Tag: Raising children

  • بچوں کی اچھی پرورش : والدین کیلئے رہنما اصول کیا ہیں؟

    بچوں کی اچھی پرورش : والدین کیلئے رہنما اصول کیا ہیں؟

     والدین اگر  یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں میں کس قدر کامیاب ہیں تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کو دیکھ کر ہی لگاسکتے ہیں، اگر بچے اخلاقی طور پر اچھے ہیں تو یہی والدین کی کامیابی ہے۔

    اپنے بچوں کی پرورش کے دوران ہم اپنے ماں باپ کے انداز سے متاثر ہوتے ہیں، اس کا مطلب ہے ہم اپنے بچوں کی پرورش اپنے ماں باپ کی طرح کرتے ہیں، بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں  اور بڑی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

    والدین اپنے بچوں کی پرورش کے دوران انہیں ہر طرح کے آرام و آرائش دینے کی فکر کرتے ہیں لیکن ان سب سے زیادہ بچوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ والدین ان کی باتوں کو سنیں اور جذباتی طور پر ان کے لیے موجود رہیں۔

    بچے، والدین، پرورش

    والدین بننا جہاں ایک طرف زندگی کا سب سے خوبصورت ترین تجربہ ہے، وہیں یہ چیلنجنگ بھرا بھی ثابت ہوتا ہے۔ والدین بننے کا مطلب ہے بچے کو ایک اچھا انسان بننے میں مدد کرنا ہے۔

    والدین ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ بچہ والدین سے ہوئی غلطیوں کو نہ دہرائیں، ان پر کسی قسم کا جذباتی بوجھ نہ پڑے۔ لیکن بہت سے والدین کی زندگی میں ایسے مسائل ہوتے ہیں، جو ان کی پرورش پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اس لیے بچوں کے لیے ایک محفوظ ماحول قائم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے والدین سے رابطہ قائم کرسکیں۔ یہ بچے کو جذباتی طور پر مضبوط بننے میں مدد کرے گا۔

    والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے جذباتی طور پر موجود رہیں کیونکہ جب وہ بڑے ہوں گے تو یہی وہ چیز ہے جس پر وہ زیادہ انحصار کرنے والے ہیں۔

    بچوں کی پرورش: اچھے والدین بننے کے لیے یہ پانچ باتیں یاد رکھیں - BBC News اردو

    اس آرٹیکل کے ذریعہ اسکرام کڈز ویئر کے ڈائریکٹر منوج جین بچوں کے لیے بہتر ماحول تیار کرنے کے چند طریقوں کے بارے میں بتائیں گے جو بچے کو فطری طور پر اپنے والدین کے ساتھ جوڑنے میں مدد کرے گا۔

    اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنائیں

    یہ طریقہ بچوں اور والدین کو ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے کاموقع دیتا ہے جو بعد میں انہیں زندگی کے سفر میں آنے والی مشکلات کو بہتر طریقے سے نمٹنے میں ایک محفوظ ماحول فراہم کرے گا۔

    جب بچے اپنے والدین سے ہر طرح کی باتیں کرنے میں خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں تب وہ اپنے مسائل کو حل بھی کرپاتے ہیں اور اچھی زندگی گزار پاتے ہیں۔

    بچوں کی تعلیمی تربیت والدین اسے نظر انداز نہ کریں

    یہ رشتہ انہیں ایمانداری تو سکھاتا ہی ہے ساتھ میں ان میں تکلیف سے نمٹنے کی ہمت اور کسی بھی بات کو پوشیدہ نہ رکھنے کی عادت ہوتی ہے۔

    والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو بتائیں کہ وہ ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں اور والدین کی یہ انس و محبت بچوں میں یہ اعتماد پیدا کرے گی کہ وہ ہر خظرناک حالات سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔

    اپنے بچوں کے جذبات کو سمجھیں

    اگر آپ اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ اپنی پریشانیوں کو خود حل کرو تو آئندہ کوئی بڑی مصیبت آنے پر بھی وہ اپنے والدین سے بات شیئر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

    اس سے بچوں میں دوسروں پر اعتماد کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جو بعد میں اضطراب کی وجہ بن سکتا ہے اور جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو اپنے مشکلات سے نمٹنے کے لیے غلط راستے اختیار کرسکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں بچوں کی تربیت

    اگر بچہ کسی ذہنی مشکلات سے گزر رہا ہے تو والدین کو ان سے بات کرکے ان کے مسائل کو حل کرنے میں مددکرنی چاہیے۔

    جب آپ بچوں کی بات نہیں سنتے تو وہ انہیں اندر سے توڑ دیتی ہے۔شاید یہ مسئلے آپ کی نظر میں چھوٹے ہوں لیکن بچوں کے لیے یہ ایک بڑی بات ہوتی ہے۔اگر آپ ان کے ساتھ ہیں تو آئندہ وقت میں وہ اس طرح کے مصائب سے بہتر انداز میں نمٹنا سیکھ جاتے ہیں۔

    بچوں کے مسائل کو اطمینان سے سنیں

    والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے مسائل کو سننے کے بعد کوئی رائے نہ بنائیں اور ان پر کوئی سخت ردعمل ظاہر نہ کریں، یہ دونوں عوامل والدین اور بچے کے تعلقات کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    والدین کا دوستانہ رویہ بچوں کی پرورش کا اہم حصہ

    بچے بعض اوقات حالات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور چیزوں سے جلدی خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو اپنے بچے کو لے کر کوئی رائے قائم نہیں کرنا چاہیے اور انہیں اطمینان سے سننا چاہیے۔

    آسان طریقے سے انہیں سمجھائیں جس سے بچے خود کو محفوظ محسوس کریں۔ یہ بچوں کے لیے زندگی کا سبق ہو سکتا ہے۔

    ہمدردی سے پیش آئیں

    جب والدین بچے کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور ان سے ہمدردی و شفت سے پیش آتے ہیں تب بچوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ محفوط ہے اور وہ بغیر خوف کے اپنی باتوں کو شیئر کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچوں کے ہر بات سے متفق ہوں۔

    Bachon Ki Tarbiyat Main Tafreek Na Kareen - Child Care & Baby Care Articles

    اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ ان کی صورتحال کو سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے والدین کو اپنا نظریہ شیئر کرنے کا موقع تو ملتا ہی ہے، ساتھ میں بچے ان کے مشورے کو سنتے بھی ہیں۔ اگر آپ ان کے مسائل سے متعلق اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو وہ ان تجربات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

    اس طرح کی چیزیں طویل عرصے تک بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔بچوں کو ہر قسم کا مزاج رکھنے کی اجازت دیں تاکہ وہ ایک انسان کے طور پر ابھر کر سامنے آسکیں، جو اپنے اصولوں اور انفرادیت سے سمجھوتہ کیے بغیر اپنے لیے بہتر راستہ تلاش کرسکیں۔

    انہیں ناکامی کے بارے میں سکھائیں

    بچوں کو منفی سوچ سے بچانے کی کوشش کرنا عام ہےلیکن بچوں کو ناکامی کے بارے میں سمجھنا چاہیے۔ والدین کو اپنے بچوں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ناکامی کے بعد بھی آپ بہتر چیز حاصل کرسکتے ہیں۔

    اس سے بچے اپنی خامیوں کو جانیں گے اور اس پر محنت کرنی کی کوشش کریں گے۔ ناکامیوں کو سمجھنے کے بعد ہی وہ لگن، محنت اور کامیابی کو مزید بہتر انداز سے سمجھ سکتے ہیں۔

  • والدین اپنے بچوں سے اس طرح کے جملے ہرگز نہ کہیں

    والدین اپنے بچوں سے اس طرح کے جملے ہرگز نہ کہیں

    والدین کبھی اپنے بچوں کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتے، نہ زبان سے اور نہ ہاتھ سے، لیکن ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ تھکے ہوئے ہوتے ہیں، بچے آپ کو مسلسل تنگ کر رہے ہوتے ہیں اور آپ انہیں اپنے کھانے کی پلیٹ صاف کرنے یا کسی کے آنے پر دروازہ بر وقت کھولنے کا ہزار ہا مرتبہ کہہ چکے ہوتے ہیں لیکن اس ہدایت پر عمل نہیں ہوتا تو آپ نا دانستہ طور پر وہی باتیں دہراتے ہیں جو آپ نے بچپن میں سنی ہوتی ہیں اور یوں انجانے میں بچے کو ذہنی و جذباتی طور پر نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

    والدین اپنے پوری کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی، بلکہ اکثر اوقات، بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ کون سے ایسے جملے ہیں جو بچوں پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور والدین اکثر استعمال کر جاتے ہیں۔ زبان میں تھوڑی سی احتیاط آپ کی اولاد کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

    تو آئیے چند ایسے جملوں کے بارے میں جانتے ہیں جو عموماً والدین ادا کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کے بجائے بچوں کو کیا کہنا چاہیے۔

     "یہ تو کوئی بڑی بات نہیں”

    بچے اکثر ایسی چیزوں پر روتے دھوتے نظر آتے ہیں جو سراسر بے وقوفانہ حرکت لگتی ہے۔ جب بچے رو دھو رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے والدین کو زچ کر دیتے ہیں، خاص طور پر جب وہ کسی ایسی بات پر رو رہے ہوں جو بہت معمولی ہو لیکن ان کو منہ بند رکھنے کا کہہ کر حقیقی احساسات کو روندنا درست طرزِ عمل نہیں ہے۔

    پازیٹو پیرنٹنگ سلوشنز کی بانی اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک کتاب کی مصنفہ ایمی میک کریڈی کہتی ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے مسائل، اور ان سے جڑے جذبات، واقعتاً بچوں کے لیے بہت بڑے ہوتے ہیں۔ جب ہم ان کے حقیقی چیلنجز پر جذباتی ردِ عمل کو روکتے ہیں تو دراصل ہم انہیں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کی احساس کی کوئی قدر نہیں ہے یا پھر یہ کہ کسی بھی بات پر مایوس ہونا یا پریشان ہونا بے وقوفانہ بات ہے۔

    اس کے بجائے ضروری ہے کہ کچھ دیر کے لیے بیٹھیں اور بچے کے زاویے سے اس معاملے کو دیکھنے کی کوشش کریں، میک کریڈی کہتی ہیں کہ بچے سے کہیں کہ تم بہت پریشان یا خوف زدہ یا مایوس لگ رہے ہو۔

    اس سے بچے کو یہ اندازہ ہوگا کہ آپ کو ان کے جذبات کا احساس ہے جو اس کے جذبات کو پروان چڑھانے میں مدد دے گا اور ساتھ ہی وہ سمجھے گا کہ آپ اس کے مددگار ہیں۔

     "تم ہمیشہ ایسا کرتے ہو، تم کبھی ایسا نہیں کرتے”

    بچوں کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں لیکن یہ بچے سے بات کرتے ہوئے "ہمیشہ” اور "کبھی نہیں” جیسے الفاظ حقیقت کو بیان نہیں کرتے۔

    پیرنٹنگ فار کنکشن کے بانی رابن میک مین کے مطابق قطعیت کے کی گئی بات سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس طرح کی بات کر کے آپ بچے کی نظر سے اس معاملے کو دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے آپ موقع ضائع کرتے ہیں بچوں کو سکھانے کا کہ انہیں کیا برتاؤ کرنا چاہیے اور آئندہ کیا کرنا چاہیے۔

    اس کے برعکس سوچیں کہ آپ کا بچہ کسی خاص وقت میں کوئی مخصوص حرکت کیوں کرتا ہے۔ میک مین کا کہنا ہے کہ اس خاص لمحے میں اپنے بچے سے قربت اختیار کریں، اس سے بہت مدد ملتی ہے۔ گھر کے کسی بھی کھونے کھدرے سے بچے پر چیخنے چلانے کے بجائے یقینی بنائیں کہ اس وقت آپ بچے کے ساتھ ہوں۔

     "تمہاری یہ حرکت دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے”

    جب بچے بات نہیں سنتے تو بہت پریشانی ہوتی ہے لیکن جذبات کا کھیل کھیلنے سے پہلے حدود کو طے کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ احساسات آپ کے ہیں، اُن کے نہیں۔ اس کے علاوہ آپ ایسی کوئی بھی حرکت کر کے ایک مثال قائم کرتے ہیں جو ان کو بہت سی منفی طاقت دیتی ہے۔

    میک کریڈی کہتی ہیں کہ جب بچوں کو لگتا ہے کہ آپ کی خوشی، افسردگی اور خفا ہونے کے بٹن اُن کے ہاتھ میں ہیں تو وہ بارہا اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ اس سے آپ کے مستقبل کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور ساتھ ہی وہ دوسرے لوگوں سے بھی کام نکلوانے کے لیے ایسی ہی حرکتیں کریں گے۔

    اس لیے ضروری ہے کہ حدود طے کریں، مثلاً بستر یا صوفوں پر اچھلنے پر پابندی لگائیں، لیکن ساتھ ہی انہیں دوسرا راستہ بھی دکھائیں کہ یہاں بیٹھنا ہے تو خاموش بیٹھنا ہے اور کھیلنا ہے تو خاموشی سے باہر چلے جائیں۔

     "تمہیں پتہ ہونا چاہیے”

    جب آپ بچے سے کہتے ہیں کہ "تمہیں پتہ ہونا چاہیے” تو آپ دراصل بچے کو شرمندہ کر کے اسے تبدیل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس سے بچہ اپنے دفاع میں چلا جاتا ہے، یوں وہ آپ کی بات پر دھیان نہیں دیتا اور ان کے اعتماد میں بھی کمی آتی ہے۔ میک کریڈی کہتی ہیں کہ "جب آپ بچے کو کہتے ہیں کہ تمہیں پتہ ہونا چاہیے تو اسے یہ پیغام جاتا ہے کہ تم اتنے بے وقوف ہو یا ناپختہ شخصیت رکھتے ہو کہ تم سے کوئی درست فیصلہ بھی نہیں ہوتا۔ چاہے ہمارا مقصد یہ نہ ہو، پھر بھی بچہ یہی سمجھے گا، جو اس کی شخصیت کے لیے درست نہیں ہے۔

    اس کے میک کریڈی تجویز کرتی ہیں کہ یہ کہنا بہتر ہے کہ لگتا ہے کوئی مسئلہ ہو گیا ہے! تو بتاؤ اسے ٹھیک کرنے کے لیے کیا کریں؟ یعنی ہماری گفتگو کا ہدف مسئلے کا حل ہونا چاہیے، مسئلہ نہیں۔ اس سے بچہ مسائل کو حل کرنے اور اپنی غلطیوں کی خود اصلاح کرنے کے قابل بنے گا اور بہتر سے بہتر فیصلے کی صلاحیت پائے گا۔

     "تم چھوڑو، مجھے خود کرنے دو”

    جب آپ کو جلدی ہو اور آپ دروازے پر کھڑے بچے کا انتظار کر رہے ہوں کہ جو کسی معمولی سے کام میں پھنسا ہوا ہو تو انتظار بہت طویل اور کڑا لگتا ہے۔ فطرتاً آپ یہی چاہیں گے کہ وہ کام خود کر لیں۔ لیکن جہاں تک ممکن ہو اس سے اجتناب کریں۔

    میک کریڈی کے مطابق دراصل بچے کے کام کو اپنے ہاتھ میں لینے سے دراصل آپ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس کام کا بھی اہل نہیں ہے، اس لیے مجھے مداخلت کرنا پڑی۔ یہ حوصلہ شکنی ہے اور بچے کے لیے کافی مایوس کن بات ہے۔ بچہ جیکٹ کی زپ بند کرنے کے بہت قریب ہے، وہ متعدد بار کوشش کر چکا ہے اور بس بند کرنے ہی والا ہوتا ہے کہ ابو آ کر یکدم یہ کام انجام دے دیتے ہیں اور اس کی کوشش لا حاصل ہو جاتی ہے۔

    کوشش کریں کہ بچے کو اپنا کام کرنے کے لیے پورا وقت دیں۔ یا پھر کم از کم اس پر واضح کر دیں کہ آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے۔ یہ کہیں کہ "میں صرف اس بار تمہاری مدد کر رہا ہوں کیونکہ ہمیں بہت دیر ہو رہی ہے، لیکن بعد میں ہم مل کر کام کریں گے!”

     "تم تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو”

    میک مین کا کہنا ہے کہ والدین کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ بچے کو کوئی بھی نام دینے سے گریز کریں۔ ان سے والدین اور بچوں کے باہمی تعلقات کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ والدین بچوں کے رویّے کو اس نام کے ساتھ جوڑنے لگ جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ اس کو سمجھیں اور مدد کریں۔

    والدین انہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں، اس کا بچوں کی شخصیت پر بہت اثر ہوتا ہے اور وہ اس بات پر حقیقت سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ "میرا بچہ بڑا ہوشیار ہے” کہنا بھی ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں ‘تم تو بڑے سیانے ہو’ تو ہم اپنے بچے کو یہ سبق دے رہے ہوتے ہیں امتحان میں کامیابی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ پیدائشی طور پر ذہین ہے یعنی اگر یہ فطری صلاحیت نہ ہوتی تو وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اگر بچہ اگلی مرتبہ ناکام ہو جائے تو کیا ہوگا؟ وہ پریشان ہو جائے گا اور اس کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے اور وہ اپنی ہی صلاحیت پر سوال اٹھانا شروع کر دے گا۔