Tag: research

  • ٹماٹر کھانے سے گردے میں پتھری کا تعلق کیا ہے؟ حقیقت عیاں ہوگئی

    ٹماٹر کھانے سے گردے میں پتھری کا تعلق کیا ہے؟ حقیقت عیاں ہوگئی

    عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ روزانہ یا زیادہ ٹماٹر کھانے سے گردے میں پتھری کی شکایت ہوجاتی ہے، اس بات میں کہاں تک حقیقت ہے؟

    کسی بھی نمکین پکوان کیلیے ٹماٹر کو لازمی جز سمجھا جاتا ہے، یہ وہ سبزی ہے جو تقریباً ہر سالن میں پیاز کی طرح زیادہ مقدار میں استعمال ہوتی ہے۔

    اس کے علاوہ اگر گھر میں سبزی نہ بھی ہو لوگ گھر میں موجود ٹماٹر کی چٹنی بنا کر کھا لیتے ہیں جو بہت آسان ہے۔

    کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ٹماٹر کے جتنے فوائد ہیں اس کے اتنے ہی نقصانات بھی ہیں، کچھ لوگوں کے مطابق روزانہ ٹماٹر کھانے سے گردے میں پتھری ہو سکتی ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟

    مندرجہ ذیل سطور میں اس کی حقیقت سے متعلق تفصیلی بات کی گئی ہے کہ ٹماٹر کھانے سے گردے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اگر ٹماٹر کے فوائد کی بات کی جائے تو اس حوالے سے کچھ مطالعات میں کہا گیا ہے کہ روزانہ ٹماٹر کھانے سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کم ہوتا ہے۔

    ٹماٹر میں بہت سے غذائی اجزاء ہوتے ہیں۔ وہ وٹامن سی اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان میں لائکوپین نامی اینٹی آکسیڈنٹ بھی ہوتا ہے۔ یہ سب صحت کے لیے بہت مفید ہیں۔

    پوٹاشیم دل کو صحت مند رکھتا ہے۔ بی پی کو کم کرنا ہو یا ہارٹ اٹیک جیسے مسائل سے بچنے کے لیے، ان مسائل میں ٹماٹر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں اس میں موجود لائکوپین جسم میں کینسر کے خلیات کو بننے سے روکتا ہے۔

    دوسری جانب ان فوائد کے ساتھ ساتھ ٹماٹر کے کچھ نقصانات بھی ہیں، یاد رکھیں !! یہ سبزی صحت کے کچھ مسائل بھی پیدا کر سکتی ہے، وہ کیا ہیں؟

    ٹماٹر میں آکسیلیٹ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، یہ جسم میں کیلشیم کے ساتھ مل کر کرسٹل بناتے ہیں۔ جو پتھروں کی طرح سخت ہو جاتے ہیں۔ یہ آہستہ آہستہ گردوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کو پہلے ہی گردے کے مسائل ہیں تو بہت زیادہ ٹماٹر کھانے سے یہ مسئلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔

    جیسا کہ کچھ لوگوں کو کچے ٹماٹر کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر آپ کو پہلے سے گردے کی تکلیف ہے تو ٹماٹر کا استعمال آپ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    دراصل کچے ٹماٹر کے بیج پتھری کا سبب بن سکتے ہیں تاہم جن لوگوں کو گردے کے مسائل نہیں ہیں انہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ٹماٹر کھا سکتے ہیں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کا استعمال مناسب مقدار میں کیا جائے۔

    اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ٹماٹر کے ساتھ دیگر غذائیں بھی کھائیں۔ اسے اکیلے اور زیادہ مقدار میں کھانے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

    سال 2019 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جو جرنل آف نیفرولوجی اینڈ رینل ڈیزیز میں شائع ہوئی تھی میں بتایا گیا تھا کہ 12 ہفتوں تک روزانہ 100 گرام سے زیادہ ٹماٹر کھانے والے افراد میں گردے میں پتھری پائی گئی۔

    ان مریضوں کے پیشاب میں آکسالیٹ کی مقدار بڑھ گئی تھی۔ اگرچہ یہ اضافہ عام تھا لیکن ماہرین اب بھی مشورہ دیتے ہیں کہ زیادہ ٹماٹر کھانے میں احتیاط برتیں۔ بصورت دیگر گردے میں پتھری کا احتمال ہے۔

  • کھڑے ہوکر کام کرنا کتنا نقصان دہ ہے؟ ماہرین نے خبر دار کردیا

    کھڑے ہوکر کام کرنا کتنا نقصان دہ ہے؟ ماہرین نے خبر دار کردیا

    ماہرین صحت نے خبر دار کیا ہے کہ بیٹھ کر کام کرنے کے بجائے کھڑے ہوکر کام کرنے سے فالج اور امراض قلب جیسی بیماریوں سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا۔

    اس سے قبل عام طور پر خیال کیا جاتا رہا ہے کہ بیٹھ کر کام کرنا خطرناک ہے، اس سے امراض قلب اور فالج سمیت دیگر بیماریوں کے خطرات بڑھتے ہیں لیکن اس کے برعکس برطانوی ماہرین نے کھڑے ہوکر کام کرنے کے نقصانات سے بھی آگاہ کردیا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق برطانوی ماہرین نے 88 ہزار افراد کے ڈیٹا پر تحقیق کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی کھڑے ہوکر کام کرنے سے فالج اور امراض قلب نہیں ہوتے؟۔

    Navigating job

    مذکورہ تحقیق ان افراد پر کی گئی جن کی زیادہ تر عمریں 60 سال سے زائد تھی ان میں خواتین کی نصف تعداد شامل تھی۔

    دوران تحقیق اور اس سے قبل ان ہزاروں رضا کاروں کی جسمانی صحت کا بغور جائزہ لیا گیا اور ان کے بیٹھنے اور کھڑے ہوکر کام کرنے کا دورانیہ دیکھ کر سات سال بعد پھر ان کی صحت کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق کے نتائج سے یہ اخذ کیا گیا کہ کھڑے ہوکر کام کرنے سے فالج اور امراض قلب جیسی بیماریوں سے محفوظ نہیں رہا جاسکتا جبکہ مسلسل کھڑے رہنے سے ٹانگوں اور ہاتھوں میں سنسناہٹ جیسی شکایات بڑھ سکتی ہیں جو کہ ذہنی مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

     Employees

    نتائج سے معلوم ہوا کہ زیادہ بیٹھنا اور زیادہ کھڑا ہونا دونوں نقصان دہ ہیں، البتہ مسلسل بیٹھنے کے بعد کچھ دیر کے لیے کھڑا ہونا بہتر حکمت عملی ہے۔

    ماہرین کے مطابق مسلسل 12 گھنٹوں تک بیٹھ کر کام کرنے والے افراد میں بھی وہیں طبی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں جو کہ دو گھنٹے کھڑے ہوکر کام کرنے والے افراد میں ہو سکتی ہیں۔

  • کون سا گوشت کھانا ذیابیطس کے خطرے کا سبب ہے؟

    کون سا گوشت کھانا ذیابیطس کے خطرے کا سبب ہے؟

    جب ہمارا جسم خون میں موجود شوگر کی مقدار کو جذب کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت ذیابیطس نامی مرض کو جنم دیتی ہے اس کی دوسری قسم ٹائپ ٹو ذیابیطس ہے جس میں جسم مناسب انسولین پیدا نہیں کرپاتا۔

    ذیابیطس کا شمار دائمی بیماریوں میں کیا جاتا ہے، جو اگر لاحق ہو جائے تو پھر یہ زندگی بھر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ لوگ اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے جب جسم گلوکوز (شکر) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا، جس کی وجہ سے فالج، دل کے دورے، نابینا پن اور گردے ناکارے ہونے سمیت مختلف بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    اس حوالے سے ایک نئی تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پروسیس شدہ اور سرخ گوشت کھانے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    sugar

    انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسروں نے 20 ممالک میں 31 مطالعات کے 1.97 ملین لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جن میں 18 غیر شائع شدہ مطالعات بھی شامل تھے۔ محققین نے شرکاء کی عمر، جنس، صحت سے متعلق عادات، توانائی کی مقدار اور جسمانی حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق کی۔

    اس تحقیق میں محققین نے پایا کہ روزانہ 50 گرام پروسیس شدہ گوشت کھانے سے اگلے دس سالوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا 15 فیصد سے زیادہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ روزانہ 100 گرام غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت (جیسے کہ ایک چھوٹا اسٹیک) کے ساتھ یہ خطرہ 10 فیصد زیادہ تھا، اسی طرح 100 گرام مرغی کے روزانہ استعمال کے ساتھ یہ خطرہ 8 فیصدزیادہ تھا۔

    تحقیق کی سینئر مصنف نِتا فوروہی، جو کیمبرج یونیورسٹی میں میڈیکل ریسرچ کونسل ایپیڈیمولوجی یونٹ سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق پروسیس شدہ اور غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت کھانے اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان سب سے جامع ثبوت فراہم کرتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحقیق پروسیس شدہ گوشت اور غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت کی مقدار کو کم کرنے کی حمایت کرتی ہے تاکہ ٹائپ 2 ذیابیطس کے کیسز کو کم کیا جا سکے۔

    فوروہی نے کہا کہ مرغی کے استعمال اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے درمیان تعلق ابھی تک غیر یقینی ہے اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ٹائپ 2 ذیابیطس اس وقت ہوتا ہے جب جسم مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہیں کرتا یا انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتا۔ امریکا میں 38 ملین سے زیادہ افراد تقریباً 10 میں سے 1 فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، جو ملک میں موت کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے۔

    پہلے کی جانے والی تحقیق کے مطابق روزانہ ایک سے زیادہ بار سرخ گوشت کا استعمال ٹائپ 2 ذیابیطس کے 62 فیصد سے زیادہ خطرے میں اضافہ کر سکتا ہے۔

    تاہم امریکا کے محکمہ زراعت نے روزانہ گوشت، مرغی اور انڈے کی کھپت کو 4 اونس تک محدود کرنے کی تجویز دی ہے کہ پروسیس شدہ گوشت کو ہفتے میں ایک بار سے زیادہ نہیں کھانا چاہیے۔

  • موبائل فون کی ریڈیائی لہروں سے کینسر : اصل حقیقت کیا ہے؟

    موبائل فون کی ریڈیائی لہروں سے کینسر : اصل حقیقت کیا ہے؟

    بہت سے محققین کا ابتدا میں یہ کہنا تھا کہ موبائل فون کی ریڈیائی لہریں صحت کیلئے نہ صرف انتہائی خطرناک ہیں بلکہ کینسر کا باعث بھی بن سکتی ہیں، لیکن اب اس کا واضح جواب سامنے آگیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کے تحت ہونے والی ایک تحقیق میں اس سوال کا مفصل جواب دیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ موبائل فونز کے استعمال سے دماغی کینسر کا خطرہ نہیں بڑھتا۔

    امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے قائم کیے گئے کمیشن نے طویل عرصے تک ریڈیو ویوز اور موبائل فونز کی ٹیکنالوجی کا انسانی صحت اور خصوصی طور پر کینسر کا باعث بننے پر تحقیق کی۔

    درجنوں تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وائرلیس ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ سے دماغی کینسر کے مریضوں میں اضافہ نہیں ہوا۔

    اس حوالے سے جرنل انوائرمنٹ انٹرنیشنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق برسوں تک موبائل فونز پر بہت زیادہ کالز کرنے والے افراد میں بھی کینسر کا خطرہ نہیں بڑھتا۔

    کمیشن نے 28 سال تک 500 تحقیقات کا جائزہ لیا، جس میں سے 65 تحقیقات ایسی تھیں جو 1994 سے 2022 تک مختلف طبی جریدوں میں شائع ہوچکی تھیں اور ان میں موبائل فونز اور ریڈیو ویوز ٹیکنالوجی کے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    تحقیق کے دوران ریڈیو فریکوئنسی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا جن کا استعمال موبائل فونز کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن اور دیگر ڈیوائسز میں کیا جاتا ہے۔

    نتائج میں ماہرین نے دیکھا کہ نہ صرف موبائل ٹیکنالوجی بلکہ ریڈیو ویوز سے بھی انسانوں کو کسی طرح کا کوئی کینسر لاحق نہیں ہوتا۔

    ماہرین نے بتایا کہ اگر کوئی انسان 10 سال تک بھی موبائل فون مسلسل چلائے اور بار بار فون کالز کرنے کے لیے اسے دماغ کے قریب لائے تو بھی اس سے کینسر نہیں ہوتا۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج سے یقین دہانی ہوتی ہے کہ موبائل فونز سے بہت کم سطح کی ریڈیو لہریں خارج ہوتی ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ نہیں۔ البتہ انہوں نے اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

  • بلڈ پریشر پر قابو پانے کا آسان طریقہ

    بلڈ پریشر پر قابو پانے کا آسان طریقہ

    ہائی بلڈ پریشر یعنی بُلند فشار خون کو منظم رکھنا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا، ادویات کے استعمال سے ہی اسے کم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تاہم یہ ادویات آنتوں میں خرابی کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

    ہائی بلڈ پریشر کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، باقاعدگی سے اس کی نگرانی کرنا بہت ضروری ہے۔

    انسانی صحت کی بہتری اور اس کو برقرار رکھنے میں جڑی بوٹیوں کا استعمال بہت اہمیت کا حامل ہے، صحت پر مثبت اثرات مرتب کرنے والی جڑی بوٹیوں کے استعمال کے بے شمار فوائد ہیں۔

    ان جڑی بوٹیوں میں موجود طاقت ور قدرتی اجزا انسان کو متعدد بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں، جس کیلئے قوت مدافعت کا مضبوط ہونا لازمی امر ہے۔

    کوکو پاؤڈر یا بیج بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں کتنا مددگار ہے؟

    اس حوالے سے برطانوی ماہرین کی جانب سے محدود پیمانے پر کی جانے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ قدرتی جڑی بوٹیوں سے حاصل ہونے والے کوکو بیج یا پاؤڈر کا استعمال بلڈ پریشر کو کنٹرول سمیت شریانوں کی سختی کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

    کوکو بیج یا پاؤڈر عام طور پر چاکلیٹ، کافی، چائے کی پتی، آئس کریم، مشروبات اور ادویات بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    اسے کاکاؤ یا کاکو بھی کہا جاتا ہے مگر عام طور پر اسےکوکو کہا جاتا ہے، یہ ایک نایاب درخت کے خوردنی بیج ہوتے ہیں، جنہیں سورج کی تپش پر گرم کرکے ان سے کوکو پاؤڈر حاصل کیا جاتا ہے یا پھر ان بیجز کو جدید مشینری کے ذریعے پاؤڈر میں تبدیل کرکے ادویات سمیت غذاؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    کوکو میں 300 سے زائد مرکبات پائے جاتے ہیں اور یہ اینٹی آکسیڈینٹ کی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اس میں وٹامن کے، اِی، پروٹین، کیلشیم، سوڈیم، پوٹاشیم، زنک، فاسفورس، آئرن، اور میگنیشیم پایا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے کئی حوالوں سے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ برطانوی ماہرین نے کوکو کی خاصیت پر دوبارہ تحقیق کرکے جاننے کی کوشش کی کہ اس کے امراض قلب سمیت بلڈ پریشر پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

    ’ہیلتھ لائن‘ کے مطابق برطانوی ماہرین کی جانب سے محدود رضاکاروں پر ایک تجربہ کیا گیا، جس میں ایک درجن کے قریب افراد کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے ایک کو ’کوکو‘ دیا گیا جب کہ دوسرے گروپ کو مصنوعی کیپسول دیے گئے اور تمام افراد کا چند ہفتوں تک یومیہ متعدد بار چیک اپ کیا گیا۔

    ماہرین نے رضاکاروں کو خوراک دینے کے تین گھنٹے بعد اور پھر ہر ایک گھنٹے بعد چیک کیا اور رضاکاروں کو بھی ان ٹیسٹس تک رسائی دی۔ ماہرین نے رضاکاروں کے دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور شریانوں کی صورتحال پر نظر رکھی اور پایا کہ ’کوکو‘ لینے والے افراد میں بلڈ پریشر نارمل رہا اور ان کے شریانوں کی سختی بھی کم ہوئی۔

    ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’کوکو‘ کی اچھی مقدار والی غذائیں کھانے سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے، ساتھ ہی اس سے شریانوں کی سختی بھی ختم ہوتی ہے۔

  • رات دیر تک جاگنے کا عجیب و غریب فائدہ

    رات دیر تک جاگنے کا عجیب و غریب فائدہ

    بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ رات کو جلدی سونا اور صبح سویرے اٹھنا انسان کو صحت مند اور توانا بناتا ہے، لیکن ایک نئی تحقیق میں اس کے متضاد رات دیر تک جاگنے کے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ حیران کُن دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو لوگ رات کو دیر تک جاگتے ہیں وہ صبح سویرے اٹھنے والوں سے ذہنی طور پر بہتر ہوتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امپیریل کالج لندن کی اس تحقیق میں 26ہزار افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا اور ان کی ذہانت، منطق، ردعمل کے وقت اور یادداشت کا موازنہ کیا گیا۔

    محققین نے مذکورہ افراد کی نیند کے دورانیے، معیار اور سونے کے وقت کا تجزیہ کیا اور یہ دیکھا کہ وہ ذہنی طور پر سب سے زیادہ چوکس کب تھے؟۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ رات دیر تک جاگتے ہیں وہ صبح سویرے بیدار ہونے والوں سے ذہنی طور پر بہتر ہوتے ہیں۔

    تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نیند کا دورانیہ دماغی کام کے لیے اہم ہے اور جو لوگ رات کو دیر تک جاگنے کے بعد 7 سے 9 گھنٹے سوتے ہیں وہ ذہنی ٹیسٹوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ سونے کے وقت اور ذہنی چوکنا رہنے کو سمجھنا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے کافی نیند لینا ہے، جو صحت مند دماغ کو سہارا دیتی ہے اور دماغی افعال کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ نیند کا دورانیہ براہ راست دماغی افعال کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ تحقیق کچھ حد تک محدود ہے کیونکہ اس میں تعلیمی قابلیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور چند دیگر پہلوؤں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔

    اس سے قبل اٹلی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ رات کو دیر تک جاگتے ہیں وہ زیادہ تخلیقی انداز میں سوچتے ہیں۔ تحقیق کے دوران دیر تک جاگنے والے افراد نے مختلف ٹیسٹ باآسانی پاس کیے جب کہ صبح سویرے بیدار ہونے والوں کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

    محققین کے مطابق رات گئے تک جاگنے کی عادت لوگوں میں غیر روایتی سوچ کو فروغ دیتی ہے اور وہ مختلف چیزوں کے دلچسپ حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

  • لوگ ضرورت سے زیادہ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ وجہ سامنے آگئی

    لوگ ضرورت سے زیادہ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ وجہ سامنے آگئی

    بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہمارا پیٹ تو بھر جاتا ہے پر نیت نہیں بھرتی اس کی وجہ لذیذ پکوان ہوتے ہیں یا بہت زیادہ بھوک ہوسکتی ہے، لیکن اگر یہ صورتحال روز کا معمول بن جائے تو اس کا علاج ضروری ہے۔

    اکثر لوگ کھانا کھانے کے بعد بھی اسنیکس جیسے چپس، بسکٹس، کیک اور آئس کریم کھانا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ان کو بھوک کا احساس سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا اور انہیں احساس ہوتا ہے کہ جیسے انہوں نے کچھ کھایا ہی نہیں۔

    ایک نئی تحقیق میں ضرورت سے زیادہ کھانے کی ایک سادہ سی وجہ سامنے آئی ہے۔ جرنل آف پرسنالٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اس کی وجہ انسان کی اپنی عادتیں ہیں۔

    جو لوگ کھانے کھاتے ہوئے کسی دوسرے کاموں جیسے موبائل فون دیکھنے یا اخبار پڑھنے میں مشغول ہوتے ہیں وہ لوگ پیٹ بھرنے کے احساس اور کھانا کھانے کے بعد حاصل ہونے والے اطمینان سے محروم رہتے ہیں۔

    اسی لیے وہ لوگ کچھ ہی دیر بعد مزید کھانا کھا کر اس احساس اور اطمینان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    بیلجیئم کی گینٹ یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مرکزی مصنف اسٹیفن لی مرفی کا کہنا ہے کہ زیادہ کھانے کے استعمال خود پر قابو نہ رکھنے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔

    تاہم نتائج کے مطابق اگر آپ کسی سرگرمی سے لطف اندرز ہونے میں اور کوئی خاص ہدف حاصل کرنے مشغول ہوجاتے ہیں تو یہ عمل بھی زیادہ کھانے کا سبب بنتا ہے۔

    محققین نے کھانے کے رجحان کو ہیڈونک کمپینسیشن کا نام دیا ہے، جس میں مطلوبہ چیز جس سے اطمینان حاصل کرنے بجائے کسی دوسری اضافی شے سے اسے پورا کیا جائے۔

  • زیادہ گوشت کون کھاتا ہے؟ مرد یا خواتین ؟ اہم انکشاف

    زیادہ گوشت کون کھاتا ہے؟ مرد یا خواتین ؟ اہم انکشاف

    گوشت کھانے پینے کے شوقین افراد کی مرغوب غذا کہلاتی ہے، ان کو کھانے میں گوشت کی ڈش نہ ملے تو ڈنر یا لنچ کا مزہ کرکرا سا ہوجاتا ہے لیکن کیا مرد و خواتین یکساں مقدار میں گوشت کھانا پسند کرتے ہیں؟

    گوشت کے انسانی صحت پر کئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جب کہ اسے کھانے سے کئی جان لیوا بیماریوں کے امکانات بھی کافی حد تک کم ہوجاتے ہیں تاہم گوشت کی ایک حد سے زیادہ مقدار کسی بھی انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہونے کے بجائے اس کے لیے مصبیت بن سکتی ہے۔

    Make mine

     

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ گوشت کھاتے ہیں۔

    گوشت کی جانب عورتوں کے کم رجحان کا تعلق انسانی معاشرے کی ارتقا سے جڑا ہے جس میں عورتوں کو گوشت کھانے سے روکا جاتا تھا، کیوں کہ ان کے خیال میں گوشت کا استعمال نسوانی ہارمونز پر منفی اثر ڈال سکتا ہے جس سے حمل اور بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

    Men Eat

    سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گوشت کھانے کی ترجیحات کا تعلق جنس سے منسوب ہے اور یہ رجحان دنیا کے ہر معاشرے دیکھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں یہ تفریق زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ اگر خواتین اور مردوں کو معاشرتی اور مالی لحاظ سے اپنی خوراک منتخب کرنے کی آزادی ہو تو خواتین کے انتخاب میں گوشت کی مقدار کم ہوگی۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ معاشرتی ارتقا کے ابتدائی ادوار میں عورتوں کو گوشت کھانے سے روکا جاتا تھا کیوں کہ ان کے خیال میں گوشت کا استعمال نسوانی ہارمونز پر منفی اثر ڈال سکتا ہے جس سے حمل اور بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

     women

    دوسری جانب مرد بڑی رغبت سے گوشت کھاتے تھے کیوں کہ وہ شکاری معاشرے کا حصہ تھے اور شکار صرف ان کی خوراک کی ضروریات ہی پوری نہیں کرتا تھا بلکہ کئی معاشرتی رسمیں اور اعزاز و افتخار بھی شکار سے ہی جڑے تھے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گوشت کی سالانہ فی کس کھپت 24 کلو گرام ہے جب کہ یو ایس ڈپارٹمنٹ آف ایگریکلچر کے مطابق امریکہ میں گوشت کا سالانہ فی کس استعمال 102 کلو گرام ہے۔

    بھارت کا شمار دنیا بھر میں سب سے کم گوشت استعمال کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں گوشت کی سالانہ فی کس کھپت ساڑھے تین کلو گرام ہے جس کی بڑی وجہ وہاں کے مذہبی عقائد اور معاشرتی روایات ہیں۔

     cultures

    دنیا بھر میں گوشت کا سب سے کم استعمال افریقی ملک برونڈی میں ہے جس کی بنیادی وجہ غربت اور قوت خرید کا کم ہونا ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر میں ہرسال مجموعی طور پر سب سے زیادہ گوشت چین میں کھایا جاتا ہے جس کا سبب اس کی ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی ہے۔

    سال 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں 10 کروڑ ٹن سے زیادہ گوشت کھایا گیا تھا جو دنیا کی کل کھپت کا 27 فیصد تھا۔

  • کینسرکے علاج کا ایک اور جدید طریقہ دریافت

    کینسرکے علاج کا ایک اور جدید طریقہ دریافت

    لندن : سائنس دانوں نے امیونوتھراپی کے ذریعے اوسٹوسرکوما نامی ہڈی کے کینسر کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محققین نے امیونوتھراپی کی ایک نئی قسم وضع کی ہے جو ہڈی کے کینسر کا علاج کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کی ایک سائنس دانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس طریقہ علاج سے ہڈیوں کے کینسر کے خلاف امید افزا نتائج سامنے آئے ہیں جسے اوسٹیو سارکوما کہتے ہیں۔

    immunotherapy

    برطانیہ میں ہر سال تقریباً 160 نئے ایسے کیسز سامنے آتے ہیں لیکن نوجوانوں میں یہ ہڈیوں کا عام کینسر ہے، اس میں مبتلا مریضوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک ہے۔

    محققین نے چوہوں پر کی جانے والی تحقیق میں دیکھا کہ مدافعتی خلیوں کا ایک چھوٹا ذیلی سیٹ جسے گاما ڈیلٹا ٹی سیل کہتے ہیں، کینسر کے خلاف مؤثر اور سستا حل مہیا کرسکتا ہے۔

    مذکورہ مدافعتی خلیے وہ ہیں جن کو صحت مند عطیہ دہندہ کے مدافعتی خلیوں سے بنایا جا سکتا ہے اور بغیر کسی خطرے کے ایک سے دوسرے شخص میں بحفاطت منتقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ علاج کا یہ نیا ڈیلیوری پلیٹ فار او پی ایس-گیما-ڈیلٹا ٹی کہلاتا ہے۔

    یو سی ایل کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر جوناتھن فشر نے بتایا کہ سی اے آر-ٹی سیلز جیسی موجودہ امیونو تھراپیز میں مریض کے اپنے مدافعتی خلیے استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کی کینسر کش خصوصیات کو بہتر بنایا جاتا ہے۔

  • لوگ زیادہ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ حیران کن وجہ سامنے آگئی

    لوگ زیادہ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ حیران کن وجہ سامنے آگئی

    ہم نے اپنے اردگرد لوگوں کو اکثر دیکھا ہوگا کہ وہ ضرورت سے زیادہ کھانا کھا جاتے ہیں اور انہیں پیٹ بھرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا ہاتھ رکتا ہے۔

    بلا سوچے سمجھے کام کرنا یا بہت زیادہ کھانا جسمانی وزن میں اضافے اور موٹاپے کے ساتھ مختلف نفسیاتی امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    اس حوالے سے محققین کی تحقیق نے سب جو حیران کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس کا بڑا ذمہ دار آپ کا اپنا دماغ ہے۔

    امریکی ماہرین کی ایک منفرد تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ دماغ کے دو حصوں کی گڑ بڑ کی وجہ سے بعض لوگ پیٹ بھر جانے کے باوجود کھانا کھاتے رہتے ہیں۔

    عام طور پر انسان اس وقت غذا کھانا بند کردیتا ہے جب اس کا پیٹ بھر جاتا ہے لیکن بعض افراد کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا اور وہ پیٹ بھر جانے کے باوجود کھانا کھاتے رہتے ہیں۔

    تحقیق میں ماہرین نے پایا کہ دراصل ایسے افراد کے دماغ کے دو حصے درست انداز میں کام نہیں کرپاتے، جس وجہ سے وہ حد سے زیادہ کھانا کھالیتے ہیں۔

    نیشنل لائبریری آف میڈیسن (این آئی ایچ) کے مطابق ماہرین نے تحقیق کے لیے درجنوں افراد پر تحقیق کی اور انہوں نے رضاکاروں کے دماغ کے اسکین نکالنے سمیت ان میں کھانا کھانے کی عادت کو بھی دیکھا۔

    ماہرین نے پایا کہ جن افراد کے دماغ کا خوشبو کی شناخت کرنے والا حصہ (olfactory tubercle) اور رویوں کے لیے کام کرنے والا حصہ (periaqueductal gray) گڑ بڑ کرنے لگتے ہیں، تب لوگ پیٹ بھر جانے کے باوجود کھانا کھاتے رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق مذکورہ دونوں حصوں میں خرابی یا خلل کی وجہ سے انسان کو اپنے رویے اور کھانے کی عادت یا حد کا علم نہیں ہوپاتا اور وہ پیٹ بھر جانے کے باوجود بھی کھانا کھاتا رہتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ماہرین اس بات کا تعین نہیں کرسکے کہ دماغ کے مذکورہ دونوں حصے غیر فعال کیوں ہوجاتے ہیں یا ان میں خلیل کیوں پڑتا ہے؟