Tag: rana-shamim

  • رانا شمیم  نے ایک اور بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع  کرادیا

    رانا شمیم نے ایک اور بیان حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرادیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جج جی بی رانا شمیم نے ایک اوربیان حلفی جمع کرادیا ، جس میں کہا ہے کہ انکوائری سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ دیگر انصار عباسی کے پاس حلف نامہ کیسے آیا؟

    تفصیلات کے مطابق سابق چیف جج جی بی رانا شمیم نے ایک اوربیان حلفی اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرادیا ، جس میں کہا ہے کہ10 نومبر 2021 کو کسی کو بتائے بغیر بیان حلفی لکھا، مرحوم اہلیہ سے وعدے کی وجہ سے حلف نامہ ریکارڈ کرنے پرمجبور ہوا۔

    بیان حلفی میں کہا گیا کہ بیان حلفی انگلینڈمیں زیرتعلیم پوتےکےپاس سیل لفافے میں رکھاگیا ،مدعی ایک سمپوزیم میں شرکت کے لیے امریکا گیا ، مدعی کو تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا، مدعی نے 17 نومبر 2021 کو واپس آنا تھا۔

    رانا شمیم کا کہنا تھا کہ 6نومبر 2021 کو سب سے چھوٹے بھائی کی موت کی خبر ملی اور 7 نومبر 2021 کو امریکا سے پاکستان روانہ ہو گیا، کسی مقدمے یاکسی جج کے حلف نامے اور نہ کسی کارروائی کے زیر التوا ہونے کاعلم تھا اور نہ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے اس معاملے کا علم تھا۔

    بیان حلفی میں کہا کہ انصارعباسی نےحلف نامہ حاصل اورمندرجات کو شائع کیا ، علم نہیں انصار عباسی کےپاس بیان حلفی کےمندرجات کیسے آئے۔

    بیان حلفی میں بتایا گیا ہے کہ عدالتی ہدایت پرمذکورہ حلف نامہ سربمہر لفافے میں رجسٹرار کو بھیج دیا گیا، مدعی نے انصار عباسی کو حلف نامہ یا مندرجات شائع کرنے کی اجازت نہیں دی۔

    رانا شمیم کا کہنا تھا کہ انصار عباسی کا فون آیا، تاہم کمزور نیٹ ورک کےباعث بات نہ ہوسکی، حلف نامے کے مندرجات پرکسی سے مشاورت نہیں کی گئی، میرے خلاف منفی کارروائی کرنا سراسر ناانصافی ہو گی۔

    بیان حلفی میں کہا گیا کہ انکوائری سےہی معلوم ہوسکتاہےکہ دیگر انصار عباسی کےپاس حلف نامہ کیسے آیا، بغیر کسی کارروائی کے رانا شمیم کو سزا دینا غیر منصفانہ ہو گا۔

    عدالت میں جمع شدہ بیان حلفی میں رانا شمیم نے کہا کہ لندن میں اپنے ٹرانزٹ قیام کے دوران بیان حلفی نوٹ کرایا، حلف نامے میں صرف اس کاذکر کیا گیا ہے جو سنا اور دیکھا لیکن حلف نامے کامواد حاصل اور شائع کرنےوالوں کےخلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

  • توہین عدالت کیس: عدالت نے  رانا شمیم کو جواب دینے کے لیے 3 ہفتے کا وقت دے دیا

    توہین عدالت کیس: عدالت نے رانا شمیم کو جواب دینے کے لیے 3 ہفتے کا وقت دے دیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کو جواب دینے کے لیے 3 ہفتوں کا وقت دے دیا ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم، میر شکیل الرحمان ودیگر کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید ،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی ، سابق چیف جج جی بی رانا شمیم،انصارعباسی ،عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے، رانا شمیم پر فرد جرم عائد کئےجانے کے بعد آج پہلی سماعت تھی۔

    چیف جسٹس نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ رانا صاحب آپ نے اپنا بیان حلفی دائر کر دیا ہے؟ رانا شمیم نے بتایا کہ میں نے اپنے وکیل کو جواب دیا ہوا ہے لیکن وہ بیمار ہیں۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے ایک بیان حلفی میں الزامات لگائے تو رانا شمیم نے کہا کہ میں نے بیان حلفی میں خود کچھ الزام نہیں لگایا، نہ ہی بیان حلفی کسی کو دیا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ نے بیان حلفی لیک ہونے پر کوئی کارروائی نہیں کی، رانا شمیم نے بتایا کہ یہ تو جنہوں نے بیان حلفی شائع کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے بیان حلفی کیسے حاصل کیا؟

    رانا شمیم کا کہنا تھا کہ میرے وکیل آئیں گے تو آپ ان سے پوچھ لیجئے گا، انہوں نے ابھی تک جواب کو حتمی شکل نہیں دی، میرے وکیل دو ہفتے کے بیڈ ریسٹ پر ہیں، مجھے 3 ہفتوں کی مہلت دی جائے۔

    جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر آپ اپنا وکیل تبدیل کر لیں تو رانا شمیم نے کہا کہ اگر میرے وکیل دو ہفتے میں ریکور نہیں ہوتے تو میں وکیل تبدیل کر لوں گا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ اس کیس میں اب کیسے آگے بڑھیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب وکیل کے دستخط سے انٹراکورٹ اپیل دائر ہو سکتی ہے تو جواب کیوں نہیں؟

    جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ پاکستان کے دو لینڈنگ اخبارات نے آپ کا بیان حلفی شائع کیا، آپ نے انہیں کوئی نوٹس بھجوایا؟ جس پر رانا شمیم نے کہا کہ نوٹس بھی جاری کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے رانا شمیم کو جواب جمع کرانے کیلئے 3 ہفتے اور آخری موقع دیتے ہوئے کیس کہ مزید سماعت 4 اپریل تک ملتوی کر دی۔

  • سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فردِ جرم چیلنج کر دی

    سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فردِ جرم چیلنج کر دی

    اسلام آباد : سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فرد جرم چیلنج کر دی، جس میں کہا کہ جنہوں نے بیان حلفی چھپایا انہیں چھوڑ کر صرف مجھ پر فردجرم غیر قانونی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے فرد جرم کے خلاف اسلام آبادہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کردی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جنہوں نے بیان حلفی چھپایا انہیں چھوڑ کرصرف مجھ پر فردجرم غیر قانونی ہے، فرد جرم عائد کرنے کا حکمنامہ کالعدم قرار دیکر کیس ختم کیا جائے۔

    سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے کہا کچھ ریکارڈ پر نہیں کہ میں نے کسی کو بیان حلفی چھاپنے کو دیا۔

    درخواست میں رانا شمیم نے انصار عباسی، میر شکیل الرحمان ، عامر غوری کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

    یاد رہے 20 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کی تھی جبکہ میرشکیل،انصارعباسی اور عامرغوری پر فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ موخر کردیا تھا۔

    بعد ازاں توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے راناشمیم کو سات مارچ تک بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے بیان حلفی کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    خیال رہے سابق چیف جج رانا شمیم نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اوران کی بیٹی کو سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججزپر دباؤ ڈالا تھا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے راناشمیم کو سات مارچ تک بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے بیان حلفی کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم ،میرشکیل ، انصار عباسی ،عامر غوری کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ ، انصار عباسی اور عامر غوری ، میر شکیل الرحمان اور انصار عباسی کی جانب سے حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔

    سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم بھی عدالت میں پیش ہوئے ، رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کی آج سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

    چیف جسٹس اطہر نے کہا کہ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے بیماری پر التوا مانگا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ بیمار ہیں ،اللہ انہیں صحت دے۔

    اٹارنی جنرل نے استدعا کی رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کے ہدایت کی جائے، رانا شمیم سے اپنے دفاع میں گواہان کی فہرست بھی لی جائے، بیان حلفی اور گواہان کی فہرست مل جائے تو آئندہ سماعت پر کارروئی آگے بڑھے گی۔

    ہائی کورٹ نے رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے اور آئندہ سماعت سے پہلے اٹارنی جنرل کو کاپی فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے رانا شمیم کے وکیل کی آج التوا کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت سات مارچ تک ملتوی کر دی۔

  • رانا شمیم کے طرز عمل اور کوتاہی سے عدالت کو بدنام کیا گیا ،(چارج شیٹ جاری)

    رانا شمیم کے طرز عمل اور کوتاہی سے عدالت کو بدنام کیا گیا ،(چارج شیٹ جاری)

    اسلام آباد: سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم ،میرشکیل الرحمان، انصارعباسی اور عامرغوری کےخلاف توہین عدالت کیس کی چارج شیٹ جاری کردی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری چرج شیٹ میں کہا گیا کہ جولائی2018میں چیف جسٹس پاکستان فیملی کےساتھ چھٹیاں گزارنے گلگت آئے، جہاں چیف جسٹس پاکستان نے عدالت کےگیسٹ ہاؤس میں قیام کیا، اس دوران راناشمیم نےچیف جسٹس پاکستان کوبہت پریشان پایا، ثاقب نثار اپنے رجسٹرار سے مسلسل فون پربات کررہے تھے، اس دوران ثاقب نثار نے مجھے جسٹس عامرفاروق کی رہائشگاہ جانےکی ہدایت کی۔

    چارج شیٹ میں کہا گیا کہ کچھ دیربعد ثاقب نثار نےجسٹس عامر فاروق سے براہ راست بات کی اور کہا کہ نوازشریف مریم نواز کو انتخابات تک جیل میں رہناچاہیے، انکی اہلیہ کی موجودگی میں بتایا کہ نوازشریف کو پھنسایاگیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ سے جاری چارج شیٹ کے مطابق 10نومبر 2021کو دستاویز رانا شمیم کےذریعےتسلیم شدہ طورپر عمل میں لائی گئی، جس میں اسلام آبادہائیکورٹ سمیت عدلیہ پر سنگین الزامات عائد کیےگئے، دستاویز کے مندرجات کو دی نیوز، جنگ اخبار نے15نومبر2021کوشائع کیا،راناشمیم کی موجودگی میں چارلس ڈی گتھری نے نوٹری کیا۔

    چارج شیٹ میں کہا گیا کہ رانا شمیم نے دستاویز کو گردش کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور دستاویز انصار عباسی تک پہنچائی ، اپنے بیان میں راناشمیم نےکہا اسے ایک سیل بند لفافےمیں رکھا جبکہ حقیقت آپ کے بیان کی تردید کرتا ہے کہ آپ نے اسے اپنے ہاتھ سےسیل کیاتھا، عدالت میں دعوے کےباوجود کہ یہ نجی دستاویزہے شائع کرنےسے روکیں۔

    چارج شیٹ میں کہا گیا کہ راناشمیم قانون دان ہونےکےناطےمبینہ واقعےکےسنگین نتائج سےواقف تھے، اس کے باوجود راناشمیم کاضمیر3سال سےزائد عرصےتک گہری نیندمیں رہا، اچانک بیدارہوا۔

    چارج شیٹ میں کہا گیا کہ اشاعت عدالتی وقار مجروح ، انصاف کی راہ کو موڑنے کا باعث بنتی ہیں، رانا محمد شمیم کے طرز عمل اور کوتاہی سے عدالت کو بدنام کیا گیا، ایسا طرز عمل عدالت اور عدالت کے ججوں کو نفرت، تضحیک اور توہین میں مبتلا کرتا ہے، جس پر توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے سیکشن 3 اور 5 کے تحت قابل سزا ہے، چارج فریم ہونے کے بعد عدالت کے ذریعے آپ (رانا شمیم ) پر مقدمہ چلایا جائے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کر دی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کر دی

    اسلام آباد :  اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پر فردِ جرم عائد کردی جبکہ میرشکیل،انصارعباسی اور عامرغوری پر فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ موخر کردیا ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم، صحافی انصارعباسی ودیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی ، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم ، میرشکیل الرحمان ،انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے کہا رانا شمیم روسٹرم پر آجائیں ان پر فرد جرم عائد کرتے ہیں، عدالت ایک حکم جاری کرچکی ہے، جس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے میرے وکیل کو پہنچنے دیں۔

    جس کے بعد عدالت نے رانا شمیم کے وکیل کی عدم موجودگی پر سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے کہا رانا شمیم، میر شکیل ، عامر غوری اور انصار عباسی پر 11 بجے فرد جرم عائد کیا جائے گی۔

    وقفے کے بعد رانا شمیم، انصارعباسی ودیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوئی تو رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کے معاون وکیل نےمزید وقت مانگ لیا، جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کا احترام کیا جائے۔

    صحافی افضل بٹ نے کہا عدالت موقع دےمعلوم نہیں تھا زیرالتواکیسز کیسے رپورٹ کریں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اخبار ،ایک آرٹیکل سے عدالت کو بدنام کیا گیا۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ اس عدالت کے ساتھ کسی کوکوئی مسئلہ ہے؟ اس عدالت کوہی دیکھ کر نریٹوبنایاگیاہے، آئینی عدالت کیساتھ بہت مذاق ہوگیا۔

    صدرہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے صحافیوں کی حد تک تحمل کی استدعا کرتے ہوئے کہا جس پوائنٹ پرہمارافوکس ہونا چاہیے بدقسمتی سے نہیں کر سکے ، ہماری میٹنگز جاری ہیں،موقع دیں ہم معاملے پراحتیاط کریں گے ، ہم نے کئی بار سمجھایا مگر ان کو لگا کہ انہوں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کا اعتماد بھی بحال کرنا ہے، زیر التوا کیسز کو کیسے میڈیا میں چلایا گیا، کسی کولائسنس نہیں دے سکتا کہ غلط خبرچلائے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ لائسنس نہیں دےسکتےکہ کوئی سائل عدالت کی بے توقیری کرے، آپ کواحساس نہیں زیر سماعت کیس پراثراندازکی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا جولائی2018سےلیکرآج تک وہ آرڈرہواجس پریہ بیانیہ فٹ آتاہو؟ ایک اخبار کےآرٹیکل کاتعلق ثاقب نثار نہیں ہائیکورٹ کیساتھ ہے، لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس عدالت کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، ایک کیس 2 دن بعد سماعت کیلئے فکس تھا جب اسٹوری شائع کی گئی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیدی صاحب آپ نے کوڑے کھائیں ہیں، کوڑے کھانے کا کیا ذائقہ ہے ، ہمارا قصور ہے ہم نے سبجوڈس رولز کی پرواہ نہیں کی ، کل کوئی تھرڈ پارٹی بیان حلفی دے گی اورآپ چھاپ دیں گے، یہ کہیں ہم صرف میسنجرہیں، تحقیق ہمارا کام نہیں توزیادتی ہے۔

    جس پر ناصر زیدی نے کہا کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بارآزاد عدلیہ کےسامنےپیش ہورہےہیں، ہم عدالتوں میں پیش ہوتےرہےمگراس باربہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔

    دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے میر شکیل، انصار عباسی،عامرغوری پر فرد جرم مؤخر کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا یہ ایک عدالتی معاملہ ہے ، فردجرم عائد کرنا بھی آئینی تقاضا ہے، میرا کسی سےغرض نہیں بلکہ صرف اسی عدالت سے ہے، 2 دن بعد کیس فکس ہے، تھرڈ پارٹی کی بیان حلفی اخبارمیں چھاپ گئی۔

    اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بالکل صحیح کہاکہ فوکس اس عدالت پرہی تھا ، آج پہلی بار میڈیا کی جانب سےدبےلفظوں میں ندامت ہے، رانا شمیم کوفیئرٹرائل کاپوراحق ہےمگرانہوں نےجوکہاوہ مان رہے ہیں ،صحافیوں کی حد تک اس کیس میں چارج فریم کو ختم کیا جائے۔

    اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ کبھی کبھی زندگی میں ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر استعمال ہوتے ہیں، عدالتیں نہیں تو سب کو گھرجانا چاہیے کیونکہ پھرجنگل میں رہ رہے ہونگے، رانا شمیم پر چارج فریم کیا جائے لیکن صحافیوں کی حد تک تحمل کیا جائے۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں یہاں اتنا نہیں لڑتاجتنااپنی حکومت میں لڑتاہوں، یہاں پرصحافیوں کی ایسوسی ایشن کےنمائندے موجود ہیں، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ سب توٹھیک ہےمگر زیدی صاحب نےنہیں بتایا کوڑاکیسے لگتا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا میں اپنے والد محترم سے پوچھ لوں گا، میری والدہ نےبھی جیل کاٹی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اخبار ہے جو بار بار ہائی کورٹ کیخلاف توہین عدالت کر رہا ہے، باقی اخبارات میں اس طرح کی خبریں نہیں ہیں، صرف جنگ اور دی نیوز اس طرح کی خبریں دے رہا ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج راناشمیم پرفرد جرم عائد کر دی ، عدالت نے راناشمیم کیخلاف فرد جرم پڑھ کر سنائی، راناشمیم کے بیان حلفی کو فرد جرم کا حصہ بنا دیا۔

    فردجرم میں کہا گیا کہ راناشمیم نے انگلینڈمیں ایک بیان حلفی ریکارڈ کرایا،آپ نے کہا سابق چیف جسٹس چھٹیوں پر گلگت بلتستان آئے تھے، آپ کے بیان حلفی کے مطابق جسٹس عامرفاروق کوثاقب نثارنےفون کیا۔

    سابق چیف جج رانا شمیم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا جو ثاقب نثار نے کہا میں نے بیان حلفی میں لکھا۔

    اسلام آبادہائیکورٹ نے رانا شمیم کی 2متفرق درخواستیں خارج کر دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی میرشکیل ،انصار عباسی ،عامرغوری پرچارج فریم نہیں کر رہے، انصارعباسی،میرشکیل،عامرغوری مجرم ہوئےتوفرد جرم عائدہوگی۔

    عدالت نے میر شکیل، انصارعباسی اورعامرغوری پرفردجرم مشروط طور پرمؤخر کردی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے مکالمے میں کہا کیا آپ نےچارج سنا اور اس کوقبول کرتےہیں ، جس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ کچھ چیزیں ماننےوالی ہیں اور کچھ نہیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا آپ اپنی غلطی تسلیم کرتےہیں؟ رانا شمیم نے جواب دیا کہ میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ پرفرد جرم عائد کر دی گئی ہے کاپی دے دی جائے گی۔

    رانا شمیم نے سوال کیا کہ صرف میرے خلاف چارج فریم ہوا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جواب دیتے ہوئے کہا ابھی باقی دیکھتے ہیں، تحریری جواب دیں اوراپنا بیان حلفی جمع کرائیں۔

    راناشمیم کا کہنا تھا کہ عدالت نےسوچ لیا ہےتومجھےپھرآج ہی سزاسنا دیں، میرے ساتھ اس طرح زیادتی نہیں ہونی چاہیے، میں ہر ہفتے کراچی سے آتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو آنا پڑے گا آپ پرفرد جرم عائد ہو چکی ہے۔

    راناشمیم نے عدالت سے مکالمے میں کہا چارج فریم صرف میرےخلاف ہوا؟ جس پر عدالت نے کہا ابھی آپ کے خلاف چارج فریم ہوا۔

    عدالت نے رانا شمیم کی شفاف انکوائری اور اٹارنی جنرل کو کیس سےالگ کرنےکی درخواستیں مسترد کردیں ، رانا شمیم نے کہا جو کرنا ہےکریں میں اکیلا ہوں، مارچ میں ایک تاریخ دیں ، میں جتنی عزت اس عدالت کی کرتا ہوں شاید ہی کوئی اورکرتا ہوں، میں بہت ڈسٹرب ہوں، 20 یا 25 فروری تک کی تاریخ دیں۔

    اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے 15 فروری تک کی تاریخ دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہے سابق چیف جج رانا شمیم نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اوران کی بیٹی کو سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججزپر دباؤ ڈالا تھا۔

  • رانا شمیم نے اپنا بیان حلفی عدالت میں پیش کردیا

    رانا شمیم نے اپنا بیان حلفی عدالت میں پیش کردیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جج جی بی رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پر سابق نائب صدر پاکستان بار کونسل امجد علی شاہ عدالت پیش ہوئے، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ میں بار بار کہہ رہا ہوں یہ توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میرا اور عدالت کا احتساب ہونا چاہئیے، اس عدالت سے جس نےبھی رجوع کیا اس کو ریلیف ملا، اس عدالت کا کنسرن صرف اپنے آپ کے ساتھ ہے، اس عدالت کی آزادی کے لئے آپ کا ہونا بہت ضروری ہے۔

    بعد ازاں رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے، چیف جسٹس نے عدالتی معاونین کو ہدایت کی کہ وہ سیل لفافہ کہاں ہے اسے لطیف آفریدی کے حوالے کریں، لطیف آفریدی اس لفافہ کو کھولنا نہیں چاہتے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سات جنوری کو فرد جرم عائد کرنے کیلئے تاریخ مقرر کردی، چیف جسٹس اطہر من اللہ ریمارکس دیئے کہ بیان حلفی نے پورے ہائی کورٹ کو مشکوک بنا دیا۔

    رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نےاپنے دلائل میں کہا کہ ابھی تک انصارعباسی، نوٹری پبلک کیخلاف کارروائی نہیں کی، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ بیان حلفی سے مستفید ہونے والا کون ہے،

    جس پر وکیل نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں بیان حلفی کیوں ریکارڈ کیا اور فائدہ کس کو ہوا، رانا شمیم کو بھی اندازہ نہیں تھا بیان حلفی سے بڑا طوفان کھڑا ہوگا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کل کلبھوشن بیان حلفی دے دیں میرا کیس نہ چلے، تو کیا بیان حلفی پر ہم کلبھوش کا کیس روک دیں گے، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔

    عدالت نے انصار عباسی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ آپ پر الزام لگایا گیا کہ رانا شمیم کی ذاتی دستاویز شائع کیں۔

    انصارعباسی نے کہا کہ رانا شمیم نے نہیں بتایا کہ دستاویز ذاتی اور ناقابل اشاعت ہیں، اٹارنی جنرل نے تمام فریقین پر فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کردی اور کہا کہ رانا شمیم کیس میں توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔

    قبل ازیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ 7دسمبر کو حکم دیا گیا تھا کہ رانا شمیم اصل بیان حلفی عدالت پیش کریں، عدالتی حکم کے مطابق لفافے کو صرف رانا شمیم ہی کھولیں گے اور رانا شمیم بتائیں گے کہ بیان حلفی کس طرح لیک ہوا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا کرتے ہیں کہ یہ سیل لفافہ نہ آپ نہ کھولیں نہ رانا شمیم کھولیں، ایڈووکیٹ جنرل کو کہتے ہیں کہ وہ اس سیل شدہ لفافہ کو کھولیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے یہ کہا تھا کہ بیان حلفی رانا شمیم خود پیش کریں یہ نہیں کہا تھا کہ سیل شدہ لفافہ بھیجیں، آپ نے کہا تھا کورئیر سروس سے بھیجا وہ ان ہی کا سیل شدہ لفافہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ پہلی کورئیر سروس کی ڈلیوری تھی جسے میں نے وصول کیا، خیال کریں کہ کہیں بیان حلفی کو نقصان نہ پہنچ جائے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے رانا شمیم سے مکالمہ کیا کہ یہ آپ کی امانت ہے جو ہم تک پہنچ گئی، رانا شمیم نے جواب دیا انہوں نے سیل شدہ لفافہ نواسے کو دیا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورئیر سروس کو دینے سے پہلے یہ ایک اوپن بیان حلفی تھا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ رانا شمیم کیا یہ بیان حلفی آپ کا ہی ہے اور آپ نے سیل کیا تھاَ؟ جس پر رانا شمیم نے جواب دیا کہ جی ہاں یہ میرا ہی بیان حلفی اور لفافہ ہے۔

    ٹارنی جنرل نے ہائیکورٹ سے استدعا کی کہ یہ بیان حلفی میں بھی دیکھوں فونٹ تو اس کا کیلبری ہے، اس کی کاپی ہمیں مہیا کی جائے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ اس بیان حلفی کو اب ہم کہاں رکھیں تو اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ اسے اب آپ اپنی ہی تحویل میں رکھیں گے، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیان حلفی کو دوبارہ سیل کرنے کا حکم دے دیا۔

  • رانا شمیم توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر

    رانا شمیم توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے تمام فریقین کو کاؤنٹر بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جج گلگت بلتستان راناشمیم کیخلاف توہین عدالت کیس پر سماعت ہوئی، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم اور میر شکیل
    الرحمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید ،ایڈوکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی ، عامر غوری ،صحافی انصار عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رانا شمیم نے درخواست میں کہا اصلی بیان حلفی پوتےنے بھیجناہے، درخواست کے مطابق بیان حلفی 3دن میں آتا ہے، جس پر عدالت نے کہا کسی کی ذاتی دستاویز شائع کرنا توقانون کی خلاف ورزی ہے۔

    سیکریٹری پی ایف یوجےناصر زیدی نے کہا کہ تاخیر بہت تلخ ہےجو کچھ یہاں ہوا ہے یا ہورہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے تاریخ سے نہیں اس کیس سےغرض ہے، میں یہاں کوئی سیاسی تقریر نہیں سنوں گا، میری عدالت پر سوال اٹھایا گیا میں اس کا ذمہ دار ہوں ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ سب نےبھی توکوڑے کھائے وہ بھی توتلخ حقیقت ہے، صرف اتنا بتائیں کہ یہ خبر صحافتی قوانین کے خلاف ہے یانہیں۔

    عدالت کو جمع کرائی گئی رانا شمیم کی درخواست اٹارنی جنرل کو دکھایا گیا، عدالت نے کہا رانا شمیم نے تحریری جواب میں کہا تھا کہ یہ ذاتی دستاویزات تھی، جس پر چیف جسٹس نے صحافی ناصرزیدی سے استفسار کیا کیا ذاتی دستاویزشائع ہوسکتی ہے ؟ بین الاقوامی سطح پر میڈیا کے قوانین موجود ہیں، تو صحافی ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ صحافی کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ حقائق کو بیان کرے۔

    اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کا تحریری جواب عدالت کو پڑھ کر سنایا اور کہا رانا شمیم نے خود کہا میں میڈیا میں شائع نہیں کرنا چاہتا تھا، بیان حلفی میڈیا میں شائع کیسے ہوا رانا شمیم ہی خودبتا سکتےہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ فریقین پر فرد جرم عائد کی جائے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ایک اخبار کی خبر نے عوام کے دلوں میں وہم پیدا کیا، چیف جسٹس انصار عباسی کی جھوٹی خبر نے سچ کو جھوٹا کر دیا، اب سچ جھوٹ ہوگیا اور عوام کوجھوٹ سچ لگنے لگا ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس عالمی عدالت انصاف کےفیصلےپرعملدرآمدکاکیس ہے، رانا شمیم کہتےہیں کہ بیان حلفی کونوٹری پبلک منظرعام پر لایا، کیا ہم اٹارنی جنرل سے معاونت لیکر نوٹری پبلک کو نوٹس کریں۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ کیا صحافت میں آپ کسی کےایڈمنسٹریشن آف جسٹس میں مداخلت کرینگے؟ ایسا نہیں ہوتا کوئی 3سال بعد زندہ ہواورعدلیہ پرکوئی بھی بات کرے، آپ سمجھتے ہیں خبر ٹھیک ہے اچھا کیا توبین الاقوامی قوانین سےسمجھائیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ بین الاقوامی صحافی کا نام دیں ،عدالتی معاون قرار دیکر رائے لیں گے، مجھے آپ پر اعتماد ہے آپ ہی عدالت کو مطمئن کریں، عدالت پرلوگوں کا بد اعتمادی آئے یہ برداشت نہیں کروں گا۔

    آپ کہتے ہیں ایسا تو ہوتا آیا ہےتوواضح کردیں،یہ ہائیکورٹ ہے، مجھےقانون ،تاریخ سے بتائے اسلام آباد ہائیکورٹ کےججزکابتائیں، یہ ہائیکورٹ اوریہاں احتساب میراہوگا،سب کی ذمہ داری میری ہے، کوئی جج اسٹیک ہولڈر نہیں، تمام ججز احتساب کیلئے تیار ہیں۔

    دوران سماعت راناشمیم چیف جسٹس ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہوئے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا رانا شمیم آپ کے وکیل کہاں ہیں، جس پر رانا شمیم نے بتایا وکیل راستے میں ہیں ،پہنچنےوالے ہیں۔

    چیف جسٹس نے انصار عباسی سے مکالمے میں کہا کہ نہ آپ اہم ہے اور نہ ہم، سب سے زیادہ یہاں کے عوام اور سائلین اہم ہیں، فردوس عاشق توہین عدالت کیس میں اپنے لئے اسٹینڈرڈ طے کئے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصار عباسی اور رانا شمیم کے بیانات میں واضح فرق ہے ،رانا شمیم کے بیان حلفی پر انصار عباسی کاؤنٹربیان حلفی جمع کرائیں، جس پر عدالت کا انصار عباسی سے کہنا تھا کہ آپ نے اورکچھ نہیں کرنا بس عدالت کو مطمئن کرناہے، مطمئن کریں خبر قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔

    اسلام آباد:عدالت کی انصار عباسی کو شائع شدہ خبر پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا آپ نے جو بھی بتانا ہے بیان حلفی جمع کرائیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے کوشش کہ لوگوں کا اس عدالت پر اعتماد بحال ہو ،کسی خبر سے لوگوں کا عدالت پر اعتماد اٹھ جائےناقابل برداشت ہوگا۔

    یف جسٹس نے ناصرزیدی سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا میری عدالت کا کوئی قصورہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورٹ رپورٹرز کے پروفیشنلزم کابھی حوالہ دیتے ہوئے کہا وکلا اور کورٹ رپورٹرز سے کچھ نہیں چھپا،انکوچیزوں کا پتہ ہے۔

    عدالتی معاون ناصر زیدی نے عدالت کو درگزر کرنے کا عندیہ دیا ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج یہاں روک گیا توسلسلہ چلتارہےگا ،عوام بد اعتماد ہوں گے ، میرےخلاف پروپیگنڈا کیا گیا مگر میں نے کبھی پرواہ نہیں کی، یہاں میری ذات کانہیں میری عدالت کامعاملہ ہے۔

    عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر کردیا اور تمام فریقین کو کاؤنٹر بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کردی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئندہ سماعت تک راناشمیم کااصلی بیان حلفی عدالت پہنچ جائے گا۔

    بعد ازاں اسلام آبادہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس کی سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے گزشتہ سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیرون ملک جانے سے روکتے ہوئے توہین عدالت کیس میں پیر تک اصل بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

  • رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں، تحریری حکم نامہ جاری

    رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں، تحریری حکم نامہ جاری

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے راناشمیم، میرشکیل الرحمان، انصارعباسی اور عامرغوری کو تیرہ دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے حلف نامے کے مندرجات کو لاپرواہی سے رپورٹ کیا گیا ، رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کیس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا گیا ، سلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ رانا شمیم، میر شکیل الرحمان ، انصارعباسی اور عامرغوری کو 13دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا، توہین عدالت کی کارروائی میں فریقین کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔

    تحریری حکم نامے میں کہنا ہے کہ رانا شمیم کے تحریری جواب کا جائزہ لینے سے مؤقف کا پتا چلےگا، رانا شمیم نے بتایا انھوں نے کسی کیساتھ بیان حلفی  شیئر نہیں کیا، اصل بیان حلفی لندن کے لاکرمیں ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کو بیان حلفی ہائی کورٹ میں جمع کرانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے لندن میں مدد کیلئے خط و خطابت کی کاپیاں ریکارڈ پر رکھی ہیں۔

    حکم نامے کے مطابق رانا شمیم نے الزام لگایا حلف نامے کی کاپی شیئر نہیں کی اور نہ انصار عباسی، عامر غوری ، میرشکیل الرحمان سے حلف نامہ شیئر کیا۔

    تحریری حکم نامے میں بتایا گیا کہ رانا شمیم نے الزام لگایا کہ حلف نامہ ان کی رضا مندی سے نہیں شائع ہوا، اس پورے معاملے کے ذمہ دار کے خلاف سنگین  نتائج ہوسکتے ہیں، حلف نامے کے مندرجات پھیلانے کے ارادے سے جلد بازی میں شائع کیا۔

    عدالت کے مطابق رانا شمیم نے کہا 15 جولائی2018 کو ثاقب نثار کی ہائی کورٹ جج سے گفتگوسنی تھی، رانا شمیم نےاس وقت کے ڈویژن بینچ کا بھی حوالہ دیاہے، 3 سال سے زائد خاموشی سے رانا شمیم کی ساکھ پرسنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔

    حکم نامے میں کہا ہے کہ خبر کی اشاعت کا وقت بہت اہم ہے، کیونکہ یہ وقت ان اپیلوں سے متعلق ہے جوسماعت کیلئےمقرر تھیں، ایک اخبار کے رپورٹر  اور  پبلشر پربھی سوال اٹھتا ہے۔

    تحریری حکم نامے کے مطابق اصل حلف نامہ اورشائع ہونیوالےکے مندرجات میں صداقت پرسوالیہ نشان ہے، راناشمیم کیلئے اہم ہے وہ عدالت کے سامنے اصل حلف نامہ لائیں ، زیرسماعت اپیلوں پر فریقین کےمنصفانہ ٹرائل کے حق کو متاثر کرتےہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتاہے حلف نامے کے مندرجات کولاپرواہی سےرپورٹ کیاگیا، بڑے پیمانے پر عوام میں یہ حلف نامہ پھیلایا گیا، ایک اخباری  رپورٹر  اور  پبلشر نے عدالت پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی اور مبینہ مخالفوں کی جانب سے جمع کرائے جواب ٹال مٹول نظر آرہےہیں۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم کو آخری موقع دیتےہیں عدالت کےسامنےاصل حلف نامہ لائیں، اسلام آبادہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس  پر  مزید سماعت 13 دسمبر کو ہوگی، فریقین مطمئن کریں کیوں نہ ان پر فرد جرم عائدکرکےقانونی کارروائی کی جائے۔

    خیال رہے گزشتہ سماعت پر میرشکیل الرحمان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکی تھی ، سابق چیف جج راناشمیم کی جانب سے لطیف آفریدی  پیش ہوئے تھے اور رانا شمیم کی جانب سے جواب ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔

    تاہم عدالتی حکم کے باوجود رانا شمیم نے حلف نامہ ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ، اٹارنی جنرل کی جانب سےلندن میں مدد کیلئےخط وخطابت کی کاپیاں ریکارڈ پر رکھ دی ہیں۔

  • حکومت پاکستان کا سابق چیف جج رانا شمیم  کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ

    حکومت پاکستان کا سابق چیف جج رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت پاکستان نے ملک سے فرار ہونے کے خدشے کے پیش نظر سابق چیف جج راناشمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان نے سابق چیف جج راناشمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ، اس حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے چیف کمشنر اسلام آباد کو مراسلہ لکھ دیا ہے۔

    مراسلے میں کہا ہے کہ رانا محمد شمیم کوہائیکورٹ کےسامنے توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے، خدشہ ہے کہ رانا شمیم ملک سے فرار ہوسکتے ہیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی جانب سے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست ہے رانا شمیم کانام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئےکارروائی شروع کریں، رانا شمیم کیس کی اگلی سماعت 13 دسمبر کو ہے ، فوری نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔

    یاد رہے گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی تھی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ توہین عدالت کا ہے، ای سی ایل میں نام ڈالنا حکومت کا کام ہے، کرپشن اور دیگر معاملات میں نہیں جانا۔