Tag: reasons

  • وٹامن سی کی کمی کی حیران کن وجوہات کیا ہیں؟

    وٹامن سی کی کمی کی حیران کن وجوہات کیا ہیں؟

    جسم میں وٹامن سی کی کمی کی چند حیران کن وجوہات میں غذائیت کی کمی، تمباکو نوشی، کچھ طبی حالات، اور ادویات شامل ہیں۔

    اگرچہ وٹامن سی کی کمی کی عام وجوہات میں تازہ پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال شامل ہے، لیکن کچھ کم واضح وجوہات بھی ہیں جو اس کمی کا باعث بن سکتی ہیں۔

    جسم میں اس کی کمی کی چند علامات ہیں جن میں موٹاپا، جلد کا خشک ہونا یا مسوڑھوں سے خون بہنا شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متوازن غذا کھانے سے کوئی بھی شخص اس کی کمی کو باآسانی پوری کر سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وٹامن کا حصول روزانہ کی بنیاد پر اس لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ انسانی جسم نہ تو وٹامن سی خود پیدا کرتا ہے اور نہ ہی اسے ذخیرہ کرتا ہے۔

    بالغ خواتین کو یومیہ 75 ملی گرام وٹامن سی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ مردوں کو 90 ملی گرام یومیہ ضرورت ہوتی ہے، وٹامن سی سرخ مرچوں کے آدھے گلاس، بروکلی کے ایک کپ یا سنگترے کے 3/4 گلاس سے حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کا حصول قدرتی غذاؤں کے استعمال سے کیا جا سکتا ہے۔

     کمی کی خاص وجوہات

    ایسے افراد جو متوازن غذا کا استعمال نہیں کرتے ان کے جسم میں عموماً اس وٹامن کی کمی ہوتی ہے، اس کے علاوہ گردوں کے امراض میں مبتلا افراد جن کا ڈائیلاسز چل رہا ہو یا تمباکو نوشی کے عادی افراد کو روزانہ 35 ملی گرام وٹامن کی اضافی مقدار لینے کی تجویز دی جاتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ایسے افراد کے جسم میں ایسے فری ریڈیکل پیدا ہو جاتے ہیں جن کے لیے وٹامن سی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وٹامن سی کی کمی کی علامات تین ماہ کے اندر ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

    جب کسی شخص کو زخم ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے جسم میں وٹامنز کی کمی ہوجاتی ہے، جسم کو کولاجن بنانے کے لیے اس وٹامن کی ضرورت ہوتی ہے، یہ پروٹین ہوتی ہے جو جلد کی اصلاح کے لیے کام کرتی ہے۔

    وٹامن سی خون کے سفید خلیے پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے جو جسم کی اصلاح کے لیے اس کی مدد کرتے ہیں۔

    وٹامن سی کی کمی اور جسم میں چربی کا اضافہ بالخصوص پیٹ کی چربی ہونے میں گہرا ربط ہے، وٹامن سی کی وجہ سے جسم کی اضافی چربی پگھل جاتی ہے اور جسم کو طاقت ملتی ہے۔

    جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وٹامن سی کی مقدار کی کمی سے وجہ جسم میں تھکاوٹ، چڑچڑاپن اور مایوسی کا احساس ہونے لگتا ہے، جبکہ ایسے افراد جن میں وٹامن سی کی مقدار پوری ہے وہ ایسا محسوس نہیں کرتے بلکہ ان کا جسم پر کنٹرول زیادہ ہوتا ہے۔

  • آنکھ پھڑکنے کی اصل وجہ کیا ہے؟

    آنکھ پھڑکنے کی اصل وجہ کیا ہے؟

    آنکھ پھڑکنا ایک عام سی بات ہے لیکن کچھ لوگ اسے توہم پرستی کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، ان کی دائیں یا بائیں آنکھ پھڑکنے کو اچھا یا برا ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

    ماہرین امراض چشم کا کہنا ہے کہ آنکھ پھڑکنے کے پیچھے اصل وجوہات جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق ہیں۔

    ڈاکٹروں کے مطابق آنکھ پھڑکنا ذہنی تناؤ، نیند کی کمی یا دیگر مسائل کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر آنکھ کا پھڑکنا کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر یہ بار بار اور مسلسل ہوتا ہے تو یہ آپ کی صحت کے کسی نہ کسی مسئلے کی علامت ہوسکتی ہے۔

    ماہر امراض چشم کے مطابق آنکھوں کا پھڑکنا یا پلکوں کا لرزنا عام مسئلہ ہے، زیادہ تر صورتوں میں آنکھ پھڑکنے کا مسئلہ صرف چند منٹوں تک رہتا ہے اور زیادہ تر ایک وقت میں صرف ایک آنکھ میں ظاہر ہوتا ہے۔

    بعض اوقات صحت سے متعلق کچھ حالات میں یہ ایک ہفتہ یا اس سے زیادہ پریشان کر سکتا ہے۔ بعض صورتوں میں آنکھوں کے پھڑکنےکا مسئلہ دونوں آنکھوں میں بیک وقت دیکھا جا سکتا ہے۔

    اس کے علاوہ بھی آنکھ پھڑکنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، جیسے ذہنی دباؤ، آنکھوں کی بینائی کمزور ہوتا، ماحولیاتی آلودگی، آنکھوں میں جلن، کیفین کا زیادہ استعمال، آنکھوں میں الرجی وغیرہ شامل ہیں۔

    آنکھ کو پھڑکنے سے محفوظ بنانے کے لیے آپ اپنی آنکھ کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے ٹھنڈے پانی سے صاف کرتے رہیں۔ اس کے ساتھ اپنی آنکھوں کی ایکسر سائز بھی کریں، اس سے آپ کی آنکھ صحت مند رہے گی اور پھڑکنے سے محفوظ رہے گی۔

  • سر درد کی اصل وجہ کیا ہے؟ سائنسدانوں نے پتہ لگا لیا

    سر درد کی اصل وجہ کیا ہے؟ سائنسدانوں نے پتہ لگا لیا

    ’سر کا درد‘ سر میں اور اس کے ارد گرد تکلیف کے احساس کا نام ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں تاہم سر درد کی قسم کا تعین اس کے اس مقام پر منحصر ہے جہاں سے یہ پیدا ہوتا ہے۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے دماغ کی ایک نئی راہداری دریافت کی ہے جو سر درد کا باعث بننے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    اس دریافت سے درد شقیقہ کے علاج کے لیے نئی ادویات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔دنیا بھر میں 10 میں سے ایک شخص درد شقیقہ کا شکار ہے۔

    ان مریضوں میں سے ایک چوتھائی تکلیف دہ حسی عوامل کی بھی نمائش کرتے ہیں۔ ان میں چمکتی ہوئی آنکھیں، اندھے دھبے، جھنجھلاہٹ کا احساس اور کسی چیز کا دوہرا وژن شامل ہے جو سر درد شروع ہونے سے پانچ سے 60 منٹ پہلے ظاہر ہو سکتا ہے۔

    جسم میں موجود ہارمون دریافت جو دماغی بیماری سے بچنے میں مدد دیتے ہیں، ماہرین جانتے ہیں کہ دماغی سرگرمی کی معطلی کی لہر درد شقیقہ کا سبب بنتی ہے، لیکن اس کا طریقہ کار ابھی تک واضح نہیں ہے۔

    سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دماغ میں مادوں اور سگنلز کا بہاؤ درد شقیقہ کا سبب بنتا ہے۔

    امریکہ کی یونیورسٹی آف روچیسٹر کے محققین نے کہا ہے کہ تحقیق کے نتائج کو ایک نئی قسم کی درد شقیقہ کی دوا کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

  • مکھن کی جگہ کھانے میں کیا چیز استعمال کی جائے؟

    مکھن کی جگہ کھانے میں کیا چیز استعمال کی جائے؟

    ایک عام شخص کو مکھن کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پڑسکتی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں کچھ ایسی بھی ہوں گی جو آپ کو درپیش ہوں۔

    جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ مکھن صبح کے ناشتے ہیں ایک مقبول اور صحت مند جزو ہے تاہم اس سے کچھ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر گریز بھی کرتے ہیں۔

    اس مضمون میں ہم آپ کو ان اجزاء کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے جو مکھن کے متبادل کے طور پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

    مکھن

    دودھ سے الرجی :

    اگرچہ مکھن میں پروٹین کی مقدار بہت کم ہوتی ہے لیکن اس میں دودھ کی پروٹین کیسین کی تھوڑی مقدار ہوتی ہے جو کہ الرجی کاباعث ہوسکتی ہے۔

    اگر آپ کو دودھ سے الرجی ہے تو مکھن کا استعمال کرتے وقت محتاط رہنا ضروری ہے۔ اگر آپ کو شدید الرجی ہے تو آپ اسے مکمل طور پر خیر باد بھی کہہ سکتے ہے۔

    صحت کے اسباب :

    کچھ لوگ مکھن سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ اس میں سیر شدہ چکنائی زیادہ ہوتی ہے۔ چربی کی زیادہ مقدار کو دل کی بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک کیا گیا ہے۔

    مکھن میں موجود چربی کولیسٹرول کی سطح کو دیگر دودھ کی مصنوعات، جیسے کریم میں سیر شدہ چربی سے زیادہ بڑھا سکتی ہے۔

    کیونکہ مکھن میں چربی اور کیلوریز کی مقدار زیادہ ہے اس لیے اگر آپ اپنی کیلوریز کی مقدار کو کم کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے آپ مکھن کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا۔

    ایسی چکنائیاں اور تیل جو بیکنگ میں مکھن کی جگہ لے سکتے ہیں۔ درج ذیل چکنائیوں اور تیلوں میں مکھن کے مقابلے کی خصوصیات ہیں، جو انہیں بہترین متبادل بناتی ہیں۔

    گھی :

    Ghee

    گھی ایک خوشبودار، گری دار میوے کے ذائقہ والی چیز ہے۔ اس میں عملی طور پر کوئی کیسین یا لییکٹوز نہیں ہوتا اور اس وجہ سے دودھ کی الرجی یا لییکٹوز عدم رواداری والے لوگوں کے لیے ایک محفوظ انتخاب ہے۔

    سینکا ہوا سامان جہاں ایک مضبوط مکھن کا ذائقہ مطلوب ہو، یہ 1:1 کے تناسب میں مکھن کی جگہ لے سکتا ہے۔

    گھی کے لیے مکھن کو تبدیل کرنا ان کھانوں کے ساتھ بہترین کام کرتا ہے جو زیادہ درجہ حرارت پر پکائے جاتے ہیں اور گرم پیش کیے جاتے ہیں، جیسے کہ روٹی اور بسکٹ۔

    تاہم، چونکہ گھی مکھن سے زیادہ نمی فراہم کرتا ہے، اس لیے آپ کو اپنی ترکیبوں میں مائع اور آٹے کی مقدار کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

     ناریل کا تیل : 

    ناریل

    ناریل کا تیل 1:1 کے تناسب سے بیکنگ میں مکھن کی جگہ لے سکتا ہے حالانکہ یہ ذائقہ کو تھوڑا سا بدل سکتا ہے، کچھ قسم کے ناریل کے تیل کے ذائقے کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ متاثر کرتا ہے۔

    غیر صاف شدہ ناریل کا تیل بہتر سے زیادہ ناریل جیسا ہوتا ہے اگر ناریل وہ ذائقہ نہیں ہے جس کی آپ تلاش کر رہے ہیں، تو آپ ناریل کے تیل کا زیادہ بہتر برانڈ یا کوئی اور متبادل استعمال کرسکتے ہیں۔

    زیتون کا تیل : 

    زیتون

    زیادہ تر ترکیبوں میں مکھن کو زیتون کے تیل کی جگہ 3:4 کے تناسب سے حجم کے لحاظ سے لیا جا سکتا ہے۔

    چونکہ زیتون کا تیل ایک مائع ہے، اس لیے یہ ترکیبوں میں مکھن کا مناسب متبادل نہیں ہے جس میں چربی کو ٹھوس رہنے کی ضرورت ہوتی ہے یا جس میں بہت زیادہ کریم کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ آئسنگ اور اینجل فوڈ پائی۔

    زیتون کے تیل کا مضبوط ذائقہ ان ترکیبوں میں اچھی طرح کام کرتا ہے جو پھل، گری دار میوے یا لذیذ ہیں، جیسے کدو کی روٹی یا مفنز۔

    خلاصہ یہ ہے کہ گھی، ناریل کا تیل، اور زیتون کے تیل میں مکھن کے مقابلے کی خصوصیات ہیں، جو انہیں بیکڈ اشیا کے لیے موزوں متبادل بناتے ہیں۔

  • وہ عادتیں جو گردوں کی خرابی کا سبب بن سکتی ہیں

    وہ عادتیں جو گردوں کی خرابی کا سبب بن سکتی ہیں

    گردے ہمارے جسم کا ایک اہم عضو ہیں جو ہمارے جسم کی غیر ضروری اشیا کو جسم سے باہر نکالتے ہیں، لیکن ہمارے بعض معمولات زندگی ہمارے گردوں کو خراب کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    گردوں کے علاج کے لیے ڈاکٹر جو دوائیں تجویز کرتے ہیں گردے ان کو آسانی سے قبول نہیں کرتے، جس کی وجہ سے انفیکشن کے ٹھیک ہونے میں وقت لگتا ہے، جتنی جلدی آپ گردے کے انفیکشن سے باخبر ہوں گے اور اس کے علاج پر توجہ دیں گے، شفا یابی اتنی ہی آسان اور تیزی سے ہوگی۔

    زیادہ تر کیسز میں گردے کا انفیکشن دراصل مثانے کے ابتدائی انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے، اس لیے اگر آپ مثانے میں انفیکشن محسوس کریں تو قبل اس کے کہ وہ گردوں تک پہنچ جائے، اس کے علاج پر توجہ دیں۔

    امریکا کی نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ گردوں کو معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل رکھنے کے لیے ورزش کرنا ناگزیر ہے، ورزش سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول گھٹتا ہے اور جسمانی وزن کم ہوتا ہے۔

    اس سے نیند کو منانے میں مدد ملتی ہے اور پٹھوں کو کام کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ یہ تمام عوامل گردوں کو معمول کے مطابق کام کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

    ہم جو غذائی اشیا کھاتے یا مشروب پیتے ہیں ان کو جسم میں جذب کرنے کے لیے بھی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے اور گردے اس کام میں مددگار ہوتے ہیں۔

    جو لوگ فربہ یا موٹاپے کا شکار ہیں، انہیں لازماً ورزش کرنی چاہیئے۔

    گردوں کی خرابی کا ایک سبب نیند کی کمی بھی ہے۔

    جب ہم سو جاتے ہیں اس وقت ہمارے جسم کے تمام اعضا، عضلات اور ٹشوز کو از سر نو تخلیق ہونے اور ری چارج ہونے کا موقع ملتا ہے، ان اعضا میں گردے بھی شامل ہیں۔

    جب ہم سو رہے ہوتے ہیں، اس وقت گردوں کو اتنا وقت آسانی سے مل جاتا ہے کہ وہ ہمارے جسم میں موجود فاضل سیال مادوں کو پروسیس کرلیں یا چھان لیں اور آنے والے دن کی سرگرمیاں شروع کرنے سے پہلے کچھ آرام کرلیں۔

    ہمارے گردوں کا فنکشن اس طرح ہے کہ وہ رات کو دن کے اوقات سے مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔

    اب تک کسی ریسرچ سے اگرچہ یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ زیادہ سونے سے گردے کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے یا اگر آپ سونے کا دورانیہ بڑھا دیں تو اس سے گردوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ہوسکتا ہے، لیکن یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ نیند میں کمی سے نہ صرف گردے فیل ہو سکتے ہیں بلکہ امراض قلب اور ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔

  • گلے میں خراش کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟

    گلے میں خراش کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟

    سرد یا خنک موسم میں یا ذرا سی ٹھنڈی کھٹی اشیا کھانے سے گلے میں خراشیں ہوجاتی ہیں، تاہم اس کے علاوہ اس کی اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

    گلے میں خراش یا سوزش وائرس کے علاوہ بیکٹیریا کی وجہ سے بھی ممکن ہے، خاص طور پر بچوں میں اسٹریپ تھروٹ یعنی بیکٹیریل اٹیک گلے میں خراش کی ایک عام وجہ ہے اور اسٹریپ تھروٹ میں کچھ دوسری علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔

    ان علامات میں سردی لگنا، بخار، ٹانسلز اور لمف نوڈس کا سوجنا، سر اور جسم میں درد، الٹیاں آنا اور ریشز ہونا شامل ہیں۔

    اگر کسی بھی شخص یا بچے میں ان علامات میں سے کوئی ایک بھی ہے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیئے، گلے میں خراش مندرجہ ذیل وجوہات سے بھی ہوسکتی ہے۔

    ٹانسلز

    ٹانسلز (جوکہ گلے کے پچھلے حصے میں واقع ہوتے ہیں) جراثیم سے متاثر ہوتے ہیں تو اس صورتحال کو ٹانسلائٹس کہتے ہیں، یہ بہت آسانی سے ہو سکتا ہے کیونکہ آپ کے ٹانسلز کا کام جراثیم کے جسم میں داخل ہونے سے پہلے ان کی جانچ کرنا ہے۔

    جب کسی بھی شخص کو ٹانسلائٹس ہوتے ہیں تو اسے گلے میں خراش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن ساتھ ہی کچھ دوسری علامات بھی محسوس ہوں گی جیسے کہ سردی لگنا، بخار، سر درد، کان میں درد، جبڑوں میں درد، اور کچھ بھی نگلتے وقت درد کا ہونا۔

    خشک ہوا

    گلے میں خراش کا سامنا درجہ حرارت اور نمی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، ایسا تب ہوتا ہے جب ہوا خشک اور گرم ہوتی ہے، ایسے میں حلق خشک ہوجاتا ہے اور نتیجے میں درد ہوتا ہے۔

    ایئر کنڈیشن

    گلے میں سوزش یا خراش کی وجہ ایئرکنڈیشن بھی ہے لیکن اس مسئلے کو باآسانی ایک ہیومیڈیفائر استعمال کر کے یا اے سی کو کچھ دیر کے لیے بند کر کے حل کیا جا سکتا ہے۔

    الرجی

    بہت سے لوگ حساس ہوتے ہیں اور انہیں الرجی کی شکایت ہوتی ہے یہ بھی گلے کو تکلیف پہنچا سکتی ہے۔

    جنہیں الرجی کی وجہ سے گلے کی خراش کا سامنا ہوتا ہے، ان میں کچھ ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسے کہ بھری ہوئی ناک یا ناک بہنا، جلد یا آنکھوں میں خارش اور چھینکیں آنا۔

    گلے کی خراش کو گرم مشروبات استعمال کر کے دور کیا جاسکتا ہے۔

  • ہارٹ اٹیک کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟

    ہارٹ اٹیک کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟

    دل کے امراض دنیا بھر میں اموات کی بڑی وجہ ہیں اور موجودہ غیر صحت مند طرز زندگی کے باعث کم عمری میں بھی دل کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

    ہارٹ اٹیک کے خطرے سے بچنے کے لیے صحت مند خوراک اور وزن کا کم ہونا ضروری ہے اور اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوں تو ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    لونیٹ باترا نامی سائنسی جریدے نے ان 6 چیزوں کی نشاندہی کی ہے جن کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے۔

    سگریٹ نوشی

    ہم سب جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی دل کی صحت کے لیے مفید نہیں ہے، سگریٹ میں موجود کیمیکل خون کو گاڑھا کر کے شریانوں میں جما دیتا ہے، ماہرینِ صحت کے مطابق اس وجہ سے دل کا دورہ پڑ سکتا ہے اور فوری طور پر موت واقع ہو سکتی ہے۔

    ہائی بلڈ پریشر

    بلڈ پریشر کی سطح کو متوازن رکھنے سے دل کی صحت بہتر رہتی ہے، ہائی بلڈ پریشر شریانوں کی لچک کو متاثر کرتا ہے اور انہیں نقصان پہنچتا ہے۔ اس وجہ سے دل کی جانب خون کی روانی اور آکسیجن کم ہو جاتی ہے اور دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

    ہائی کولیسٹرول

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہائی کولیسٹرول سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اضافی کولیسٹرول شریانوں میں جم جاتا ہے اور دل اور دیگر اعضا کی طرف خون کی روانی متاثر ہوتی ہے۔

    شوگر

    ہائی بلڈ شوگر خون کی نالیوں اور اعصاب کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہ دل کو خون اور غذائی اجزا کی سپلائی کو کم کر دیتی ہے یا روک دیتی ہے۔

    موٹاپا

    موٹاپے سے خون کی نالیوں میں چربی پیدا ہوتی ہے اور دل کی جانب خون لے جانے والی شریانیں بند ہوجائیں تو اس سے دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

    ورزش نہ کرنا

    دل کی صحت کے لیے ورزش بہت مفید ثابت ہوتی ہے، ماہرین کے مطابق دل کے 35 فیصد امراض ورزش نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

  • سر درد کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟

    سر درد کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟

    سر درد آج کل نہایت عام بنتا جارہا ہے تاہم یہ روزمرہ کے معمولات کو شدید متاثر کرتا ہے، بعض افراد سر درد کو ختم کرنے کے لیے مختلف ادویات استعمال کرتے ہیں تاہم لمبے عرصے تک ان کا استعمال نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

    سر درد کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، اگر ان وجوہات کا سدباب کیا جائے تو سر درد اور اس کے لیے لی جانے والی دواؤں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

    اسکرین کے زیادہ استعمال سے ہونے والا سر درد

    موجودہ دور میں صحت کے کئی مسائل اسکرین کے زیادہ استعمال سے جڑے ہیں جیسے سر درد اور بینائی کی کمزوری۔

    چونکہ لوگوں کی اکثریت دفتری اوقات یا فارغ وقت کمپیوٹر یا دوسری اسکرینز کے سامنے گھنٹوں بیٹھ کر گزارتی ہے، ایسی صورت میں جو سر درد سامنے آتا ہے اسے کمپیوٹر وژن کا سر درد کہا جاتا ہے جو سب سے عام سر درد تصور کیا جاتا ہے۔

    اس کی بنیادی وجہ وہ تیز روشنی ہے جس کا آپ مسلسل سامنا کرتے ہیں، اپنے کمپیوٹر کو استعمال کرتے وقت یا اس کے بعد سر میں درد ہونے کے علاوہ، آپ اس قسم کی علامات کا بھی سامنا کر سکتے ہیں۔

    جیسے دھندلا پن یا دوہرا وژن جیسے بھینگا پن بھی کہا جاتا ہے، آنکھوں میں سرخی کا آجانا، تھکاوٹ اور گردن میں درد وغیرہ۔

    اس سر درد کا سامنا ہونے کی صورت میں اسکرین کا استعمال کم سے کم کریں، اور کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے بار بار وقفہ لیں۔

    جائنٹ سیل آرٹرائٹس سر درد

    اگر آپ کے سر درد کے نوعیت ایسی ہے کہ جس میں سر درد کے ساتھ جبڑے میں بھی درد محسوس ہو، تو یہ جائنٹ سیل آرٹرائٹس کی علامت ہو سکتی ہے جبکہ اس کی دیگر علامات میں وزن میں کمی، دھندلا یا دوہرا وژن، بخار اور کھوپڑی کا نرم ہوجانا شامل ہیں۔

    یہ سر درد اس وقت ہوتا ہے جب شریانوں کی بیرونی سطح پر سوجن پیدا ہونے لگتی ہے، اس سر درد کا سامنا عموماً ایسے افراد کرتے ہیں جن کی عمر کم از کم 50 برس یا اس سے زائد ہوتی ہے۔

    اگرچہ یہ ایک سنگین بیماری ہے، تاہم درست ادویات کے استعمال سے اس کا علاج ممکن ہے، اسے نظر انداز کرنے کی صورت میں بینائی کو مستقل نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

    سروائیکو جینک سر درد

    اگر اپ کا سر درد گردن اور کھوپڑی کے درمیان سے شروع ہوتا ہے تو یہ سروائیکو جینک سر درد ہوسکتا ہے، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آپ زیادہ وقت تک ایک ہی پوزیشن میں زیادہ تر وقت جھکے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں سروائیکل اسپائن یا C2 جنکشن جام ہوجاتا ہے جو سر درد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

    اس درد کے ساتھ جو علامات سامنے آتی ہیں ان میں گردن کے درمیان میں درد ہونا، جکڑن محسوس ہونا، گردن کے پٹھوں میں تکلیف ہونا، سینے کے پٹھوں میں تناؤ اور کندھوں کے ایک حصے میں سختی محسوس ہونا شامل ہے۔

    اس سے نجات کے لیے مساج ایک بہترین حل ہے جو پٹھوں کو آرام دینے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

  • ہم خراٹے کیوں لیتے ہیں؟

    ہم خراٹے کیوں لیتے ہیں؟

    نیند کے دوران خراٹے لینا ایسا عمل ہے جس سے نہ صرف آس پاس کے افراد متاثر ہوتے ہیں بلکہ خراٹے لینے والے شخص کی نیند پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ای این ٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر اقبال خیانی نے شرکت کی اور خراٹوں کی وجوہات اور اس سے چھٹکارا پانے کا طریقہ بتایا۔

    ڈاکٹر اقبال کا کہنا تھا کہ خراٹے لینے والے صرف 2 فیصد افراد کو کوئی سنگین پیچیدگی لاحق ہوتی ہے ورنہ 98 فیصد افراد میں عام وجہ ناک سے لے کر گردن کے نیچے تک کی جگہ میں کوئی رکاوٹ ہونا ہوتی ہے۔

    بہت زیادہ وزن، زیادہ تھکاوٹ، کسی بیماری جیسے بلڈ پریشر یا شوگر کی دوائیں لینا، اینٹی ڈپریسنٹس لینا، ناک کے مسائل جیسے ناک کی ہڈی یا گوشت بڑھا ہوا ہونا، ہڈی ٹیڑھی ہونا یا غدود ہونا خراٹوں کی وجوہات ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر اقبال نے بتایا کہ خراٹے لینے سے نہ صرف آس پاس موجود افراد کی نیند خراب ہوتی ہے، بلکہ خود اس شخص کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے، خراٹے لینے والا شخص گہری نیند نہیں سو پاتا، اور نیند پوری نہ ہونے سے نتیجتاً اگلے دن اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر اس کی باقاعدہ ٹریٹ منٹ کی جائے تو یہ 24 گھنٹے کا ایک عمل ہوتا ہے جس میں مریض کو سوتا رکھا جاتا ہے، اس دوران اسے مختلف مشینوں سے منسلک کر کے تمام حرکات مانیٹر کی جاتی ہیں۔

    اس دوران اس کے جسم کے اندر کیمرا ڈال کر دیکھا جاتا ہے کہ خراٹوں کی کیا وجہ بن رہی ہے، بعد ازاں اسے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ خراٹوں کا علاج روزمرہ کھائی جانے والی دواؤں کو ری شیڈول کر کے اور ان کی مقدار کم کر کے کیا جاسکتا ہے، زیادہ وزن والے افراد اگر اپنے وزن میں 15 کلو کمی کریں تو ان کے خراٹوں میں 80 فیصد کمی آسکتی ہے۔

  • ہونٹ پھٹنے کی وجہ کہیں یہ تو نہیں؟

    ہونٹ پھٹنے کی وجہ کہیں یہ تو نہیں؟

    موسم سرما میں ہونٹ عموماً خشک ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات پھٹنے لگتے ہیں لیکن ہر دفعہ اس کا سبب خشک موسم نہیں ہوتا، بعض افراد کے ہونٹ سرد موسم کے علاوہ بھی سارا سال ہی تکلیف کا شکار رہتے ہیں۔

    ہر عمر کے افراد کو اس مسئلے کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے، ماہرین کے مطابق ایسا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ جلد کی سطح کے اندر کوئی سنگین مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔

    عام طور پر لوگ اسے سرد موسم یا خشک ہوا کا نتیجہ سمجھتے ہیں مگر اس کی چند دیگر وجوہات بھی ہوتی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

    پانی کی کمی

    مایو کلینک کے مطابق ڈی ہائیڈریشن کے نتیجے میں جسم میں پانی کی کمی کے باعث وہ عام افعال سرانجام نہیں دے پاتا، اگر پانی کی کمی دور نہ کی جائے تو ڈی ہائیڈریشن کا مسئلہ ہوتا ہے۔

    ایسا ہونے پر جسم جلد سے پانی کھینچتا ہے اور اسے خشک کردیتا ہے۔ عام طور پر جلد خشک ہونے پر سب سے زیادہ ہونٹ ہی متاثر ہوتے ہیں اور وہ پھٹ جاتے ہیں یا زرد پڑجاتے ہیں۔

    ہونٹ کاٹنا یا چوسنا

    اکثر افراد ہونٹ خشک ہونے پر اسے منہ کے اندر لے کر چوسنے لگتے ہیں جو کہ بہت بڑی غلطی ہے۔ لعاب دہن ہونٹ سے اڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں نمی زیادہ کم ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح تھوک میں موجود کیمیکل ہونٹ کو خشک کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ زیادہ خشک، خارش کے شکار ہوجاتے ہیں۔

    وٹامن اے کا بہت زیادہ استعمال

    مردوں کے لیے وٹامن اے کی روزانہ تجویز کردہ مقدار 900 مائیکرو گرام جبکہ خواتین کے لیے 700 مائیکرو گرام ہے، اگر بہت زیادہ وٹامن اے کا استعمال کیا جائے تو اس سے ہونٹ پھٹنے، جلد کی خارش سمیت متعدد طبی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔

    مخصوص اشیا سے الرجی

    بیشتر افراد کے ہونٹوں کی جلد کافی حساس ہوتی ہے، اگر لپ اسٹک، میک اپ، ٹوتھ پیسٹ یا دیگر جلدی نگہداشت کی مصنوعات سے الرجی ہو تو ہونٹوں پر خارش کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے جبکہ وہ پھٹ بھی جاتے ہیں۔ کچھ غذاﺅں سے الرجی کی شکل میں بھی یہی مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    کسی وٹامن کی کمی

    وٹامن بی 2 جو عام طور پر دودھ، پالک، دہی اور گوشت وغیرہ میں پایا جاتا ہے، جس کی جسم میں کمی ہوجائے تو ہونٹ پھٹ جاتے ہیں یا ان کے کونوں پر زخم پیدا ہوجاتے ہیں۔

    کھٹی چیزیں

    ترش پھلوں یا اشیا میں موجود ایسڈ منہ اور ہونٹوں پر خارش کا باعث بن سکتے ہیں، اگر آپ کے ہونٹ پہلے ہی پھٹ چکے ہوں یا خشک ہو، تو ایسے پھلوں اور سبزیوں کو کھانا تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پھٹے ہوئے ہونٹوں کے علاج کا بہترین ذریعہ مناسب مقدار میں پانی پینا اور ہونٹوں کی نمی لپ بام کی مدد سے برقرار رکھنا ہے۔ اگر پھر بھی مسئلہ زیادہ بڑھ جائے تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے اس کے پیچھے چھپی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔