Tag: Re-polling in NA-75 Daska

  • این اے 75 ڈسکہ کیس : الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار ، پورے حلقے میں ری پولنگ کا حکم

    این اے 75 ڈسکہ کیس : الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار ، پورے حلقے میں ری پولنگ کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے این اے 75 ڈسکہ کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پی ٹی آئی امیدوارکی درخواست خارج کردی اور این اے 75 میں پولنگ 10اپریل کو ہی کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ الیکشن کیس کی سماعت ہوئی ، الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا صورتحال سےواضح ہوتاہے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی، الیکشن ایکٹ کی شقوں پرعملدرآمدنہ ہوتوالیکشن کالعدم تصورہوتاہے۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ عدالتی ریکارڈ پررکھے گئے نقشے سے واضح ہے ایک بلڈنگ میں متعددپولنگ اسٹیشن تھے، فائرنگ،بدامنی کا اثرایک نہیں 100سے زائد پولنگ اسٹیشنزپرپڑا، صورتحال سے واضح ہے حلقے میں لیول پلیئنگ فیلڈنہیں تھی۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا لیول پلیئنگ فیلڈ سے آپ کی مراد ہے؟ ڈکشنری میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا معنی دیکھیں کیاہے، آپ کے خیال میں ایک فریق کیلئےحالات سازگار ،دوسرے کیلئےنہیں، اگر بدامنی تھی تو دونوں کے حالات ناسازگار تھے، بدامنی کہہ سکتےہیں یہ نہیں کہہ سکتے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں تھی۔

    جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ آپ درست فرما رہےہیں ہو سکتا ہےمیرے الفاظ کااستعمال درست نہ ہو تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا احتیاط کریں ،لیول پلیئنگ فیلڈ جیسے الفاظ استعمال نہ کریں۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس میں کہا قانونی نقاط بیان کریں جو ضروری نوعیت کےہیں، ان دستاویزپر انحصار کریں جن پر کمیشن نے فیصلہ دیا۔

    دوران سماعت لیگی ایم این اے شیزافاطمہ موبائل استعمال کرتی رہیں ، جس پر پولیس اہلکاروں نے شیزا فاطمہ کو موبائل استعمال کرنے سے روک دیا۔

    وکیل الیکشن کمیشن میاں عبدالروف نے بتایا کہ الیکشن کمیشن فیصلے میں منظم دھاندلی کا ذکر نہیں، الیکشن کمیشن نے منظم دھاندلی کا کوئی لفظ نہیں لکھا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ قانون کی خلاف ورزیوں پر تھا۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے کہا الیکشن کمیشن نے انتظامیہ کو سنےبغیر ہی فیصلہ کردیا، حلقے میں حالات خراب تھے یہ حقیقت ہے، یہ درست نہیں پارٹیوں کو مقابلے کیلئےمساوی ماحول نہیں ملا، ووٹرز کیلئےمقابلے کے مساوی ماحول کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔

    الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف کے دلائل مکمل ہونے پر پی ٹی آئی کے وکیل شہزاد شوکت کا جواب الجواب شروع کئے ، شہزاد شوکت نے کہا پریزائیڈنگ افسران کیساتھ پولیس اسکواڈ نہیں تھے، صرف ایک پولیس گارڈ پریزائیڈنگ افسر کیساتھ تھا، نجی طور پر حاصل کی گئی گاڑیوں میں وائرلیس سسٹم نہیں تھا، انتخابی مواد آر او کوپہنچانا اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر کا کام ہے۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پریزائیڈنگ افسران کو کون کہاں لے کر گیا تھا، پریزائیڈنگ افسران کی گمشدگی کےذمہ دار سامنے آنے چاہئیں، جس پر جسٹس عمرعطابندیال نے کہا 20 اسٹیشن پرقانون کی خلاف ورزیاں توہوئی ہیں، 20میں سے14پولنگ اسٹیشن کےنتائج سےنوشین افتخارمطمئن تھیں۔

    شہزاد شوکت نے کہا کل کہا گیا رینجر تعینات نہیں تھی، الیکشن سے14روزقبل رینجرزتعیناتی کا ذکر ہوا، جس پر جسٹس سجادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کےمطابق رینجرزصرف گشت کررہی تھی۔

    ڈی جی لاالیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 25پولنگ اسٹیشنز پر رینجرز موجود تھی، لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کےپولنگ اسٹیشنز پربھی رینجرزتھی، تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے آئی جی کی رپورٹ کوغلط کہا، سمجھ نہیں آ رہا آئی جی کی رپورٹ کوغلط کس بنیاد پر کہا گیا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ فائرنگ سے2افرادقتل اور ایک زخمی ہوا، الیکشن کمیشن ڈسکہ میں مناسب اقدامات میں ناکام رہا، جس پر وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ گوجرانوالہ کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ 47فیصد تھا، ڈسکہ میں ٹرن آؤٹ 46.92 فیصد رہا جسے کہا گیا کم ہے، الیکشن کمیشن کامؤقف غلط ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنےنہیں آسکے، این اے75میں2018کےالیکشن میں ٹرن آؤٹ53 فیصد تھا۔

    شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ ڈسکہ سے 2018 میں مسلم لیگ ن کو 24ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ ضمنی الیکشن میں ڈسکہ سے ن لیگ کو 21ہزار ووٹ ملے، فائرنگ کے باوجود صرف ن لیگ کو ووٹ پورے ملے۔

    وکیل نے مزید کہا کہ فائرنگ اور قتل و غارت کا فائدہ کس کو ہوا تعین کرنا ہو گا، الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہونے کےبجائے حقائق چھپا رہا ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا آئی جی سمیت دیگر افسران سے تحقیقات کرتا، الیکشن کمیشن میں سماعت کے بعد نوشین افتخار نے بیان حلفی دیا۔

    جس پر جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ ایک بلڈنگ میں10پولنگ اسٹیشنزبھی دکھائے گئے ، الیکشن کمیشن کے کاغذات میں یہ تفصیلات درج ہیں، ووٹرز کے لیے ماحول پرامن ہونا چاہیے۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کیا پہلے بھی کبھی پریزائیڈنگ افسران لاپتہ ہوئے، وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ ممکن ہے ماضی میں ہوتا رہا ہو مجھے معلوم نہیں تو جسٹس عمر عطابندیال نے کہا پریزائیڈنگ افسران پیش ہوئے توگھبرائے ہوئےتھے۔

    جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا متنازع23 پولنگ اسٹیشنز پرگنتی سکتی تھی ، علی اسجد ملہی اپنے علاقے سے جیت رہے تھے، علی اسجد کامیاب ہوئے تو فرشتے پریزائیڈنگ افسران کولےگئے، فائرنگ کےصرف5 مقدمات درج ہوئے ہیں، مقدمات کےمطابق فائرنگ 19پولنگ اسٹیشنزپرہوئی جبکہ 24فروری کودوبارہ پولنگ کابیان حلفی دیاگیا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا 24کوبیان حلفی آیا اور 24 کوفیصلہ ہوگیا، آپ کو بیان حلفی پر دلائل کا موقع نہیں دیاگیا، دوبارہ پولنگ کےنوشین افتخارکےبیان حلفی کاجائزہ نہیں لیں گے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کام ہے شفاف ،منصفانہ انتخابات کرائے، وحیدہ شاہ نے پریزائیڈنگ افسر کوتھپڑ مارا تھا، پریزائیڈنگ افسران جس نےغائب کئے،انتخابی عمل کودھچکا لگا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جواب 23 پولنگ اسٹیشنز پر مانگا تھا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ نتائج متاثر ہوں تو دوبارہ پولنگ ہوسکتی ہے، تو وکیل پی ٹی آئی نے مزید کہا سمری انکوائری میں بھی پولیس ،انتظامیہ کو سننا ضروری تھا، دوبارہ پولنگ کیلئےپی ٹی آئی کو نوٹس کرنا ضروری تھا، ماضی میں بھی سمری انکوائری میں سب کا مؤقف سنا گیا، وکیل پی ٹی آئی

    جس کے بعد سپریم کورٹ نے این اے 75 ڈسکہ کیس پی ٹی آئی امیدوارکی درخواست خارج کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا دوبارہ الیکشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    سپریم کورٹ نے این اے 75 میں پولنگ 10اپریل کو ہی کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا الیکشن پورے حلقے میں ہوگا۔

  • بڑا فیصلہ ، سپریم کورٹ نے این اے75 ڈسکہ میں پولنگ روک دی

    بڑا فیصلہ ، سپریم کورٹ نے این اے75 ڈسکہ میں پولنگ روک دی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے این اے75ڈسکہ میں 10اپریل کو ہونیوالی پولنگ روک دی اور حکم امتناع جاری کردیا، الیکشن کمیشن نے 10اپریل کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں این اے75ڈسکہ انتخابی تنازع کیس کی سماعت ہوئی ،جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    لیگی امیدوار نوشین افتخار کی جانب سے سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا یہ کہنا درست نہیں بدامنی چند پولنگ اسٹیشنز پر تھی باقی حلقہ پرامن تھا، بدامنی میں ملوث لوگ حلقے میں بائیکس پردہشت پھیلاتے پھر رہے تھے۔

    جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا الیکشن کمیشن نےکچھ واقعات میں ن لیگیوں کوبھی ملوث قراردیا، دراصل جھگڑے،خوف کی فضا تھی جس میں دونوں طرف کے لوگ ملوث تھے ، یعنی حقیقت یہ ہے بدامنی تھی ذمہ دار کون ہے یہ الگ بحث ہے۔

    جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق حلقے میں آپ کا ہولڈ ہے ، اس لئے مخالفین نےاپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی، جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا جی بالکل ایسا ہی ہے۔

    جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا باقی پولنگ اسٹیشنزکےنتائج سےتوآپ خوش تھے، آپ نے اعتراض نہیں کیا؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا باقی نتائج پر اعتراض ہےکہ پولنگ متاثرہونےسےمارجن کم ہوا تو جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یعنی بدامنی پر ووٹرز گھروں سےنہیں نکل سکے تو نکتہ ثابت کریں، وکیل نے بتایا کہ وکیل نے پولنگ اسٹیشنز پرپولنگ متاثر ہونے کا ثبوت الیکشن کمیشن رپورٹس میں ہے۔

    دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے عدالت میں ضلع ڈسکہ کا مکمل نقشہ پیش کیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ نے ایک دن میں بہت زیادہ تیاری کر لی۔

    سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ڈسکہ شہر میں 76 پولنگ اسٹیشنز ہیں، ڈسکہ کے 76 میں سے 34 پولنگ اسٹیشنز سے شکایات آئیں اور 35 پولنگ اسٹیشنز کی نشاندہی کی جبکہ 20 پریزائڈنگ افسربھی غائب ہوئے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا یہ بھی بتایا گیا10 پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ کافی دیرمعطل رہی، سوال یہ ہے پولنگ کے دن کون ،کیوں یہ مسائل پیدا کرتا رہا؟ کیا ایک امیدوار طاقتور تھااس لیے دوسرے نے یہ حرکات کرائیں؟

    وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا ڈسکہ سے نوشین افتخار کے والد 5 بار منتخب ہوچکے ہیں، ڈسکہ میں نوشین افتخار کے خاندان کا اثرورسوخ زیادہ ہے، نوشین افتخارکے ڈسکہ سے 46 ہزار ،پی ٹی آئی امیدوار کے 11 ہزار ووٹ تھے، ڈسکہ شہر میں پولنگ کا عمل متاثر کرنا ان کا مقصد تھا۔

    جسٹس عمرعطا بندیال کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا لیگی کارکنان نے پرتشدد واقعات شروع کئے، ن لیگ کا اثرورسوخ زیادہ تھاتو تشدد ،بد امنی کی ضرورت کیوں پڑی؟ آپ الیکشن نتائج سے خوش تھے، اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔

    سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ الیکشن نتائج کے خلاف درخواست بھی کمیشن میں دائر کی گئی ، ڈسکہ میں دیہات کے مقابلے ٹرن آؤٹ روایتی طور پر زیادہ ہے، ثابت کرنا ہے 23کی شکایت پر پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کیوں ضروری ہیں، حلقےکے آدھے پولنگ اسٹیشنز کی شکایات موصول ہوئیں۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا ڈسکہ شہر کے 76 پولنگ اسٹیشنز آدھے نہیں بنتے، جس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھاکہ
    معذرت خواہ ہوں، 76 پولنگ اسٹیشنز ایک تہائی بنتے ہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آدھے اور ایک تہائی میں فرق ہے، احتیاط سےدلائل دیں اور استفسار کیا جب پریزائیڈنگ افسرپولنگ اسٹیشنز سےنکلےتورخصتی معمول کےمطابق تھی؟ تو وکیل نے بتایا پریزائیڈنگ افسران پولیس کیساتھ معمول کےمطابق نکلے، پریزائیڈنگ افسران کی واپسی غیرمعمولی تھی،وہ اکٹھےآئے ،ڈرے ہوئے تھے۔

    جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ پولیس موبائلزکیساتھ الیکشن عملے کا غائب ہونا سنجیدہ معاملہ ہے، الیکشن عملے کے پاس پولنگ بیگ تھے اسی وجہ سے پولیس ساتھ تھی، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا بعد ازاں سیکریٹری صاحب نے بھی خود کو عدم دستیاب کر لیا، صبح 6بجے عملہ پولنگ بیگزکے ساتھ رابطے میں آیا۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے مزید کہا اچھا پولیس اسکارٹ پولنگ بیگز کی وجہ سے ساتھ لگایا ہوگا، اسکارٹ والے معاملے پر سپریم کورٹ کے ججز کی آپس میں مشاورت کی، سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الیکشن قوانین کی خلاف ورزی اتنی سنگین تھی کہ پورانتیجہ کالعدم کیا گیا۔

    دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے این اے75ڈسکہ میں 10اپریل کو ہونیوالی پولنگ روکتے ہوئے حکم امتناع جاری کردیا اور مزید سماعت ملتوی کردی۔

    جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے استدعا کی پورا پراسس ملتوی نہ کریں پولنگ ڈے ملتوی کردیں، تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ایسا ہی کریں گے الیکشن کمیشن کامکمل احترام ہے۔

    خیال رہے الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ ن کی درخواست پر 10اپریل کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تھا۔