واشنگٹن: امریکا نے خدیجہ شاہ کو قونصلر رسائی دینے کا مطالبہ کر دیا، محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے کہا کہ پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ خدیجہ شاہ کو قونصلر رسائی دی جائے۔
تفصیلات کے مطابق امریکا نے ایک بار پھر پاکستان میں رجیم چینج کے بیانیے کو جھوٹ قرار دے دیا، امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان میں رجیم چینج کے حوالے سے امریکی سازش سے متعلق الزامات صریحاً جھوٹے ہیں۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا پاکستانی سیاست کے فیصلے پاکستانی عوام نے کرنے ہیں جو آئین کے مطابق ہو، امریکی تعلقات پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعاون پر مبنی ہیں، ہمیشہ خوش حال اور جمہوری پاکستان کو امریکی مفادات کے لیے اہم سمجھا ہے۔
ترجمان نے کہا خدیجہ شاہ کے کیس کو فالو کر رہے ہیں، پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ خدیجہ شاہ کو قونصلر رسائی دی جائے، دوسرے ممالک سے کہا ہے گرفتار امریکیوں کے لیے طریقہ کار کو سامنے رکھیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ خدیجہ شاہ کی دہری شہریت ہے، اس سلسلے میں پاکستانی حکام سے براہ راست رابطے میں ہیں، کوئی امریکی شہری گرفتار ہوتا ہے تو ان کی ممکنہ مدد کے لیے تیار رہتے ہیں، پاکستانی حکام سے توقع رکھتے ہیں کہ منصفانہ سماعت کی گارنٹی ہوگی۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھارتی وزیر اعظم کے دورے سے متعلق بھی تبصرہ کیا، ویدانت پٹیل نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکا پر تمام معاملات پر بات ہوگی، مودی سے انسانی حقوق اور مذہبی آزادی بات چیت کا حصہ ہوگی۔
سابق وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا ہے کہ پاکستان کوایک دھمکی آمیز مراسلہ موصول ہوا، رجیم چینج کی سازش کے کرداروں کو سزا ملنی چاہیے۔
مراد سعید نے کہا کہ کمیٹی میں ساری چیزیں واضح ہوچکی ہیں، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نےاس کی تصدیق کی، امریکی سفارت کاروں سےملاقاتوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب کیوں ہوا کیونکہ عمران خان نے اڈے دینے سے انکار کیا تھا، عمران خان نے ابسلوٹلی ناٹ کہا تواس کے بعد سازش بنی گئی، یہاں پرارکان کوخریدنے کی منڈیاں لگیں۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے مراسلہ خود دیکھا جسے وہ بھیج چکے ہیں، سازش اور مداخلت کنفرم ہوچکی ہے، اب تو سوال یہ ہے کہ جو کردار بنے ان کو سزا دینی چاہیے، رکن اسمبلی کا حلف ہے کہ میں پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا۔
شہباز شریف جو اس کا سازش مرکزی کردار ہےوہ کہتا ہے کہ ہم بھکاری ہیں، ن لیگی رہنماؤں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ امریکا سےڈرپ لگے ہوئے ہیں ہٹے توہم ختم ہوجائیں گے،
یہ حکومت ناجائز اور امپورٹڈ ہے، عوام کی طرف سےایک ہی آوازہے کہ امپورٹڈ حکومت نامنظور، اب یہ لوگ کسی کا سامنا نہیں کرسکتے، کوئی نادانی میں اس کاحصہ بن رہا ہے تواس کوآگاہ کررہا ہوں۔
کیا امریکی دفاعی تجزیہ کار نے وہی نہیں کہا جوعمران خان نے کہا، عمران خان کے دور میں ایک ڈرون حملہ نہیں ہوا، عمران خان نے تو کہا ہمارے لوگ اب نہیں مریں گے، عمران خان نے کہا کہ ہم آپ کےغلام نہیں ہیں، امریکا کیسے ہمیں ڈکٹیٹ کرسکتا ہے۔
عمران خان کی وجہ سے دنیا بھر میں 15مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف دن منایا جاتا ہے، پاکستان کافیصلہ اس کے22کروڑنے کرنا ہے، اب ان میرجعفروں اور میرصادق کو سزادینی ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اور رجیم چینج کے امریکی فلسفہ پر چین اور روس کا امریکی مداخلت کے بارے میں مضبوط مؤقف ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث ایشیا اور دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔
اگر آپ نے امریکا کا کلاسک رجیم چینج آپریشن دیکھنا ہے تو چلی اور ایران کی زندہ مثالٰن ہمارے سامنے موجود ہیں۔
سال 1951 میں ایران کے وزیر اعظم محمد مصدق نے ایرانی پارلیمان سے آئل کمپنیوں کی نیشنلائزیشن کا بل پاس کروایا، محمد مصدق اس وقت ایران کے مقبول ترین لیڈر بن گئے، سب کا ماننا تھا کہ اس اقدام سے ایران دینا کا امیر ترین ملک بن سکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہوا کہ ایران کی آئل ریفائنریز میں امریکہ اور برطانیہ کی دلچسپی تھی دنیا کی سپر پاورز نے ایران پر زور ڈالنا شروع کیا کہ ایران کی یہ آئل ریفائنری برطانیہ کو دے دی جائے۔
اس حوالے سے شاہ ایران سے ملاقاتیں کی گئی کہ کسی طرح ایران یہ بات مان جائے لیکن جب گھی سیدھی سے انگلی سے نہ نکلا تو پھر رجیم چینج کا منصوبہ بنایا گیا کہ تیل تو ہم لے کر رہیں گے چاہے ہمیں اس کیلئے ایران کے مقبول ترین لیڈر کی حکومت ہی کیوں نہ ختم کرنی پڑے۔
منصوبے کے تحت امریکہ نے ایران کے تیل کی خرید و فروخت پر پابندیاں عائد کردیں اور عالمی عدالت میں ایران کیخلاف مقدمہ بھی دائر کردیا گیا۔
سال 1953 میں ایران میں انتخابات کا انعقاد ہونا تھا اسی دوران آپریشن ایجکس پر عمل درآمد کا آغاز کردیا گیا۔ امریکہ نے محمد مصدق کے امیدوار ہی خرید لیے۔
یہ کام برطانیہ نے ایم آئی سکس کے ایجنٹ رابرٹ زاہنر جو سفارت کار کے روپ میں موجود تھا کے ذریعے کروایا جس نے بسکٹ کے ڈبوں میں 15لاکھ پاؤنڈ کی رقم ان امیدواروں کو دی۔
محمد مصدق کے اوپر اسی کی کابینہ کے ایک وزیر کے ذریعے حملہ کروایا گیا، جس کے بعد مصدق نے اپنے درجنوں سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈلوا دیا۔ اس کے بعد سی آئی اے کی جانب سے شاہ ایران کو اشارہ کیا گیا کہ مارشل لاء کی تیاری کرو۔
بعد ازاں شاہ ایران نے مصدق کو برطرف کرنے کا حکم جاری کیا جسے مصدق نے ماننے سے انکار کیا، جس کے بعد شاہ ایران کو فرار ہونا پڑا، اب برطانیہ اور ایم آئی سکس کو جنرل زاہدی سے اپنے مقاصد پورا ہونے کی امید تھی۔
اس کے بعد پلان بی پر کام شروع کیا گیا سی آئی اے کی ایما پر ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے کرائے گئے اور نقص امن کا بہانہ بنا کر جنرل زاہد نے ملک کا کنٹرول سنبھالا اور محمد مصدق کو گرفتار کرلیا گیا۔
یہ تمام باتیں اب کوئی افسانہ یا کہانی نہیں رہیں کیونکہ 2013 میں سی آئی اے آپریشن ایجکس کی یہ ساری کارروائی ڈی کلاسیفائیڈ کرچکا ہے۔
رجیم چینج اور پاکستان کے سیاسی حالات
آپریشن ایجکس کے تناظر میں پاکستان کے سیاسی حالات پر نگاہ ڈالی جائے تو دیکھا جاکستا ہے کہ دونوں ممالک میں تمام معاملات قانون کے مطابق ہوئے مگر حالات ایسے پیدا ہوئے کہ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہوا۔
اگرچہ امریکا اور یورپ خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہتے ہیں مگر ان کی اپنی جمہوریت کارپوریٹ اداروں اورسرمایہ دارانہ زنجیروں میں قید ہیں۔
امریکی مؤرخ اپنی تہذیب کو شاندار بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان واقعات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جن کا تعلق عالمی تشدد، غاصبانہ قبضوں، نسل پرستی اور تعصب سے ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخرکب تک امریکا اور یورپ کے حکمران طبقے اپنے سامراج کی وسعت اور عالمی تسلط کیلئے دنیا کے امن کو جنگوں اور تصادم کے ذریعے اپنے مفادات کو پورا کرتے رہیں گے؟
روس کے ٹوٹنے کے بعد اس کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نہیں تھی، اس لیے وہ آزاد تھا کہ جہاں چاہے جنگ کرے اور جہاں چاہے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرے۔ یہی وہ رویہ ہے جو امریکی سامراج کو امن عالم کیلئے خطرہ بناتا ہے، لیکن تاریخ بدل رہی ہے، پیوٹن نے روس کو دوبارہ ایک سپر طاقت کا درجہ دلا دیا ہے اور چین معاشی وعسکری سطح پر بطور سپر پاور اپنی حیثیت منوا چکا ہے۔
ضرورت اس مر کی ہے کہ نسل نو اور پاکستانی قیادت کو امریکی چالوں کو سمجھنے کیلئے امریکی سامراجی پالیسی اور مداخلت کی تاریخ سے نہ صرف واقف ہونا چاہئے بلکہ ماضی کے تلخ تجربات سے سیکھنا چاہیے، یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔ تاہم لگتا ہے ہماری قیادت نے ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود کچھ نہ سیکھا ہے۔