Tag: Rana Shamim contempt case

  • توہین عدالت کیس :  رانا شمیم، میرشکیل، انصارعباسی اور عامرغوری پر فرد جرم کی کارروائی موخر

    توہین عدالت کیس : رانا شمیم، میرشکیل، انصارعباسی اور عامرغوری پر فرد جرم کی کارروائی موخر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، انصار عباسی اور عامر غوری پر فرد جرم کی کارروائی بیس جنوری تک موخر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم، صحافی انصارعباسی ودیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالدجاویدخان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنیازاللہ نیازی ، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے جبکہ میرشکیل الرحمان پیش نہ ہوئے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاانصارعباسی عدالت میں موجود ہیں، آپ نے جواب میں لکھا مجھے بیان حلفی کےسچ یا جھوٹ کا نہیں معلوم تھا، بہت سے لوگوں کو نہیں معلوم زیر سماعت کیسز پر نہیں بول سکتے، اس وقت بینچ میں ایک جج شامل نہیں تھا اس کوشامل کیاگیا، مجھے ہر دفعہ لندن کی عدالت کی مثال دینا پڑتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا میرشکیل الرحمان کیوں عدالت میں موجودنہیں، عدالت نے میرشکیل الرحمان کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا ، جس پر انصارعباسی نے بتایا میرشکیل الرحمان اوراس کی بیگم کوکورونا وائرس ہوگیا ہے۔

    چیف جسٹس نے انصارعباسی سے مکالمے میں کہا آپ نے عدالتی سوال کاجواب دیناہے، جس پر انصارعباسی کا کہنا تھا کہ عدالت کےسوالوں کا جواب رانا شمیم نےدیناہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ انصارعباسی نے زیرالتواکیسز کے بارےمیں اخبارمیں لکھا، جس پر انصارعباسی نے جواب دیا کہ زیر التوا کیس کوئی نہیں تھا تو چیف جسٹس نے کہا آپ کااپناکیس زیر سماعت ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ایک بارپھرمیرشکیل الرحمان کی اخبار نے توہین عدالت کی، انصارعباسی کو بہت سمجھانےکی کوشش کی، جس پر انصار عباسی کا کہنا تھا کہ عدالت پہلے سن لے تو چیف جسٹس نے کہا فرد جرم عائد کرنے کے بعد سن لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ انصارعباسی آپ بار بار کہہ رہے ہیں مجھے سچ جھوٹ نہیں معلوم تھا، یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی عدالت دباؤ میں آسکتی ہے، اس عدالت کو آزادی صحافت کا زیادہ احساس ہے، آپ کہہ رہے ہیں رانا شمیم نے جو حلفیہ بیان دیا جو جھوٹا بھی ہو سکتا ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا انصارعباسی آپ نے پھر بھی یہ خبرچھاپ دی، جس پر انصارعباسی کا کہنا تھا کہ زیر التوا کیسز پر بات نہیں کی، ظفرعباس نے ٹوئٹ کیا اگربیان حلفی میرے پاس ہوتا تو چھاپ لیتا۔

    جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے شکر ہے ظفرعباس نے نہیں چھاپہ ورنہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا، جنگ اخبار صحافتی تنظیموں سے متعلق خبریں چھاپ رہا ہے، جنگ اخبارکی خبریں کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔

    چیف جسٹس نے ملزم انصار عباسی سے سوال کیا کہ بیانات دینےوالی عالمی تنظیموں کو آپ نے ہائی کورٹ کا آخری آرڈر بھیجا؟ آپ اب اس عدالت کو عالمی سطح پر بدنام کرنا چاہتے ہیں؟ انصارعباسی کا کہنا ہے جھوٹ بھی ہوا تو بھی اخبار میں چھاپنا ہے۔

    عدالتی معاون نے سابق جج شوکت عزیز کے پنڈی بار سے خطاب کا حوالہ دیا ، جس پر عدالت کا اظہار برہمی کیا۔

    عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا صحافی کا کبھی ایسا خیال نہیں ہوتاکہ توہین عدالت کرے، انصارعباسی تھوڑا انتظار کرتے ،مزید معلومات لیتے، صحافی کی حدتک معاملہ توہین عدالت کا نہیں، صحافی کی حد تک کہوں گا رانا شمیم کی حد تک نہیں۔

    چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا لطیف آفریدی آپ کوغصے سے دیکھ رہے ہیں، عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ ریکارڈ میں ایسا کچھ نہیں جس سے ثابت ہوسکے کہ توہین عدالت ہوئی، انصار عباسی سے درخواست ہے یہ اپنے مؤقف سے ہٹ جائیں، ہم سب آپ سے سیکھ رہےہیں۔

    انصار عباسی نے عدالت سے چارج فریم نہ کرنے کی استدعا کردی ، جس پر عدالت نے کہا چارج فریم ہوگا تو ہی عدالت آپ کوسنے گی۔

    دوران سماعت ناصر زیدی کا کہنا تھا کلہ صحافیوں کےہرمشکل وقت میں آپ نےہی ہمیں انصاف دیا، آپ نے ہی کہا کہ غلطی انجانے میں ہوسکتی ہے، چارج فریم نہ کریں کوئی درمیانی راستہ نکال دیں، جس پر عدالت نے کہا کچھ عالمی ادارے اس عدالت پراظہاررائے پر پابندی کا الزام لگا رہے ہیں۔

    عدالت نے انصارعباسی سے استفسار کیا کہ عدالت کا آخری فیصلہ کسی عالمی ادارےکوبھیجا؟ جس پر انصار عباسی نے بتایا جس ادارے نے کہا اس نے عدالتی حکم کا نہیں اٹارنی جنرل کا نمبر مانگا تھا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق چیف جج رانا شمیم، صحافی انصارعباسی و دیگر کیخلاف فرد جرم کی کارروائی آئندہ سماعت تک مؤخر کر دی۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ میر شکیل الرحمان اس وقت عدالت میں نہیں ہے، میرشکیل الرحمان اور باقی تمام کی موجودگی میں فردجرم عائد ہوگی۔

    عدالت نے سماعت کے دوران میر شکیل کی آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک پر حاضری کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت 20 جنوری تک کے لئے ملتوی کر دی۔

  • رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں، تحریری حکم نامہ جاری

    رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں، تحریری حکم نامہ جاری

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے راناشمیم، میرشکیل الرحمان، انصارعباسی اور عامرغوری کو تیرہ دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے حلف نامے کے مندرجات کو لاپرواہی سے رپورٹ کیا گیا ، رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کیس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا گیا ، سلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ رانا شمیم، میر شکیل الرحمان ، انصارعباسی اور عامرغوری کو 13دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا، توہین عدالت کی کارروائی میں فریقین کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔

    تحریری حکم نامے میں کہنا ہے کہ رانا شمیم کے تحریری جواب کا جائزہ لینے سے مؤقف کا پتا چلےگا، رانا شمیم نے بتایا انھوں نے کسی کیساتھ بیان حلفی  شیئر نہیں کیا، اصل بیان حلفی لندن کے لاکرمیں ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کو بیان حلفی ہائی کورٹ میں جمع کرانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے لندن میں مدد کیلئے خط و خطابت کی کاپیاں ریکارڈ پر رکھی ہیں۔

    حکم نامے کے مطابق رانا شمیم نے الزام لگایا حلف نامے کی کاپی شیئر نہیں کی اور نہ انصار عباسی، عامر غوری ، میرشکیل الرحمان سے حلف نامہ شیئر کیا۔

    تحریری حکم نامے میں بتایا گیا کہ رانا شمیم نے الزام لگایا کہ حلف نامہ ان کی رضا مندی سے نہیں شائع ہوا، اس پورے معاملے کے ذمہ دار کے خلاف سنگین  نتائج ہوسکتے ہیں، حلف نامے کے مندرجات پھیلانے کے ارادے سے جلد بازی میں شائع کیا۔

    عدالت کے مطابق رانا شمیم نے کہا 15 جولائی2018 کو ثاقب نثار کی ہائی کورٹ جج سے گفتگوسنی تھی، رانا شمیم نےاس وقت کے ڈویژن بینچ کا بھی حوالہ دیاہے، 3 سال سے زائد خاموشی سے رانا شمیم کی ساکھ پرسنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔

    حکم نامے میں کہا ہے کہ خبر کی اشاعت کا وقت بہت اہم ہے، کیونکہ یہ وقت ان اپیلوں سے متعلق ہے جوسماعت کیلئےمقرر تھیں، ایک اخبار کے رپورٹر  اور  پبلشر پربھی سوال اٹھتا ہے۔

    تحریری حکم نامے کے مطابق اصل حلف نامہ اورشائع ہونیوالےکے مندرجات میں صداقت پرسوالیہ نشان ہے، راناشمیم کیلئے اہم ہے وہ عدالت کے سامنے اصل حلف نامہ لائیں ، زیرسماعت اپیلوں پر فریقین کےمنصفانہ ٹرائل کے حق کو متاثر کرتےہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتاہے حلف نامے کے مندرجات کولاپرواہی سےرپورٹ کیاگیا، بڑے پیمانے پر عوام میں یہ حلف نامہ پھیلایا گیا، ایک اخباری  رپورٹر  اور  پبلشر نے عدالت پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی اور مبینہ مخالفوں کی جانب سے جمع کرائے جواب ٹال مٹول نظر آرہےہیں۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم کو آخری موقع دیتےہیں عدالت کےسامنےاصل حلف نامہ لائیں، اسلام آبادہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس  پر  مزید سماعت 13 دسمبر کو ہوگی، فریقین مطمئن کریں کیوں نہ ان پر فرد جرم عائدکرکےقانونی کارروائی کی جائے۔

    خیال رہے گزشتہ سماعت پر میرشکیل الرحمان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکی تھی ، سابق چیف جج راناشمیم کی جانب سے لطیف آفریدی  پیش ہوئے تھے اور رانا شمیم کی جانب سے جواب ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔

    تاہم عدالتی حکم کے باوجود رانا شمیم نے حلف نامہ ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ، اٹارنی جنرل کی جانب سےلندن میں مدد کیلئےخط وخطابت کی کاپیاں ریکارڈ پر رکھ دی ہیں۔