Tag: Ramazan 2018

  • روزے میں ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کے طریقے

    روزے میں ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کے طریقے

    رواں برس ماہ رمضان شدید گرمیوں کے موسم میں آیا ہے جس سے روزے داروں کے لیے بیک وقت دینی عبادت کرنا اور صحت کا خیال رکھنا ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے۔

    موسم گرما کے روزے میں سب سے مشکل کام جسم کو پانی کی کمی اور سارا دن پیاس نہ لگنے کے احساس سے بچانا ہے۔ خصوصاً ان افراد کے لیے جو دن کے اوقات میں سفر کے لیے نکلیں یا باہر کام کریں۔

    علاوہ ازیں گھریلو خواتین جن کا زیادہ تر وقت کچن میں چولہے کے آگے گزرتا ہے ان کے لیے بھی خود کو ہائیڈریٹ رکھنا بہت ضروری ہے۔

    ہیٹ ویو کے دوران اگر روزہ ہو تو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کہ روزے دار ہیٹ اسٹروک کا شکار نہ ہو۔

    اس ضمن میں ضروری ہے کہ آپ کو ہیٹ اسٹروک کی علامات معلوم ہوں تاکہ ان کے ظاہر ہوتے ہی آپ فوری طور ہنگامی تدابیر اور احتیاط اپنا سکیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک کی علامات اور بچاؤ

     

    کون زیادہ خطرے میں ہے؟

    ماہرین طب کے مطابق 60 سال سے زائد عمر کے افراد، اور ذیابیطس، امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض افراد کا جسم کمزور ہوتا ہے اور یہ گرمی سمیت کسی بھی چیز کا اثر فوری طور پر قبول کرلیتے ہیں۔

    لہٰذا ایسے افراد خاص طور پر جسم کے اندر پانی کی کمی نہ ہونے دیں اور اس ضمن میں خصوصی احتیاط برتیں۔

    سحروافطارمیں کیا کھایا جائے؟

    دن بھر پانی کی کمی سے بچنے اور صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ سحر و افطار میں ایسی غذاؤں کا استعمال کیا جائے جو جسم کی غذائی ضروریات بھی پوری کریں اور آپ کو توانائی پہنچائیں۔

    :ماہرین طب کے مطابق سحر وا فطار میں

    مائع اشیا جیسے پانی اور جوسز کا استعمال کیا جائے۔

    مزید پڑھیں: افطار کے لیے مشروبات

    پانی والے پھلوں خاص طور پر تربوز کا استعمال کیا جائے۔ علاوہ ازیں کھیرا اور مختلف سلاد کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔

    سحری میں کیفین مشروبات، چائے کافی سے حتی الامکان پرہیز کریں۔

    مصالحہ دار اور چٹپٹی غذاؤں کے بجائے سادہ کھانے استعمال کیے جائیں۔

    سحری میں دہی اور لسی بہترین غذائیں ہیں۔

    سحری میں کولڈ ڈرنک سے دور رہیں۔ یہ آپ کے وزن میں اضافہ کریں گی۔

    روزہ کے بعد کھجور اور 2 گلاس پانی کے ساتھ افطار کریں۔

    مزید احتیاطی تدابیر

    افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8 گلاس پانی پینا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

    رات میں نماز تراویح یا کسی اور مقصد سے گھر سے باہرجائیں تو پانی کی بوتل ساتھ لے کر جائیں۔

    رات کو ایک پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔

    کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہوں پر کم سے کم جائیں۔

    ہیٹ اسٹروک کی صورت میں

    اگر روزے دار کو پسینہ آنا بند ہوجائے، جسم ایک دم گرم ہوجائے، چکر آنے لگے تو یہ ہیٹ اسٹروک کی علامت ہے۔

    ایسی صورت میں روزہ کو مزید برقرار نہ رکھنا بہتر ہے۔ ہیٹ اسٹروک کا شکار شخص کے جسم پر ٹھنڈا پانی ڈالیں، اسے ٹھنڈے پانی کے ٹب میں بٹھا دیا جائے اور گرمی سے بچایا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سوئے منتہا وہ چلے نبیﷺ

    سوئے منتہا وہ چلے نبیﷺ

    خدا جب شعر کہنے کی صلاحیت دیتا ہے تو ہر شاعر کی خواہش ہوتی ہے کہ  کوئی ایسا کلام اس کے قلم کی زینت بن جائے جس کا چہار عالم میں ڈنکا ہو ، یہی خواہش عنبر شاہ وارثی کی بھی تھی اور اس خواہش کی تکمیل کچھ یوں ہوں کہ ‘سوئے منتہا وہ چلے نبی ‘جیسی مشہورِ زمانہ نعت انہوں نے کہی، اس نظم کو قلم بند کرنے کا واقعہ بھی انتہائی منفرد ہے۔

    جناب محمد اقبال دیوان صاحب نے اپنی کتاب ’جسے رات لے اڑی ہوا‘  میں اس نعت کے شاعر جناب عنبر شاہ وارثی کا عجیب ایک واقعہ تحریر کیا ہے۔ انہی کی زبانی سنئے۔

     ایک دن ایک بڑے سے دفتر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا تھا جہاں کبھی کراچی کے میئر بیٹھا کرتے تھے۔ فون بجا تو ایک دفتری ساتھی نے اطلاع دی کہ مشہور زمانہ قوالی "سرِ لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہا وہ چلے نبیؐ، کوئی حد ہے ان کے عروج کی” کے خالق حضرت عنبر شاہ وارثی تشریف لائے ہیں۔ مشہور قوال برادران غلام فرید مقبول صابری نے اسے گا کر امر کردیا ہے۔ دفتری ساتھی انہیں ہمارے دفتر میں لے آیا۔ اس وقت ان کی عمر اسّی برس کے لگ بھگ تھی۔صحت اب بھی اچھی تھی۔ آنکھوں میں مسحور کردینے والی چمک اور شخصیت میں ایک جکڑ لینے والی گرفت تھی۔

    ہم نے ان سے اس لاجواب نعت جو تب تک ایک قوالی کا روپ دھار کر بہت شہرت اختیار کرچکی تھی اس کے سرزد ہونے کی وارداتِ قلبی کا پوچھا۔ ارشاد فرمایا وہ ایک دن مسجد نبوی ﷺکے صحن میں عشا پڑھ کر بیٹھے تھے۔ دل پر یہ بوجھ تھا کہ ایک عمر گزری شاعری کرتے پر رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ طیّبہ پر کچھ ایسا کلام نہ کہہ سکے کہ زبان زدِعام ہو جائے۔

    دل میں بہت سا حسد حضرت امیر خسرو سے بھی تھا کہ دوہے اور گیت، راگ اور ساز ہی ان کی شہرت کے لیے کیا کم تھے کہ وہ دلوں کو برمانے والی نعت بھی ان سے لکھوادی۔ حسد اور یاس کا یہ معاملہ ہمارے مہمان عنبر شاہ صاحب تک محدود نہ تھا۔ خود امیر خسروؔ بھی ایک دن اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیا کے سامنے باب شکوہ کھول کر بیٹھ گئے کہ ایرانی فارسی گو ابو مسلم عبداللہ الشیرازی المعروف بہ حضرت شیخ سعدی نے حیرت ناک طور پربغداد کے مدرسۂ نظامیہ کی سیکھی ہوئی عربی میں (جس میں ان کا کوئی اور کلام دستیاب نہیں) چار مصرعوں کی ایک رباعی (بطرز نعت) لکھی جو ہمہ وقت لوگوں کے گھروں اور محافل میں پڑھی جاتی ہے۔

     محبوب الٰہی ؓ یہ سن کر متبسم ہوئے اور آپ نے دعا دی کہ تم بھی کچھ ایسی ہی نعت لکھو گے کہ بعد کے آنے والے رشک کریں گے۔ گو سعدی کی اس نعت کا مقام تو بہت بلند ہے۔ حضرت شیخ سعدیؒ نے جو نعت لکھی ہے وہ تو

    فرشتوں کی محافل میں بھی پڑھی جاتی ہے۔

    بلغ العلٰی بکمالہ

    آپ کے کمالات بھی بہت اعلیٰ مرتبت ہیں

    کشف الدجیٰ بجمالہ

    آپ کے کردار کے جمال سے ظلمت دور ہوگئی

    حسنت جمیع خصالہ

    اعلیٰ ترین انسانی خصائل آپ کا وصف تھے

    صلو علیہ و آلہ

    آپ پر اور آپ کی آل پر سلامتی اور رحمت ہو

    اس تذکرے اور دعا کے بعد روایت ہے کہ امیر خسرو پر ایک ایسا عالم کسی شب طاری ہوا کہ انہوں نے وہ مشہور نعت لکھی کہ

    نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم

    نہ جانے کیا مقام تھا، جہاں کل شب میں تھا

    بہ ہرسو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم

    ہر سو زخمی اہل دل،مانند پروانوں کے تڑپتے تھے

    حضرت عنبر شاہ وارثی فرمانے لگے کہ یکایک ان کی نگاہ آسمان پر اٹھی، جہاں انہیں یہ الفاظ لکھے دکھائی دیے اور انہوں نے جیب سے ڈائری نکال کر قلم بند کرلیا۔ اگر آپ غور فرمائیں تو امیر خسروؔ کا یاد آنا اور اس حوالے سے حضرت عنبر شاہ وارثی کی یہ فر مائش اور پھر یہ نعت کا وجود میں آنا کہ جس کا ماحول اور جذب وہ شب معراج والاہی ہے جوامیر خسرو کی نعت کا ہے کہ

    سہانی رات تھی، اور پُراثر زمانہ تھا

    اثر میں ڈوبا ہوا، جذبِ عاشقانہ تھا

    انہیں تو عرش پر محبوب کو بلانا تھا

    سرِ لامکاں سے طلب ہوئی

    سوئے منتہا وہ چلے نبی

    کوئی حد نہ ان کے عروج کی

    خاندانی نام سیّد عنبر علی، شہرت عنبر شاہ وارثی اور تخلص عنبر ہے۔ 1906ء میں سلطان الہند کی پریم نگری اجمیر شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد علامہ سیّد ظہور حسین چشتی اجمیری معروف صوفی بزرگ اور عالم دین تھے۔ ابتدائی تعلیم والد کی زیر تربیت ہوئی۔ بعدازاں دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف جیسی اعلیٰ درس گاہ اور علی گڑھ یونیورسٹی سے بھی فیض حاصل کیا۔

    عنبر شاہ وارثی 13 سال کی عمر میں داخل سلسلہ وارثیہ ہوئے۔ بتوسط حیرت شاہ وارثی یہ سعادت آپ کو حاصل ہوئی۔ حضرت خواجہ مقصود شاہ وارثی کے ہاتھوں 1947ء دیوہ شریف میں آپ کی احرام پوشی ہوئی۔ فن شعر گوئی میں اختر مودودی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔

    وارث نگری کا عنبرؔ خوش نوا بروز پیر 5مئی 1993ء کو سحابِ اجل کی اوٹ میں چھپ گیا۔ آپ کا مزار میوہ شاہ قبرستان جونا دھوبی گھاٹ کراچی میں مرجع خلائق ہے۔