Tag: Ramazan 2016

  • شیرِخدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کایومِ شہادت دنیا بھرمیں منایا جارہا ہے

    شیرِخدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کایومِ شہادت دنیا بھرمیں منایا جارہا ہے

    آج عالمِ اسلام حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا یوم شہادت منارہا ہے، آپ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے،19 رمضان40 ہجری کو کوفہ میں ابن ملجم نامی ایک خارجی نےآپ کو زہر آلود تلوار سے دوران نماز ایسی کاری ضرب لگائی تھی کہ جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ کا شماراسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں ہوتا ہے۔

    روضہ حضرت علیؑ – نجف عراق

    آپ کے والد حضرت ابو طالبؑ اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کے سن میں اسلام قبول کیا اور مکے میں پیش آںے والی تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔

    ہجرت کی شب آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اپنے پاس موجود تمام امانتیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کرکے مدینے روانہ ہوگئے اور آپ تلواروں کی چھاؤں میں رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کی چادر اوڑھ کر سوگئے۔

    مدینے میں مواخات کے موقع پر جب رسول اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کو انصار کا بھائی قرار دیا تو کہا کہ ’’اے علی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو اور تمھیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی لیکن یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔

    ہجرت کے بعد جب جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہر معرکے میں آگے آگے رہے یہاں تک کے خیبر کی سخت ترین جنگ میں انہیں لشکر اسلام کا علمدار مقرر کیا گیا۔

    قلعہِ خیبر

    جنگ ِ احد میں جب گھمسان کا رن پڑا تو آپ کے ہاتھ میں پے درپے تلواریں ٹوٹیں جب آخری تلوار ٹوٹی آسمان صے حضرت جبریل ایک تلوار لے کر رسول خدا صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے جو کہ انہوں نے حضرت علی کو مرحمت فرمائی۔ اس تلوار کا نام ’’ذوالفقار‘‘ہے اور یہ کربلا تک آپ کے فرزند امام حسین کی ملکیت رہی اور اس کے بعد عوام سے اوجھل ہوگئی۔

    ذوالفقار

    آپ کے دستِ مبارک سے اسلام کے بدترین دشمن جن میں شیبہ، انتر ، مرحب ، حارث اور عمر ابن عبدوود جیسے افراد شامل ہیں جہنم واصل ہوئے۔

    پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا عقد اپنی چہیتی بیٹی جنابِ فاطمہ علیہ السلام سے کیا جن سے آپؑ کوجنابِ حسنین کریمین اور جنابِ زینب جیسی عزت ماب ہستیوں کے والد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

    آپ کے مشہور القاب ابوالحسن، ابوتراب اسد اللہ الغالب، حیدر ِکرار، صاحب الذوالفقار، خیبر شکن اور امیر المومنین ہیں۔

    جب عیسائیوں سے مباہلے کا مرحلہ آیا تو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنا نفس قرار دیا۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ساری زندگی دین کی سربلندی کے لئے گزری آپ کاتبِ وحی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور پیغمبرِ اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی تمام ترخط وکتابت اور معاہدوں کے مسودے تحریر کرنا بھی آپ کی ہی ذمہ داری تھی۔

    پیغمر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پرغدیرِ خم کے میدان میں آُپ کو عوام پر اپنا نائب مقرر کیا تھا۔

    آپ قران اور فقہ کے بلند پایہ عالم تھے جس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن عباس، محمد بن ابی بکر، اور عبداللہ ابن عمر جیسے بلند پایہ عالمِ حدیث آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ خطبات پر مشتمل کتاب کا نام نہج البلاغہ ہے جسے عالم اسلام میں اہم حیثیت حاصل ہے خصوصاً مالک اشتر کو جب مصر کا گورنر نامزد کیا تو ایک طویل ہدایت نامہ تحریر کیا جسے کسی بھی جدید فلاحی مملکت کے آٗینکی بنیاد تصور کیا جاسکتا ہے۔

    حضرت علیؑ کے ہاتھ کا لکھا قران

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ 35 ہجری کے شورش زدہ دورمیں اکابرین اسلام کے اصرار پر خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ، یہ سارا دور تنازعات سے بھرپور رہا جس میں خوارج نامی فتنہ انتہائی اہم تھا جس کی سرکوبی کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دارالخلافہ مدینے سے کوفہ منتقل کرنا پڑا۔

    جنگ صفین کے بعد 19رمضان 40 ہجری کو شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر پر زہر بجھی تلوار سے وارکیا جو کہ فوری جسم میں سرایت کردیا۔

    مسجد کوفہ – عراق

    زہر کےاثر سے 3 دن جانکنی کی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔

    آپ عالم بالعمل تھے اور آپ کا سب مشہور قول ہے کہ ’’ میں جنت کے لالچ یا جہنم کے خوف سے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ وہ (اللہ) عبادت کے لائق ہے‘‘۔

    ضریحِ مبارک
  • کھجور سے روزہ کھولنے کی حکمتیں

    کھجور سے روزہ کھولنے کی حکمتیں

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ساری دنیا کے مسلمان افطار کےوقت کھجور سے روزہ کھولنا ثواب سمجھتے ہیں،جدید تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے کہ کھجور سے ہمارے جسم اور صحت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے.

    ماہرین صحت کے مطابق افطار کے موقع پر کھجور استعمال کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ رمضان میں روزہ دار کے معدے کو کھجور ہضم کرنے میں بہت زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑتی ہےجودن بھر کے روزے کی وجہ سے نڈھال ہوچکاہوتا ہے.

    کھجور کھاتے ہی وہ معدہ جودن بھر کے روزے کی وجہ سے سست پڑجاتا ہے وہ ایک بار پھر فعال ہوتا ہے اور وہاں غذا ہضم کرنے والے خامروں اور انزائم کی پیداوار شروع ہوجاتی ہے جو افطار کے بعد کھانے کو ہضم کرنے میں مددکرتے ہیں.

    رمضان میں کھانے کے اوقات میں تبدیلی کے باعث اور کھانےمیں اگر ریشےدار غذائیں شامل نہ ہوں تو روزہ دار قبض میں مبتلا ہوسکتا ہے لیکن چونکہ کھجور میں حل پذیر ریشے یا فائبرکی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ قبض سے محفوظ رہتا ہے.

    یوں تو کھجور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں پیدا ہوتی ہے تاہم مقامات مقدسہ کی قربت کی وجہ سے سعودی عرب میں پیدا ہونے والی کھجوروں کو دنیا بھر کے مسلمان عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جولوگ حج یا عمرہ کی نیت سے حجازمقدس جاتے ہیں وہ اپنے ساتھ کھجور کا تحفہ ساتھ لانا نہیں بھولتے.

    سعودی عرب میں کھجور کی لگ بھگ سو سے زائد قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک دور میں پوری مملکت میں سب سے زیادہ کھجور کی پیداوار کاشرف مدینہ منور کو حاصل تھا، لیکن اب دیگر علاقوں میں بھی کھجور وافرمقدار میں پیدا ہوتی ہے.

    کھجوروں میں چند مقبول نام عجوہ، برہی، خلص، خضری، مجدولہ، نبوت، سیف، سقی اور سکری ہیں.

     


    کھجور بہترین غذا کیوں ہے


    آئیے جانتے ہیں کہ کھجور میں کون سے اجزاء شامل ہیں جو انسانی جسم کو تندرست رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں.

    کھجور میں شامل میگنیشیئم بلڈ پریشر کم کرتا ہے، پٹھوں،اعصاب اور شریانوں کو پرسکون رکھتا ہے،ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے، پھیپھڑے کے سرطان سے تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس میں موجود تانبے کے ساتھ مل کر ہائپرٹینشن اور دل کی دھڑکن کو قابو میں رکھتا ہے.

    کیلشیئم جو کھجور کا ایک اہم جزو ہے،یہ عضلات ، شریان اور اعصاب کو پھیلاتا ہے ہڈیوں کی تعمیر کرتا ہے اور ہڈیوں کے بھر بھرے پن کی بیماری اوسٹیوپورویس سے بچاتا ہے.

    کھجور میں موجود پوٹاشیم دل کے پٹھوں کو مضبوط بناتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے، پٹھوں کی اکڑن سے بچاتا ہے،ہڈیوں کے ڈھانچے کو بہتر کرتا ہے اور کینسر کا خطرہ گھٹاتا ہے،اس پھل میں شامل فاسفورس دانتوں اور ہڈیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے.

    کھجور میں شامل  آئرن اس کا اہم حصہ ہے جو وٹامن بی ٹو اور کاپر کے ساتھ مل کر خون کے سرخ خلیات کی تعمیر میں مددکرتا ہے، بذریعہ خون پٹھوں اور خلیات تک آکسیجن کی فراہمی ممکن بناتا ہے،بصارت کو بہتر کرتا ہے.

    وٹامن اے کی کھجور میں دستیابی سے رات کو نظر بہتر ہوتی ہے اور جلد خشک نہیں ہوتی،سیب اور ناشپاتی کی طرح کھجور کولیسٹرول کم کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں امراض قلب سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے.

    احادیث مبارکہ میں سحری اور افطار میں کھجورکے استعمال کی ترغیب موجود ہے، کھجورکھانا، اس کو بھگوکراس کا پانی پینا،اس سے علاج تجویز کرنا سب سنتیں ہیں،الغرض اس میں لاتعداد برکتیں اور بے شمار بیماریوں کا علاج ہے.

    حضوراکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ

    ”عجوہ کھجورجنت میں سے ہے اس میں زہرسےشفا ہے“. ( ابن النجار)

    حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے

    ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نہار منہ مدینہ کی سات کھجوریں استعمال کرلیں
    اس دن نہ تو اسے زہر سے نقصان ہوگا اور نہ جادو کا اثر ہوگا“

    کجھور کا قرآن میں ذکر

    کھجور کے بیش بہا فوائد اور بھی ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ یہ وہ پھل ہے جس کا ذکر اللہ تعالی کے آخری الہامی کلام میں بیس سے زائد مقامات پر جبکہ احادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر ہوا ہے جس نے کھجور کی اہمیت اور فضیلت پر مہرِ یقین لگا دی ہے۔

  • جنگ بدر اسلام کی پہلی جنگ اور 313 کا عظیم لشکر

    جنگ بدر اسلام کی پہلی جنگ اور 313 کا عظیم لشکر

    کراچی: سنہ 3 ھجری 17 رمضان المبارک مقام بدر میں تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفار قریش کے طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ اللہ کے مٹھی بھر نام لیواؤں کو وہ ابدی طاقت اور رشکِ زمانہ غلبہ نصیب ہوا جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

    13 سال تک کفار مکہ نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، ان کا خیال تھا کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان ‘سر پھرے’ بھلا ان کی جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

    اللہ کی خاص فتح ونصرت سے 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ و لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔

    دعائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جذبہ ایمانی سے ستر جنگجو واصل جہنم ہوئے،چودہ صحابہ کرام نے داد شجاعت کی تاریخ رقم کر کے شہادت پائی۔

    اس دن حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی۔

    ’’اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر، یا اﷲ! اگر تیری مرضی یہی ہے (کہ کافر غالب ہوں) تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔

    اسی لمحے رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا:’’میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پور پور پر مارو۔‘‘ (سورۂ انفال آیت 12)۔

    مقام بدر میں لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان نہ صرف ایک قوم بلکہ مضبوط اور طاقتور فوج رکھنے کے ساتھ بہترین نیزہ باز، گھڑ سوار اور دشمن کے وار کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    امر واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر اسلام کے فلسفہ جہاد نقطہ آغاز ہے، یہ وہ اولین معرکہ ہے جس میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے جنت میں داخل ہونے میں بھی پہل کرنے والے ہیں، قرآنِ پاک کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ غزوہ بدر میں حصہ لینے والوں کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔

    ایک آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ :

    ’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔‘‘
    (سورۂ انفال آیت9)

    غزوہ بدر کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج کے گئے گذرے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تازہ کر دیتی ہے، صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے، مقام بدر کے آس پاس رہائش پذیر شہریوں کو اس مقام کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا ادراک ہے۔

    شاعر کہتا ہے کہ

    فضائے بدر کو اک آپ بیتی یادہے اب تک
    یہ وادی نعرہ توحید سے آباد ہے اب تک

    غزوہ بدر کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج کے گئے گذرے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تازہ کر دیتی ہے۔ صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے، موجودہ دور میں مسلمانوں زوال پزیری اور کفار کے غالب آنے وجہ یہی ہے کہ آج مسلمانوں کے تمام وسائل موجود ہونے کے باوجود بھی وہ بدر و احد کے جذبے سے آری ہیں۔

    ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن
    وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا

  • دبئی: دوران رمضان شراب پر پابندی کے قانون میں نرمی

    دبئی: دوران رمضان شراب پر پابندی کے قانون میں نرمی

    دبئی: دبئی میں رمضان کے دوران شراب کی فروخت پر پابندی کے قانون کو پہلی بار نرم کردیا گیا ہے۔ اب شراب ماہ رمضان میں بھی فروخت کی جاسکتی ہے۔

    یہ فیصلہ غیر ملکی سیاحوں کو سہولت فراہم کرنے اور ان سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

    ایسا فیصلہ پہلی بار کیا گیا ہے۔

    dubai-3

    اس سے قبل ماہ رمضان کے دوران بڑے بڑے ہوٹلوں میں شراب فروخت تو کی جاتی تھی لیکن اسے چھپا کر رکھا جاتا تھا اور سرعام اس کی نمائش نہیں کی جاتی تھی۔

    دبئی کا ہوٹل جہاں سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات *

    دبئی کے محکمہ سیاحت نے سیاحوں سے اپیل کی ہے کہ وہ رمضان کا احترام کریں اور ثقافتی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کم شراب طلب کریں۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب، کویت اور ایران میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے۔

    دبئی میں شراب پر بھاری مقدار میں ٹیکسز بھی عائد ہیں، اس کے باوجود سیاح انتہائی ذوق و شوق سے شراب خرید کر پیتے ہیں۔

  • راجھستان ۔ جہاں مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی روزہ رکھتے ہیں

    راجھستان ۔ جہاں مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی روزہ رکھتے ہیں

    آپ نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی کے بہت سے مظاہرے دیکھے ہوں گے، لیکن آپ نے شاید کسی ہندو کو مسلمانوں کے ساتھ روزہ رکھتے نہ دیکھا ہو۔ ایسی حقیقت بھارت کی ریاست راجھستان میں موجود ہے جہاں ہندو افراد مسلمانوں کا ساتھ دینے کے لیے رمضان میں روزے رکھتے ہیں۔

    راجھستان کے بارمر اور جیسلمر ضلع میں مذہبی ہم آہنگی کا بہترین مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں مسلمان نہ صرف ہندؤوں کے ساتھ ہولی اور دیوالی مناتے ہیں بلکہ ہندو ان سے ایک قدم آگے بڑھ کر ماہ رمضان میں روزے بھی رکھتے ہیں۔

    raj-1

    یہی نہیں ہندو اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ 5 وقت نماز بھی پڑھتے ہیں۔ بقول ان کے اس طرح ان پر بھی خدا کی رحمتیں نازل ہوں گی۔ مسلمان بھی ان کے ہولی اور دیوالی کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں اور دیگر مذہبی تہواروں پر ان کے ساتھ مذہبی گیت یا بھجن بھی گاتے ہیں۔

    بارمر کے رہائشی شنکر رام کے مطابق، ’ہمارا مذہب مختلف ہے لیکن روایات مشترک ہیں۔ ہمارے یہاں چھوٹے بچے بھی روزہ رکھتے ہیں‘۔

    یہ روایت صرف ان 2 ضلعوں میں ہی نہیں بلکہ پورے راجھستان میں ہے۔ یہاں کے علاقے گوہڑ کا تلہ میں واقع سعید کسم درگاہ میں بھی مسلمان اور ہندو دونوں ہی حاضری دیتے ہیں۔

    raj-2

    راجھستان میں یہ روایات عام تو ہیں، مگر ان کا آغاز کب اور کیسے ہوا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ یہاں کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جو تقسیم بھارت کے وقت سندھ سے ہجرت کر کے آئے تھے۔

    بارمر میں ایک سرکاری اہلکار کے مطابق یہاں لوگ ایک دوسرے کی خوشیوں اور دکھوں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ سوچنا بھی ناممکن ہے کہ کسی مسلمان کو ہندو یا ہندو کو کسی مسلمان سے الگ کردیا جائے۔

    پاکستان اور بھارت میں جہاں شرپسند عناصر کی جانب سے مذہبی تنگ نظری کو فروغ دیا جارہا ہے وہاں یہ خبر مذہبی رواداری کی بہترین مثال ہے۔

  • شارجہ کی ماحول دوست مسجد

    شارجہ کی ماحول دوست مسجد

    شارجہ: شارجہ میں ایک مسجد میں ماحول دوست خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں جس کے بعد اب یہ مسجد 37 فیصد توانائی کی بچت کرتی ہے۔

    متحدہ عرب امارات کی 5000 مساجد میں سے ایک مسجد، مسجد التوبہ کو 6 ماہ کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت ماحول دوست مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

    اس مسجد میں توانائی کی بچت کرنے والے 5 آلات کو نصب کیا گیا اور صرف 6 ماہ میں اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ جنوری 2016 تک اس مسجد میں بجلی کے استعمال میں 37 فیصد کمی آئی۔ یہاں پر بجلی کی کھپت میں 778 کلو واٹ کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ تناسب کسی بھی جگہ پر گرمیوں کے موسم میں توانائی کی بچت کی بلند ترین سطح ہے۔

    ماحول دوست پورٹیبل اے سی ’ایوا پولر‘ تیار *

    یہاں پر بجلی کی بچت کے لیے اسمارٹ تھرمو سٹیٹ نصب کیے گئے جو کہ پچھلے 3 سال سے متحدہ عرب امارات میں مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔

    شارجہ کے محکمہ مذہبی امور نے انجینیئرز کو اس پروجیکٹ کی نگرانی و مشاہدے کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں مساجد توانائی کی بچت کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

    حکومت کا ماحول دوست پیٹرول متعارف کرانے کا فیصلہ *

    مساجد میں اکثر نمازی اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ نماز کے وقت شدید گرمی ہوجاتی ہے کیونکہ اے سی کو صحیح وقت پر کھولا نہیں جاتا۔ یہ تھرمو سٹیٹ روزانہ کی بنیاد پر نماز کے وقت، اور اے سی کے ٹھنڈا کرنے کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے اے سی کو چلا دیتے ہیں جس سے بجلی کی بچت بھی ممکن ہے اور نمازی تکلیف سے بھی بچ جاتے ہیں۔

    ان تھرمو سٹیٹ کی مؤثر کارکردگی کے لیے انہیں ’آٹو اذان‘ کے آلات سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔ چونکہ اذان کا وقت ہر روز مختلف ہوتا ہے اور روزانہ 7 سے 10 منٹ کا فرق آجاتا ہے تو اسی فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آلات اے سی کو مقررہ وقت پر کھول دیتے ہیں۔

    بجلی سے چلنے والا ماحول دوست رکشہ سڑکوں پر رواں دواں *

    اس پروجیکٹ پر تقریباً 200 ڈالر کی رقم خرچ کی جارہی ہے۔ ملک بھر کی تمام مساجد کی انتظامیہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنی مساجد کو ماحول دوست بنائیں۔ البتہ پروجیکٹ شروع کرنے والی تنظیم ہنی ویل انوائرنمنٹ اینڈ انرجی سلوشن کے جنرل مینیجر دلیپ سنہا کے مطابق پروجیکٹ پر جو رقم خرچ کی جائے گی، وہ بجلی کے بلوں میں کمی کے بعد 3 ماہ میں ہی وصول ہوجاتی ہے۔

    پروڈکٹ مارکیٹنگ مینیجر محمد التاول کے مطابق کئی مساجد کی انتظامیہ نے اس پروجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے ان آلات کی تنصیب کو نہایت سادہ رکھا ہے اوراسے نصب کرنے میں کسی قسم کے تار استعمال نہیں ہوتے۔

    ماحول دوست کاغذ جس پر بار بار لکھا جا سکتا ہے *

    ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کی حکومت اس قسم کے دیگر کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور بہت جلد ایسے پروجیکٹس شاپنگ مالز اور اسکولوں میں بھی شروع کردیے جائیں گے تاکہ مشرق وسطیٰ کے گرم موسم سے مطابقت کرتے ہوئے توانائی کی زیادہ سے زیادہ بچت کو ممکن بنایا جا سکے۔

  • اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    دنیا میں اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے اور غیرمسلموں کا بھی ایک طبقہ روزہ رکھتا ہے، حالانکہ ان کے ہاں روزے کے معاملات کچھ الگ ہیں اور وہ اپنے طریقے سے روزے رکھتے ہیں، ان کے روزے کے ایام بھی مختلف ہیں۔

    اسلام میں روزہ ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ جن میں روزہ ایک اہم عبادت ہے ،اور اپنے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    FASTT

    دنیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رمضان کے روزے رکھتی ہے، اللہ نے قرآن کریم میں جہاں روزے کی فرضیت بیان کی ہے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ پرانی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے۔

    ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فر ض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(سورہ بقرہ)

    اہل اسلام کے لئے روزے کی فرضیت کا حکم اگرچہ ہجرت نبوی کے بعد ہوا مگراس سے قبل بھی دنیا کے دوسرے مذاہب میں روزے کا تصور پایا جاتا تھا۔

    یہودی مذہب

    مسلمانوں کے علاوہ یہودی بھی بہت زیادہ روزے رکھتے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی مُقدس کتاب تورات میں کئی مقامات پرروزہ کی فرضِیّت کاحکم دیاگیاہے۔

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف ایک روز ہ فرض تھا اور یہ عاشورہ کا روزہ تھا ۔یوم عاشورہ کے روزے کو کفارہ کا روزہ کہا جاتا ہے، روزے میں یہودی اپنا بیش تر وقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں نیز توریت کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔

    POST 4

    تورات کی بعض روایات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا ۔ یہ روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے سخت بات کہی گئی تھی کہ جو کوئی اس روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا ۔

    توریت کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پہاڑ پر توریت لینے کے لئے گئے اور چالیس دن مقیم رہے تو روزے کی حالت میں رہے۔

    یہودیوں کے ہاں مصیبت اور آفات آسمانی کے وقت میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ رکھتے بھی ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہیں اور قحط سالی پڑتی ہے تو بھی یہودیوں کے ہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔یہودیوں میں اپنے بزرگوں کے یوم وفات پر روزہ رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے یوم انتقال پر یہودی روزہ رکھتے ہیں، علاوہ ازیں کچھ دوسرے بزرگوں کے یوم وفات پر بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔

    پارسی مذہب

    پارسی مذہب کی اِبتدا حضرت عیسٰی علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس (ایران)میں ہوئی تھی، یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزہ کا تصور پایاجاتا ہے۔ انجیل کی روایات کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو ہدایت بھی فرمائی ہے۔

    POST 1

    بائبل میں اس بات کی تاکید ملتی ہے کہ روزہ خوشدلی کے ساتھ رکھا جائے اور چہرہ اداس نہ بنایا جائے اور نہ ہی بھوک وپیاس سے پریشان ہوکر چہرہ بگاڑا جائے۔

    رومن کیتھولک

    عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے، رومن کیتھولک عیسائیوں میں بُدھ اورجمعہ کو روزہ رکھاجاتا ہے۔ اِن روزوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ اُن کے بقول پانی خوراک میں شامل نہیں ہے۔

    ہندو مذہب

    بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ’’ورت‘‘ کہا جاتا ہے۔’’ورت‘‘کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔

     

    hindu-post

    ہندووں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ’’اکادشی‘‘ کا روزہ ہے، اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے ، ہندو جوگی اور سادھو میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان ،دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔

    ہندووں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل،سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے ،مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں، جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

    ہندوسنیاسی بھی جب اپنے مُقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تو وہ روزہ میں ہوتے ہیں، ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ اِس کے علاوہ قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پربھی روزہ رکھنے کی رِیت پائی جاتی ہے۔

    POST 2

    خاص بات یہ کہ ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی درازی عُمر کیلئے بھی کڑواچوتھ کاروزہ رکھتی ہیں۔

    بُدھ مذہب

    بدھ مذہب کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ہوئی، بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ تھے، بدھ مت میں روزے کو ان تیرہ اعمال میں شمار کیا گیا ہے، جو ان کے نزدیک خوش گوار زندگی اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ روزے کو باطن کی پاکیزگی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    بُدھ مت کے بھکشو (مذہبی پیشوا) کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔

    BHUDHA

    گوتم بُدھ کی برسی سے مُتصِل پہلے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں یہ روزے بھکشو مکمل رکھتے ہیں لیکن عوام جزوی روزہ رکھتے ہیں جس میں صرف گوشت کھانامنع ہوتاہے۔

    بُدھ مت میں عام پیروکاروں کو ہر ماہ چار روزے رکھ کر گناہوں کا اعتراف اور توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

    جین مذہب

    جین مت کی ابتدا آج سے تقریباً 2550 سال پہلے ہندوستان کے علاقے اترپردیش میں ہوئی۔ مہاویر اس مذہب کے بانی ہیں۔

    ہندومت کی طرح جین مت میں بھی سنیاسی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران میں روزے رکھتے ہیں اور اسی طرح بعض خاص تہواروں سے پہلے روزے رکھنے کا دستور بھی ان میں پایا جاتا ہے، ان کے مذہب میں مشہور تہوار وہ ہیں، جو ان کے مذہب کے بانی مہاویر کی زندگی کے مختلف ایام کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔

    JAIN

    ان کا پہلا تہوار سال کے اس دن منایا جاتا ہے، جس دن مہاویر عالم بالا سے بطن مادر میں منتقل ہوئے تھے۔ دوسرا تہوار ان کے یوم پیدایش پر منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے دنیا سے تیاگ اختیار کیا تھا، یعنی ترک دنیا کی راہ اختیار کی تھی۔ چوتھا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے الہام پا لیا تھا اور پانچواں تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن ان کی وفات ہوئی تھی اور ان کی روح نے جسم سے مکمل آزادی حاصل کر لی تھی۔

    ان تہواروں میں سب سے نمایاں تہوار پرسنا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تہوار بھادرا پادا (اگست۔ ستمبر) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ جین مت کے بعض فرقوں میں یہ تہوار آٹھ دن تک اور بعض میں دس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس تہوار کا چوتھا دن مہاویر کا یوم پیدایش ہے۔ اس تہوار کے موقع پر عام لوگ روزے رکھتے اور اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ کرتے ہیں۔

    جینیوں کے ہاں یہ رواج بھی ہے کہ ان کی لڑکیاں شادی سے پہلے روزے رکھتی۔

  • امام حسن مجتبیٰؑ کا یومِ ولادت منایا گیا

    امام حسن مجتبیٰؑ کا یومِ ولادت منایا گیا

    امام حسن ابن علیؑ (15 رمضان 3ھ تا 28 صفر 50ھ) اسلام کے دوسرے امام تھے اور حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمۃ الزھرا علیہا السلام کے بڑے بیٹے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بڑے نواسے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث کے مطابق آپ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا تھا۔ یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہ تھا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان کا نام حسن، لقب ‘مجتبیٰ’ اور کنیت ابو محمد تھی۔

    ولادت با سعادت


    آپ 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی . جب مکہ مکرمہ میں رسول کے بیٹے یکے بعد دیگرے دنیا سے جاتے رہے تو مشرکین طعنے دینے لگے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچا اور آپ کی تسلّی کے لیے قرآن مجید میں سورہ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہوگا. آپ کی ولادت سے پہلے حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکرا ان کے گھر آ گیا ہے۔ انہوں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعبیر پوچھی تو انہوں فرمایا کہ عنقریب میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔

    ساتویں دن عقیقہ کی رسم ادا ہوئی اورپیغمبر نے بحکم خدا اپنے اس فرزند کا نام حسن علیہ السلام رکھا.یہ نام اسلام کے پہلے نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہ سب سے پہلے پیغمبر کے اسی فرزند کا نام قرار پایا.۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔

    تربیت


    حضرت امام حسن علیہ السلام کو تقریباً آٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثرحدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔ مثلاً حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام جوانانِ بہشت کے سردار ہیں۔

    فضائل


    ’’خداوند میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھنا‘‘ اور اس طرح کے بےشمار ارشادات پیغمبر کے دونوں نواسوں کے بارے میں کثرت سے ہیں، ان کے علاوہ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ اولاد کی نسبت باپ کی جانب ہوتی ہے مگر پیغمبر نے اپنے ان دونوں نواسوں کی یہ خصوصیت صراحت کے ساتھ بتائی کہ انھیں میرا نواسا ہی نہیں بلکہ میرا فرزند کہنا درست ہے۔

    اخلاقِ حسن


    امام حسن علیہ السّلام کی ایک غیر معمولی صفت جس کے دوست اور دشمن سب معترف تھے . وہ یہی حلم کی صفت تھی جس کا اقرار بھی مروان کی زبان سے آپ سن چکے ہیں . حکومت ُ شام کے ہواخواہ صرف اس لیے جان بوجھ کر سخت کلامی اور بد زبانی کرتے تھے کہ امام حسن علیہ السّلام کو غصہ آجائے اور کوئی ایسا اقدام کردیں جس سے آپ پر عہد شکنی کاالزام عائد کیا جاسکے اورا س طرح خونریزی کا ایک بہانہ ہاتھ ائے مگر آپ ایسی صورتوں میں حیرتناک قوت ُ برداشت سے کام لیتے تھے جو کسی دوسرے انسان کاکام نہیں ہے . آپ کی سخاوت اور مہمان نوازی بھی عرب میں مشہور تھی . آپ نے تین مرتبہ اپنا تما م مال راہ خدا میں لٹا دیا اور دو مرتبہ ملکیت . یہاں تک کہ اثاث البیت اور لباس تک راہِ خدا میں دے دیا۔

    وفات


    بیرونی عوامل کے اشارے پراشعث بنِ قیس کی بیٹی جعدہ جو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی زوجیت میں تھی اس کے ذریعہ سے حضرت حسن علیہ السّلام کو زہر دلوایا .امام حسن علیہ السّلام کے کلیجے کے ٹکڑے ہوگئے اور حالت خراب ہوئی .آپ نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السّلام کو پاس بلایا اوروصیت کی،’’ اگر ممکن ہو تو مجھے جدِ بزرگوار رسولِ خدا کے جار میںدفن کرنا لیکن اگر مزاحمت ہو تو ایک قطرہ خون گرنے نہ پائے . میرے جنازے کو واپس لے آنا اور جنت البقیع میں دفن کرنا‘‘۔

    تدفین


    صفر28، 50ہجری کو امام حسن علیہ السّلام دنیا سے رخصت ہوگئے،ا مام حسن علیہ السّلام کی تدفین ان کی والدہ جناب فاطمہ الزھراء کے نزدیک جنت البقیع میں کی گئی۔

  • افطاردسترخوان: شہر کراچی بازی لے گیا

    افطاردسترخوان: شہر کراچی بازی لے گیا

    مہنگائی کے اس دور میں بھی رمضان المبارک میں ملک بھر میں افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے وہی شہر قائد اسے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں بلکہ دیگر شہروں پر سبقت لے جاچکا ہے۔

    شہر قائد میں مختلف مساجد، امام بارگاہوں، مدارس، اسپتالوں بس اسٹاپ پر گھر سے باہر رہ جانے والے افراد کے لیے بالکل مفت افطار کا انتظام کیا جاتا ہے۔

    W-1

    ایک محتاط اندازے کے مطابق 3 کروڑ کی آباد والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر تقریبا 25 لاکھ کے قریب افراد گھر سے باہر روزہ کھولتے ہیں۔

    کراچی ملک کا وہ واحد شہر ہے جہاں مختلف علاقوں میں 4000 سے زائد چھوٹے بڑے دستر خوان لگائے جاتے ہیں، کئی مقامات پر یہ دسترخوان عوام اپنی مدد آپ کے تحت لگاتے ہیں تو کہیں فلاحی تنظیموں کی جانب سے لگائے جاتے ہیں۔

    W-4

    گلشن اقبال، سوک سینٹر، رنچھوڑ لائن، گلستان جوہر، کلفٹن ڈیفنس کے علاقوں میں باقاعدہ طور پر خواتین دسترخوان لگاتی ہیں، جبکہ شہر میں 700 سے زائد امام بارگاہوں اور مدارس میں بالکل مفت افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    W-5

    ٹریفک میں پھنس جانے والے یا اپنی سفید پوشی کو برقرار رکھنے والے افراد کے لیے مخیر حضرات کی جانب سے یہ دسترخوان ٹاور، نمائش، گرومندر، لیاقت آباد، عائشہ منزل، سہراب گوٹھ ، عزیز آباد ، فیڈرل بی ایریا، نیو کراچی، نارتھ کراچی نارتھ ناظم آباد کے علاوہ شہر بھر کے بڑے تجارتی مراکز میں لگائے  جاتے ہیں۔

    W-2

    دوسری جانب شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں فلاحی ادارے کی جانب سے افطار دسترخوان کا شاندار سلسلہ جاری ہے جہاں شہر اور ملک کے دیگر حصوں سے آئے تیماردار روزہ افطار کرتے ہیں۔

    W-7

    نمائش چورنگی پر افطار کرنے والے ایک بزرگ شہری کا کہنا تھا کہ ’’ مہنگائی کے اس دور میں سحری اور افطار کے لیے ہمارے بس کی بات نہیں مگر ایسے لوگوں کے لیے دعا نکلتی ہے جو روزے داروں کے لیے اہتمام کرتے ہیں‘‘۔

    اندرون سندھ سے سول اسپتال آئے ایک خاندان کے سربراہ نے کہا کہ ’’ ہمارا بیٹا داخل ہے ہمارے پاس دوائی کے پیسے نہیں مگر ایسے حالات میں افطار اور سحری کا اہتمام اللہ کی طرف سے تحفہ ہے‘‘۔

    لیاقت آباد پر موجود ایک پھل فروش نے بتایا کہ وہ خاص طور پر ایسے لوگوں کے لیے رعایت دیتے ہیں جو لوگوں کو افطار کروانے کا اہتمام کرتے ہیں۔

  • پشاور ایک تاج، مسجد مہابت خان اس کا کوہِ نور

    پشاور ایک تاج، مسجد مہابت خان اس کا کوہِ نور

    سجاد مرزا

    پاکستان کا شہرپشاور قدیم تہزیب و تمدن اورتارخیی حیثیت رکھتا ہے اوردنیا بھرمیں مختلف وجوہات اور خصوصیات کی وجہ سے پہچانا جاتاہے۔ سکندراعظم ہو، مغلیہ دورحکومت ہو، انسیویں صدی کی سردجنگ،یا پھردہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، پشاور میں موجود مسلمانوں کی قدیم مسجد مہابت خان جو کہ ماضی کی شان و شوکت کا عالیشان نشان ہے، آج حکومت کی عدم توجہ کے باعث ضعیف اورخستہ حالی کا شکار ہے۔

    مسجد مہابت خان پشاور کےقعلہ بالا حصار سے پچاس فٹ کے فاصلے پراندرون شہر میں واقع ہے اور اس میں داخل ہونے کے لیے دو دروازےہیں، ایک آساماہی روڈ پرجبکہ دوسرا اندرون شہرمیں کھلتا ہے۔

    1

    مسجد مہابت خان پشاور کی قدیم مسجد ہے اوراسی وجہ سے ماہ رمضان المباک میں مہابت خان میں نماز تراویع کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ شہریوں کے کہنا ہے کہ اس مسجد سے وہ کئی نسلوں سے وابستہ ہےاوریہاں پرعبادات کرکے انہیں روحانی سکون ملتا ہے۔

    7

    مسجد مہابت خان1660صدی عیسوی مغلیہ دورمیں تعمیرکی گئی۔ مسجد کا نام مغل شاہنشاہ اورنگزیب کے دور میں لاہور کے گورنر نواب دادن خان کے پوتے اورمغل گورنرپشاور نواب مہابت خان کے نام پر رکھا گیاہے۔

    دنیا بھر کی خوبصورت و تاریخی مساجد*

    سن 1834 عیسوی پشاورپرسھکوں کے دورِ حکومت میں مسجد مہابت خان پرسکھوں کا قبضہ تھا جنہوں نے مسجد کے میناروں کو پھانسی گھاٹ کے طورپربھی استعمال کیا، جبکہ برطانیہ کے دور حکمومت میں مسجد کو دوبارہ مسلمانوں کی عبادات کے لیے بحال کیاگیا۔

    2

    مسجد کی دیواروں پر کیے جانے والےنقش و نگار مغلیہ دور کےفن تمعیر کی عکاسی کرتی ہیں جو کہ سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرتے ہیں لیکن مسجد کی موجودہ حالت اس کی دیوارں کی خستہ حالی سے صاف ظاھر ہوتی ہے۔ ہر سال بجٹ میں مسجد کی تزئین وآرئش کے لیے فنڈزمختص توکیا جاتا ہے لیکن مسجد کی درودیور حکومت کی لاپرواہی اور عدم توجہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    تین سو سال قبل مغلیہ دورمیں تعمیرکی جانے والی مسلمانوں کی اس عبادت گاہ مسجد مہابت خان کوحکومت نے سن 1982عیسوی میں قومی ورثہ قرار دیااور محکمہ اوقاف کے حوالے کیا، جس نے اس کی تزین وآرئیش کے مشکل کام کا بیڑااٹھایا۔

    4

    26اکتوبر 2015 کو دوپہر 2 بجکر39 منٹ پرکوہ ہندو کش کی جانب سے آنے والا زلزلہ ،جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.5ریکاڈ کی گئی تھی کہ باعث مسجد مہابت خان کے ایک مینار کو شدید نقصان پہنچا۔

    ملک کے قیمتی اثاثوں کوان کی اصل حالت میں محفوظ رکھنا اورسیاحوں کے لیے دلکش اورپرکشش بنانا محمکہ آثار قدیمہ کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت نے اس قدیمی مسجد مہابت خان کو محکمہ اوقاف کے حوالے کیا ہے، محکمہ اوقاف کو مسجد مہابت خان کی خستہ حالی سے متعلق کئی باررابطہ کیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کے محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کی بحالی کے لیےاپنی ہرمکمن خدمات پیش کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، مکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹرڈاکڑعبدالصمد نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ۔


    یہ مسجد صوبے میں سب سے زیادہ اہم سائٹس میں سے ایک ہے

    اور بہت سے سیاحوں اور زائرین کی توجہ کا مرکز ہے


     

    5

    6

    مسجد کے خطیب مولانا طیب قریشی نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’صوبے کے تمام حصوں سے لوگ اس تاریخی مسجد کا دورہ کرتے ہیں اس کو خستہ حالت میں دیکھ کردل گرفتہ اورمایوس ہوکرلوٹ جاتے ہیں‘‘۔

    3

    انہوں مزید کہا کہ ’’آخر یہ ایوانوں اور سرکاری عہدوں پر فائزلوگ اپنے دفاتر کی تزین وآرائش کے لیے لاکھوں روپےتوخرچ کرتے ہیں لیکن خانہ خدا اور قومی اثاثے کی حالت بہتر بنانے سے نجانے کیوں کتراتے ہیں۔ اسرائیل میں موجودمسجد اقصیٰ پر تو ہم اپنی جان دینے کو تیار ہے لیکن جو ہمارے دائرۂ اختیار میں ہے اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں‘‘۔

    قومی اثاثے اورمغلیہ دور کی اس شاندار اور تاریخی فن تعمیر کی خستہ حالی کو دیکھ کرمرزا غالب کا شعریادآگیا

    دل خوش ہوا ہےمسجد ویراں کو دیکھ کر
    میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے