Tag: reading

  • ٹی وی دیکھنا زیادہ فائدہ مند ہے یا مطالعہ کرنا؟

    ٹی وی دیکھنا زیادہ فائدہ مند ہے یا مطالعہ کرنا؟

    ہم میں سے اکثر افراد اپنا فارغ وقت ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں جبکہ کچھ افراد یہ وقت کتاب پڑھتے ہوئے گزارتے ہیں، سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ مطالعہ کرنا ٹی وی دیکھنے سے بہتر ہے۔

    مختلف سماجی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ہم ٹی وی دیکھتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت کچھ ایسا ہو جس سے ہم کچھ نیا سیکھیں۔

    اس کے برعکس جب ہم کوئی کتاب مکمل کر کے اٹھتے ہیں تو یہ ہمیں کاملیت کا احساس دیتی ہے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہم نے مطالعے سے کچھ نہ کچھ نیا سیکھا ہوتا ہے اور ہم اپنی معلومات میں اضافہ محسوس کرتے ہیں۔

    سنہ 2013 میں جاپان میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق وہ بچے جو اپنا زیادہ وقت ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے تھے ان کے آئی کیو لیول میں کمی دیکھی گئی۔

    اس کے برعکس امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کتاب مکمل کرلینے کے بعد اگلے 5 روز تک پڑھنے والے کا دماغ چاک و چوبند اور تخلیقی راہ پر گامزن رہتا ہے۔

    مطالعہ کرنے سے پڑھنے والے کے ذخیرہ الفاظ میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر لکھنے کی صلاحیت بیدار (یا اگر پہلے سے ہو تو) بہتر ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق زیادہ ٹی وی دیکھنے کے مختلف طبی نقصانات بھی ہیں جن میں سر فہرست وزن میں اضافہ اور آنکھوں کو نقصان پہنچنا ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ٹی وی دیکھنے کا وقت کم کر کے مطالعے کا وقت بڑھایا جائے۔

    آپ اپنے فارغ وقت میں دونوں میں سے کس کام کو ترجیح دیتے ہیں؟

  • وہ عادات جو دماغی استعداد میں اضافے کے ساتھ آپ کو تازہ دم کردیں

    وہ عادات جو دماغی استعداد میں اضافے کے ساتھ آپ کو تازہ دم کردیں

    دن بھر تھکے ہارے ہونے کے بعد جب آپ گھر پہنچتے ہیں تو قدرتی طور پر آرام کرنا چاہتے ہیں۔ آرام کرنے کے لیے سونا، اور لیٹنا تو معمول کی بات ہے لیکن بعض افراد کوئی ایسا کام سر انجام دیتے ہیں جو ان کو پسند ہوتا ہے۔

    اس طریقے سے دراصل وہ اپنے ذہن کو تازہ دم کرتے ہیں۔ کچھ افراد ٹی وی دیکھتے ہیں، کچھ موسیقی، پینٹنگ یا لکھنے لکھانے کا کام کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ کام ایسے ہیں جنہیں کر کے ہم بیک وقت اپنی تھکن میں کمی اور دماغی استعداد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کام کون سے ہیں۔

    ٹی وی کی جگہ کتاب پڑھیں

    2

    کتاب پڑھنا اور مطالعہ کرنا آپ کی معلومات اور تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے جبکہ اس کے لیے آپ کو کوئی خاص مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ آپ اپنی سہولت کے مطابق آرام دہ حالت میں لیٹ یا بیٹھ کر مطالعہ کرسکتے ہیں۔

    اس کے برعکس ٹی وی دیکھنا آپ کے دماغ پر بوجھ ڈالتا ہے اور زیادہ دیر تک ٹی وی دیکھنا موٹاپے اور امراض قلب سمیت دیگر بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

    کمپیوٹر گیمز

    3

    ویسے تو ماہرین کمپیوٹر گیمز کھیلنے کو نقصان دہ عادت خیال کرتے ہیں لیکن کم وقت کے لیے کمپیوٹر گیمز کھیلے جائیں تو یہ آپ کی فوری فیصلہ کرنے اور حالات کے مطابق حکمت عملی اپنانے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔

    غیر ملکی زبان میں فلمیں

    4

    غیر ملکی فلموں کو ڈب کے بجائے ان کی اصل زبان میں ہی دیکھا جائے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مختلف زبانیں سیکھنے، بولنے اور سننے سے دماغ فعال ہوتا ہے اور اس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

    دن میں کچھ وقت کا وقفہ

    5

    دن بھر کام کے دوران کچھ دیر کا وقفہ لیں اور اس دوران چائے یا گرین ٹی سے لطف اندوز ہوں۔ یہ آپ کے تھکے ہوئے اعضا کو پرسکون کرے گا اور آپ دوبارہ کام کرنے کے لیے تازہ دم ہوجائیں گے۔

    قیلولہ

    sleep

    دن میں 20 سے 30 منٹ کا قیلولہ نہ صرف آپ کی جسمانی توانائی میں اضافہ کرے گا بلکہ آپ کے دماغ کو بھی چاق و چوبند بنائے گا۔

    ذہین لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا

    6

    ایسے لوگ جن کا علم، تجربہ اور مطالعہ آپ سے وسیع ہو ان کے ساتھ وقت گزاریں اور گفتگو کریں۔ اس سے آپ کی دماغی وسعت میں اضافہ ہوگا اور آپ چیزوں کو نئے زاویوں سے دیکھنے اور پرکھنے کے قابل ہوسکیں گے۔

    بحث و مباحث میں حصہ لیں

    8

    اپنے جیسی دماغی استعداد کے حامل افراد سے مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے کریں۔ بحث آپ کے خیالات اور نظریات کو نئے زاویے فراہم کرے گی۔

    تازہ ہوا میں چہل قدمی

    7

    روز صبح تازہ ہوا میں چہل قدمی کریں۔ یہ آپ کے دماغ سے منفی خیالات کو ختم کر کے اس کی استعداد اور آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرے گی۔

  • مطالعہ ڈپریشن کم کرنے میں مددگار

    مطالعہ ڈپریشن کم کرنے میں مددگار

    آج کل کی مصروف زندگی میں ڈپریشن نہایت ہی عام مرض بن چکا ہے اور ہر دوسرا شخص اس مرض کا شکار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی میں مطالعے کی عادت ڈپریشن کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف سسکیس میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مطالعہ کرنا دل کی دھڑکن کو کم کرتا ہے جبکہ اعصاب کو پرسکون کرتا ہے جس سے ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مطالعہ کسی بھی اور طریقے سے زیادہ 68 فیصد تک ڈپریشن میں کمی کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مطالعے کے دوران ڈپریشن کا شکار افراد کا دماغ حقیقی زندگی کے مسئلے سے ہٹ کر کتاب میں دی گئی صورتحال میں محو ہوجاتا ہے جس سے ان کے ذہنی دباؤ اور تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے افراد بڑھاپے میں یادداشت کی بیماریوں یعنی ڈیمنشیا اور الزائمر سے محفوظ رہتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ روزانہ صرف 6 منٹ کا مطالعہ ڈپریشن سے خاصی حد تک تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

  • کامیاب افراد کی زندگی کا ایک لازمی اصول

    کامیاب افراد کی زندگی کا ایک لازمی اصول

    کامیاب افراد میں کئی عادات مشترک ہوتی ہیں۔ دراصل یہ مثبت عادات ہی کسی شخص کے زندگی میں کامیاب یا ناکام ہونے کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن ان میں ایک عادت ایسی ہوتی ہے جو ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

    وہ عادت اگر عام افراد میں بھی موجود ہو تو انہیں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

    مزید پڑھیں: کامیاب اور ناکام افراد میں فرق

    کیا آپ جانتے ہیں وہ عادت کون سی ہے؟

    وہ عادت ہے ہر وقت کچھ نیا سیکھنے کی۔ جب ہم عملی زندگی میں آتے ہیں تو ہمارے پاس وقت کی قلت ہوجاتی ہے اور اس کا سب سے منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ ہم کچھ نیا سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    ہم کتاب پڑھنا، انٹرنیٹ یا ٹی وی سے کوئی معلوماتی چیز سیکھنا اور ایسے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں جن سے ہمیں کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔

    لیکن یہی وہ عادت ہے جس نے ایک اوسط درجے کے طالب علم کو امریکا کی تاریخ کا ایک کامیاب سیاستدان بنا دیا۔

    جی ہاں، بینجمن فرینکلن جو ایک معروف سیاستدان، سائنسدان، تاجر، مصنف اور مفکر تھا، زمانہ طالبعلمی میں ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ وہ جیسے تیسے امتحانات پاس کرتا تھا اور اسے کتابیں پڑھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔

    لیکن عملی زندگی میں آنے کے بعد اس نے ایک چیز کو اپنی زندگی کا لازمی اصول بنالیا تھا۔ وہ اصول ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کا تھا جس کے لیے وہ بے تحاشہ مطالعہ کیا کرتا۔ اس نے دنیا پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے اور اس کے لیے جو اس نے واحد راستہ اپنایا وہ کتابیں پڑھ کر سب کچھ سیکھنے کا تھا۔

    وہ روز صبح جلدی اٹھ کر کچھ وقت لکھنے اور پڑھنے میں صرف کیا کرتا تھا اور یہی اس کی کامیابی کی وجہ تھی۔

    صرف ایک بینجمن فرینکلن پر ہی کیا موقوف، دنیا کا ہر کامیاب شخص اپنے دن کا کچھ حصہ مطالعہ کے لیے ضرور وقف کرتا ہے۔

    دنیا کی سب سے بڑی ملٹائی نیشنل کمپنی تشکیل دینے والے وارن بفٹ اپنے دن کے 5 سے 6 گھنٹے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں۔ اس دوران وہ 5 اخبار اور کارپوریٹ رپورٹس کے 500 صفحات پڑھتے ہیں۔

    مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس ہر ہفتے ایک کتاب پڑھتے ہیں۔

    فیس بک کے بانی مارک زکر برگ 2 ہفتوں میں ایک کتاب پڑھتے ہیں۔

    اسپیس ایکس کے سی ای او ایلن مسک بچپن سے دن میں 2 کتابیں پڑھتے ہیں۔

    مشہور ٹی وی میزبان اوپرا ونفرے اپنی کامیابی کی وجہ کتابوں کو قرار دیتی ہیں۔

    طبی ماہرین نے بھی مطالعہ کو ذہنی صحت کے لیے نہایت مفید قرار دیا ہے۔ یہ آپ کی دماغی کارکردگی اور اس کے افعال میں اضافہ کرتی ہے جبکہ آپ کی قوت تخیل کو وسیع کرتی ہے جس کے باعث آپ نئے نئے آئیڈیاز سوچ سکتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ صرف آدھے گھنٹے کا مطالعہ آپ کی زندگی میں کئی برس کا اضافہ بھی کر سکتا ہے۔

    تو پھر آپ کب سے اس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صدائے علم‘ حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

    صدائے علم‘ حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

     سمیع اللہ خان کی مرتب کردہ کتاب’’صدائے علم‘‘میرے سامنے ہے اورمطالعہ کے بعد سوچ و قلم اِس کشمکش میں ہیں کہ اپنے تاثرات کو کیا عنوان دوں؟ انمول لکھوں یا کہ لاجواب؟گوہرِ ادب لکھوں یا کہ نگینہ صحافت؟شاہکار لکھوں یا کہ نادر؟آفتاب لکھوں یا کہ مہتاب؟صبح کی روشن کرن لکھوں یا کہ اندھیرے میں جلتا دیا؟تپتے صحرا میں کوئی شجرہ سایہ دار لکھوں یاکہ جلتے سروں پر پڑنے والا بارش کا پہلا قطرہ ؟ مہکتا گلستان لکھوں یا چمکتی کہکشاں؟تعبیر لکھوں یا کہ تدبیر؟ جذبہ لکھوں یا کہ نئی لگن، کوئی بھی ایسا لفظ اِس کاوش کے شایانِ شان میرے پاس نہیں جو اِس کتاب کے اعلیٰ و بے مثا ل ہونے کی تعریف کر سکے ۔

    سمیع کی اس خوبصورت و کامیاب کاوش پرجتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے جنہوں نے مضامین کے انتخاب میں زبان و بیان کے تمام تر معیارات کو پیش نظر رکھا ہے۔اِس کتاب کی اشاعت کو عملی شکل دینے میں سمیع اللہ خان کو عبدالمجید جائی اور نسیم الحق زاہدی کی معاونت حاصل رہی ہے اور اِسے اُردو سخن ڈاٹ کام پاکستان نے جون ۲۰۱۶ میں شائع کیا جبکہ دیدہ زیب سرورق کے لئے ناصر ملک نے اپنے پیشہ وارانہ جوہر خوب دیکھائے ہیں ۔

    سمیع نے انتساب میں اِس کاوش کو پرنسپل محترمہ عفت معین صاحبہ کے نام کیا ہے۔میانوالی سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان عصرِحاضر کے نامور لکھاریوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں،انہیں کالم نگاری، فیجر نگاری، افسانہ نگاری اور طنزومزاح کے حوالے سے خاص مقام حاصل ہے،انگلش میں ماسٹر کر رہے ہیں۔انہوں نے قلمی سفر کا آغاز اگست ۲۰۱۰ میں روزنامہ جناح کے ادارتی صفحہ سے کیا، بعنوان’’اُفقِ گفتگو‘‘اِنکے کالم کئی اخبارات، جریدوں،آن لائن میگزینز میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔پاکستان ادب پبلشرز کے لئے ڈائریکٹر کی خدمات بھی باخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔روزنامہ اوصاف، روزنامہ منصف انڈیا، ہلال میگزین اور ماہنا مہ ادب دوست کیلئے انکی قلمی خدمات کو میدانِ ادب و صحافت میں خوب سراہا جاتا ہے۔پی ایف یو سی کے لئے سیکرٹری پروگرام کی ذمہ داریاں بھی باحسن انداز سنبھالے ہوئے ہیں۔انکے نادر کالموں کا مجموعہ ’’اُفقِ گفتگو‘‘زیر طبع ہے۔

    ’’صدائے علم ‘‘درحقیقت ایک خزانہ علم ہے، جس میں واحدانیت، رسالتﷺ، آل محمدﷺ،آخرت، حقوق العباد، مذہب کیساتھ ساتھ ادب ،انسانیت،تعلیم، پاکستان و پاکستانیت،حکمرانوں کے ظالمانہ رویوں، وطن کے خلاف ہونے والی اندرونی و بیرونی سازشوں،عالم اسلام، اقوام عالم،خواتین سمیت کسی بھی اہم موضوع کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔۔اِن کی اِس کاوش پر ادب و صحافت کی نامور شخصیات نے اپنے خوبصورت آرا کا بھی اظہار کیا ہے۔

    اجمل نیازی لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتاب میرے اِس جملے کی تائید کرتی ہے کہ کالم نگاری سالم نگاری ہے،یہ ایک اچھی کاوش ہے، اپنی کتاب کا نام صدائے علم رکھ رک اپنی علمی وابستگیوں کو ثابت کیا ہے‘‘۔۔یوسف عالمگیر ین اپنا اظہار خیال کچھ یوں کرتے ہیں کہ ’’سمیع اللہ خان کا وطن عزیز سے بھرپور محبت کرنے والے ہنرمند نوجوانوں میں ہوتا ہے،انکا موقف ہے کہ تعلیم میں ترقی کے بغیر ملک کسی شعبہ میں بھی ترقی نہیں کر سکتا یہ وجہ ہے کہ زیرنظر کتاب میں نوجوانوں لکھاریوں کی مختلف موضوعات پر تحریریں ہیں جبکہ شعبہ تعلیم کو بھی خصوصی جگہ دی گئی ہے۔انہوں نے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر کے لکھاریوں سے الفت کی دلیل بھی پیش کی ہے۔‘‘ڈاکٹر ارشد اقبال(مراد آباد،انڈیا)کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے اپنی رائے میں کہتے ہیں کہ’’ سمیع اللہ خان کی ترتیب شدہ کتاب اس حوالے سے اہم ہے کہ اس میں نو آموز ابھرتے ہوئے کالم نگاروں کو موقع فراہم کیا گیا ہے۔اردو صحافت کے حوالے سے میں سمیع اللہ خان کی اس بے لوث کاوش کو سراہتا ہوں اور اس کارواں میں شامل تمام شرکاء کے لئے دعاگوہ ہوں جو اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں‘‘۔

    سمیع اپنے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ ’’صدائے علم میں اکثریت نو آموز لکھاریوں کی ہے مگر اسی طبقے کے کچھ سینئر حضرات کی تحریریں بھی شامل ہیں تا کہ طفلِ مکتب اپنی تحریروں کا تقابل کر کے فائدہ اُٹھا سکیں،وطنِ عزیز جس نازک دور سے گزر رہا ہے ایسے لمحات میں جس زمین کو نوجوان لکھاری میسر ہوں اور ان میں سے اکثر کا موضوع تعلیم ہو تو اُسے کسی صورت ناامید نہیں ہونا چاہیے،قوی امید ہے کہ اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے اس میں شامل نئے لکھاریوں کے حوصلے بلند ہوں گے ،ان کی تخلیقات کو جلا ملے اور نئے لکھاریوں کی تحریروں پر مشتمل انتخاب چھاپنے کی روایت مستحکم ہوگی۔نئے تخلیق کاروں کو مستقل مزاجی ملے گی اور ایسی کلیاں جو کھلنے کو تیار ہیں انہیں جوبن نصیب ہو گا، جوان نسل اور معصوم تخریب کے بجائے تخلیق کا راستہ اختیار کریں گے‘‘۔۔سمیع اللہ اپنے محسنوں اور دوستوں کو بھی نہیں بھولے اور ناصر ملک، مبشرالماس، حافظ شفیق الرحمن، اشرف سہیل،امجد رانا، بشیرہمدانی، عبدالماجد ملک، فرخ شہبازو ڑائچ،ساجد خان، احمد علی کیف، فرحان نذیر، عبدالستار اعوان، نسیم الحق زاہدی، عبدالمجید جائی، اختر سردار چوہدری ،ذیشان انصاری اور سید بدر سعید سے بھی خوبصور ت اندازو بیان میں اظہار تشکر کیا ہے۔

    معروف کالم نگاروں اعجاز حفیظ خان نے اپنے مضمون بعنوان’’سمیع اللہ خان کی کاوش،،صدائے علم ‘‘اور سلمان عابد نے بھی اپنی تحریر بعنوان’’نوجوان لکھاریوں کا مقدمہ‘‘میں سمیع کی اِس ادبی کاوش پر بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کتاب صحرا میں پھول کھلانے کے مترادف ہے۔اور یہ کتاب ایک بہتر قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنے گی‘‘۔

    ۱۹۶ صفحات پر مشتمل ’’صدائے علم‘‘ میں موجود ۴۵ مضامین ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔جیسا کے پہلے ذکر کیا ہے کہ اکثر لکھاریوں نے تعلیم کو اپنا موضوع بنایا ہے۔’’کتاب اپنی طرف پھر بلا رہی ہے(عبدالستار اعوان)، بلوچستان میں تعلیم کو فروغ اور تقاضے (زرداد کاکڑ)، ایجوکیشن ریفارمز(شہزاد سلیم عباسی)،نظام تعلیم کی خرابیاں اور تدراک کیسے ممکن ہے(محمد شاہد یوسف خان)،کوالٹی ایجوکیشن کا حصول(ایم اکرم ریاض)،بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی(دوست محمد جمالی)،ہم صورت گر کچھ خوابوں کے(سید ناصر احمد شاہ)،آخر تعلیم کی ذمہ دار کیوں(شہزاد سلیم عباسی)،فاصلاتی نظامِ تعلیم وقت کی ضرورت مگر؟(سمیع اللہ خان)، تعلیم اور آج کا معاشرہ(ملک این اے کاوش)،طبقات میں بٹا نظام تعلیم(ثقلین رضا)‘‘اِن مضامین میں لکھاریوں نے بڑی نفاست سے پاکستان میں تعلیم کی اہمیت، نظامِ تعلیم میں جدت پسندی کے رحجانات کو فروغ دینے، مساوی نظامِ تعلیم، پسماندہ علاقوں میں تعلیم پر خصوصی توجہ کے حوالے سے اپنی قلمی ذمہ داریوں کو نبھا یا ہے ۔’’حضرت مست توکلی، بلوچی صوفی اور رومانی شاعر(،مہ جبین ملک)،منفرد وممتاز گیت نگار و شاعر۔تنویرشاہد محمد زئی(عبداللہ نظامی)،ارشدملک کی زندگی کا بھرپور عکاس شعری مجموعہ(ریاض ندیم نیازی)‘‘ جیسے مضامین بھی اِس کتاب میں خوب ادبی رنگ بھرتے دیکھائی دے رہے ۔اسلامی مضامین’’ مخلوق اللہ کا کنبہ(اختر سردار چوہدری)، خلوص(شہزاد اسلم راجہ)، انسانیت کی فلاح کے لئے(اختر سردار چوہدری)،افسوس کے ہم مر جائیں گے(اخترسردار چوہدری)،اسلام میں جھوٹ کی ممانعت(خواجہ وجاہت صدیقی)‘‘انسانیت،زندگی ،موت اور بعداز موت زندگی،اصلاح معاشرے،اخلاص و اخلاق کا بہت خوبصورتی سے درس دے رہے ہیں۔’’باپ زندگی کا انمول تحفہ(میاں نصیر احمد)، کر بھلا ہو بھلا(علی حسنین تابش) ‘‘میں اِس بے رواروی کی دنیامیں حقوق و فرائض پر اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔معاشرے میں مساوات کی اہمیت کو ’’طبقاتی تقسیم مگر کیوں(محمد ذوالفقار جٹ)‘‘میں اجاگر کیا گیاہے۔نام نہاد صحافیوں کی یلغار کو ’’فیس بک کے صحافی (تجمل محمود جنجوعہ)‘‘ میں بے نقاب کیا گیا ہے۔رسالتﷺ واحدانیت ، آل محمد ﷺ کے حوالے سے ’’قائد انسانیت حضرت محمدﷺ(نسیم الحق زاہدی)، دنیا کو آج تیری ضرورت ہے یا حسینؓ(سید اسد عباس)’’ روح پرور مضامین کی برکت سے ہی کتاب کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ کیونکر نہ ہو۔’’حج،قربانی اور عید(سہیل احمد مراد پوری) ‘‘حج کی فرضیت، قربانی کے مسائل اور عید کی خوشیوں کوایک دوسرے سے شرعی احکامات کے مطابق منسلک کر کے بڑی روانی سے قلم بند کیا گیا ہے۔’’اے حلب! ہم مجرم ہیں (حیات عبداللہ)،سعودیہ عرب میں بیس اسلامی ملکوں کی فوجی مشقیں(محمد شاہد محمود)‘‘میں عالم اسلام پر کفار کی نظرِبد ،اُن کے ناپاک ارادوں سمیت مسلم ممالک کی یک جہتی بارے بڑی دلیر ی سے قلمی جہاد کیا گیا ہے۔دشمنانِ پاکستان کے عزائم ،سازشوں سے اندرونی اور سرحدوں پر خلفشار کو’’بھارتی جنگی جنون اور انسانیت کی تذلیل(محمد عتیق الرحمن)، آزادی کے ۶۸ سال(محمد ذوالفقار)‘‘میں بڑی بے باکی سے بیان کر کے محبت وطنی کا حق خوب ادا کیا ہے۔’’اس بار کون عید منائے گا (مجید احمد جائی)، انقلاب کا سبز باغ اور حبُ عاجلہ(عاکف غنی)، برائے فروخت(افتخار خان)، چوکیدار صحافی(تجمل محمود جنجوعہ)،امن کے دشمنوں کا یونیورسٹی حملہ(محمد شاہد محمود)،تبلیغی جماعت اور دہشت گردی(عبدالقادرسہیل)،اہداف کچھ پورے،کچھ ادھورے۔منزل کب ملے گی(رشید فراز)،میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں(سید ناصر احمد شاہ)،رمضان المبارک اور ہمارے منافقانہ رویے(ڈاکٹر عبدالباسط)‘‘اِن فکرانگیز تخلیقات میں پاکستان کے اندرونی حالات،انتشار و غیر یقینی صورتحال، دہشت گردیاں، تخریب کاریاں اور ہماری حکمت عملی،حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور اُن سے حاصل نتائج اورہمارے منفی رویوں کو بیان کیا گیاہے ۔’’مارٹن لوتھر کنگ کی بات بیول قصبہ والے سمجھ گے (ضیغم سہیل وارثی)،بچوں کے حقوق کا عالمی دن(ابوبکر بلوچ)ناکامیوں سے کامرانی تک(قاری احمد ہاشمی)عورت آج بھی ونی کی جاتی ہے(مقدس فاروق اعوان)‘‘تحریریں بھی پڑھنے کے قابل ہیں ۔میر ی نظر میں کوئی ایسی تحریر نہیں گزری جس میں کچھ نئا نہ ہویا کچھ پُرانا نئے انداز اور نئی سوچ و فکر کے ساتھ نہ ہو۔تحریروں میں جہاں تنقیدہے وہاں برائے اصلاح کا عنصر بہت نمایاں ہے۔میں اِس صدائے علم کو خزانہِ علم ہی لکھوں گا۔

    تحریر: حسیب اعجازعاشر