Tag: Recycling

  • استعمال شدہ کین خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    استعمال شدہ کین خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    دنیا بھر میں پھینک دیے جانے والے کچرے کا جمع ہونا اور اسے تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے جس کی وجہ سے آلودگی میں بے حد اضافہ ہورہا ہے۔ اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے ری سائیکلنگ یعنی اشیا کے دوبارہ استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    ایک افریقی فنکار نے بھی اس کی نہایت شاندار مثال پیش کی۔ مغربی افریقی ملک آئیوری کوسٹ کے شہر عابد جان سے تعلق رکھنے والے فنکار ولفرائیڈ ٹیرور نے استعمال شدہ کینز سے خوبصورت فن پارے تشکیل دے دیے۔

    یہ فنکار گلیوں میں گھوم کر جا بجا پھینکے گئے سوڈا اور بیئر کی کینز جمع کرتا ہے اور انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ان سے خوبصورت فن پارے بناتا ہے۔

    فرائیڈ کو یہ خیال شہر میں پھیلی ہوئی بے تحاشہ آلودگی دیکھ کر آیا۔ شہر میں پھینکا گیا کچرا ندی نالوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر پانی کو آلودہ کر رہا تھا جبکہ اس سے سمندری حیات کو بھی سخت خطرات لاحق ہو رہے تھے۔

    اس شہر میں ہر سال 50 لاکھ ٹن کچرا جمع ہوتا ہے جس میں سے صرف 10 فیصد ری سائیکل ہوتا ہے۔

    فرائیڈ کا کہنا ہے کہ اس کی اس کوشش سے لوگوں میں بھی شعور پیدا ہوگا کہ پھینکا ہوا کچرا بھی ان کی ذمہ داری ہے، وہ سوچ سمجھ کر چیزوں کا استعمال کریں اور چیزوں کو ری سائیکل یعنی دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔

    اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اب شہر کے لوگ بھی کین جمع کر کے فرائیڈ کو دیتے ہیں تاکہ وہ مزید فن پارے تخلیق کرسکے۔

  • سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    سوئیڈن میں ست رنگی کچرا

    دنیا بھر میں پلاسٹک سمیت مختلف اشیا کے کچرے کو کم سے کم کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور ری سائیکلنگ یعنی دوبارہ استعمال کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جارہا ہے۔

    دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست سمجھا جانے والا ملک سوئیڈن بھی اس سلسلے میں مختلف اقدامات کر رہا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک اور قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ سوئیڈن میں ری سائیکلنگ کے عمل کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے کچرا رکھنے کو مختلف رنگوں کے بیگز متعارف کروائے گئے ہیں۔

    سوئیڈن کے شہر اسکلستونا میں شہریوں کو 7 بیگ ری سائیکلنگ اسکیم فراہم کرنے سے متعلق پوچھا گیا اور 98 فیصد شہریوں نے اس اسکیم کی فراہمی میں دلچسی ظاہر کی۔

    اس ست رنگی بیگز کی اسکیم میں کلر کوڈ سسٹم کے ذریعے کچرے کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ کتھئی رنگ کے بیگ میں دھاتی اشیا، سبز رنگ کے بیگ میں خوراک، نیلے رنگ کے بیگ میں اخبارات، گلابی رنگ کے بیگ میں ٹیکسٹائل مصنوعات، سرخ رنگ کے بیگ میں پلاسٹک اشیا، زرد میں کارٹن اور سفید بیگ میں ٹشو پیپرز اور ڈائپرز وغیرہ پھینکے جاتے ہیں۔

    ان بیگز کی بدولت ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ ری سائیکلنگ پلانٹ میں آنے والے تمام رنگ کے بیگز مکس ہوتے ہیں تاہم ان کے شوخ رنگوں کی بدولت اسکینرز انہیں آسانی سے الگ کرلیتے ہیں جس کے بعد انہیں ان کے مطلوبہ پلانٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    جو اشیا ری سائیکل نہیں کی جاسکتیں انہیں بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ری سائیکلنگ کی بدولت کچرے کے ڈھیر اور آلودگی میں کمی ہوگئی ہے۔

    سوئیڈن نے، یورپی یونین کے سنہ 2020 تک تمام اشیا کو ری سائیکل کیے جانے کے ٹارگٹ کو نصف ابھی سے حاصل کرلیا ہے۔ سوئیڈش انتظامیہ کا کہنا ہے اس وقت وہ ملک کے کچرے کی بڑی مقدار کو ری سائیکل کر رہے ہیں لیکن وہ اس کام مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔

  • صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے زندگیاں بچانے میں مددگار

    صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے زندگیاں بچانے میں مددگار

    ہم اپنے گھروں میں استعمال شدہ صابن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو پھینک دینے کے عادی ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ بظاہر ناقابل استعمال صابن کے ٹکڑے لاکھوں زندگیاں بچا سکتے ہیں؟

    دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 22 لاکھ اموات ایسی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن سے صرف درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ان بیماریوں میں نزلہ، زکام، نمونیا، ہیپاٹائٹس، اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

    یہ 22 لاکھ اموات زیادہ تر ان پسماندہ ممالک میں ہوتی ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات کا فقدان اور بے انتہا غربت ہے۔ اس قدر غربت کہ یہ لوگ ایک صابن خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: مختلف اشیا کو پھینکنے کے بجائے مرمت کروانے پر فائدہ

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے چند امریکی نوجوانوں نے اس سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور ان مستحق افراد کو کم از کم صابن کی بنیادی سہولت فراہم کرنے کا سوچا۔

    اس کے لیے انہوں نے استعمال شدہ صابنوں کو کام میں لانے کا سوچا۔

    گھروں کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف ہوٹل روزانہ 50 لاکھ کے قریب صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے پھنیک دیتے ہیں۔ یہ گروپ انہی ٹکڑوں کو جمع کرتا ہے۔

    اس کے بعد ان ٹکڑوں کو پیسا جاتا ہے، انہیں سینیٹائزنگ یعنی صاف ستھرا کرنے کے عمل سے گزارا جاتا ہے، اور اس کے بعد انہیں نئے صابنوں کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔

    استعمال شدہ صابنوں سے بنائی گئی ان نئی صابنوں کو مختلف پسماندہ علاقوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔

    اب تک جنوبی امریکی ملک ہونڈرس، گوئٹے مالا اور ہیٹی وغیرہ میں ہزاروں افراد کو یہ صابن فراہم کیا جاچکا ہے۔

    دنیا بھر میں 4000 ہوٹل اس کار خیر میں ان نوجوانوں کے ساتھ ہیں اور انہیں بچے ہوئے صابن کے ٹکڑے فراہم کر رہے ہیں۔

    اب جب بھی آپ اپنے گھر میں بچے ہوئے صابن کے ٹکڑوں کو پھینکنے لگیں، تو یاد رکھیں کہ صابن کا یہ بچا ہوا ٹکڑا لاکھوں لوگوں کی جان بچا سکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔