال ہوگی۔
شہر کراچی میں آنے والا اربن فلڈ بھی صوبائی و شہری حکومتوں کی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت تھا جنہوں نے نکاسی آب کے راستوں کو کچرے اور غلاظت سے بھر رکھا ہے، نتیجتاً معمول سے زیادہ ہونے والی بارشیں نکاس نہ ہوسکیں اور سیلاب کی شکل اختیار کر گئی۔
ماہرین کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اربن فلڈ آتے ہی اس وقت ہیں جب کسی شہر کو بغیر منصوبہ بندی کے بساتے چلے جایا جائے اور مستقبل اور موسمی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی منصوبہ بندی نہ کی جائے۔
معمول سے ذرا سی زیادہ بارش نے شہر کراچی کا یہ حال کردیا
مغربی ممالک کے خوفناک طوفان
امریکا میں بحر اوقیانوس میں سب سے پہلے ہاروی طوفان مشاہدے میں آیا اور اس سے قبل ہی امریکی ماہرین خبردار کرچکے تھے کہ اوقیانوس میں اس وقت 3 فعال طوفان موجود ہیں جن کی شدت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
امریکا میں ہریکین ہاروی کی نوعیت کا شدید اور تباہ کن طوفان اس سے قبل سنہ 2005 میں آیا تھا جس کا نام ولما تھا۔ رواں برس آنے والے سمندری طوفان لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بھی بنے جس نے نقصان کی شدت میں اضافہ کردیا۔
یاد رہے کہ بحر اوقیانوس 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا بحر ہے اور یہ بحر الکاہل کے بعد زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
متعدد افریقی، امریکی و یورپی ممالک اس کے کناروں پر واقع ہیں لہٰذا اوقیانوس میں معمولی سی ہلچل کا مطلب ہے کہ متعدد مغربی و افریقی ممالک میں نقصانات کا خدشہ۔
ہریکین ہاروی
گزشتہ ماہ 215 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور اس کے نتیجے میں 100 سینٹی میٹر کی ہونے والی بارشوں نے امریکا میں تباہی کی تاریخ رقم کردی۔
اوقیانوس میں ایک بڑی لہر سے شروع ہونے والا یہ طوفان 17 اگست کو بدترین سمندری طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک معمولی نوعیت کے طوفان کی حیثیت سے یہ سب سے پہلے ونڈ ورڈ جزائر سے گزرا اس کے بعد کیریبیئن جزائر کے ملک بارباڈوس پہنچا لیکن ابھی بھی یہ ایک کم شدت کا طوفان تھا۔
تاہم کم ترقی یافتہ کیریبیئن ملک بارباڈوس اس طوفان کو سہہ نہ سکا اور بے تحاشا نقصان دیکھنے میں آیا۔
کیریبیئن جزائر سے لے کر کولمبیا کے سفر تک اس طوفان کی شدت میں کبھی کمی اور کبھی اضافہ دیکھا جاتا رہا۔ بعد ازاں 24 اور 25 اگست کی رات یہ اچانک درجہ 4 کےطوفان میں تبدیل ہوگیا، اس وقت یہ امریکی ریاست ٹیکسس میں داخل ہوچکا تھا۔
ہاروی طوفان اور بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب نے ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔
طوفان اور سیلاب کے دوران ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کا ایک منظر
اس دوران یہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی داستان رقم کرتا چلا آرہا تھا۔ اس کے بعد یہ بحر اقیانوس کے ساحلی نشیب گلف میکسیکو میں داخل ہوا جہاں اس کی شدت ابھی برقرار تھی۔
ہاروی نے وہاں پر واقع امریکی ریاست لوزیانا میں بے حد نقصان بشمول لینڈ سلائیڈنگ برپا کی، اس کے بعد کمزور ہوتا چلا گیا اور پھر یکایک اوقیانوس کی گہرائیوں میں گم ہوگیا۔
ہریکین ہاروی نے ونڈ ورڈ آئی لینڈز، سوری نام، گیانا، نکارا گوا، ہنڈراس، اور جنوبی اور مغربی امریکی ریاستوں خصوصاً ٹیکس اور لوزیانا کو بری طرح متاثر کیا۔ طوفان میں کل 83اموات رپورٹ ہوئیں جن میں 82 امریکی ریاستوں میں تھی۔
طوفان نے ان ممالک و جزائر کی معیشتوں کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 200 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔
ہریکین ارما
ابھی ہاروی طوفان کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیا جارہا تھا اور امدادی کام جاری تھا کہ ارما طوفان بھی سر پر آ پہنچا۔ امریکی ماہرین ارما کے گرداب اور لہروں کا مشاہدہ سنہ 2007 سے کر رہے تھے تاہم ہاروی نے اس کو بے پناہ تقویت دی اور یہ چیختا چھنگاڑتا سمندر کے کناروں سے باہر اچھل آیا۔
پہلے درجے سے شروع ہوتا ہوا 6 ستمبر کو یہ پانچویں درجے تک جا پہنچا جس میں ہواؤں کی شدت 295 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔
ذرا سے مختلف راستوں سے گزرتا ہوا یہ کیپ ورڈی، لی وارڈ جزائر، اور کیریبیئن جزائر کے ملک کیوبا میں تباہی مچاتا جس وقت امریکی ریاست فلوریڈا پہنچا اس وقت یہ اپنےعروج پر تھا۔
امریکی ریاست فلوریڈا میں طوفان کے بعد تباہی
اس دوران یہ کم ہو کر چوتھے درجے پر بھی پہنچا لیکن ایک بار پھر پانچویں درجے پر پہنچ کر بدترین لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنا۔ تاہم اس کے بعد اس کی شدت میں کمی آتی گئی۔
ارما نے کیریبیئن جزائر کے علاقوں بارباڈوس، سینٹ بارتھیلمی، سینٹ مارٹن اور برطانوی ورجن جزائر اور ہیٹی میں خوب تباہی مچائی جس میں سے بارباڈوس پہلے ہی ہاروی سے تباہ حال تھا۔
مقامی حکام کے مطابق بربودہ یا بارباڈوس میں ارما اور ہاروی کی وجہ سے 95 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ جزیرہ پورٹو ریکو کے نصف سے زائد مکانات گر گئے جبکہ سینٹ مارٹن جزیرے کا 95 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا تھا۔
بالآخر جب طوفان ختم ہوا تو یہ 101 افراد کی زندگیاں نگل چکا تھا جن میں 44 کیریبیئن جزائر اور 57 امریکی ریاستوں میں ہوئیں۔ ارما نے امدادی کاموں کو بھی متاثر کیا جو ہاروی کے بعد کیا جارہا تھا۔
ہریکین ماریا
بحر اوقیانوس میں آنے والا تیسرا خوفناک شدت کا طوفان ہریکین ماریہ تھا جو فی الحال جاری ہے۔ اس طوفان نے کیریبیئن جزائر کے ملک ڈومنیکا کو شدید نقصان پہنچایا جب اس جزیرے سے یہ 5 درجے کے طوفان کی حیثیت سے ٹکرایا۔
ڈومنیکا میں اس طوفان نے 33 افراد کو موت کے منہ میں پہنچایا۔ مقامی افراد گھر، بجلی، پانی سب سے محروم ہوچکے ہیں۔
اس کے بعد یہ ڈومنیکا کے قریب دوسرے جزیرے پورٹو ریکو پہنچا۔ گو کہ یہاں سے اس طوفان کو گزرے ایک ہفتہ ہوچکا ہے تاہم یہاں کے لوگ تاحال امدادی کاموں کے منتظر ہیں۔
جزیرے میں 16 لاکھ افراد بجلی سے تاحال محروم ہیں جبکہ 16 افراد اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
بعد ازاں یہ ورجن آئی لینڈز کی جانب بڑھا۔ یہاں تاحال 48 ہزار افراد بجلی سے محروم ہیں جبکہ مذکورہ جزیرے سمیت کیریبیئن کے متعدد جزائر میں تباہی کی عبرت ناک داستان رقم ہوچکی ہے۔
دونوں دنیاؤں کے طوفانوں میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے 2 مختلف حصوں میں آنے والے دو مختلف نوعیت کے طوفانوں نے مختلف تباہی مچائی۔
اس بارے میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دونوں ادوار میں وائٹ ہاؤس آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈائریکٹر اور صدر اوباما کے ماحولیاتی مشیر پروفیسر جان پی ہولڈرن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں آنے والے سیلاب ٹائی فون تھے جبکہ امریکا کو متاثر کرنے والے طوفان ہریکین تھے۔
پروفیسر جان پی ہولڈرن فی الحال جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں ماحولیاتی شعبہ کے پروفیسر ہیں جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس اینڈ پالیسی ڈیپارٹمنٹ برائے ارتھ اینڈ پلینٹری سائنس شعبہ سے بھی منسلک ہیں۔
ان کے مطابق بیان کیے گئے ان دونوں طوفانوں کا فرق سمجھنے کے لیے آپ کو زمین کے دو بڑے بحروں کے بارے میں جاننا ہوگا۔
بحرالکاہل یا پیسیفک اوشین زمین کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے جس کا رقبہ 16 کروڑ 50 لاکھ اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ شمالی اور جنوبی بحر الکاہل کے نام سے جانے جانے والے اس بحر کے کناروں پر ایک طرف ایشیائی ممالک واقع ہیں جبکہ اس کی وسعت کی دوسری جانب امریکی براعظم کے کچھ ممالک بھی موجود ہیں۔
یہ زمین کے کل رقبے کے 30 فیصد سے زائد حصے پر محیط ہے۔
دوسری جانب بحر اوقیانوس یا انٹلانٹک اوشین کے بارے میں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ بحر زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
اب بات آتی ہے ہریکین اور ٹائی فون میں کیا فرق ہے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق مغربی شمالی اوقیانوس، بحر الکاہل کے مرکزی اور جنوب شمالی حصے، کیریبیئن سمندر اور گلف میکسیکو میں آنے والے طوفان ہریکین کہلاتے ہیں۔
مغربی شمالی بحر الکاہل کے حصے میں آنے والے طوفان ٹائی فون کہلاتے ہیں۔
تاہم یاد رہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو سیلاب کا شکار کرنے والا کوئی ٹائی فون یا سمندری طوفان نہیں تھا بلکہ یہ معمول کی مون سون بارشیں تھیں جو شدت اختیار کر گئیں تاہم انہوں نے سمندر کی لہروں کو بھی متاثر کر کے انہیں غیرمعمولی بنا دیا۔
اس بارے میں اسلام آباد میں مقیم کلائمٹ چینج ایکسپرٹ عارف رحمٰن کہتے ہیں کہ یہ موازنہ کرنا غلط ہوگا کہ دونوں میں کون سا زیادہ شدید ہے۔
ہاشو فاؤنڈیشن سے بطور سینئر پروگرام مینیجر برائے کلائمٹ چینج منسلک عارف رحمٰن کا کہنا تھا کہ بظاہر دیکھا جائے تو ٹائی فون ہریکین سے زیادہ شدید ہوتے ہیں تاہم اگر ہریکین اپنی پوری شدت پر ہوں تو ٹائی فون سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں جیسا کہ حالیہ امریکی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔
ان کے مطابق ایک اور فرق ٹائی فون کی درجہ بندی نہ ہونا ہے۔ جبکہ ہریکین کی درجہ بندی ہوتی ہے اور اس درجہ بندی کے حساب سے وہ شدت اختیار کرتا ہے۔ مختلف عوامل جیسے ہوا کا دباؤ، مذکورہ علاقے پر پڑنے والے موسمیاتی تغیرات اور مذکورہ علاقے کی زمین کی نوعیت بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو طوفان کی شدت کا تعین کرتے ہیں۔
ہریکین کی درجہ بندی
اب ہم آتے ہیں ہریکین کی درجہ بندی کی طرف جس سے آپ کو علم ہوگا کہ کون سا درجہ کتنا شدید ہے۔
درجہ 1: کیٹگری 1 کے ہریکین میں ہوا کی رفتار 119 سے 153 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جب ہوا کی رفتار 119 کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر جائے تویہ طوفان ہے جو کہیں ٹائی فون اور کہیں ہریکین کا سبب بنتا ہے۔
یہ کچھ حد تک نقصان پہنچاتا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی میں تعطل کا سبب بنتا ہے۔
درجہ 2: اس درجے میں ہوا کی رفتار 154 سے 177 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ شدید نقصان کا سبب بنتا ہے۔
درجہ 3: ہوا کی رفتار 178 سے 208 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جو پختہ تعمیر کیے گئے مکانات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
درجہ 4: ہوا کی رفتار 209 سے 251 کلومیٹر فی گھنٹہ جو زمین میں مضبوطی سے گڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔
درجہ 5: ہوا کی رفتار 252 کلو میٹر فی گھنٹہ یا اس سے زائد، یہ طوفان کی شدید ترین قسم ہے جو عمارتوں کو تباہ کردیتی ہے اور اس کے آخر میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
طوفان کے راستے کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
پروفیسر جان پی ہولڈرن کے مطابق جب طوفان شروع ہوتا ہے تو اس پر پڑنے والے دباؤ جسے کوریولس فورس کہا جاتا ہے اس کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔
یہ فورس طوفان کو دائیں یا بائیں طرف گھمانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی کی بنیاد پر تعین کیا جاتا ہے کہ آنے والا طوفان کن مقامات پر کتنی شدت سے آئے گا۔
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ برس جب دنیا صدر ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہمات میں مگن تھی اس وقت سائنس دان مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ شدید نوعیت کے طوفان امریکا کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ ان طوفانوں کی شدت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ان طوفانوں میں اتنی شدت آ کیوں رہی ہے؟
اس بارے میں اے آر وائی نیوز نے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے زمینی و آبی سائنس (ارتھ اینڈ میرین سائنسز) شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک سے رابطہ کیا تو انہوں نے ساری صورتحال کو ایک جملے میں سمود یا۔
ان کا کہنا تھا، ’سمندروں میں آنے والا گرم پانی (جو مختلف دریاؤں سے آتا ہے) سمندر کے پانی کو گرم کرتا ہے، جس سے پانی مزید تیزی سے بخارات بن کر بادلوں اور پھر بارشوں کو تخلیق کرتا ہے‘۔
ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک کے مطابق سمندروں کا گرم درجہ حرارت پہلے سے موجود طوفانوں کو تقویت دیتا ہے، نئے طوفان پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، اور یہ طوفان بارشوں کا سبب بنتے ہیں جو بڑے پیمانے پر سیلاب اور جانی و معاشی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک براہ راست تعلق نہیں، بلکہ بالواسطہ تعلق ہے، یعنی کہ کوئی شے کسی سے جڑی ہے اور وہ مزید کسی شے سے جڑی ہے، لیکن اس کا بنیادی سبب ہےعالمی درجہ حرات میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ۔
یہ بات قطعاً سمجھنا مشکل نہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے نہ صرف خود سمندر کا پانی گرم ہورہا ہے، بلکہ مختلف دریاؤں کا گرم ہونے والا پانی بھی سمندر میں آکر مل جاتا ہے یوں یہ عمل عظیم تباہیوں کا سبب بنتا ہے۔
اس بات کی مزید وضاحت پروفیسر جان پی ہولڈرن نے کی۔
پروفیسر ہولڈرن کے مطابق یہ تاریخی تباہ کن آندھیاں یا طوفان کوئی اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہیں۔ ’ہم انسان جس قسم کی ترقی کر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے اور سائنس و ماحولیات کے ماہرین نہ صرف یہ بات جانتے ہیں بلکہ چیخ چیخ کر دنیا کو خبردار بھی کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے بھی یہی بات دہرائی کہ اس قسم کے طوفان اور آندھیاں گرم پانیوں کی وجہ سے طاقت پارہے ہیں اور یہ گلوبل وارمنگ ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب گرم پانیوں کے بخارات اوپر اٹھتے ہیں تو یہ گرم ہواؤں کا سبب بھی بنتے ہیں جو سطح سمندر کو مزید گرم کرتے ہیں اور اس مقام پر ہوا کا دباؤ کم کرتے ہیں۔
اب یہ سب کچھ سمندر کے اندر ہو رہا ہے جو پانی کو زور آور بنا رہا ہے جو طوفان کی شکل میں کسی نہ کسی دن باہر نکلے گا اور یہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گرم ہوائیں اور گرم پانی سمندر کی جتنی گہرائی تک جائیں گی یہ ٹھنڈے پانی کی مقدار کو اتنا ہی کم کرتی جائیں گی نتیجتاً ہمارے پاس سمندر کی گہرائی میں بھی گرم پانی موجود ہوگا۔
انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گو کہ ان طوفانوں اور ان کے بننے کی دیگر کئی وجوہات ہیں تاہم بنیادی وجہ گلوبل وارمنگ ہے جو فضا اور سمندروں کو گرم کر رہی ہے۔ گرم پانی ہی سمندری طوفانوں اور آندھیوں کو جنم دیتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں صورتحال پر کیسے قابو پایا گیا؟
اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف ایشیائی ماہرین سے بھی گفتگو کی اور سیلاب کے بعد امدادی کارروائیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
بھارت میں مقیم سماجی کارکن راکھی سوریا پرکاش اپنی قائم کردہ تنظیم سن شائن ملینیئم کے ذریعے بھارت میں ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس جب بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی میں سیلاب آیا تھا تو اس کے کچھ عرصے بعد ایک کانفرنس میں سابق بھارتی وزیر ماحولیات پرکاش جاویدکر نے متنبہ کردیا تھا کہ آنے والے برسوں میں مزید شدید سیلابوں اور طوفانوں کا خطرہ ہے۔
راکھی کے مطابق اس ضمن میں مودی سرکار ماحولیاتی و موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے اور ملک بھر میں شجر کاری مہمات اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کر رہی ہے۔
چند روز قبل ہی بھارت نے سنہ 2030 تک اپنے تمام جدید ذرائع آمد و رفت بجلی کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فاسل فیولز یعنی پیٹرول اور ڈیزل کی لعنت سے چھٹکارہ پا کر فضائی آلودگی میں کمی کی جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ گو کہ ارلی وارننگ سسٹم کے تحت قبل از وقت پیشن گوئی جاری کردی گئی تھی اور امدادی ٹیمیں ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں موجود تھیں تاہم نقصان ان کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا۔
اس کے بعد اے آر وائی نیوز نے نیپال میں مقیم بنود پارا جولی سے خصوصی گفتگو کی۔ بنود ایک محقق ہیں اور ہائی اویئر پروجیکٹ کے تحت ہمالیہ اور اس کے پانیوں پر مختلف تحقیق سر انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نیپال کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ مہندرا ہائی وے کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
ان کے مطابق چاول کی فصل نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے اور ان کے بہہ جانے کے بعد اب ایک غذائی بحران منہ کھولے نیپال کی طرف بڑھ رہا ہے۔
بنود کے مطابق قبل از وقت پیشن گوئیاں جاری کردیے جانے کے باوجود حکام نے سستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ’یہ ہم جنوبی ایشیائی شہریوں کا المیہ بن چکا ہے‘۔
شائلہ کے مطابق بنگلہ دیش کے شمالی اور مشرقی حصوں میں سیلاب نے بہت سے نواحی گاؤں دیہاتوں کو متاثر کیا ہے جہاں بدقسمتی سے تاحال امداد نہیں پہنچائی جاسکی۔
تاہم قابل رسائی علاقوں میں حکومتی طور پر یا نجی سطح پر جس طرح بھی ممکن تھا امداد پہنچائی گئی، اس ضمن میں مقامی افراد نے بھی بے حد تعاون کیا اور اپنے سیلاب متاثرین ہم وطنوں کی ہر ممکن مدد کی۔
انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش پیرس معاہدے کا بھی دستخط کنندہ ہے اور اس ضمن میں مختلف ماحول دوست منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔
مذکورہ بالا تمام صورتحال اور تجزیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہنا بے حد آسان ہے، اور ماہرین بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری زمین اور دنیا کو دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے، اور اگر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ہم نے دفاعی ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے تو ’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔
اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل اداروں و شخصیات سے مدد لی گئی۔
کراچی: چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد عتیق میر نے کہا ہے کہ بارش کے پانی کی وجہ سے 10 کروڑ روپے کا نقصان ہوگیا، آج جس حالت میں کراچی تھا اس میں بھی حکومت نظر نہیں آئی۔
میڈیا کو جاری کردہ اپنے بیان میں عتیق میر نے کہا کہ بارش کا پانی مارکیٹوں، گوداموں اور کارخانوں میں داخل ہوا، بارش سے قبل اقدامات نہ کرنے سے ایک روز میں اربوں روپے کا کاروبار متاثر ہوا۔
چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد نے کہا کہ نقصان کا ازالہ کون کرے گا کب تک حکومت صرف آگاہ کرتی رہے گی؟ حکومتی ادارے کہیں کام کرتے ہوئے نظر نہیں آئے۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا کام عوام کو طوفان اور رین ایمرجنسی لگانے سے آگاہ کرنا رہ گیا ہے۔
قبل ازیں کراچی میں جاری طوفانی بارش کے سبب شہر قائد کی بیشتر بڑی مارکیٹیں بند رکھی گئیں۔
واضح رہے کہ شہر قائد میں ہونے والی طوفانی بارش میں حادثات اور کرنٹ لگنے سے 13 افراد جاں بحق ہوگئے۔ سڑکوں پر عوام کی مدد کرنے کے لیے فوج اور رینجرز سے مدد لی گئی اور حکومتی نمائندے سڑکوں سے غائب تھے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ محکمہ موسمیات نے کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص میں اربن فلڈ (سیلاب) کی پیش گوئی کر رکھی ہے۔
ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ احتیاطی تدابیر کو اپنا کر اپنی اور اپنے پیاروں کی جانیں بچائی جائیں اور مالی نقصان کی شدت کو بھی کم سے کم کیا جائے۔
بارش سے قبل
آج کل کے تیز رفتار دور میں یہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر (یا دن میں کئی بار) خبر نامہ دیکھے تاکہ شہر یا ملک میں ہونے والی تمام سیاسی و دیگر خبروں سے باخبر رہیں۔
بارش کے علاوہ بھی آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ کہیں شہر کے سیاسی حالات خراب تو نہیں، ٹریفک جام ہے یا کہیں پر احتجاج متوقع ہے۔
روزانہ گھر سے نکلنے سے پہلے سیاسی و شہری حالات اور موسم سے متعلق آگاہی ضرور حاصل کریں۔
کراچی میں بارش کی پیشن گوئی 2 روز قبل کی جاچکی ہے۔ آنے والے متوقع حالات کے پیش نظر آپ کو مکمل طور پر تیار رہنا چاہیئے۔
کسی ہنگامی صورتحال پیش آنے کی صورت میں گھر میں ایک معقول رقم ایسی جگہ رکھیں جو فوراً قابل دسترس ہو۔
موبائل فونز، چارجنگ لائٹس، چارجنگ پنکھے، وغیرہ مکمل چارج کر کے رکھ دیں۔
گھر میں کم از کم ایک ہفتے کی اشیائے ضرورت پھل، سبزی، دودھ، انڈے وغیرہ لا کر رکھ دیں۔
اگر گھر میں کوئی مریض موجود ہے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کے زیر استعمال تمام ادویات کا وافر اسٹاک موجود رہے۔
گھر کا کوئی حصہ ایسا ہے جسے مرمت کی ضرورت ہے تو اسے ہنگامی بنیادوں پر مرمت کروائیں۔ یاد رکھیں بارش اور طوفان کے موقع پر سب سے زیادہ خطرہ گھر کے انہی کمزور حصوں سے ہوتا ہے کیونکہ یہ سب سے پہلے ٹوٹتے یا نقصان پہنچاتے ہیں۔
خراب یا کرنٹ دینے والے بجلی کے بورڈز کو بھی درست کروائیں کیونکہ نمی آجانے کی صورت میں یہ مزید جان لیوا بن سکتے ہیں۔
گاڑی میں کوئی خرابی ہے تو اسے بھی درست کروائیں اور پیٹرول کی وافر مقدار بھی موجود رکھیں۔
برقی آلات، پانی کی موٹریں اور جنریٹرز وغیرہ کو کسی شے سے ڈھانپ دیں۔
بارش کے دوران
بارشوں کے دنوں میں غیر ضروری سرگرمیوں کو ترک کرکے گھر میں رہنے کو ترجیح دیں۔
دفاتر جانے والے افراد اپنے ساتھ اضافی پیٹرول، پانی، ٹارچ، ماچس اور فرسٹ ایڈ باکس پلاسٹک کے بیگ میں ساتھ رکھیں۔
گھر میں ایک اضافی موبائل بمعہ کریڈٹ بھی رکھا کریں جو ایسے مواقعوں پر کام آسکتا ہے جب آپ کا روزمرہ استعمال کیا جانے والا موبائل کسی وجہ سے کام نہ کرے۔
برساتی نالوں اور نکاسی آب کے راستوں میں ہرگز کوڑا نہ پھینکیں۔
زیر تعمیر عمارت میں رہائش یا اس کے قریب سے گزرنے سے گریز کریں۔
بجلی کے کھمبوں سے دور رہیں۔ انہیں چھونے کی حماقت ہرگز نہ کریں۔
بجلی کے زمین پر گرے ہوئے تاروں پر خود گزرنے یا گاڑی کو گزارنے سے بھی پرہیز کریں۔
کھمبوں کے قریب کھڑے ہوئے پانی میں بھی بعض اوقات کرنٹ ہوسکتا ہے لہٰذا اس سے بچ کر گزریں۔
درختوں اور سائن بورڈز کے قریب بھی نہ کھڑے ہوں۔
اگر بارش کا پانی گھر میں داخل ہونا شروع ہوگیا ہے تو برقی آلات اور قیمتی سامان کو بالائی منزل پر پہنچا دیں۔
بارش کے دوران یا بعد میں نالوں یا دریاؤں میں نہانے سے گریز کریں۔
بچوں کا خاص دھیان رکھیں، گرج چمک کے موقع پر انہیں کھلی جگہ نہ کھڑا ہونے دیں، بجلی کی تاروں اور ساکٹس سے دور رکھیں۔
گاڑی چلانے والے افراد کے لیے احتیاط
ایک چیف ٹریفک پولیس افسر کے مطابق بارشوں میں گاڑی چلاتے ہوئے رفتار دھیمی رکھیں تاکہ کسی حادثے سے بچا جاسکے۔
خصوصاً پانی میں گاڑی چلاتے ہوئے نہایت دھیما چلیں کیونکہ اگر سڑک پر کوئی گڑھا یا مین ہول کھلا ہوگا تو تیز رفتاری کے باعث آپ بری طرح اس میں پھنس سکتے ہیں۔ دھیمی رفتار کسی حد تک آپ کو بچا سکتی ہے۔
ان کے مطابق گہرے پانی سے گزرنے کے بعد گاڑی کو کھڑا کر کے 4، 5 دفعہ بریکیں لگائیں تاکہ بریکس خشک ہوجائیں۔
کھڑے پانی میں اگر گاڑی پھسلنے لگے تو ایکسیلیٹر سے پاؤں ہٹا لیں، ایسے موقع پر اسٹیئرنگ کو مخالف سمت گھمانے سے گریز کریں۔
ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے ہر لمحہ موسم کی صورتحال سے با خبر رہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں موسلا دھار بارشوں کا آغاز ہوگیا۔ دوسری جانب پنجاب کے شہر مرید کے اور گرد و نواح میں بھی بارش کا آغاز ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات نے منگل کی شام سے بارشوں کے آغاز کیپیش گوئی کا اعلان کیا تھا تاہم اس سے قبل دن کے درمیانی حصے میں ہی موسلا دھار بارش کا آغاز ہوگیا۔
کراچی کے مختلف علاقوں ملیر، سہراب گوٹھ، صفوراگوٹھ، گلستان جوہر، گلشن اقبال، صدر اور کلفٹن میں اچانک موسم تبدیل ہوا اور تیز دھوپ کے بعد بادل گھر کر آگئے۔ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد موسلا دھار بارش کا آغاز ہوگیا۔
دوسری جانب پنجاب کے شہر مرید کے اور گرد و نواح میں بھی بارشوں کا آغاز ہوگیا۔ موسلا دھار بارشوں سے کاروبار زندگی عارضی طور پر رک گیا۔
یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے منگل کی شام سے جمعہ تک ہونے والی بارش کے باعث کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص میں اربن فلڈ کی باقاعدہ وارننگ جاری کردی ہے۔
عام سیلاب اور شہری سیلاب (اربن فلڈ) میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر ماحولیات رفیع الحق نے بتایا کہ عام سیلاب اس وقت آتا ہے جب کسی دریا یا نالے کے کنارے بھر جائیں، پانی ابل پڑے اور آس پاس کی آبادیاں زیر آب آجائیں۔ یہ ایک قدرتی عمل اور قدرتی آفت ہے۔
تاہم ان کے مطابق اربن فلڈ ناقص شہری منصوبہ بندی کے باعث رونما ہوتا ہے اور یہ سراسر انسانی ہاتھوں کی کارستانی ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا، ’جہاں کہیں سڑکوں پر نشیب واقع تھا اور پانی بہہ کر ایک طرف ہو جاتا تھا، وہاں کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی یا اسپیڈ بریکر بنا دیا گیا جس کے باعث پانی کی آمد و رفت رک گئی۔ اب جب اس جگہ پر بے تحاشہ پانی کھڑا ہوجائے گا تو وہ مقام زیر آب آجائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ پورے شہر میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلاؤ جاری ہے، کہیں نہر ہے، نالہ ہے یا دریا ہے وہاں گھر بنا کر پانی کا بہاؤ روک دیا گیا۔ ’پورا شہر کچرے سے اٹا ہوا ہے، نکاسی آب کے ذرائع کچرے سے بھرے پڑے ہیں، ایسی صورت میں پانی جمع ہو کر شہر میں سیلاب ہی لاسکتا ہے‘۔
کراچی کا گجر نالہ
رفیع الحق نے بتایا کہ اربن فلڈ آنے کی ایک وجہ درختوں کا نہ ہونا بھی ہے کیونکہ درخت کسی مقام کی مٹی کو تھام کر رکھتے ہیں یوں زمین کے اوپر کوئی بڑا نقصان نہیں ہونے پاتا، ’لیکن ہم نے درختوں کو بھی کاٹ دیا، پورا شہر عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے‘۔
مستقبل کو مدنظر رکھنا ضروری
رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اب بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’بظاہر سعودی دارالحکومت ریاض بہت منصوبہ بندی سے بنایا ہوا شہر ہے لیکن جب وہاں غیر معمولی بارشیں ہوئیں تو شہر میں سیلاب آگیا اور پورا شہر زیر آب آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سائنسی بنیادوں پر طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان کے خیال میں کم بارشیں ساری زندگی ہوتی رہیں گی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلے کراچی میں بارش کی چھینٹ پڑنے کی دیر تھی کہ اسکول اور دفاتر میں چھٹیاں ہوجایا کرتی تھیں اور لوگ خوشی خوشی بارش کا لطف اٹھانے سڑکوں پر نکل آیا کرتے تھے، لیکن اب یہ حال ہے کہ بارشیں ہوتے ہی ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی خبریں سامنے آتی ہیں‘۔
انہوں نے ایک بار پھر موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر وقت ہر قسم کے حالات سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صحرا میں برف باری ہو یا خشک ترین شہروں میں بارشوں اور سیلابوں کا آنا، اب ہر جگہ کے لوگوں کو، ہر قسم کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
تحفظ کیسے ممکن ہے؟
رفیع الحق نے ارلی وارننگ یعنی قبل از وقت انتباہ کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اسی صورت میں فائدہ مند ہوسکتی ہیں جب ان پر عمل کر کے آنے والے وقت سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں بارش شروع ہونے سے قبل ہنگامی بنیادوں پر کسی حد تک صفائی کر کے نکاسی آب کے راستوں کو بحال کردیا جائے تو آنے والے سیلاب کا خدشہ خاصی حد تک کم ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں بھی بارش کی پیشگوئی کی ہے۔ بدھ سے جمعہ تک ٹھٹہ، بدین، سجاول، مٹھی، تھر پارکر اور نواب شاہ میں بھی بارش کا امکان ہے۔
کراچی : محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں آج بھی تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق محمکہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں آج بھی تیزبارش کا امکان ہے، کراچی کا موجودہ درجہ حرارت29ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ نمی کا تناسب81فیصد ہے جبکہ کراچی میں آج کم سے کم درجہ حرارت23 اور زیادہ سے زیادہ36ڈگری رہنے کا امکان ہے۔
محمکہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں بارش کا یہ سلسلہ بدھ تک جاری رہنے کا امکان ہے، اس دوران شہر بھر میں کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش ہوسکتی ہے۔
حیدرآباد، شہید بینظیر آباد، میرپورخاص ڈویژن سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں بھی ابر کرم برسنے کی نوید ہے جبکہ راولپنڈی اسلام آباد مالاکنڈ، ہزارہ، پشاور، گوجرانوالہ، لاہور ڈویژن، فاٹا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں بعض مقامات پر تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
گذشتہ رات کراچی میں گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارش تیز آندھی اور بارش سے پورا شہر پانی پانی ہوگیا اور نظام درم برہم کر دیا، ناظم آباد،گلستان جوہر،کورنگی میں موسلادھاربارش سائن بورڈ اکھڑ گئے، متعدد مکان، دکانوں کی چھتیں اڑ گئیں۔
بارش کے دوران مختلف واقعات میں آٹھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
لانڈھی میں سب سےزیادہ 36.5ملی میٹربارش ریکارڈکی گئی، گلشن حدید میں 31.8،نارتھ ناظم آبادمیں 31ملی میٹربارش ہوئی
جبکہ فیصل بیس پر29، اولڈ سٹی ایریامیں 12 اور یونیورسٹی روڈ پر11.5ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
بارش کے باعث مختلف علاقوں میں سو سے زائد فیڈر ٹرپ ہوگئے، جس سے ملیر ، گڈاپ، ناظم آباد، نیو کراچی، نارتھ کراچی، اورنگی، ملیر، ایف بی ایریا میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کراچی: شہر قائد میں موسلادھار بارش کے بعد مختلف حادثات کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 8 افراد جاں بحق اور 7 زخمی ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے گاڑدن میں بجلی کی تاریں ٹوٹ کر سڑک پر گر گئیں جس کے باعث بارش کے پانی میں کرنٹ پھیل گیا۔ حادثے کے نتیجے میں 2 موٹر سائکل سوار افراد منصور اور حارث جاں بحق ہوگئے۔
دوسری جانب شہر قائد کے علاقے نارتھ کراچی اور نیو کراچی میں کرنٹ لگنے سے خاتون سمیت 2 افراد جاں بحق ہوئے۔
نیو کراچی ڈسکو موڑ کے قریب بارش کے بعد خستہ حال مکان کی چھت گر گئی، حادثے کے نتیجے میں بہن بھائی، 14 سالہ مریم اور 12 سالہ جنید جاں بحق ہوگئے۔
ادھر لاسی گوٹھ اور فقیرا گوٹھ میں چھت گرنے کے واقعات میں خاتون سمیت 2 افراد جاں بحق اور ایک شخص زخمی ہوا جبکہ سرجانی ٹاون میں مکان کی چھت گرنے سے خواتین اور بچوں سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارش‘ بجلی غائب
یاد رہے کہ گزشتہ روز کراچی میں بارش کے بعد شہرکے 300 فیڈرٹرپ کرگئےجس کے نتیجے میں شہر کے بڑے حصے میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی۔
ترجمان کے الیکٹرک کے مطابق شہر میں بارش کے بعد مختلف علاقوں میں بجلی کے تاڑ ٹوٹ گئے تاہم کے الیکٹرک کا عملہ ان علاقوں میں بجلی کی بحالی کےلیے موجود ہے۔
واضح رہے کہ محکمہ موسمیات نے آئندہ چوبیس گھنٹوں کےدوران موسم گرم اور مرطوب رہنے کی پیشگوئی کی ہے جبکہ مالاکنڈ ہزارہ، پشاور، کوہاٹ، راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور ڈویژن، اسلام آباد، فاٹا، زیریں سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان میں چند مقامات پر تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کراچی : کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش نے موسم ایک بار پھر خوشگوار بنا دیا ہے تاہم انتظامیہ کی بد انتظامی کے باعث باران رحمت زحمت میں تبدیل ہوگئی جس کے باعث 3 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں موسم نے ایک بار پھر کروٹ بدلی اور شدید گرمی اور حبس کے بعد رم جھم نے موسم سہانا بنا دیا
صدر ،کلفٹن ،گلشن حدید، ملیر، گلشن اقبال، ایئرپورٹ، شارع قائدین، اور دیگر علاقوں میں تیز بارش نے لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیر دیں۔
بارش کا دوسرا سلسلہ مغرب کے بعد دوبارہ شروع ہوا جس میں تیز ہواؤں، بجلی چمکنے کی گھن گھرج کے ساتھ مسلسل اور موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری رہا اور ضلع وسطی، جوہر، گلشن اور یونیورسٹی روڈ پر تیز ترین بارشیں ہوئیں جس کے باعث سڑکوں پر پھسلن ہو گئی، جب کہ پانی بھی جمع ہوگیا، جس کے باعث گاڑیوں کو آمد و رفت میں دشواری کا سامنا رہا۔
بجلی کی تاریں گرنے سے کرنٹ لگنے کی وجہ سے تین افراد جان کی بازی ہار گئے جن میں دو افراد گارڈن ایسٹ میں موٹر سائیکل پر جارہے تھے کہ بجلی کے تار کی زد میں آگئے جب کہ مختلگ حادثوں میں دو افراد شدید زخم ہوگئے اور پورا شہر تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔
دوسری جانب محکمہ موسمیات نے آئندہ چوبیس گھنٹوں کےدوران موم گرم اور مرطوب رہنے کی پیشگوئی کی ہے جبکہ مالاکنڈ ہزارہ، پشاور، کوہاٹ، راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور ڈویژن، اسلام آباد، فاٹا، زیریں سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان میں چند مقامات پر تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔