Tag: Ramazan 2016

  • ماہ رمضان کی آج 27ویں شب،خصوصی عبادات کا اہتمام

    ماہ رمضان کی آج 27ویں شب،خصوصی عبادات کا اہتمام

    کراچی: ملک بھر میں آج رمضان المبارک کی ستائیسویں شب انتہائی عقیدت و احترام سے منائی جائے گی، ستائیسویں شب کے موقع پر آج گھروں اور مساجد میں خصوصی عبادات کا انتظام کیا جارہا ہے۔

    shab-qdr

    ارشاد نبوی ہے کہ “یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری اْمت کو عطا فرمائی ہے۔” اس شب کے اصل فیوض و برکات اور فضائل کا احاطہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک شب میں ہزار مہینے کا ثواب کمانے کیلئے دنیا بھر کی مساجد میں عبادات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

    quran

    شب قدر کو رمضان المبارک کی تمام راتوں پر فضیلت حاصل ہے، یہی وہ مبارک رات ہے، جس میں ہدایت کا مثالی سرچشمہ قرآن کریم نازل کیا گیا اور فرشتوں کی تخلیق بھی اس رات میں ہوئی۔

    اس رات فرزندان اسلام رات بھر مساجد میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر نوافل اور قرآن پاک کی تلاوت و دیگر عبادات میں مصروف رہتے ہیں اور رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی ملکی سلامتی و استحکام کی دعائیں مانگتے ہیں۔

    POST 2

    لیلتہ القدر اپنے دامن میں ایسے ہی کروڑوں بابرکت لمحات لے کر جلوہ گر ہوتی ہے، لیلتہ القدر میں شام سے لے کر صبح تک اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ فرشتوں کا نزول اس قدر ہوتا ہے کہ زمین تنگ پڑجاتی ہے۔

    qadr

    رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عبادت کے ذوق و شوق کو بام کمال تک پہنچانے کے لئے لیلتہ القدر کو مخفی رکھا گیا۔ اگرچہ یہ رات عوام الناس کی نظروں سے پوشیدہ ہے تاہم خواص اس رات سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔

  • انڈونیشیا میں رمضان کے روزے رکھنے والی عیسائی خاتون

    انڈونیشیا میں رمضان کے روزے رکھنے والی عیسائی خاتون

    جکارتہ: انڈونیشیا کے دارالحکومت میں ایک عیسائی خاتون نے مذہبی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مسلمان ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر روزے رکھنے شروع کردیے۔

    زوزونا چیک ریپبلک سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ حصول تعلیم کے لیے انڈونیشیا میں مقیم ہیں۔

    j3

    اپنے مسلمان ساتھیوں کی طرح وہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے دور رہتی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’میرے لیے روزہ رکھنا زیادہ مشکل اس لیے ہے کیونکہ اس کے پیچھے میرا کوئی مذہبی یا روحانی مقصد نہیں ہے‘۔

    ان کے مطابق سارا دن بغیر کھائے تو گزارا ہوجاتا ہے لیکن پیاس بہت لگتی ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ روزے رکھنے سے انہیں ایک فائدہ ضرور ہوا اور وہ یہ کہ انہوں نے خود پر قابو پانا اور نظم و ضبط سیکھا۔

    j2

    زوزونا اپنے مسلمان ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر روزے رکھ رہی ہیں۔

  • خطاط الحرم المسجد النبوی ۔ استاد شفیق الزمان

    خطاط الحرم المسجد النبوی ۔ استاد شفیق الزمان

    گزشتہ دنوں حرم مدنی میں روضہ رسول کے اوپر کندہ قرآنی آیات کا رسم الخط تبدیل کیا گیا اور یہ کام ایک پاکستانی خطاط کی زیر نگرانی سر انجام دیا گیا ہے جنہیں دنیا استاد شفیق الزمان کے نام سے جانتی ہے۔ مسجد نبوی کی موجودہ جدید تعمیرات میں دیواروں اور روضہ رسول پر کندہ آیات و احادیث وغیرہ کی خطاطی کا کام انہیں کے زیر نگرانی سر انجام پایا ہے۔

    پاکستان کے ممتاز خطاط استاد شفیق الزمان 1956 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ خطاط الحرم المسجد النبوی کے لقب سے مشہور ہیں اور گزشتہ 20 سال سے مسجد نبوی کے توسیعی منصوبے میں بطور استاد الخطاط خدمات سرانجام دے ر ہے ہیں۔

    pyar-ali-post

    استاد شفیق الزمان کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا جب 2 مارچ 1994 کو استنبول میں واقع اسلامی ورثہ کے تحفظ کے کمیشن کی جانب سے منعقدہ تیسرے عالمی مقابلہ خطاطی میں ان کے ایک فن پارے کو دوسری پوزیشن کا حق دار قرار دیا گیا۔ یہ خطاطی کے کسی بھی عالمی مقابلے میں پاکستان کے لیے پہلا عالمی اعزاز تھا۔

    استاد شفیق الزمان کے جس فن پارے کو یہ اعزاز عطا ہوا تھا وہ سورہ لقمان کی آیت 27 اور 28 کی خطاطی پر مبنی تھا اور خط ثلث جلی میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس مقابلے میں دنیا بھر کے سینکڑوں خطاط نے حصہ لیا تھا اور جس جیوری نے انعام کا فیصلہ کیا تھا اس میں دنیا بھر کے خطاطی کے دس بڑے اساتذہ شامل تھے۔

    پاکستانی خطاط کے لیے بین الاقوامی اعزاز *

    استاد شفیق الزمان اس سے قبل مسجد نبوی میں مستقل طور پر فن خطاطی کا مظاہرہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے سینکڑوں فن کاروں میں اول قرار دیے جا چکے تھے اور انہیں مسجد نبوی میں خطاطی کرنے والے پہلے پاکستانی خطاط ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

    حکومت پاکستان نے استاد شفیق الزمان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 14 اگست 2013 کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیا۔

  • روزہ روح کی تطہیر اور بے لگام نفس کو ’نفسِ مطمئنہ‘ بنانے کا نام ہے

    روزہ روح کی تطہیر اور بے لگام نفس کو ’نفسِ مطمئنہ‘ بنانے کا نام ہے

    روح اور نفس کے معنیٰ ومطالب اور اس کے مظہر سے متعلق اہل الرائے متضاد آراء رکھتے ہیں اور اہل علم اس گتھی کو سلجھانے میں مصروف ہیں تاہم ابھی تک کوئی واضح اور متفقہ تعریف سامنے نہیں آسکی ہے۔

    ماہر لسانیات کے نزدیک روح اور نفس ہم پلہ اور ہم مترادف الفاظ ہیں تاہم اسلامی اسکالر کے نزدیک یہ دو الگ چیزیں ہیں، تفصیل میں جائے بغیر اگر چند سطروں میں روح اور نفس کو سمیٹا جائے تو میری ناقص رائے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’روح‘‘ باطنی جسم ہے جس کے افعال کا نام ’’نفس‘‘ ہے۔

    4

    اس سلسلے میں ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد عامر عبداللہ نے گفتگو کے دوران بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے بعد اسے خیر اور شر دونوں کے راستے بتادیے جس میں تمیز و تفریق کے لیے اللہ نے انسانی جسم میں  عقل (بہ معنیٰ شعور)، قلب(بہ معنیٰ احساس) اور روح( بہ معنیٰ مقصد ومنشاء) کی طرح ’’نفس‘‘ کو بھی ایک مستقل امر کے طور پر پیدا کیا ہے۔

    5

    مسجد ابراہیم نارتھ کراچی کے خطیب ہدایت اللہ بیان فرماتے ہیں کہ نفس ایک ہی ہے مگر اس کی صفات مختلف ہیں ان صفات کا اظہار سات طریقوں سے ہوتا ہے اور نفس کی ہر ہر قسم الگ الگ خواص و صفات کی حامل ہوتی ہیں۔

    نفس کی سات اقسام ہیں جنکے نام درج ذیل ہیں :
    1۔ نفس امارہ
    2۔ نفس لوامہ
    3۔ نفس ملھمہ
    4۔ نفس مطمئنہ
    5۔ نفس راضیہ
    6۔ نفس مرضیہ
    7۔ نفس کاملہ

    مولانا احسن اصلاحی تزکیہ نفس اور اصلاح نفس کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں وہ اپنی کتاب تزکیہ نفس میں رقم طراز ہیں کہ ’’نفس کے الگ خواص وصفات ہیں اور یہ الگ اثرات انسانی طبعیت و مزاج، عادات و خصائل اور اخلاق و اعمال سے ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘

    مضمون کے اس حصے میں آپ نفس کی عادات خبیثہ کو جانیں گے جن سے بچاؤ کا ذریعہ روزہ ہے۔

    لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے والا رب کریم اپنے بندوں کو تزکیہ نفس کی دعوت دیتے ہوئے اپنے آخری کتاب میں فرماتے ہیں کہ

    (اور) سدا بہار باغات جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کے لئے جزا ہے جس نے اپنا تزکیہ ( خود کو گناہوں سے پاک)کیا۔

    (سورہ طٰہ پارہ 20 آیت نمبر76)

    ایک اور جگہ بیان ہوتا ہے

    :
    یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا،اور وہ نامراد ہوگا جس نے اسے آلود ہ کیا۔

    (سورہ الشمس پارہ 30 آیات 9 اور 10)

    یہی مضمون ایک اور آیت میں یوں بیان ہوا ہے

    فلاح پاگیا جس نے تزکیہ کیا (پاکیزگی اختیار کی)۔

    (سورہ الاعلیٰ پارہ 30 آیت نمبر 16)

    نفس امارہ گناہوں پر آمادہ کرتا ہے یہ انسان میں ضعٖف، بخل، شہوت، تکبر، حسد، غصہ اور جہالت پیدا کرتا ہے،جس سے انسان اپنے رب کے بجائے نفسانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے جب کہ نفس کی دو بنیادیں ہیں اول غصہ اور جلد بازی جب کہ دوئم طمع یعنی حرص اور لالچ پے۔

    ڈاکٹر عامر عبداللہ فرماتے ہیں کہ انسان کا غصہ جہالت کی وجہ سے ہے اور طمع ،لالچ و حرص کی وجہ سے ہوتا ہے، نفس دو قسم کے افعال سر انجام دیتا ہے ایک معصیت و نافرمانی اور دوسری کینہ، خصلت، تکبر، حسد، بخل، غصہ اور جو باتیں شرعاً اور عقلاً ناپسندیدہ اور بری ہیں۔

    روزہ ۔۔۔ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے

    حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے ممتاز صوفی بزرگ غلام مصطفیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کی کریمیت کا یہ عالم ہے کہ اُس نے نہ صرف نفس کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا بلکہ اپنے بندوں کو نفس پر قابو رکھنے کے لیے ایک ماہ کی ٹریننگ دیتا ہے وہ مہینہ رمضان ہے جس میں ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے گئے روزے ،پہلے نفس امارہ کو نفس لوامہ میں تبدیل کرتا ہے جہاں بندہ گناہوں پر ندامت محسوس کرنے لگتا ہے اور بلاآخر نفس مطمئنہ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے جس کے لیے اللہ یوں اعلان فرماتا ہے کہ

    يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
    ’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو۔‘‘
    الفجر، 89 : 28

    روزہ اور روح کی بالیدگی

    وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی

    ”اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجیئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے“۔

    روزہ ظاہری اور باطنی گناہوں سے پاک و صاف کر کے بدن اورروح کو پاکیزگی ولطافت سے مزین کرتا ہے جس کے باعث قرب الہی کا حصول ممکن ہو پاتا ہے،یوں تزکیہ نفس کے بعد صحیح معنوں میں ایک باعمل مسلمان بنی نوع انسان کے سامنے قابل تقلید نمونہ بنتا ہے۔

    Untitled-1

    ضرورت اس بات کی ہے کہ عبادات و صالحیت، فرائض کی ادائیگی اور حقوق کی تکمیل، اعلی اخلاقی تربیت اور مومنانہ کردار کی جو مشق رمضان مبارک میں ہوتی ہے اس کو عملاً تواتر کے ساتھ آنے والے گیارہ مہینوں سے لیکر ساری زندگی جاری رکھیں تاکہ مقاصد حیات پورے ہو سکیں اور خالق کائنات رب العلمین کے افضال و اکرام کے دائماً مستحق بنے رہیں اور اُخروی نعمتوں سے سرفراز ہو سکیں۔

    روزہ اور عصرِ حاضر کے معاشرتی مسائل سے نجات

    عصر حاضر کے سلگتے مسائل، اخلاقی انحطاط، صالح اقدار کی پامالی، خود غرضانہ روش اور مادّیت کے پیچھے بھاگتی دنیا کو حق و صداقت، عبادت معبود حقیقی، خدمت خلق اور روحانی قدروں کی اہمیت سے پوری انسانی برادری کو آگاہ کرنا ہر دین پسند، خیر خواہ انسانیت اور باشعور مسلمان پر ضروری ہے اس کے لئے قرآن مجید کی مقدس تعلیمات اور ارشادات نبوی ؐ کو ہر طرح زبان و عمل کے ذریعہ دوسروں تک پہنچانے کا عہد ماہ رمضان کی رواں ایام اور ساعتوں کا پیام ہے۔

    روزہ ہی روح کی تطہیر اور نفسانی خواہشوں کو مغلوب کرنے کا نام ہے

    طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ کا وقت ہے اس دوران کھانا کھانے ،پانی پینے اور جماع سے رکے رہنا فرض ہے اور یہی حقائق نفس پر بھاری ہوتے ہیں اور روح کے لئے تازگی ، لطافت اور بالیدگی کا سبب بنتے ہیں۔

    3

    چوں کہ سال کے گیارہ مہینے انسان مرغن غذاؤں اور مقویات سے جسم کو توانا اور نفس کو قوت پہنچاتا رہتا ہے جس کے باعت روح پر اس کا مسلسل دباؤ رہتا ہے اور نفس کا غلبہ قائم و برقرار رہتا ہے لیکن جب ماہ رمضان آتا ہے تو اہل ایمان فرض روزوں کے ذریعہ روح کی تقویت و لطافت کا سامان کرتے ہیں اوقات صوم میں کھانے پینے اور جماع سے اجتناب نفس کے ضعف و ناتوانی کا باعث ہیں جب نفس کمزور ہوتا ہے تو روح کا اس پر غلبہ ہو جاتا ہے جو بندہ کو مائل بہ خیر و صالحیت کرنے کا موجب ہوتا ہے۔

    نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں پروفیسر عقیل احمد،پروفیسر غلام مصطفیٰ مرحوم،مولانا امین احسن اصلاحی کی کتب اور لیکچرز سے مدد لی گئی ہے جب کہ ممتاز عالم دین ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی اور خطیب ہدایت اللہ سے کی گئی گفتگو بھی مضمون کا حصہ ہے۔

  • ہزاروں مہینوں سے بہتر رات

    ہزاروں مہینوں سے بہتر رات

    رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ایک رات ایسی ہے جسے ہزاروں مہینوں سے بہتر قرار دیا گیاہے کیونکہ اس رات میں ایک ایسی کتاب نازل کی گئی جو تمام آسمانی کتابوں کی سردار تصور کی جارتی ہے۔

    قرآن مجید کے نزول سے قبل اللہ رب العزت نے سورۃ الحشر میں بیان کیا ہے کہ ’’اگر ہم اس قرآن کو پہاڑوں اور سخت چٹانوں پر نازل کرتے تو وہ بھی اس کلام کی ہیبت سے ریزہ ریزہ ہوجاتے جن کی وجہ سے زمین اپنی جگہ برقرار ہے‘‘۔

    امت مسلمہ کو دیگر تمام امتوں پر فوقیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی وحی لانے کے لیے فرشتوں کے سردار جبرائیل کو منتخب کیا گیا اور انسانیت کے سردار محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل کیا گیا، جس رات میں نازل ہوا وہ تمام راتوں کی سردار یعنی ’’ شب قدر‘‘ قرار دی گئی۔

    شب قدرکی وجہ ؟

    ایک مرتبہ اصحاب رسولؓ نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا کہ ’ اے رسول اللہ ﷺ ہم سے پہلے انبیاء کرام کی امتوں کے لوگوں کی عمریں بہت زیادہ تھیں مگر ہماری عمریں اُن سے بہت کم ہیں تو اُن کے اعمال ہم سے کئی زیادہ ہوں گے اور انہیں اجر بھی زیادہ ملے گا۔

    2

    اس سوال کے جواب میں فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آپ ﷺ کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ ’’ بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا اور اے نبی ﷺ آپ کیا جانیں کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے جس میں ہزاروں فرشتے اپنے رب کے حکم سے زمین پر اترتے ہیں اور وہ فجر کے بعد تک زمین پر عبادت کرنے والوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں‘‘۔

    ان آیات کے بعد آپ ﷺ نے صحابیوں کو خوشخبری سنائی کہ ’’جو اس رات میں ایک سجدہ بھی کرے گا وہ ہزاروں مہینوں کے سجود ہے بہتر اور افضل ہوگا‘‘۔

    شب قدر میں کرنے والی عبادتیں:

    رمضان المبارک کا آخری عشرہ دیگر دو عشروں کے مقابلے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں کچھ مخصوص عبادات ہیں جو دیگر عشروں میں کرنے کا حکم نہیں ہے۔

    اعتکاف:

    اس عشرے میں خاص طور پر اعتکاف کا عمل کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا معتکف شب قدر کو تلاش کرتا ہے، اس رات کو تلاش کرنے کا حکم صرف معتکف کو ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے ہے۔

    8

    نوافل کی ادائیگی:

    ان طاق راتوں میں خاص طور پر نوافل کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ اس رات کو تلاش کیا جاسکے تاکہ ہزاروں سال کی راتوں کی نیکیاں حاصل کی جاسکیں۔

    5

    دعا:

    شب قدر کی رات دعا مانگنے کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے، اللہ کے نبی ﷺ نے اس رات کے حوالے سے اصحابی رسول کو ایک دعا بتائی جس کا ترجمہ ہے ’’ اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے، مجھے معاف فرما دے‘‘۔

    7

    تلاوت قرآن:

    اس مقدس رات میں جس طرح ہر نیک عمل کا ثواب بہت زیادہ دیا جاتا ہے اسی طرح قرآن کی تلاوت کرنے والے شخص کو بھی اجر دیا جاتا ہے۔

    4

    سورۃ القدر کی تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے نازل ہونے والے فرشتے عبادت کرنے والے افراد سے ملاقات کرتے ہیں اور اُن کے نام لکھ کر بارگاہ الہٰی میں پیش کرتے ہیں جس پر اُن کی مغفرت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔

    دکاندار اور شب قدر:

    Untitled-1

    رمضان کے آخری عشرے میں کاروباری حضرات خاص طور پر بازاروں میں کام کرنے والے تاجر عوام کے ہجوم کی وجہ سے طاق راتوں میں باقاعدہ عبادات سے محروم رہتے ہیں، مگر ایسے تمام افراد جو رزق حلال کی نیت سے بازاروں یا کاروباری مراکز پر ہوتے ہیں اُن کے لیے شب قدر کی دعا کسی تحفے سے کم نہیں وہ اپنی مصروفیات کے ساتھ اس دعا کا ورد کر کے شب قدر کی عبادات میں شامل ہوسکتے ہیں۔

  • ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    کراچی: آپ کے گھر کے پیچھے ایک خوبصورت، صاف ستھرا، نیلا سمندر بہتا ہو، تو آپ کو کیسا لگے گا؟

    کراچی جیسے شہر میں جہاں سال کے 10 مہینے گرمی، اور اس میں سے 6 مہینے شدید گرمی ہوتی ہو، ایسی صورت میں تو یہ نہایت ہی خوش کن خیال ہے۔

    اور اگر آپ اس سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہوں، تو پھر آپ کو اس جگہ سے کہیں اور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن ایسا آپ سوچتے ہیں، اس سمندر کنارے رہائش پذیر افراد نہیں۔۔

    کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سومار گوٹھ کا پہلا منظر تو بہت خوبصورت لگتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، گاؤں کی پشت پر بہتا صاف ستھرا نیلا سمندر، لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں اور لوگوں سے ملتے ہیں، تو بھوک اور غربت کا عفریت پوری طرح سامنے آتا جاتا ہے۔

    صرف 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں میر بحر (مچھلی پکڑنے والے) ذات کے لوگ آباد ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ مچھلی پکڑنا اور اسے بیچ کر اپنی روزی کمانا ہے۔ لیکن گاؤں کی رہائشی 45 سالہ حمیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو مچھلی کھائے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

    ’ہم ترس گئے ہیں مچھلی کھانے کے لیے، جتنی بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ ہم بیچ دیتے ہیں۔ اس رقم سے تھوڑا بہت گھر کا سامان آجاتاہے جس سے پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں۔ مچھلی کھانے کی عیاشی کدھر سے کریں‘۔

    گاؤں والے سمندر سے جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے 20 سے 30 روپے فی کلو بیچتے ہیں۔ شہروں میں یہی مچھلی 400 سے 500 روپے کلو بکتی ہے۔ شہر لے جا کر بیچنے کے سوال پر حمیدہ بی بی نے بتایا کہ گاؤں سے شہر آنے جانے میں اتنا کرایہ خرچ ہوجاتا ہے کہ 500 کلو مچھلی کی فروخت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ لہٰذا وہ گاؤں کے اندر ہی اسے بیچتے ہیں۔

    لیکن گاؤں والے آج کل اس سے بھی محروم ہیں۔ سمندر میں بلند لہروں کی وجہ سے 4 مہینے (مئی تا اگست) مچھیرے سمندر میں نہیں جا سکتے اور بقول حمیدہ بی بی یہ 4 مہینے ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔

    ’گاؤں سے باہر کے لوگ آ کر ان دنوں میں تھوڑا بہت راشن دے جاتے ہیں جس سے کسی حد تک گزارہ ہوجاتا ہے‘۔

    پچھلے کچھ عرصے سے انہی دنوں میں رمضان آرہا ہے جس سے گاؤں والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ’افطار میں کبھی کچھ کھانے کو ہوتا ہے، کبھی صرف پانی سے روزہ کھولتے ہیں‘، حمیدہ بی بی نے بتایا۔

    ’ان دنوں میں کھانے پینے کی اتنی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ہیں تاکہ وہ سارا دن کچھ نہ مانگیں‘۔

    ماہ رمضان میں جہاں لوگوں کی غذائی عادات تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ رمضان میں صحت مند غذا کھاتے ہیں، اس گاؤں کے لوگ اپنی روزمرہ غذا سے بھی محروم ہیں۔ ’کبھی کبھار مہینے میں ایک آدھ بار گوشت، یا پھل کھانے کو مل جاتا تھا، لیکن پابندی کے موسم میں تو ان چیزوں کے لیے ترس جاتے ہیں۔ کبھی کوئی آکر دال، آٹا دے جاتا ہے تو اسی سے گزارا کرتے ہیں‘۔

    گاؤں میں ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ سمندر کنارے واقع یہ گاؤں پینے کے پانی سے محروم ہے۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ لوگ پانی نہ ہونے کے باعث کئی کئی ہفتہ نہا نہیں پاتے۔ پانی سے روزہ کھولنے کے لیے بھی بعض دفعہ پانی نہیں ہوتا۔

    گاؤں میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کاریتاس‘ کے پروجیکٹ ہیڈ منشا نور نے اس بارے میں بتایا کہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے پہلے ہینڈ پمپس لگوانے کا سوچا۔ لیکن ان ہینڈ پمپس سے سمندر کا کھارا پانی نکل آیا۔ چنانچہ اب وہ پانی ذخیرہ کرنے والے ٹینکس پر کام کر رہے ہیں۔

    سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

    ان کی جانب سے کچھ لوگ آکر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

    ’ہمیں کبھی کسی نے پوچھ کر نہیں دیکھا، نہ کوئی حکومت کا کارندہ، نہ کوئی این جی او کبھی ادھر آئی‘، حمیدہ بی بی نے اپنے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔ ’ان 4 مہینوں میں ہم فاقے کرتے ہیں۔ کبھی پانی بہت چڑھ جاتا اور سمندر کنارے واقع ہمارے گھر ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔

    گاؤں کے لوگ یوں تو سارا سال ہی غربت کا شکار رہتے ہیں، مگر ان 4 مہینوں میں ان کی حالت بدتر ہوجاتی ہے اور وہ امید نہ ہونے کے باوجود فشریز ڈپارٹمنٹ، حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

  • ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    کراچی: گزشتہ برس کراچی میں ماہ رمضان میں پڑنے والی شدید گرمی سے 1 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ گرمی کی یہ شدید لہر جسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے، موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کا ایک نتیجہ تھا۔

    شہر کراچی میں درختوں کی کٹائی، بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر، دن بدن فیکٹریوں اور صنعتوں میں اضافہ اور ان سے نکلنے والے دھویں نے اس شہر کو ساحلی شہر ہونے کے باوجود گرم ترین شہر میں تبدیل کردیا ہے۔

    یہ تبدیلی بہ مشکل 2 عشروں میں وجود میں آئی۔ کراچی والوں کو اب بھی وہ دن یاد ہیں جب شہر میں ہر وقت سمندر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور موسم معتدل رہتا تھا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    گزشتہ برس آنے والی ہیٹ ویو کراچی والوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایسی صورتحال بھی پیش آسکتی ہے اور ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیئے۔ ہوش و حواس بحال ہونے تک 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ 36 ہزار سے زائد افراد اسپتالوں میں داخل ہوگئے۔

    رواں برس کا آغاز ہوتے ہی محکمہ موسمیات اور موسمیاتی ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو دوبارہ آئے گی۔ نہ صرف کراچی میں بلکہ پورے ملک میں ایسی ہی شدید گرمی کی لہریں آئیں گی اور ایک نہیں کئی لہریں آئیں گی جو پورے موسم گرما میں جاری رہیں گی۔

    خوش آئند بات یہ ہوئی کہ موسم گرما کے آغاز سے قبل ہی صوبائی و شہری حکومت متحرک ہوگئی۔ بڑے پیمانے پر ہیٹ ویو کے نقصانات سے بچنے کے انتظامات کر لیے گئے۔ پورے شہر میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے۔ کئی غیر حکومتی تنطیموں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور جگہ جگہ پانی کے اسٹالز اور سایہ دار جگہیں قائم کردیں۔ مارچ اور اپریل میں 400 سے زائد رضا کاروں کو ہیٹ ویو کا شکار افراد کو ہنگامی طبی امداد دینے کی تربیت دی گئی۔

    مزید پڑھیں: کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    ہیٹ ویو سے قبل آگہی مہم بھی بھرپور انداز میں چلائی گئی۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے اندرون سندھ بڑی تعداد میں پمفلٹس تقسیم کیے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی بھرپور آگہی دی گئی یوں گزشتہ برس کی 1000 ہلاکتوں کے مقابلے میں رواں برس اب تک صرف 2 افراد کی ہلاکت دیکھنے میں آئی۔

    رواں برس ماہ رمضان کے آغاز سے ہی محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو سے بھی خبردار کردیا اور یوں شدید گرمی میں روزے رکھ سکنے یا نہ رکھنے کا مسئلہ سامنے آگیا۔ گزشتہ برس بھی علما کی جانب سے روزے میں آسانی کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ شدید گرمی میں روزوں کے بارے میں کیا حکم ہے، اس بارے میں ہم نے مختلف علما سے رائے لی۔

    مزید پڑھیں: ناگپور میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کی انوکھی تدبیر

    مختلف مکتبہ فکر کے علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے افراد جن کی حالت اتنی خراب ہو کہ جان جانے کا خطرہ ہو، روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔

    پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کا اس بارے میں کہنا ہے، ’ڈاکٹرز کے مطابق اگر شدید گرمی سے آپ کی جان جانے کا خدشہ ہو، یا جسمانی طور پر آپ بدتر حالت میں ہوں اور روزہ رکھنے سے اس میں مزید خرابی کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ رمضان میں شدید گرمی کی لہر آنے کی صورت میں کونسل کی جانب سے روزے میں لچک کی ہدایت بھی جاری کردی جائے گی۔

    کیو ٹی وی کے پروگرام ’آسک مفتی‘ میں علامہ لیاقت حسین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’قرآن میں لکھا ہے، ’اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘ اگر جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا، ’جہاں تک ہیٹ ویو کا تعلق ہے تو اس کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ مثلاً دھوپ میں گھر سے نہ نکلیں، زیادہ مشقت والا کام نہ کریں۔ پھر بھی اگر جسمانی حالت اس قابل نہ ہو کہ سارا دن بھوکے پیاسے رہ کر نہ گزارا جا سکے تو روزہ چھوڑ دیں، اور بعد میں اس کا کفارہ دے دیں‘۔

    البتہ انہوں نے صرف ’گمان‘ کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ ’یہ سوچنا کہ تمام احتیاطی تدابیروں کے باوجود میں روزہ رکھنے کے قابل نہیں، غلط ہے اور یہ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کے مترادف ہے‘۔

    گرمی کے باعث اگر طبیعت خراب ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس بارے میں رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے بتایا، ’جہاں تک برداشت ہوسکے روزہ کو نہ توڑا جائے، لیکن اگر برداشت سے باہر ہوجائے، انسان بے ہوش ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑا جا سکتا ہے۔ اس روزہ کی قضا ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا‘۔

    واضح رہے کہ کراچی میں پچھلے 2 دن سے درجہ حرارت 40 کے قریب ہے۔ موسم گرما کے آغاز سے ہی سندھ کے جنوبی حصوں جیکب آباد، لاڑکانہ اور موہن جو دڑو میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزہ دار اس موسم میں مشروبات اور پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور مرغن اور چکنائی والی غذاؤں سے پرہیز کریں۔

  • بنگلہ دیش میں بدھ عبادت گاہ میں افطار کا اہتمام

    بنگلہ دیش میں بدھ عبادت گاہ میں افطار کا اہتمام

    ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں ایک بدھ خانقاہ سے مسلمانوں کے لیے افطار تقسیم کی جارہی ہے۔ یہ 2 مذہبی گروہوں کے درمیان بین المذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔

    خانقاہ کی جانب سے اس منصوبے کا آغاز 6 سال قبل کیا گیا تھا۔ خانقاہ کی انتظامیہ کے مطابق ان کا مقصد غریب مسلمانوں کی مدد کرنا ہے۔

    اس منصوبے کا آغاز خانقاہ کے سب سے بڑے راہب سدھاندو موہترو کی جانب سے کیا گیا تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انسانوں کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد انسانیت ہی ہے۔

    bd-5

    علاقے میں رہائش پذیر ایک دکاندار ابو البشر کے مطابق اس خانقاہ کے راہب اس سے قبل بھی فلاحی کاموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ اس کے مطابق ان کا ہدف غریب لوگوں کی امداد ہے۔

    bd-4

    رمضان میں تقسیم کی جانے والی افطاری ایک مقامی ریستوران میں تیار کی جاتی ہے۔ ریستوران مالک کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے 5 برس سے یہ کام سر انجام دے رہا ہے۔ وہ افطار کے لیے مقامی کھانے تیار کرتا ہے جسے کھجوروں کے ساتھ ایک ڈبے میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

    bd-3

    ایک راہب کے مطابق ہر روز تقریباً 300 مسلمان اس افطار سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ لوگ اس کے لیے 3 بجے سے ہی خانقاہ کے سامنے قطار بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

    bd-2

    افطار حاصل کرنے والے ایک شخص کا کہنا ہے، ’غریب لوگوں کے لیے یہاں کا افطار ایک نعمت ہے۔ ہمیں بہت عزت و احترام سے یہاں افطار دیا جاتا ہے اور ہم ایسے ہی کام کی توقع اپنے ہم مذہب افراد سے بھی کرتے ہیں‘۔

    bd-6

    ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی کے بارے میں یہ راہب قطعی پریشان نہیں۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو محفوظ خیال کرتے ہیں اور ان کے مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے لوگوں سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔

    bd-7

    راہب موہترو نے ایک بار کہا تھا، ’ہم آپس میں کیوں لڑیں؟ ہم سب بنگلہ دیشی ہیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کر کے ہی ہم اپنے ملک کو عظیم بنا سکتے ہیں‘۔

    ان کے پیروکار ان کے انہی افکار کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

  • رمضان المبارک کا آخری عشرہ ۔۔ جہنم کی آگ سے نجات کا عشرہ

    رمضان المبارک کا آخری عشرہ ۔۔ جہنم کی آگ سے نجات کا عشرہ

    ماہ صیام کاتیسرا اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا شروع ہو گیا ہے اس عشرے میں لیلتہ القدر کی رات بھی موجود ہے لوگ اس عشرے میں خصوصی عبادات سمیت اپنی بخشش کے لئے بھی دعائیں مانگنے میں مصروف ہیں۔

    ramzan

    یوں تو رمضان کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے، لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوں (آخری عشرہ) کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وطاعت ، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔

    تیسرے عشرے کی دعا

    copyy

    احادیث میں ذکر ہے!

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اوراپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری ، حدیث :1884، صحیح مسلم، حدیث :2008)

    رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے، اعتکاف سے مراد ہے کہ ماہِ رمضان کے آخری دس دنوں میں گھر چھوڑ کر مسجد کے اندر ہی قیام کیا جائے اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہا جائے۔ اس طرح عاجز بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قریب تر رہتا ہے۔

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ، مگر جس سال آپ کا انتقال ہوا ، آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ (روایت صحیح بخاری شریف)

    POST 6

    اِس ماہِ مبارکہ کی ہر گھڑی اور ہر ساعت اپنے اندر اہل ایمان کے لئے بیشماربرکتیں لیئے ہوئے ہوتی ہیں مگر اِس ماہِ مبارکہ کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تو اہل ایمان پر رحمتوں برکتوں اور عظمتوں کا نزول اپنے عروج کو پہنچ چکا ہوتاہے، اِس لئے کہ اِس ماہِ مبارکہ آخری عشرے کی اِن پاک پانچ 21،23،25،27،29 طاق راتوں میں سے ایک عظیم رات جوشبِ قدر کہلاتی ہے، اِن تاریخوں میں آتی ہے۔

    surajhh

    رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورة نازل فرمائی، جسے ہم سورۃ القدر کے نام سے جانتے ہیں۔

    ارشاد باری تعالی ہے!

    ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے (1) اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ (2) شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے(3) فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں (4) وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔

    ایک دوسری آیت میں اس کو مبارک رات کہا گیا ہے، ارشاد ہے:

    ” قسم ہے اس کتاب کی جو حق کو واضح کرنے والی ہے۔ ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے “۔ (سورة الدخان 44:2)

    quran

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    "جوشخص شب قدر کو ایمان اور اجر و ثواب کی نیت سے عبادت کرے ، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔” (صحیح بخاری، حدیث: 1768 )

    dua f

    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    "اللھم انکا عفو کریم تحب العفو فاعف عنی! اے اللہ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کردے”۔

    ایک حدیث میں آ پ ﷺ نے فرمایا کہ :

    "بلاشبہ اللہ تعالی نے خاص میری امت کو شبِ قدر عطا فرمائی ہے اس امت سے پہلے کسی کو بھی نہیں عطا فرمائی” ۔(الدر المنثور:15/540)

    dua 2

    آخری عشرے میں ہی مسلمانوں کے لیئے شب قدر کی بشارت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت کے حوالے سےرسول اللہ ﷺنے فرمایا!

    ” یہ جو مہینہ تم پر آیا ہے،اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہےجو شخص اس سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔”

    نبی پاک نے ارشاد فرمایا:

    ’’یہ ایسا مہینہ ہے جس کی ابتدا میں رحمت، درمیان میں مغفرت اور آخر میں دوزخ سے نجات ہے۔ اور جس کسی نے اس مہینے میں اپنے غلام (روزہ دار) سے کم کام لیا، اﷲ تعالیٰ اسے بخش کر دوزخ سے نجات دے دیتا ہے”۔

  • اعتکاف سنت نبوی ﷺ اور قرب الٰہی کا ذریعہ

    اعتکاف سنت نبوی ﷺ اور قرب الٰہی کا ذریعہ

    کراچی: رمضان المبارک کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کی تلاش میں اہل ایمان دنیا سے کٹ کر اپنا ناطہ اس واحد بزرگ و برترہستی سے جوڑ لیتے ہیں ،جس کی بادشاہت لازوال ہے۔

    ویسے تو پورا رمضان المبارک ہی رحمتوں اور برکتوں سے معمور ہے لیکن آخری عشرے میں مسجد میں اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لیے اعتکاف کرنا رسول کریمﷺ کی سنت ہے۔ عالم دین اعتکاف کرنے والے اپنی تمام تر توجہ عبادات، تسبیحات اور اذکار کی طرف مرکوز کرکے دنیا سے ناطہ توڑ لیتے ہیں۔

    رمضان المبارک کا عشرہ مغفرت شروع ہوتے ہی، مغفرت کے طلب گار پروردگار کی رضا کے لیے دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر اعتکاف میں بیٹھ گئے،رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

    POST-3

    متعکفین اعتکاف کے دوران تلاوت قرآن اور نوافل اداکرتے ہیں، آخری عشرے کی طاق راتوں لیلتہ القدر کی تلاش کی جاتی ہے رات بھر عبادت کی جاتی ہے، یہ لوگ اللہ تعالی کے مہمان ہوتے ہیں، اعتکاف میں شرکت کے لیے اللہ کے مہمان بیس رمضان المبارک کو عصر کے وقت مساجد میں داخل ہوتے ہیں اور ازان مغرب کے ساتھ ہی ان کا اعتکاف شروع ہوجاتا ہے جبکہ شوال المبارک کا چاند نظر آتے ہی معتکفین کا اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔

    اعتکاف کے اجتماعات میں ائمہ و خطبا قرآن کی تفاسیر بیان کریں گے، اعتکاف کے اجتماعات میں ملک کی سلامتی و استحکام ، دہشت گردی کے خاتمے اور امت مسلمہ کی سر بلندی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی جائیں گی ،آخری عشرے کی طاق راتوں میں مسلمان پوری رات اللہ کے حضور عبادات کرتے ہوئے اپنی حاجات و مناجات پیش کریں گے، شہر بھر میں رمضان کی 21 ویں شب سے محافل شبینہ منعقد ہوں گی جن سے علمائے کرام خطاب بھی کریں گے، شہر کی بیشتر مساجد میں معتکفین کو مساجد کی انتظامیہ اور مخیر حضرات کی جانب سے سحری و افطار فراہم کی جائے گی۔

    اعتکاف کے مسائل اور اجتماعی اعتکاف کی شرعی حیثیت

    ٭ اعتکاف کا مطلب کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس کی تعظیم کی خاطر اس سے لگ جانا۔ شریعت میں اعتکاف کا مطلب ہے اپنے آپ کو خدا کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے مسجد میں مقید کردینا۔، (مفردات راغب، ص342)۔

    قرآن کریم کی روشنی میں

    وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

    (البقرة، 2 : 125)

    ’’اور یاد کرو ! جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے جمع ہونے کا مرکز اور جائے امن بنایا اور بنالو ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو جائے نماز اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید کی کہ میرا گھر پاک رکھو!طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے۔

    وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ

    (الکهف، 18 : 28)

    ’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا چہرہ تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔‘‘

    POST 1

    حدیثِ پاک کی روشنی میں

    سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں۔

    ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف بیٹھتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دی۔ پھر آپ کے بعد (بھی) آپ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف بیٹھتی رہیں‘‘۔

    (بخاری و مسلم)

    حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبار ک کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے، ایک سال نہ بیٹھے، اگلا سال آیا تو بیس دن اعتکاف فرمایا۔

    (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

    POST 2

    امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک معتکف ایک لمحہ کے لیے بھی بلا ضرورت مسجد سے باہر نکلا تو اس کا اعتکاف جاتا رہا، قیاس یہی ہے کیونکہ اعتکاف مسجد میں ٹھہرنے کا نام ہے اور باہر نکلنا اسے ختم کر دیتا ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا، حتٰی کہ اپنی عمر عزیز کے آخری برس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا ۔

    POST 4

    اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ ختم ہونے کے وقت غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند ہونے تک باقی رہتا ہے،خواتین کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کا اعتکاف گھر میں ہی ہو سکتا ہے۔

    حضور اکرم کا فرمان ہے کہ اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے اور جس نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کر لیا اس کا عمل ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کر لے۔

    رمضان المبارک کا آخری عشرہ پروردگار عالم کی جانب سے اپنے گنہ گار بندوں کے لیے رحمت ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دنیا کو ترک کرکے اپنے رب کے مہمان بن گئے ہیں۔