Tag: rao anwar

  • نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    کراچی : انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسو د قتل کیس میں بڑی پیش رفت کرتےہوئے واقعے کو ماورائے عدالت قتل قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی ۔ عدالت نے نقیب اللہ سمیت 4 افراد کے قتل کو ماورائے عدالت قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قائم پانچ مقدمات ختم کرنے کی رپورٹ منظور کرلی۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انکوائری کمیٹی اورتفتیشی افسرنےجائےوقوعہ کامعائنہ کیا۔پولٹری فارم میں نہ گولیوں کےنشان ملےنہ دستی بم کےآثارملے۔

    انکوائری رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود ،صابر،نذرجان،اسحاق کودہشت گردقراردیکرقتل کیاگیا۔حالات وواقعات اورشواہدمیں یہ مقابلہ خودساختہ اوربےبنیادتھا۔

    تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ نقیب اللہ اورچاروں افرادکوکمرےمیں قتل کرنےبعداسلحہ رکھاگیا اور اس موقع پر سندھ پولیس کے سابق افسر راؤانواراوران کےساتھی جائےوقوعہ پرموجودتھے۔

    پس منظر


    واضح رہے گزشتہ برس 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا۔ ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انواراور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پرجھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

    اس مقدمے میں سابق پولیس افسر راؤ انوار کو مرکزی ملزم نامزد کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا ، تاہم بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ لیکن عدالت کے حکم پر ان کا نام ای سی ایل میں داخل ہے اور اور ان کا پاسپورٹ حکام کے پاس جمع ہے جس کے سبب ان کے ملک سےباہر جانے پر پابندی ہے۔

  • چار سو قتل کے بعد راؤانوار عمرہ کرنا چاہتا ہے؟ نقیب اللہ محسود کے والد

    چار سو قتل کے بعد راؤانوار عمرہ کرنا چاہتا ہے؟ نقیب اللہ محسود کے والد

    کراچی : نقیب اللہ محسود کے والد نے مرکزی ملزم راؤانوار کی درخواست مسترد ہونے پر کہا کہ چار سو قتل کے بعد راؤ انوار عمرہ کرناچاہتاہے؟ اس نے ایسا کیا اچھا کام کیا ہے کہ اس کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست مسترد ہونے پر مقتول نقیب کے والد نے اطمینان کا اظہار کیا۔

    عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود کا کہنا تھا چار سوقتل کے بعد راؤ انوار عمرہ کرناچاہتا ہے؟ اس نے ایسا کیا اچھا کام کیا ہے کہ اس کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے، 13 جنوری کو نقیب کی برسی کراچی میں منائیں گے۔

    خیال رہے سپریم کورٹ نےنقیب قتل کیس کے ملزم راؤانوارکی ای سی ایل سےنام نکالنےکی درخواست مسترد کردی تھی ، چیف جسٹس نےراؤ انوارکوسہولتوں کی فراہمی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا راؤ انوار بری کیسے ہوگیا؟ ایک جوان بچہ مار دیا کوئی پوچھنے والا نہیں۔

    مزید پڑھیں : نقیب قتل کیس کے ملزم راؤانوار کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست مسترد

    واضح رہے گذشتہ سال 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    نوجوان کی ہلاکت کے تین روز بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نقیب کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا گیا تھا، جس کے بعد نقیب اللہ محسود کے والد نے کہا تھا کہ میرا بیٹا بے گناہ تھا اس بات کی گواہی پورا پاکستان دے رہا ہے، آرمی چیف اور وزیر اعظم انصاف دلوائیں۔

  • نقیب قتل کیس کے ملزم راؤانوار کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست مسترد

    نقیب قتل کیس کے ملزم راؤانوار کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےنقیب قتل کیس کے ملزم راؤانوارکی ای سی ایل سےنام نکالنےکی درخواست مسترد کردی، چیف جسٹس نےراؤ انوارکوسہولتوں کی فراہمی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا راؤ انوار بری کیسے ہوگیا؟ ایک جوان بچہ مار دیا کوئی پوچھنے والا نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں راؤانوار کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نےراؤ انوارکی ای سی ایل سےنام نکالنےکی درخواست مسترد کردی۔

    وکیل صفائی کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا راؤ انوار بری کیسے ہوگیا؟ ٹھیک ہے وہ ضمانت پررہیں مگر پاسپورٹ اسے کیوں دیا گیا؟ راؤ انوار باہر جانے کی بات کر رہاہےاس کاتو پاسپورٹ ضبط ہوناچاہیے، جس پر وکیل راؤ انوار نے کہا اس کا پاسپورٹ پہلے ہی اتھارٹیز کے پاس موجود ہے۔

    وکیل صفائی نے جب یہ کہا کہ راؤ انوار کی فیملی ملک سے باہر مقیم ہے، تو چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے یہاں سے کمایاہوا پیسہ باہر منتقل کرنا چاہتا ہوگا، گھر والوں سے کہیں وہ یہاں آکر راؤانوارسےمل لیں، ہم اس کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالتے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح ہم نے راؤ انوار کو پکڑوایا ہے ہمیں معلوم ہے۔آپ کو پتہ ہے وہ کتنے دن مفرور رہا؟ آپ کو پتہ ہے وہ کتنے دن مفرور رہا؟ ہم اس کو کیسے لائے ہیں ہمیں اندازہ ہے، جائیں ہم آپ کی درخواست منظور نہیں کررہے۔

    چیف جسٹس نے راؤ انوار کو سہولتیں فراہم کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کرتےہوئے کہا پہلے کیوں نہ بتایا راؤانوار سےخصوصی برتاؤکیا جارہا ہے، راؤانوارریاست کے لیےاتنا اہم ہے کہ خصوصی سلوک کیا جائے ؟ ایک جوان بچہ مار دیا کوئی پوچھنے والا نہیں، اب باہر جانا چاہتا ہے۔

    یاد رہے 28 دسمبر کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے سپریم کورٹ میں ایک متفرق درخواست دائر کی تھی، جس میں نام ای سی ایل سے نکالنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف قتل کے مقدمے میں ٹرائل سست روی کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں فیصلے کا کوئی امکان نہیں اس لئے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے احکامات جاری کئے جائیں تاکہ وہ بیرون ملک اپنے بچوں سے ملاقات کے لئے جاسکے۔

    واضح رہے گذشتہ سال 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

  • راؤ انوار کا محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کرنے کا عندیہ

    راؤ انوار کا محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کرنے کا عندیہ

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی کردار اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار نے محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کاعندیہ دے دیا اور کہا کہ جے آئی ٹی میں میرا فون نمبر تک غلط درج کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار نے کہا کہ محرم کےبعد اہم پریس کانفرنس کروں گا، 5اعلیٰ افسران بھی جے آئی ٹی میں تفتیش صحیح نہیں کرسکے۔

    راؤ انوار کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں میرافون نمبرتک غلط درج کیا گیا، 21 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش ہوا، میرا نمبر کراچی میں چل رہا تھا، یہ نمبر جب کراچی میں چل رہا تھا تو کسی کو کیوں نہیں پکڑا گیا۔

    اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی، عدالت نے مفرور ملزمان سابق ایس ایچ اوامان اللہ ، شعیب شوٹر سمیت12ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 3 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    سماعت میں تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ جمع کرائی ، رپورٹ میں کہا کہ مفرور ملزمان سابق ایس ایچ او امان اللہ ، شعیب عرف شوٹر سمیت دیگر روپوش ہیں،کوشش کررہے گرفتار کرلیا جائے۔

    یاد رہے نقیب اللہ قتل میں مبینہ طور پر ملوث مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو رہا کردیا گیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

  • راؤانوار کی ضمانت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر

    راؤانوار کی ضمانت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر

    کراچی : سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے مقدمے میں ضمانت کے خلاف درخواست دائر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ محسود کے والد نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے مقدمے میں ضمانت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    مقتول نقیب اللہ کے والد نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ملزم راؤ انوار کو ضمانت دینے سے مقدمات پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔

    درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ملزم کی ضمانتیں منسوخ کی جائیں اور گرفتار کرکے شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور ملزم راؤ انوار کو گرفتارکرکے جیل منتقل کیا جائے۔

    نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار ضمانت پر رہا

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 21 جولائی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دو مقدمات میں راؤ انور کے ریلیز آرڈر جاری کیے تھے جس پرعمل درآمد کرتے ہوئے انہیں رہا کردیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم راؤ انوار کی ایک ضمانت 10 جولائی کو اور دوسری 20 جولائی کو منظور کی تھی۔

    ملزم راؤ انوار کی جانب سے 10،10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے جانے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے راؤ انوار کی رہائی کے احکامات پردستخط کیے تھے۔

  • راؤ انوار کی دوسرے مقدمے میں بھی ضمانت منظور

    راؤ انوار کی دوسرے مقدمے میں بھی ضمانت منظور

    کراچی :  انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو دوسرے مقدمے میں بھی ضمانت مل گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشتگردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے ملزم راو انوار کی دھماکہ خیز مواد اور غیرقانونی اسلحہ برآمدگی کیس میں بھی ضمانت منظور کرلی اور ساتھ ہی 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

    راؤ انوار کی جانب سے 5،5 لاکھ روپے کے ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس پیش کیے گئے، جس کی تصدیق کیلئے متعلقہ اداروں کو خط لکھ دیا گیا۔

    نقیب اللہ کے والد محمد خان کے وکیل نے اے ٹی سی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

    یاد رہے کہ 10 جولائی کو ملزم راو انوار کی ایک مقدمے میں پہلے ہی ضمانت ہو چکی ہے۔


    مزید پڑھیں :  نقیب اللہ محسود قتل کیس ، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور


    راؤانوار کی جانب سے عدالت سے ضمانت کی درخواست کی گئی تھی، جس میں سابق ایس ایس پی ملیرکی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جب نقیب اللہ کا قتل ہوا تو وہ جائے وقوعہ پرموجود نہیں تھے، کیس کے چالان جے آئی ٹی اور جیو فینسنگ رپورٹ میں تضاد ہے۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • آج ثابت ہوگیا میں بے قصور ہوں ، وقت آنے پر سب بتاؤں گا کس نے مجھے پھنسایا، راؤانوار

    آج ثابت ہوگیا میں بے قصور ہوں ، وقت آنے پر سب بتاؤں گا کس نے مجھے پھنسایا، راؤانوار

    کراچی: سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار کا کہنا ہے کہ آج ثابت ہو گیا میں بے قصور ہوں ، وقت آنے پر سب بتاؤں گا کس نے مجھے پھنسایا، جائے وقوع پر نہیں تھا ، ضمانت ملنے پر اللہ کا شکر گزار ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار نے نقیب اللہ کیس میں ضمانت منظور ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ثابت ہو گیا میں بے قصور ہوں ، مجھے بدنیتی کی بنیاد پر مقدمے میں ڈالا گیا، مقدمے میں نقیب کو پکڑنے اور مارنے والوں کا ذکر نہیں۔

    راؤانوار کا کہنا تھا کہ جائےوقوع پر نہیں تھا ،ضمانت ملنے پر اللہ کا شکر گزار ہوں، 99 گواہوں میں سے کسی نے میرا نام نہیں لیا ، کیس خراب کیا گیا اصل ملزمان بھی بچ جائیں گے۔

    سابق ایس ایس پی ملیر نے کہا کہ استغاثہ یہ معلوم نہیں کرسکا نقیب اللہ کو کب گرفتار کیا گیا ، بڑے واقعے پر آئی جی سندھ بھی پریس کانفرنس کرتا ہے، وقت آنے پر سب بتاؤں گا کس نے مجھے پھنسایا۔


    مزید پڑھیں  : نقیب اللہ محسود قتل کیس ، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور


    اس سے قبل کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور کرلی گئی اور 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    یاد رہے گذشتہ ماہ نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ نہ میں نے نقیب اللہ کو پکڑوایا، نہ مارا سب ریکارڈ موجود ہے، پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا، جے آئی ٹی میں میرا فون نمبر بھی غلط ڈالا گیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر دو خود کش حملے ہو چکے ہیں، میرے گھر کو سب جیل قرار دینا فیور نہیں، ایک شخص نے میرے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی، جسے بعد میں گرفتار کیا گیا، مجھے ہر تنظیم کے دہشتگرد نے دھمکی دی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ محسود قتل کیس ، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور

    نقیب اللہ محسود قتل کیس ، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور

    کراچی : نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور کرلی گئی اور 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار راؤانوار کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار اور دیگرملزموں کوعدالت میں پیش کیا گیا۔

    انسداد دہشتگردی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیرراﺅ انوار کی درخواست ضمانت منظور کرلی اور ملزم کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    خیال رہے کہ 5 جولائی کو نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت میں راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    یاد رہے کہ راؤانوار کی جانب سے عدالت سے ضمانت کی درخواست کی گئی تھی، جس میں سابق ایس ایس پی ملیرکی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جب نقیب اللہ کا قتل ہوا تو وہ جائے وقوعہ پرموجود نہیں تھے، کیس کے چالان جے آئی ٹی اور جیو فینسنگ رپورٹ میں تضاد ہے۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس: ملزم راؤانوارنےضمانت کےلیےدرخواست دائر کردی


    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے کیس کی تحقیقات ٹھیک سے نہیں کی گئی لہذا کیس میں ضمانت منظور کی جائے۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک  وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا،  رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی کرائی گئی، راؤ انوار

    پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی کرائی گئی، راؤ انوار

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ نہ میں نے نقیب اللہ کو پکڑوایا، نہ مارا سب ریکارڈ موجود ہے، پ پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی انسداد دہشتگردی عدالت میں سماعت ہوئی ، گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو دس دیگر ملزمان کے ساتھ انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیا گیا۔

    انسداد دہشتگردی عدالت نے مقتول کے وکلا کو دلائل کیلئے آخری مہلت دے دی اور کہا کہ آئندہ سماعت پر مقتول کے وکلا حاظر نہیں ہوئے تو ضمانت پر قانون کے مطابق فیصلہ کر دیں گے۔

    راؤ انوار آئی جی تبدیل ہوتے ہی اپنی پولیس پر پھٹ پڑے اور کہا کہ پولیس نے ذاتی گروپنگ کی وجہ سے مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا، میرے خلاف نقیب اللہ قتل کیس میں بھی شواہد موجود نہیں ہیں۔

    سابق ایس ایس پی ملیر کا کہنا تھا کہ پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی کرائی گئی، جے آئی ٹی میں میرا فون نمبر بھی غلط ڈالا گیا ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ مجھ پر دو خود کش حملے ہو چکے ہیں، میرے گھر کو سب جیل قرار دینا فیور نہیں، ایک شخص نے میرے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی، جسے بعد میں گرفتار کیا گیا، مجھے ہر تنظیم کے دہشتگرد نے دھمکی دی ہے۔

    راؤ انوار کا کہنا تھا کہ مجھے غلط مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے ، نہ میں نے نقیب اللہ کو پکڑوایا، نہ مارا، ریکارڈ موجود ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، ملزم راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست منظور

    نقیب اللہ قتل کیس، ملزم راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست منظور

    کراچی : انسداد دہشتگردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں جیل میں ملزم راؤ انوار کو بی کلاس دینے کی درخواست منظور کرلی، عدالت کا کہنا تھا کہ سب جیل کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے، فیصلہ آتے ہی عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ملزم راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت میں کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر رضوان بھی پیش ہوئے جبکہ ملزم راؤ انوار کو بھی پیش کیا گیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کے گھر کو سب جیل بنانے سے متعلق درخواست کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ نے محفوظ کیا ہوا ہے، عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ہی عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔

    عدالت نے ملزم راؤ انوار کی جانب سے جیل میں بی کلاس دینے کیلئے درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت چودہ جون تک کیلئے ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں نامز سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے پر سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کرلیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  نقیب کونہ بھولاجاسکتا ہےاورنہ اس کےخون کا سودا کرسکتے ہیں‘ والد نقیب اللہ


    واضح رہے کہ ملزم راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے کیخلاف نقیب اللہ محسود کے والد خان محمد کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ راؤ انوار قاتل ہے، اسے جیل منتقل کیا جائے، راؤ انوار کو سب جیل قرار دینا غیر قانونی ہے اور محکمہ داخلہ کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری نہیں کیا گیا تھا۔

    عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نقیب اللہ کے والد نے کہنا تھا کہ وہ نہ نقیب کو بھول سکتے ہیں اور نہ اس کے خون کا سودا کرسکتے ہیں، اگر راؤ انوار طاقت ور ہے تو میں بھی محنت کش ہوں۔

    سندھ ہائی کورٹ نے راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں