Tag: Ramazan 2016

  • رمضان کی برکات اور اس کی فضیلت

    رمضان کی برکات اور اس کی فضیلت

    رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ جاری ہے اور جہاں جہاں بھی مسلمان موجود ہیں چاہے وہ کسی بھی قوم و ملت اور مذہب و مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہر جگہ اور ہر طرف سعادت و برکت کے دسترخوان بچھ گئے ہیں۔

    اسی مبارک مہینہ کے لیے 14 سو سال قبل مسجد النبوی کے بلند منبر سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو یہ خوش خبری سنائی تھی۔

    لوگو! خدا کا مہینہ برکت و رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف آرہا ہے۔ وہ مہینہ جو خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے۔ جس کے ایام بہترین ایام، جس’ کی شبیں بہترین شبیں اور جس کی گھڑیاں بہترین گھڑیاں ہیں۔ (اس مہینہ میں) تمہاری سانسیں ذکر خدا میں پڑھی جانے والی تسبیح کا ثواب رکھتی ہیں۔ تمہاری نیندیں عبادت، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں‘۔

    r6

    یہ مہینہ نہایت ہی شان و شوکت والا ہے۔ اس مہینہ کی حرمت و عظمت دیگر تمام مہینوں سے زیادہ ہے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ماہ مبارک رمضان کو اپنی ایک دعا میں اسے ’شہر الاسلام‘ یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے۔

    حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں، ’روزے دار کی نیند عبادت اور اس کی خاموش تسبیح اور اس کا عمل قبول شدہ ہے، اس کی دعا مستجاب ہوگی اور افطار کے وقت اس کی دعا رد نہیں کی جائے گی‘۔

    آئیے رمضان کی وہ خصوصیات جانتے ہیں جو اس عظیم ماہ کو دیگر تمام مہینوں سے افضل بناتی ہیں۔

    :آسمانی کتابوں کا نزول

    رمضان کریم ہی وہ مقدس مہینہ ہے جس میں تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئیں۔

    r9

    تورات، انجییل اور زبور رمضان میں نازل ہوئے۔ جبکہ تمام جہاںوں کے لیے ہدایت قرآن مجید 24 رمضان کو نازل ہوا۔ بعض روایات میں ہے کہ صحیفہ ابراہیم یکم رمضان کو نازل ہوا۔

    :قرآن کریم میں ذکر

    رمضان کریم وہ واحد مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔

    r7

    :قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت 185 میں اس ماہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے

    مفہوم: ’ماہ مبارک رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں موجود ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو وہ روزہ رکھے، ہاں جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیئے۔ اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ تم روزوں کی تکمیل کرو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بزرگی بیان کرو، شاید تم شکرگزار ہو جاؤ‘۔

    :طاق راتیں

    رمضان المبارک کی ایک اور فضیلت طاق راتیں ہیں۔ آخری عشرے کی 21ویں، 23ویں، 25ویں، 27ویں اور 29ویں راتیں، طاق راتیں کہلاتی ہیں۔

    r3

    حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’وہ رمضان میں ہے سو تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ لیلۃ القدر اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں طاق راتوں میں ہے یا رمضان کی آخری رات ہے۔ جس شخص نے لیلۃ القدر میں حالت ایمان اور طلب ثواب کے ساتھ قیام کیا، پھر اسے ساری رات کی توفیق دی گئی تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘۔

    ايک دوسرى روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا، ’جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجر و ثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں‘۔

    :اعتکاف

    رمضان کی ایک اور فضیلت اعتکاف ہے۔ اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹہرے رہنے کو کہتے ہیں۔

    r2

    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا، ’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اسے عملاً نیک اعمال کرنے والے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں‘۔

    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے‘۔

    حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’جس شخص نے رمضان المبارک میں 10 دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب 2 حج اور 2 عمرہ کے برابر ہے‘۔

    :روزہ ۔ ایک خالص عبادت

    روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو دکھاوے یا نمائش کے لیے نہیں کا جاسکتی چنانچہ یہ خالص عبادت ہوتی ہے لہذاٰ اس کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہے۔

    حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا، ’روزہ خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی عبادت ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا لہذاٰ خدا کے علاوہ کوئی اور اس کا اجر ادا نہیں کر سکتا‘۔

    r4

    حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے اپنی مناجات کے دوران بارگاہ خدا میں سوال کیا، ’خدایا! تیری نگاہ میں کیا کوئی اور بھی میری طرح محترم و مکرم ہے؟ جواب ملا: ’(خاتمیت کے) آخری زمانوں میں میرے کچھ بندے ہوں گے جنہیں میں ماہ رمضان کے روزوں کی وجہ سے یہ احترام عطا کروں گا‘۔

    اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ نے امت محمدیہ کی دوسری تمام قوموں پر برتری کا راز جاننا چاہا تو آواز آئی، ’امت محمدیہ کو میں نے 10 خصوصیات منجملہ ان کے ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی وجہ سے دوسری امتوں پر عظمت و برتری دی ہے‘۔

    رمضان المبارک میں اپنے پروردگار کے سامنے سچی نیتوں اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن حکیم کی تلاوت کرنے کی توفیق کی دعا کرنی چاہیئے۔ وہ شخص بڑا بدقسمت ہے جو اس عظیم مہینے میں خداوند کریم کی عطا و بخشش سے بہرہ مند نہ ہوسکے۔

  • عشرہ مغفرت۔۔آئیے گناہوں کو بخشوانے میں جلدی کریں

    عشرہ مغفرت۔۔آئیے گناہوں کو بخشوانے میں جلدی کریں

    اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے نعمتوں اور انعامات کا شمار ممکن نہیں لیکن اللہ کی ان نعمتوں میں رمضان المبارک کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مہینے کا انتظار رہتا تھا اور اس کا  شوق سے استقبال کرتے تھے، رمضان المبارک کا پہلا عشرہ یعنی عشرہ رحمت اختتام پذیر ہوا اور دوسرا عشرہ یعنی عشرہ مغفرت کا آغاز ہوچکا ہے۔

    post 1

    رمضان المبارک اﷲ تعالیٰ کی رحمت و بخشش اور مغفرت کا مہینہ ہے، وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اس مبارک و مقدس مہینے میں روزہ ا ورعبادت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کو راضی کیا، یہ وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیتا ہے۔

    روزہ ایسی عبادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق زندگی کے ان تمام مراحل میں کار آمد ثابت ہوتا ہے ۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے جو زندگی کے خصوصاً پہلے مرحلے میں اشد ضروری ہے ، دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے جو زندگی کے دوسرے مرحلے کے لئے کار آمد ہے کہ اس کی وجہ سے قبر میں راحت ملے گی اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے جو زندگی کے تیسرے مرحلے میں کار آمد ہے ۔

    ماہ رمضان مغفرت کا وہ عظیم الشان مہینہ ہے کہ جو شخص اس کو پانے کے بعد بھی مغفرت سے محروم رہ گیا وہ انتہائی بدقسمت اور حرماں نصیب ہے۔

    post 6

    دوسرے عشرے کی دعا

    AYAT

    حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

     "تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسرےمظلوم کی ” 

    حدیث پاک صلی اللہ علیہ وسلّم میں ارشاد ہے کہ،

    "اے لوگو ! اتنی ہی عبادت کرو جو قابلِ برداشت ہو کیونکہ اللہ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کے تم خود عبادت کرنے سے اُکتا جاؤ گے۔"

    post 10

    بہت سی قومیں ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ و استغفار کرنے کی وجہ سے ان پر سے عذاب ٹلا دیا، سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر فرمایا ،عذاب ان کے قریب آچکا تھا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہوئی اور ساری قوم اپنے گھروں سے باہر نکل آئی اور اللہ تعالیٰ سے رو کر اور گڑگڑا کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سے عذاب کو ہٹا دیا۔

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے !

    "رمضان کو اس لیے رمضان کہا جاتا ہے چونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے”

    توبہ واستغفار اس مہینہ کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے۔ جس شخص کی توبہ قبول ہوگئی، اور رب نے اسے بخش دیا، وہ رمضان کے فضائل وبرکات سے محظوظ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ ہر لمحہ توبہ واستغفار کرتے تھے۔

    حضرت عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ جب رمضان آیا تو سرور کائنات ۖ نے فرمایا ۔

    تمھارے پاس رمضان آگیا ہے یہ برکت کا مہینہ ہے اللہ تعالی تم کو اِس میں ڈھانپ لیتا ہے اِس میں رحمت نازل ہو تی ہے اور گناہ جھڑ جاتے ہیں اور اِس میں دعا قبول ہو تی ہے اللہ تعالی اِس مہینہ میں تمھار ی ر غبت کو دیکھتا ہے سو تم اللہ کو اس مہینہ میں نیک کام کرتے دکھاؤ کیونکہ وہ شخص بد بخت ہے جو اس مہینہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہا۔

    post 9

    صادق الامین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

    ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے”۔
    (بخاری، حدیث ۱۹۰۱، مسلم، حدیث ۱۷۵)۔

    اس ماہ مبارک کی آمد کا یہی وہ مبارک دن تھا جب تقریبا” پندرہ سو سال قبل مسجد نبوی کے منبر سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو یہ خوش خبری سنائی تھی۔

    لوگو ! خدا کا مہینہ برکت و رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف آ رہا ہے وہ مہینہ جو خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے جس کے ایام بہترین ایام جس کی راتیں بہترین راتیںہیں اور جس کی گھڑیاں بہترین گھڑیاں ہیں ، (اس مہینہ میں ) تمہاری سانسیں ذکر خدا میں پڑھی جانے والی تسبیح کا ثواب رکھتی ہیں تمہاری نیندیں عبادت ، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں اپنے پروردگار کے سامنے سچی نیتوں اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی توفیق کی دعا کرنی چاہئے وہ شخص بڑا بدقسمت ہے جو اس عظیم مہینے میں خداکی ان برکات سے بہرہ مند نہ ہو سکے”۔

    post 8

    روزہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روز ہ دار کے لیے شفاعت و سفارش کرے گا۔

    حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور سید عالمؐ نے ارشاد فرمایا

    روزے اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت (سفارش) کریں گے۔ روزے عرض کریں گے: ’’ اے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ، ’’ میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چناں چہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، مشکوٰۃ المصابیح)

     

    post 11

    بے شک اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخشنے کے لیے دین میں بہت سی آسانیاں فرمائی ہیں۔ ایسی ہی ایک نعمت ماہ رمضان کی صورت میں مسلمانوں کو عطا ہوئی جس میں خالق کائنات نے واضع کر دیا جو لوگ ماہ رمضان کے روزے احکام شریعت کے مطابق رکھیں اور تمام برائیوں سے بچے رہیں ان کے واسطے دینا اورآخرت کی بھلائی اور بڑا اَجر ہے اورجہیں اﷲ کی ذات انعام واَجرسے نواز دے وہی پرہیزگار اور متقی لوگ ہیں اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ ماہ رمضان میں اﷲ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں۔

  • اسلام کی خاتون اول – ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا یوم وصال آج منایا جارہا ہے

    اسلام کی خاتون اول – ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا یوم وصال آج منایا جارہا ہے

    حضرت خدیجہ ، مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ” کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔

    حضرت خدیجہؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اورام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جوکہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تھے جوکہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبطورہدیہ پیش کی گئی تھیں۔

    رسول اللہ کے نزدیک ام المومنین خدیجہؓ کی منزلت

    حضرت خدیجہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مشترکہ زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اورآپﷺ کی سیرت طیبہ میں سیدہ خدیجہؓ کو ایک خاص مقام و منزلت حاصل ہے۔ رسول اللہﷺ نزدیک آپ کے مقام و مرتبے کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں؛ یہاں تک کہ آپﷺ سیدہؓ کی وفات کے کئی برس بعد بھی آپ حضرت خدیجہؓ کو یاد کرکے آپ کے بے مثل ہونے پر زور دیا کرتے تھے؛ اور جب رسول اللہ(ص) سے کہا گیا کہ ’’خدیجہ(س) آپ کے لئے ایک سن رسیدہ بیوی سے زیادہ کچھ نہ تھیں!‘‘ تو آپ بہت ناراض ہوئے اور اس کی بات کو ردّ کرکے اشارہ فرمایا کہ "خداوند متعال نے مجھے کبھی بھی ایسی زوجہ عطا نہیں کی جو خدیجہؓ کا نعم البدل بن سکے؛ کیونکہ انھوں نے میری تصدیق کی جبکہ کسی اور نے میری تصدیق نہیں کی؛ انھوں نے میری مدد کی ایسے حال میں جبکہ کسی اور نے میری مدد نہیں کی؛ اپنے مال سے میری امداد کی جبکہ دوسروں نے اپنا مال مجھے دینے سے انکاری تھے۔

    ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1824۔

    k-post-2

    حضرت خدیجہؓ، رسول اللہﷺ کی زوجیت میں آنے کے بعد آپﷺ کے لئے بہترین زوجہ تھیں، آپ نے صداقت و عشق کے ساتھ شوہر کے عنوان سے آپﷺ کا حق ادا کیا اور وہ سکون آپﷺ کے لئے فراہم کیا جس کی خواہش مشترکہ زندگی میں ہرمیاں بیوی کو تلاش ہوتی ہے اور یہ سب کرتے ہوئے خدیجہؓ کے سامنے اللہ کی رضا و خوشنودی کے سوا کوئی بھی دوسرا مقصد نہ تھا۔

    چنانچہ رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی حیات کے دوران دوسری شادی نہیں کی اورجو توصیفات حضور اکرمﷺ نے آپ کی شان میں بیان کی ہیں، ان سے آپﷺ کے نزدیک خدیجہؓ کے اعلیٰ مقام ومنزلت کا اظہارہوتا ہے۔ شاید سیدہ خدیجہؓ کی شان میں اہم ترین اور بہترین توصیف یہی ہو کہ اسلام کی خاتون اول حضرت خدیجۃ الکبریؓ کوآپﷺ نے اپنے لئے بہترین اور صادق ترین وزیر و مشیر اور سکون و آسودگی کا سبب قراردیا ہے۔

    حضرت خدیجہؓ، خاتونِ علم و ایمان

    حضرت خدیجہؓ حقیقتاً ایک عقلمند اورشریف خاتون تھیں۔ ابن جوزی رقمطراز ہیں کہ ’’خدیجہ ـ یہ پاک طینت خاتون ـ جس کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں ـ نوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں‘‘۔آپ کی مادی قوت اور مال و دولت سے زيادہ اہم آپ کی بے انتہا معنوی اور روحانی ثروت تھی۔ آپ نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول اللہﷺ کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اوریوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتادی۔ آپ نے اس نعمت کے حصول کے لئے سب سے پہلے رسول اللہﷺ کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہﷺ کے ساتھ ادا کی۔

    ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2، ص 300۔

    اسلام کی ترقی میں جنابِ خدیجہؓ کا کردار

    حضرت خدیجہؓ نے اسلام و رسول خداﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے ملا لیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹہریں جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اوراعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے‘‘۔ چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکے، رسول خداﷺ کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کرگئیں اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔

    سليمان الکتاني کہتا ہےکہ سیدہ خدیجہؓ نے اپنی دولت حضرت محمدﷺ کو عطا کردی مگر وہ یہ محسوس نہیں کررہی تھیں کہ اپنی دولت آپﷺ کو دے رہی ہیں بلکہ محسوس کررہی تھیں کہ اللہ تعالی جو ہدایت محمدﷺ کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کررہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔

    حضرت خدیجہؓ کی مالی امداد کے بدولت رسول خداﷺ تقریبا غنی اور بےنیاز ہوگئے۔ خداوند متعال آپﷺ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہےکہ

    وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى۔

    ترجمہ: اور [خدا نے] آپ کو تہی دست پایا تو مالدار بنایا۔

    سورہ ضحیٰ (93) آیت 8۔

    رسول خداﷺ فرمایا کرتے تھےکہ

    ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة۔

    ترجمہ: کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہؓ کی دولت نے پہنچایا۔

    مجلسی، بحارالانوار، ج19، ص 63۔

    k-post-1

    ام المومنین خدیجۃ الکبرےٰ کی وفات

    منابع و ذرائع میں منقول ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کا سن وفات 10 بعد از بعثت یعنی 3 سال قبل از ہجرت مدینہ ہے۔ زیادہ ترکتب مي ہے کہ وفات کے وقت آپ کی عمر 65 برس تھی۔ ابن عبدالبر، کا کہنا ہے کہ خدیجہؓ کی عمر بوقت وفات 64 سال چھ ماہ تھی۔

    ،بعض منابع میں ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا سال وفات ابو طالبؓ کا سال وفات ہی ہے۔ ابن سعد کا کہنا ہے کہ حضرت خدیجہؓ ابو طالبؓ کی رحلت کے 35 دن بعد رحلت کرگئی تھیں۔ وہ اور بعض دوسرے مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ کی وفات کی صحیح تاریخ 10 رمضان سنہ 10 بعد از بعثت ہے۔

    رسول اللہﷺ نے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی کوہ حجون کے دامن میں، مقبرہ معلی’ یا جنت المعلی’ میں سپرد خاک کیا۔

    اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا کہ انہیں بشارت دے دیجیئے کہ اللہ نے ان کے لیے جنت میں ایک بڑا خوشنما اور پرسکون مکان تعمیر کرایا ہے۔ جس میں کوئی پتھر کا ستون نہیں ہے۔ یہی روایت امام مسلم نے حسن بن فضیل کے حوالے سے بھی بیان کی ہے۔ اسی روایت کو اسی طرح اسماعیل بن خالد کی روایت سے امام بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔

  • رمضان میں دنیا بھر کی مختلف روایات

    رمضان میں دنیا بھر کی مختلف روایات

    رمضان اور عید گو کہ مذہبی تہوار ہیں لیکن مختلف ممالک اور مختلف خطوں میں اسے مختلف رسوم و رواج اور روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ آیئے دنیا بھر میں رمضان کی روایتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    :توپ داغنا

    1

    سحر و افطار کے وقت توپ داغنے کی روایت کئی ممالک میں ہے۔

    مصر میں روایت ہے کہ ایک جرمن ملاقاتی نے مملوک سلطان الظہیر سیف الدین کو ایک توپ تحفتاً پیش کی۔ سلطان کے سپاہیوں نے یہ توپ شام کے وقت چلائی، رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور اتفاق سے افطاری کا وقت تھا۔ شہریوں نے یہ تصور کیا کہ یہ ان کو افطار کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے ہے جس پر انہوں نے روزہ کھول لیا۔

    جب سلطان کے حواریوں کو یہ ادراک ہوا کہ رمضان المبارک کے دوران سحری و افطاری کے وقت توپ چلانے سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے تو ان کو یہ روایت جاری رکھنے کا مشورہ دیا گیا۔

    آنے والے برسوں کے دوران اس نے خاصی مقبولیت حاصل کرلی اور دنیا کے مختلف مسلمان ممالک نے بھی اسے اختیار کرلیا۔

    2

    ترکی میں مختلف شہروں کی بلند ترین پہاڑی سے مقررہ وقت پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے جو روزہ کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔

    سعودی عرب میں بھی سحری کے وقت توپ چلائی جاتی ہے۔

    روس میں بھی کچھ جگہوں پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے۔

    :ڈرم بجانا، بگل بجانا

    3

    سحری کے وقت ڈرم بجا کر لوگوں کو جگانے کی روایت کئی ممالک میں موجود ہے۔

    ترکی میں ڈرمر عثمانی عہد کا لباس پہن کر ڈرم بجا کرلوگوں کو جگاتے ہیں۔

    drum

    مراکش میں ایک شخص ’نیفار‘ بگل بجا کر رمضان کے آغاز اور اختتام کا اعلان کرتا ہے۔

    :منادی کرنا

    7

    اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی (منادی کرنے والے) حضرت بلال حبشی تھے جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اہل ایمان کو سحری کے لیے بیدار کریں۔

    مکہ المکرمہ میں مساہراتی کو زمزمی کہتے ہیں۔ وہ فانوس اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں کے چکر لگاتا ہے تاکہ اگر کوئی شخص آواز سے بیدار نہیں ہوتا تو وہ روشنی سے جاگ جائے۔

    سوڈان میں مساہراتی گلیوں کے چکر لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک بچہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام افراد کی فہرست ہوتی ہے جن کو سحری کے لیے آواز دے کر اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔

    مصر میں سحری کے وقت دیہاتوں اور شہروں میں ایک شخص لالٹین تھامے ہر گھر کے سامنے کھڑا ہوکر اس کے رہائشی کا نام پکارتا ہے یا پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑا ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمد پڑھتا ہے۔

    ان افراد کو اگرچہ کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی لیکن ماہ رمضان کے اختتام پر لوگ انہیں مختلف تحائف دیتے ہیں۔

    :رمضان خمیے

    6

    سعودی عرب میں رمضان خیموں کی تنصیب عمل میں آتی ہے جہاں پر مختلف قومیتوں کے لوگ روزہ افطار کرتے ہیں۔

    یہ روایت روس میں بھی قائم ہے۔ ملک کی مفتی کونسل کی جانب سے ماسکو میں اجتماعی افطار کے لیے رمضان خیمہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    :دیگر دلچسپ روایات

    ان روایات کے علاوہ بھی رمضان میں مختلف ممالک میں کئی دیگر منفرد و دلچسپ روایات دیکھنے کو ملتی ہیں۔

    :مصر

    8

    مصر میں رمضان المبارک کے دوران بچے چمکتے ہوئے فانوس یا لالٹین اٹھا کر گلیوں کے چکر لگاتے ہیں۔ یہ روایت 1 ہزار برس قدیم ہے۔

    9

    روایت کے مطابق 969 عیسوی میں اہل مصر نے قاہرہ میں خلیفہ معز الدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا جس کے بعد سے رمضان المبارک کے دوران فانوس جلانے کی روایت کا آغاز ہوا اور ماہ رمضان کے دوران مصر میں فانوس یا لالٹین روشن کرنا روایت کا حصہ بن گیا۔

    :سعودی عرب

    10

    سعودی عرب میں ایسی بہت سی روایات ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں یا ان پر دوسری ثقافتوں کا گہرا اثر ہے۔ لوگ گھروں پر فانوس یا بلب لگاتے ہیں، دکانوں پر بھی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ رمضان المبارک کا جوش و ولولہ نظر آئے۔

    :ترکی

    11

    ترکی میں افطار کے وقت مساجد کی بتیاں روشن کر دی جاتی ہیں جو صبح سحری تک روشن رہتی ہیں۔ جدید اثرات اور یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث ترکی میں دوسرے ممالک کی طرح رمضان کے دوران ریستورانوں یا ہوٹلوں کی بندش کا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی رمضان کے دوران عوامی مقامات پر کھانے پینے کی ممانعت ہے۔

    :ایران

    12

    ایران میں افطاری کچھ مخصوص اشیا سے کی جاتی ہے جن میں چائے، ایک خاص طرح کی روٹی جسے ’نون‘ کہا جاتا ہے، پنیر، مختلف قسم کی مٹھائیاں، کھجور اور حلوہ شامل ہے۔

    :ملائشیا

    13

    ملائشیا میں زیادہ تر روزہ دار نماز تراویح کے بعد رات کے کھانے ’مورے‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن میں روایتی پکوان اور گرم چائے شامل ہوتی ہے۔

    :متحدہ عرب امارات

    14

    متحدہ عرب امارات میں رمضان المبارک کے دوران کام کے اوقات کار کم کر دیے جاتے ہیں۔ یہاں رات بھر رمضان مارکیٹ کھلی رہتی ہے۔

    :ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو

    15

    ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو میں اگرچہ مسلمانوں کی آبادی صرف 6 فی صد ہے لیکن اس کے باوجود رمضان المبارک میں خاص جوش و جذبہ دیکھنے میں آتا ہے اور مساجد میں افطار کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔

    مختلف خاندان مساجد، کمیونٹی سینٹرز یا مساجد میں روزہ افطار کروانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہر خاندان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے دوران ایک بار روزہ ضرور افطار کروائے۔

  • وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا اور مکروہ ہوجاتا ہے

    وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا اور مکروہ ہوجاتا ہے

    رمضان المبارک رحمتوں بھرا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان رحمتوں کو سمیٹنے اور رضائے الہٰی کے حصول کے لئے روزے رکھتا ہے۔

    وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے

     

    کان اور ناک میں دوا ڈالنا۔

    قصداً منہ بھر قے کرنا، البتہ طبیعت کی خرابی سے خود بخود قے آجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

    وضو کرتے وقت یانہاتے وقت اگر غلطی سے پانی حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

    کوئی ایسی چیز نگل جانا کھائی نہیں جاتی ، جیسے لکڑی، لوہا، کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ۔

    کسی خوشبودار چیز، سگریٹ اور حقے کا دھواں ناک یا حلق میں پہنچانا۔

    بھول کر کھا پی لینا پھر اس خیال سے کہ روزہ ٹوٹ گیا اور ارادتاً کھا پی لینا۔

    انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

    رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالی پھر معلوم ہوا کہ صبح صادق کے بعد کھایا پیا تھا یعنی صبح صادق ہوچکی تھی۔

     

    وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا نہیں مگر مکروہ ہوجاتا ہے

    ٹوتھ پیسٹ یا منجن سے دانت صاف کرنا بھی روزہ میں مکروہ ہیں۔

    بلاضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا۔

    کسی مریض کے لیے اپنا خون دینا۔

    جھوٹ‘ غیبت‘ چغلی‘ گالی گلوچ کرنا یا کسی کو تکلیف دینا۔

    پیاس کی حالت میں پانی کے غرارے کرنا کیونکہ اس صورت سے روزہ ضائع ہونے کا قوی امکان ہے۔

  • رمضان المبارک میں زائرین کے لیے مسجدنبوی میں خصوصی انتظامات

    رمضان المبارک میں زائرین کے لیے مسجدنبوی میں خصوصی انتظامات

    ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی مسجد نبوی ﷺ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دینے والے عاشقان رسول ﷺ روزہ داروں،نمازیوں،اور زائرین کی تعداد میں بھی غیر معمولی حد تک اضافہ ہوجاتا ہے.ہرطرف رمضان المبارک کی ایمانی رونقیں جلوہ گرہوتی ہیں،رمضان میں مسجد نبوی ﷺ کی انتظامیہ کی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں،جیسے جیسے زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ہی انتظامیہ کی جانب سے حسنِ انتظام کا مظاہرہ دیکھنے کوملتا ہے.

    02

    رواں سال مسجد نبوی ﷺ کی انتظامیہ کی جانب سے روزہ داروں،زائرین کی خدمت کے لیے پانچ ہزاررضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں.

    ماہ صیام سے قبل ہی مسجد نبوی ﷺ کے مرکزی ہال مشرقی،مغربی اور شمالی سمتوں میں بنی گیلریوں میں سولہ ہزار فٹ نئے قالین بچھائے گئے ہیں.

    05

    روزہ داروں کی پانی کی ضرورت کے پیش نظر روزانہ تین سو ٹن آب زم زم فراہم کیا جاتا ہے.آب زم زم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پندرہ بڑی مشینیں لگائی گئی ہیں،پانی پینے کے لیے تین سو پچیاسی مقامات پرنلکے لگائے گئے ہیں.

    06

    مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں دھوپ سے بچاؤ کے لیے دوسو پچاس بڑی چھتریاں لگائی گئی ہیں،جب کہ چار سو چھتیس موبائل پنکھے فراہم کیےگئے ہیں،زائرین کی رہنمائی کی خاطر مختلف غیر ملکی زبانوں میں روزہ داروں،نمازیوں کی سہولت کے لیے مسجد کے اندر غیر ملکی زبانوں میں ہدایات پر مشتمل الیکٹرانک اسکرینیں نصب کی گئی ہیں.

    03new one

    رمضان المبارک میں قرآن پاک کے تراجم دینی اور اسلامی تاریخ کی کتب سے مسجد نبوی ﷺ کی الماریاں بھرجاتی ہیں.اس سال بھی مسجد کی انتظامیہ کی جانب سےزائرین کی آسانی کے لیے اردو زبان سمیت بارہ زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کااہتمام کیا گیا ہے،دیگرزبانوں میں انڈونیشین، ترکی چینی، فرانسیسی،ملیباری،صومالی،البانوی،بوسنیائی اور دیگر زبانوں میں بھی قرآن مجید کے تراجم موجود ہیں،جن سے زائرین بھرپور استفادہ کررہےہیں.

    04

    رمضان المبارک میں مسجد نبوی ﷺ میں آنے والے زائرین کی دینی رہنمائی کے لیے علما کرام کی بڑی تعداد میں ذمہ داریاں لگائی جاتی ہیں۔ مسجد میں اسلامی دروس کا سلسلہ رمضان کے آغاز سے ہی شروع ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ رمضان المبارک کےاختتام تک بلا تعطل جاری رہتا ہے.

    07

  • دنیا بھر کی خوبصورت و تاریخی مساجد

    دنیا بھر کی خوبصورت و تاریخی مساجد

    مسجد مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تمام مسلمان اکھٹے ہو کر عبادت کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی مساجد اسلامی ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ہم یہاں دنیا کی چند خوبصورت اور تاریخی مساجد کا ذکر کریں گے جو دنیا کے مختلف ممالک میں تعمیر کی گئی ہیں۔

    مسجد الحرام ۔ مکہ مکرمہ

    m1

    مکہ مکرمہ میں واقع مسجد الحرام دنیا کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد ہے جہاں دنیا بھر سے مسلمان عبادت کے لیے آتے ہیں۔ مسجد الحرام کے لغوی معنی ہیں حرمت والی مسجد۔ مسجد حرام کی تعمیر حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعٰیل نے شروع کی۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اللہ واقع ہے جس کی طرف رخ کر کے دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ نماز ادا کرتے ہیں۔

    مسجد نبوی ۔ مدینہ منورہ

    m2

    m3

    کعبہ شریف کے بعد مسجد نبوی مسلمانوں کے لیے دنیا کا اہم ترین مقدس مقام ہے۔ مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد مسجد نبوی کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1 ہجری کو ہوا۔ حضور اکرم نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی تھی۔ مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی۔

    مسجد اقصیٰ ۔ یروشلم

    m4

    m5

    مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔

    مسجد قبلتین ۔ مدینہ منورہ

    m7

    m6

    مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں واقع ایک مسجد جہاں 2 ہجری میں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم آیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام نے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی جانب پھیرا۔ کیونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔

    نیلی مسجد ۔ ترکی

    m8

    m9

    ترکی کے شہر استنبول کو خوبصورت مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں نیلی مسجد واقع ہے۔ اس مسجد کے 6 مینار سوئیوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں جو اس مسجد کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ عثمانی عہد کے فرمانروا احمد اول نے یہ مسجد 1609 سے 1616 کے درمیان تعمیر کروائی تھی۔ مسجد میں جا بجا نیلی ٹائلیں لگی ہیں اور اسی بنا پر اس کا نام نیلی مسجد رکھا گیا ہے۔

    مسجد قرطبہ ۔ اسپین

    m10

    قرطبہ کی جامعہ مسجد تاریخی لحاظ سے غیر معمولی شہرت رکھتی ہے۔ اسے دسویں صدی عیسوی میں شاہ عبدالرحمٰن سوئم کے عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ علامہ اقبال نے بھی قرطبہ مسجد پر ایک نظم کہی ہے۔

    شیخ زید مسجد ۔ ابو ظہبی

    m11

    m13

    متحدہ عرب امارات میں واقع اس مسجد کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس مسجد میں 82 گنبد تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ مسجد کو سونے کے پانی چڑھے فانوس سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اس مسجد میں دنیا کا سب سے بڑا ہاتھ سے بنایا گیا قالین بچھایا گیا ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں دنیا کا سب سے بڑا فانوس نصب ہے۔ مسجد کے اندر خوبصورت تالاب تعمیر کیے گئے ہیں جو مسجد کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔

    مسجد جہاں نما ۔ بھارت

    m14

    مسجد جہاں نما جو جامع مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے، بھارت کے دارالحکومت دہلی کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کیا جو 1656 میں مکمل ہوئی۔ یہ بھارت کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ پرانی دلی کے مصروف اور معروف ترین مرکز چاندنی چوک کے آغاز پر واقع ہے۔ مسجد کے صحن میں 25 ہزار سے زائد نمازی عبادت کرسکتے ہیں۔

    سلطان عمر علی سیف الدین مسجد ۔ برونائی دارالسلام

    m17

    m15

    سلطان عمر علی سیف الدین مسجد سلطنت برونائی کے دارالحکومت بندری سری بیگوان میں واقع شاہی مسجد ہے۔ یہ ایشیا کی خوبصورت ترین مساجد اور ملک کے معروف سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد برونائی کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 1958 میں مکمل ہوئی اور یہ جدید اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھی جاتی ہے جس پر اسلامی اور اطالوی طرز تعمیر کی گہری چھاپ ہے۔

    محمد علی مسجد ۔ مصر

    m18

    محمد علی مسجد مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع ہے۔ یہ قاہرہ کی ایک نمایاں مسجد ہے اور اس شہر میں آنے والے سیاح سب سے پہلے اسی مسجد کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر 1830 سے لے کر 1848 کے درمیان کی گئی۔

    ملکہ آبنائے مسجد ۔ ملائیشیا

    m19

    ملائی زبان میں ’ملکہ ستریس‘ کہلائی جانے والی یہ مسجد ملائیشیا کے ایک مصنوعی جزیرے ملاکا پر تعمیر کی گئی ہے۔ اس مسجد کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پانی کی سطح بلند ہوتے ہی یہ مسجد لہروں پر بہنا شروع ہوجائے گی۔ اس مسجد کا افتتاح 2006 میں کیا گیا۔

    قل شریف مسجد ۔ روس

    m21

    m22

    قل شریف مسجد روس کے شہر قازان میں واقع ہے۔ اپنی تعمیر کے وقت یہ روس کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ اس مسجد کی تعمیر سولہویں صدی میں کی گئی۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے متعدد ممالک نے فنڈ فراہم کیے جن میں قابل ذکر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔

    حسن دوم مسجد ۔ مراکش

    m23

    m24

    جامعہ مسجد حسن دوم دنیا کی تیسری بڑی مسجد ہے۔ اس کے خاص مینار کی بلندی 210 میٹر ہے۔ سمندر کے کنارے واقع یہ عالیشان مسجد اپنے حسن سے ہر ایک کو متاثر کرتی ہے اور یہاں سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔

    ناصرالملک مسجد ۔ ایران

    m25

    m26

    ایران کے خوبصورت شہر شیراز میں قائم یہ مسجد ایک تاریخی عمارت ہے جسے 1888 میں قائم کیا گیا تھا۔ اسے مرزا حسن علی ناصر الملک نے قائم کیا تھا۔

    پاکستان کی خوبصورت مساجد

    بادشاہی مسجد ۔ لاہور

    m27

    m29

    بادشاہی مسجد سترہویں صدی میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کروائی تھی اسکا کل رقبہ 279 ہزار اسکوائر فٹ ہے۔ یہ مسجد اپنے سرخ پتھر کے بیرونی اور سنگ مرمر کے اندرونی انداز تعمیر کے سبب مشہور ہے۔

    وزیر خان مسجد ۔ لاہور

    m30

    وزیر خان مسجد سترہویں صدیں میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کروائی تھی اور یہ 1993 سے یونیسکو کے عالمی ورثے کی عارضی فہرست میں شامل ہے۔ اس مسجد میں تعمیر کا زیادہ تر کام چونے کے پتھر سے انجام دیا گیا ہے جبکہ اس کا بیرونی دروازہ سرخ مٹی کے پتھروں سے بنا ہوا ہے۔ وزیر خان مسجد اپنے نقش و نگار اور اس میں رنگوں کے حسین امتزاج کے سبب عالمی شہرت کی حامل ہے۔

    فیصل مسجد ۔ اسلام آباد

    m31

    اسلام آباد میں مارگلہ کے دامن میں دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فیصل مسجد واقع ہے اور اس کے فن تعمیر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اعرابی خیمے اور چوکور خانہ کعبہ کا شاندار امتزاج ہے۔

    مسجد مہابت خان ۔ پشاور

    m32

    پشاور کی یہ مشہور اور قدیم ترین مسجد 1670 میں کابل کے گورنر مہابت خان نے شاہی مسجد لاہور کی طرز پر تعمیر کروائی اور یہ اسی کے نام سے منسوب ہے۔

  • افطاری کے فوری بعد سگریٹ نوشی دل کی بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے

    افطاری کے فوری بعد سگریٹ نوشی دل کی بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے

    استنبول : ماہرین کا کہنا ہے روزہ افطار کرنے کے بعد سگریٹ پینے سے زیادہ خطرناک عمل کوئی نہیں۔

    افطاری کے وقت جسم کو پانی، گلوکوز اور آکسیجن کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں سگریٹ کے ایک کش سے شریانیں سکڑ جاتی ہیں اور خون میں آکسیجن مناسب مقدار میں جذب نہیں ہوتی، خون گاڑھا ہو جاتا ہے جس سے اسکے جمنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس سے دل کی دھڑکن بے ربط ہو جاتی ہے، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے ، جس سے دل کی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

    ترکی میں ہونے والی ایک تحقیق میں ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک میں افطار کے فوری بعد سگریٹ نوشی دل کی بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ جسمانی جھٹکوں کے علاوہ ہاتھ پاؤں میں کپکپاہٹ کا باعث بھی بننے لگتی ہے۔

    ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ رمضان میں سگریٹ نوشی سے خون کی شریانوں کی دیواروں کو شدید نقصان پہنچتا ہے جو باقی سال بھر پہنچنے والے نقصان سے کہیں زیادہ ہوتا ہے ، طویل وقفے کے بعد سگریٹ پینے سے جسم کا تمام مدافعتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے تاہم افطار کے تھوڑے وقفے سے سگریٹ پینے پرایسا نہیں ہوتا۔

    طبی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں دل کے امراض کے سبب اموات میں اضافہ ہوجاتا ہے اوراسی سلسلے میں سگریٹ نوشی بھی اچانک موت کا سبب بن سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایک سگریٹ انسان کی عمر آٹھ منٹ تک کم کر دیتا ہے کیونکہ اس میں چار ہزار سے زائد نقصان دہ اجزا موجود ہوتے ہیں۔ تمباکو نوشی سے انسان کو دل، پھیپھڑے، سانس، نظام ہضم، پیشاب، معدہ، جگر اور منہ کی بہت سی مہلک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ڈاکٹر نے اس بات پر زور دیا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں سگریٹ نوشی ترک کرنے کا اچھا موقع ہوتا ہے کیونکہ جب انسان روزے کی حالت میں دن بھر میں تقریباً تیرہ چودہ گھنٹے تک سگریٹ نہیں پیتا، تو یہ عمل سال بھر بھی کرسکتا ہے، اس طرح روزے دار کی طبیعت میں ایک ایسا ڈسپلن وجود پاتا ہے، جس سے وہ سگریٹ نوشی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر سکتا ہے۔

  • دہشت گردی کی مذمت میں قرآن کریم کی 11 روشن آیتیں

    دہشت گردی کی مذمت میں قرآن کریم کی 11 روشن آیتیں

    قرآن مجید فرقان حمید اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغمبراسلام ﷺ کا زندہ معجزہ ہے اس الہامی کتاب میں گزرے تمام زمانوں اور آنے والے دنوں کا حال موجود ہے۔

    بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم یقین رکھیں کہ اس کتاب الہیہ میں تمام ترمعاملات کا ذکر اور تمام تر مسائل کا حل ہے۔

    Takbeer-New3

    آج کی دنیا میں عالم اسلام کا سب سے بڑا دہشت گردی ہے اور جب کامل یقین کے ساتھ ہم نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا کہ آج کے اس سنگین مسئلے پر اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل کیا حکم دیا تو ہم پرحیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

    اللہ نے آج سے سینکڑوں سال قبل اس سنگین انسانی مسئلے کی تمام تر قسموں کی اس طرح وضاحت کی ہے اوران کی اتنے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے کہ کوئی بھی صحیح الذہن شخص یہ سوچنے پرمجبور ہوجائے گا کہ قرآن کریم واقعی تمام زمانوں کے لیے ہدایت ہے۔


    کتابِ فرقان کی روشن آیات


     

    جس نے ایک انسان کو (ناحق) قتل کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا

    سورہ مائدہ، آیت -32۔

    Nisa

    وہ لوگ جنہوں نے امن قائم کیا وہ تو مملکت الٰہیہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو مملکت الٰہیہ کے احکام کا انکار کرتے ہیں، وہ سرکش اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔
    اس لیے تم سرکش لوگوں کے سرپرستوں سے جنگ کرو۔ یقیناً سرکش لوگوں کی چالیں کمزور ہوتی ہیں۔

    سورہ نساء، آیت -76۔

    کسی مومن کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی مومن کو قتل کرے، اِلا یہ کہ اُس سے غلطی ہو جائے۔

    ۱۔۔اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے بھی قتل کر دے تو اسے (مملکت الٰہیہ کو) ایسی تحریر دینی ہے جو امن کی نگہبانی کی ضمانت دے اور اس کےاہل کے لیے سلامتی کا حق تسلیم کرے۔ الًا یہ کہ وہ صدقہ کریں۔

     

    Takbeer-New2
    ۲۔۔ لیکن اگر وہ مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو لیکن وہ مومن تھا تو ا سے (مملکت الٰہیہ کو) ایسی تحریر دینی ہے جو امن کی نگہبانی کی ضمانت دے۔

    ۳۔۔ اور اگر وہ کسی ایسی غیرمسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے اہل کے لیے سلامتی کا حق تسلیم کرے۔ اور (مملکت الٰہیہ کو) ایک ایسی تحریر دے جو امن کی نگہبانی کی ضمانت دے۔

    اور اگر وہ یہ سب نہ کر سکے تو اس کے لیے دونوں حالتوں (امن اور جنگ) کی تربیت ہے۔ یہ مملکت الٰہیہ کی طرف سے مہربانی ہے۔ اور مملکت الٰہیہ بربنائے حکمت علم والی ہے۔

    سورہ نساء، آیت -92۔

    جو شخص بھی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر مملکت الٰہیہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اس نے اس کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔

    سورہ نساء، آیت -93۔

    یقیناً جن لوگوں نے انکار کی روش اختیار کیے رکھی اور ظلم کرتے رہے، ممکن نہیں کہ مملکت ان کو معاف کر دے، اور نہ ہی ان کو کوئی راستہ دکھائے گا۔

    سورہ نساء، آیت -168۔

    Takbeer-New1

    اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا۔ کہ وہ کس گناہ پرماری گئی۔

    سورہ تکویر، آیت – 8،9۔

    جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا کہ ایسے ہی لوگ تو فسادی ہیں لیکن شعور نہیں رکھتے ۔

    Baqra

    سورہ بقرہ، آیت -11،12۔

    Shoora

    سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے امن قائم کیا اور اصلاحی عمل کئے اور مملکت الہیہ کے احکامات کو یاد رکھا اور مظلوم ہونے کے باوجود مدد کی ۔،اور عنقریب ظالموں کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کی کیا حیثیت ہے ۔

    سورہ شعراء، آیت – 227۔

    Bani-Israel

    اور تم کسی انسان سے جس کے لئے احکامات الہیہ میں ممانعت ہو لڑائی نہ کرنا سوائے اگر حق کی بات ہو، اوراگرکوئی مظلوم لڑائی کیا گیا ہو تو ہم نے اس کے سرپرست کے لئے طاقت کا استعمال مقرر کیا ہے۔اس لئے لڑائی کے معاملے میں حد سے تجاوز نہ کرنا یقیناً ہم نے اس کو مدد یافتہ قرار دیا ہے ۔

    سورہ بنی اسرائیل، آیت – 33۔

  • افطاری اور سحری میں احتیاط، ماہ صیام اچھا گزاریں

    افطاری اور سحری میں احتیاط، ماہ صیام اچھا گزاریں

    اگر آپ رمضان المبارک میں صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو تھوڑی سی احتیاط کر کے ماہ صیام کا مہینہ بہت اچھے طریقے سے گزار سکتے ہیں، طبی  ماہرین کے مطابق روزہ رکھنے سے جسم میں موجود فاضل مادہ ختم ہوتا ہے جب ہی شریعت نے روزے کو جسم کی زکوۃ کے نام سے منسوب کیا ہے۔

    سحری میں موزوں خوراک کا استعمال:

    شریعت میں سحری کو بہت اہمیت دی گئی ہے، طبی ماہرین کے مطابق سحری میں خوراک کا استعمال بہت ضروری ہے ، روزہ رکھنے کے لیے ایسی اشیاء استعمال کریں جس میں کاربوہائیڈریٹس زیادہ ہوں جیسے چکی کے آٹے کی روٹی، دلیہ، گوشت، مچھلی، مرغی، انڈے کے استعمال اور دودھ سے بنی ہوئی چیزوں کو سحری میں خوراک کے طور پر استعمال کر کے روزے کو اچھے طریقے سے گزارا جاسکتا ہے۔

    1

    حکمت سے تعلق رکھنے والے محقق کے مطابق سحری کے وقت اسپغول کی بھوسی کے استعمال سے نظام انہضام بہتر رہتا ہےاور اس سے پیٹ بھرنے کا احساس زیادہ دیر تک رہتا ہے اگر کوئی شخص سحری میں روٹی کھانے سے گریز کرتا ہے تو وہ کھجور کھا کر بھی اپنے روزے کو بہتر طریقے سے گزار سکتا ہے کیونکہ ایک کھجور میں روٹی کے برابر کی طاقت ہوتی ہے۔

    افطار کے وقت احتیاط :

    2

     روزے دار کو چاہیے کہ وہ افطار کے وقت چینی ، گھی ، تیل سے بنی ہوئی چیزوں کا استعمال کم سے کم رکھے، ایسی چیزوں کے زیادہ استعمال سے انسانی جسم میں موجود میٹا بولیزم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر افطار کے بعد سر میں درد ، سستی اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے، سارا دن معدہ خالی ہونے کی وجہ ایسی اشیاء کا فوری استعمال معدے پر سوجن بڑھا دیتا ہے  جس کی وجہ سے گیس ، قبض اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    3

    اس کے برعکس افطاری میں کھجور، دہی، پانی اور تازہ پھلوں کے استعمال سے انسانی جسم افطار کے بعد بھی کافی دیر تک ترو تازہ رہتا ہے، اگر آپ تلی ہوئی چیزیں افطار میں پسند کرتے ہیں تو تقریباً پھلوں کے استعمال سے دس منٹ  انتظار کے بعد یہ اشیاء استعمال کر سکتے ہیں۔