Tag: Ramadan 2016

  • ہزاروں مہینوں سے بہتر رات

    ہزاروں مہینوں سے بہتر رات

    رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ایک رات ایسی ہے جسے ہزاروں مہینوں سے بہتر قرار دیا گیاہے کیونکہ اس رات میں ایک ایسی کتاب نازل کی گئی جو تمام آسمانی کتابوں کی سردار تصور کی جارتی ہے۔

    قرآن مجید کے نزول سے قبل اللہ رب العزت نے سورۃ الحشر میں بیان کیا ہے کہ ’’اگر ہم اس قرآن کو پہاڑوں اور سخت چٹانوں پر نازل کرتے تو وہ بھی اس کلام کی ہیبت سے ریزہ ریزہ ہوجاتے جن کی وجہ سے زمین اپنی جگہ برقرار ہے‘‘۔

    امت مسلمہ کو دیگر تمام امتوں پر فوقیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی وحی لانے کے لیے فرشتوں کے سردار جبرائیل کو منتخب کیا گیا اور انسانیت کے سردار محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل کیا گیا، جس رات میں نازل ہوا وہ تمام راتوں کی سردار یعنی ’’ شب قدر‘‘ قرار دی گئی۔

    شب قدرکی وجہ ؟

    ایک مرتبہ اصحاب رسولؓ نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا کہ ’ اے رسول اللہ ﷺ ہم سے پہلے انبیاء کرام کی امتوں کے لوگوں کی عمریں بہت زیادہ تھیں مگر ہماری عمریں اُن سے بہت کم ہیں تو اُن کے اعمال ہم سے کئی زیادہ ہوں گے اور انہیں اجر بھی زیادہ ملے گا۔

    2

    اس سوال کے جواب میں فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آپ ﷺ کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ ’’ بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا اور اے نبی ﷺ آپ کیا جانیں کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے جس میں ہزاروں فرشتے اپنے رب کے حکم سے زمین پر اترتے ہیں اور وہ فجر کے بعد تک زمین پر عبادت کرنے والوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں‘‘۔

    ان آیات کے بعد آپ ﷺ نے صحابیوں کو خوشخبری سنائی کہ ’’جو اس رات میں ایک سجدہ بھی کرے گا وہ ہزاروں مہینوں کے سجود ہے بہتر اور افضل ہوگا‘‘۔

    شب قدر میں کرنے والی عبادتیں:

    رمضان المبارک کا آخری عشرہ دیگر دو عشروں کے مقابلے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں کچھ مخصوص عبادات ہیں جو دیگر عشروں میں کرنے کا حکم نہیں ہے۔

    اعتکاف:

    اس عشرے میں خاص طور پر اعتکاف کا عمل کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا معتکف شب قدر کو تلاش کرتا ہے، اس رات کو تلاش کرنے کا حکم صرف معتکف کو ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے ہے۔

    8

    نوافل کی ادائیگی:

    ان طاق راتوں میں خاص طور پر نوافل کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ اس رات کو تلاش کیا جاسکے تاکہ ہزاروں سال کی راتوں کی نیکیاں حاصل کی جاسکیں۔

    5

    دعا:

    شب قدر کی رات دعا مانگنے کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے، اللہ کے نبی ﷺ نے اس رات کے حوالے سے اصحابی رسول کو ایک دعا بتائی جس کا ترجمہ ہے ’’ اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے، مجھے معاف فرما دے‘‘۔

    7

    تلاوت قرآن:

    اس مقدس رات میں جس طرح ہر نیک عمل کا ثواب بہت زیادہ دیا جاتا ہے اسی طرح قرآن کی تلاوت کرنے والے شخص کو بھی اجر دیا جاتا ہے۔

    4

    سورۃ القدر کی تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے نازل ہونے والے فرشتے عبادت کرنے والے افراد سے ملاقات کرتے ہیں اور اُن کے نام لکھ کر بارگاہ الہٰی میں پیش کرتے ہیں جس پر اُن کی مغفرت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔

    دکاندار اور شب قدر:

    Untitled-1

    رمضان کے آخری عشرے میں کاروباری حضرات خاص طور پر بازاروں میں کام کرنے والے تاجر عوام کے ہجوم کی وجہ سے طاق راتوں میں باقاعدہ عبادات سے محروم رہتے ہیں، مگر ایسے تمام افراد جو رزق حلال کی نیت سے بازاروں یا کاروباری مراکز پر ہوتے ہیں اُن کے لیے شب قدر کی دعا کسی تحفے سے کم نہیں وہ اپنی مصروفیات کے ساتھ اس دعا کا ورد کر کے شب قدر کی عبادات میں شامل ہوسکتے ہیں۔

  • ماہ رمضان: کراچی میں گداگر مافیا کی یلغار، پولیس بے بس

    ماہ رمضان: کراچی میں گداگر مافیا کی یلغار، پولیس بے بس

    کراچی : رمضان المبارک کا مقدس ماہ شروع ہوتے ہی کمائی کی غرض سے ہزاروں گداگرکراچی پہنچ گئے اور شہر کی شاہراہوں ،چوراہوں ،شاپنگ سینٹرز پر یلغار کردی۔

    1

    تفصیلات کے مطابق رمضان شروع ہوتے ہی گداگروں نے کراچی کا رخ کرلیا۔ شہر بھر کے شاپنگ سینٹرز ،چوراہوں ،مساجد ،سگنلز، ہوٹل ریسٹورنٹس پر گداگروں نے اپنے ڈیرے جما لیے، گداگر شہریوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

    2

    عید کی شاپنگ کرنا عذاب کردی، ملک بھرسے گداگروں رمضان شروع ہوتے ہی کمائی کے لئے کراچی پہنچ جاتے ہیں اور کراچی والوں کا جینا دوبھر کردیتے ہیں، جہاں سے گزریں ایک ہی صدا آتی ہے کچھ دے جا بابا۔ ایک کو خیرات دے دی جائے تو دو تین اور مانگنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

    3

    ملک بھر کے گاﺅں اور دیہات سے لائے گئے ان گداگروں میں بوڑھے جوان ،بچے اور خواتین کے علاوہ بڑی تعداد جسمانی معذوروں کی بھی ہوتی ہے، کراچی میں گدا گری کا کاروبار مافیا کی صورت اختیار کر گیا ہے اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد گدا گر رمضان المبارک کے سیزن میں کراچی آتے ہیں۔

    5

    یاد رہے کہ ماہ رمضان سے قبل ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر نے پولیس کو الرٹ جاری کرتے ہوئے رمضان میں گداگری، بھتہ خوری،لوٹ مار اورٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے پولیس کوحکمت عملی تیار کرنے کی ہدایت کی تھی ۔

    6

    ایڈیشنل آئی جی کراچی نے گداگروں کے خلاف بھی خصوصی طور پرسخت ایکشن کی ہدایت کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ گداگروں کی گرفتاری کا عمل پورے ماہ جاری رکھا جائے۔

    7

    ان ہدایات کے با وجود تا حال کراچی پولیس کی جانب سے شہریوں کی جان ان پیشہ ور گداگروں سے چھڑانے کیلئے کوئی خاطرخواہ اقدامات نظر نہیں آرہے۔

    4

  • افطاردسترخوان: شہر کراچی بازی لے گیا

    افطاردسترخوان: شہر کراچی بازی لے گیا

    مہنگائی کے اس دور میں بھی رمضان المبارک میں ملک بھر میں افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے وہی شہر قائد اسے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں بلکہ دیگر شہروں پر سبقت لے جاچکا ہے۔

    شہر قائد میں مختلف مساجد، امام بارگاہوں، مدارس، اسپتالوں بس اسٹاپ پر گھر سے باہر رہ جانے والے افراد کے لیے بالکل مفت افطار کا انتظام کیا جاتا ہے۔

    W-1

    ایک محتاط اندازے کے مطابق 3 کروڑ کی آباد والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر تقریبا 25 لاکھ کے قریب افراد گھر سے باہر روزہ کھولتے ہیں۔

    کراچی ملک کا وہ واحد شہر ہے جہاں مختلف علاقوں میں 4000 سے زائد چھوٹے بڑے دستر خوان لگائے جاتے ہیں، کئی مقامات پر یہ دسترخوان عوام اپنی مدد آپ کے تحت لگاتے ہیں تو کہیں فلاحی تنظیموں کی جانب سے لگائے جاتے ہیں۔

    W-4

    گلشن اقبال، سوک سینٹر، رنچھوڑ لائن، گلستان جوہر، کلفٹن ڈیفنس کے علاقوں میں باقاعدہ طور پر خواتین دسترخوان لگاتی ہیں، جبکہ شہر میں 700 سے زائد امام بارگاہوں اور مدارس میں بالکل مفت افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    W-5

    ٹریفک میں پھنس جانے والے یا اپنی سفید پوشی کو برقرار رکھنے والے افراد کے لیے مخیر حضرات کی جانب سے یہ دسترخوان ٹاور، نمائش، گرومندر، لیاقت آباد، عائشہ منزل، سہراب گوٹھ ، عزیز آباد ، فیڈرل بی ایریا، نیو کراچی، نارتھ کراچی نارتھ ناظم آباد کے علاوہ شہر بھر کے بڑے تجارتی مراکز میں لگائے  جاتے ہیں۔

    W-2

    دوسری جانب شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں فلاحی ادارے کی جانب سے افطار دسترخوان کا شاندار سلسلہ جاری ہے جہاں شہر اور ملک کے دیگر حصوں سے آئے تیماردار روزہ افطار کرتے ہیں۔

    W-7

    نمائش چورنگی پر افطار کرنے والے ایک بزرگ شہری کا کہنا تھا کہ ’’ مہنگائی کے اس دور میں سحری اور افطار کے لیے ہمارے بس کی بات نہیں مگر ایسے لوگوں کے لیے دعا نکلتی ہے جو روزے داروں کے لیے اہتمام کرتے ہیں‘‘۔

    اندرون سندھ سے سول اسپتال آئے ایک خاندان کے سربراہ نے کہا کہ ’’ ہمارا بیٹا داخل ہے ہمارے پاس دوائی کے پیسے نہیں مگر ایسے حالات میں افطار اور سحری کا اہتمام اللہ کی طرف سے تحفہ ہے‘‘۔

    لیاقت آباد پر موجود ایک پھل فروش نے بتایا کہ وہ خاص طور پر ایسے لوگوں کے لیے رعایت دیتے ہیں جو لوگوں کو افطار کروانے کا اہتمام کرتے ہیں۔

  • نمازِ تراویح ، چاند سے چاند تک

    نمازِ تراویح ، چاند سے چاند تک

    تراویح، ترویحہ کی جمع ہے جس کے معنی ہے ایک دفعہ آرام کرنا جبکہ تراویح کے معنی ہے متعدد بار آرام کرنا ہے ، رمضان کے مہینے میں عشاء کی نماز کے بعد اور وتروں سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے، جو بیس رکعت پڑھی جاتی ہے، ہر چار رکعت کے بعد وقف ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا، اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار یا زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کردیا جاتا ہے۔

    تراویح کا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ رمضان کا چاند نکلنے سے شوال کے چاند نکلنے تک روزانہ بعد نماز عشاء وتر سے پہلے پڑھی جاتی ہے، چند برس قبل سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ شہر میں مختلف جگہ پانچ روزہ ، دس روزہ ، پندرہ روزہ ، نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے ، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پانچ روز تراویح پڑھ ختم کرلی گئی ہے لیکن یہ بلکل غلط سوچ ہے تراویح پہلی رمضان سے ماہ صیام کے آخری دن تک جاری رہتی ہے، البتہ پانچ روزہ ، دس روزہ اور پندرہ روزہ نماز تراویح کا مقصد رمضان المبارک میں ایک کم دنوں میں ایک ختمِ قرآن کا مکمل کرنا ہے ۔

    R1

    تراویح کی ابتدا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہوجائیں تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی۔

    اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمای : میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے۔

    بخاری، الصحيح، کتاب التهجد، باب : تحريض النبيﷺ علی صلاة الليل والنوافل من غير إيجاب، 1 : 380، رقم : 1077

     مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 : 524، رقم : 761

    R2

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو دو، چار چار آدمی جماعت کرلیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عام جماعت کا رواج ہوا، اور اس وقت سے تراویح کی بیس ہی رکعات چلی آرہی ہیں، اور بیس رکعات ہی سنتِ موٴکدہ ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے

    “جعل الله صیامہ فریضة وقیام لیلہ تطوعًا۔”

    (مشکوٰة ص:۱۷۳)

    ترجمہ:…”اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا ہے۔”

    R3

    نمازِ تراویح کی تعداد بیس ہے سے دس سلام سے یعنی دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے، ہر چار رکعت کے بعد وقفہ ہوتا ہے، جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسا کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے اس نماز کا نام تراویح رکھا گیا ہے۔

    جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے، اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔

    R5

    امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہےحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیامِ رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

    پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافتِ عمررضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے، لہٰذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازِ تراویح کے لئے (باقاعدہ با جماعت) اکٹھے ہوئے تھے۔

     ابن حبان، الصحيح، 1 : 353، رقم : 141
    .ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 338، رقم : 2207

    R4

    جہاں تک تراویح کے رکعت کی تعداد ہے تو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔

    بيهقي، السنن الکبری، 2 : 699، رقم : 4617

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت سے آج تک بیس ہی تراویح چلی آتی ہیں اور اس مسئلے میں کسی امامِ مجتہد کا بھی اختلاف نہیں، سب بیس ہی کے قائل ہیں۔

    مذکورہ بالا روایات صراحتاً اِس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعات بیس ہوتی ہیں۔ اِسی پر چاروں فقہی مذاہب کا اِجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے۔ وہاں کل بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں، جنہیں پوری دنیا میں براہِ راست ٹی۔ وی سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔

    تراویح کے دوران ہر چار رکعت کے بعد پڑھی جانے والی دعا:

    tarawih-post