Tag: research

  • کیا 5 جی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے؟ اہم ترین تحقیق

    کیا 5 جی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے؟ اہم ترین تحقیق

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ 5 جی کے ریڈیو سگنلز کرونا وائرس پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، جس کے بعد لوگوں نے 5 جی کے ٹاورز پر حملہ بھی کیا، لیکن اب ماہرین نے اس حوالے سے اہم تحقیق پیش کردی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق آسٹریلین ریڈی ایشن پروٹیکشن اینڈ نیوکلیئر سیفٹی ایجنسی (اے آر پی اے این ایس اے) نے سوائن برنی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر 5 جی ریڈیو لہروں کے حوالے سے ہونے والی 138 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    اس ٹیم نے تحفظ کے حوالے سے ہونے والی مزید 107 تحقیقی رپورٹس کا بھی تجزیہ کیا، دونوں تجزیوں میں دیکھا گیا کہ 5 جی اور اس سے ملتی جلتی ریڈیو لہروں کے خلیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ 5 جی لہروں سے صحت یا خلیات پر کوئی بھی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    اے آر پی اے این ایس اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر کین کریپیڈس نے بتایا کہ ایک تجزیے کے نتائج میں ایسے کوئی شواہد نہیں مل سکے جن سے عندیہ ملتا ہو کہ کم سطح کی ریڈیائی لہریں جیسی 5 جی نیٹ ورک میں استعمال ہوتی ہیں، انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جن تحقیقی رپورٹس میں حیاتیاتی اثرات کو رپورٹ کیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر میں لہروں کے اثرات جانچنے کے غیر معیاری طریقہ کار کو استعمال کیا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 جی اثرات کی مانیٹرنگ کے لیے طویل المعیاد تحقیق پر کام ہونا چاہیئے، جس کے لیے تمام تر سائنسی پیشرفت کو استعمال کیا جائے، مگر اب تک ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جو 5 جی سے جڑے مضحکہ خیز دعوؤں کی حمایت کرتے ہوں۔

    ڈاکٹر کین نے کہا کہ ہمارا مشورہ ہے کہ مستقبل میں تجرباتی تحقیقی رپورٹس میں مخصوص امور پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے جبکہ آبادی پر طویل المعیاد طبی اثرات کی مانیٹرنگ جاری رکھی جانی چاہیئے۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے اور حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 10 میں سے 3 مریض ان علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں علم ہوا کہ کووڈ سے متاثر ہر 10 میں سے ایک مریض کو 3 یا اس سے زیادہ مہینے تک کووڈ کی علامات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    ایسے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن میں بیماری کی علامات صحت یابی کے بعد بھی کئی ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) کی اس تحقیق میں متعدد تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کے اعضا پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کو بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ ممکنہ طور پر 4 مختلف سنڈرومز کا مجموعہ ہوسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان سنڈرومز میں پوسٹ انٹینسیو کیئر سنڈروم، اعضا کو طویل المعیاد نقصان، پوسٹ وائرل سنڈروم اور ایک نیا سینڈروم شامل ہے جو دیگر سے مختلف الگ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ لانگ کووڈ ایک متحرک بیماری ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے بیماری کے مختلف پیٹرنز کو سمجھنے میں مدد ملے گی، مگر ہمیں اس کی ہر وجہ کو جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 10 فیصد افراد کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا 3 ماہ بعد بھی ہوتا ہے، مگر ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا عمل محدود ہونے کے باعث ہوسکتا ہے کہ یہ شرح زیادہ ہو۔

  • کرونا وائرس سے موت کا خطرہ کن افراد کو زیادہ ہے؟

    کرونا وائرس سے موت کا خطرہ کن افراد کو زیادہ ہے؟

    اب تک دیکھا جاچکا ہے کہ کرونا وائرس بعض افراد کو بہت زیادہ اور بعض افراد کو بہت کم متاثر کرتا ہے، ماہرین نے اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کن افراد میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق سست رفتاری سے چلنے کے عادی افراد میں کووڈ 19 سے موت کا خطرہ لگ بھگ 4 گنا جبکہ سنگین حد تک بیمار ہونے کا امکان 2 گنا سے زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 4 لاکھ 12 ہزار سے زیادہ درمیانی عمر کے افراد کو شامل کیا گیا، ان افراد کے جسمانی وزن اور چلنے کی رفتار کا موانہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کے خطرے سے کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تیز رفتاری سے چلنے والوں کے مقابلے میں نارمل وزن کے حامل سست روی سے چلنے والے افراد میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے اور موت کا خطرہ بالترتیب ڈھائی گنا اور 3.75 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم یہ پہلے سے جانتے ہیں کہ موٹاپا کووڈ 19 کے نتائج کو بدترین بنانے والا عنصر ہے، مگر یہ پہلی تحقیق ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ سست روی سے چلنے والے افراد میں بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، چاہے وزن جتنا بھی ہو۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ تیز رفتاری سے چلنے والے فربہ افراد میں اس بیماری کی زیادہ شدت اور موت کا خطرہ سست روی سے چلنے والے لوگوں سے کم ہوتا ہے، تاہم جسمانی وزن زیادہ ہو اور چلنے کی رفتار بھی کم ہو تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں عوامی صحت اور تحقیقی رپورٹس میں جسمانی وزن کے ساتھ جسمانی فٹنس کے عام اقدامات جیسے چلنے کی رفتار کو شامل کرنے پر غور کیا جانا چاہیئے کیونکہ یہ کووڈ 19 کے شکار ہونے پر نتائج کی پیش گوئی کرنے والے عناصر ہیں۔

  • اسمارٹ فونز کی شعاعیں اندھے پن کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، تحقیق

    اسمارٹ فونز کی شعاعیں اندھے پن کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، تحقیق

    واشنگٹن : ماہرین نے اسمارٹ فونز سے نکلنے والی شعاعوں کو آنکھوں کےلیے توقعات سے زیادہ تباہ کن قرار دے دیا۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسمارٹ فونز سے نکلنے والی شعاعوں سے متعلق تحقیق امریکا کی ٹولیڈو یونیورسٹی میں کی گئی، جس میں انکشاف ہوا کہ یہ شعاعیں آنکھوں کے قرنیے میں جذب ہوکر زہریلے مادے کو جنم دیتا ہے جو خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں : اسمارٹ فونز جلد کے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نقصان کی وجہ سے بلائنڈ اسپاٹس بنتے ہیں پٹھوں میں تنزلی کی علامت ہوتے ہیں بینائی سے محروم ہونے کا خطرہ بڑھا دیتے ہیں اور اگر اسمارٹ دیوائسز کا استعمال اندھیرے میں کیا جائے تو خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

  • جاپانی دوا سے کورونا کا علاج، برطانوی تحقیق میں نیا دعویٰ

    جاپانی دوا سے کورونا کا علاج، برطانوی تحقیق میں نیا دعویٰ

    لندن : برطانیہ میں مقیم ایک تحقیقی ٹیم کے مطابق جاپان میں تیار کی گئی گٹھیا کی ایک دوا کووِیڈ 19 کے انتہائی علیل مریضوں کی جان بچانے کی شرح میں خاطر خواہ بہتری لاسکتی ہے۔

    امپیریل کالج لندن کے محققین اور دیگر نے جوڑوں میں درد اور ورم کی بیماری گٹھیا کے علاج کے لیے ٹوسیلی زُماب کے نام سے بھی مشہور دوا اکٹیمرا کے انسانوں پر تجربات کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ موازنے کے لیے دستیاب 400 افراد کے ایک کنٹرول گروپ میں شرحِ اموات 35.8 فیصد تھی جبکہ یہ دوا لینے والے 350 کے قریب افراد میں یہ شرح 7 پوائنٹس سے زائد کم ہو کر 28 فیصد رہ گئی۔

    مذکورہ گروپ نے کہا ہے کہ جوڑوں کے درد اور ورم کی بیماری گٹھیا کی ایک اور دوا کے بھی ملتے جلتے اثرات سامنے آئے ہیں۔

    اکٹیمرا جاپان کی اوساکا یونیورسٹی اور چُوگائی فارماسیوٹیکل نے تیار کی ہے, توقع ہے کہ یہ دوا انسان کے مدافعتی نظام کو نسبتاً زیادہ ردعمل ظاہر کرنے سے روکنے میں مدد دیتی ہے۔

    برطانوی حکومت نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں داخل کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج کے لیے مذکورہ ادویات کے استعمال کی اجازت دے رہی ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    لندن: برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پاکستان سمیت کئی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ہے۔

    امپریئل کالج لندن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم بی 117 کے نتیجے میں کووڈ کیسز ری پروڈکشن یا آر نمبر 0.4 سے 0.7 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    عام طور پر کسی وبائی مرض کے بنیادی ری پروڈکشن نمبر کے لیے ایک اعشاری نظام آر او ویلیو کی مدد لی جاتی ہے، یعنی اس ویلیو سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مرض کا شکار فرد مزید کتنے لوگوں کو بیمار کرسکتا ہے۔

    خسرے کا آر او نمبر 12 سے 18 ہے جبکہ 2002 اور 2003 میں سارس کی وبا کو آر او 3 نمبر دیا گیا تھا، اس وقت برطانیہ میں کووڈ کا آر نمبر 1.1 سے 1.3 کے درمیان ہے اور کیسز میں کمی لانے کے لیے اسے ایک سے کم کرنا ضروری ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کہ وائرس کی دونوں اقسام کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، یہ بہت بڑا فرق ہے کہ وائرس کی یہ قسم کتنی آسانی سے پھیل سکتی ہے، یہ وبا کے آغاز کے بعد سے وائرس میں آنے والی سب سے سنجیدہ تبدیلی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی شرح میں نومبر میں برطانیہ کے لاک ڈاؤن کے دوران 3 گنا اضافہ ہوا، حالانکہ سابقہ ورژن کے کیسز میں ایک تہائی کمی آئی۔

    برطانیہ میں حالیہ دنوں کے دوران کرونا وائرس کے کیسز کی شرح میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس 20 سال سے کم عمر نوجوانوں خصوصاً اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

    مگر اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی قسم ہر عمر کے گروپس میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    محققین کے مطابق ابتدائی ڈیٹا کی ایک ممکنہ وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ نومبر کے لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے جبکہ بالغ آبادی کی سرگرمیوں پر پابندیاں تھیں، مگر اب ہم نے ہر عمر کے افراد میں اس نئی قسم کے کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھا ہے۔

    تحقیق میں جو چونکا دینے والی بات دریافت کی گئی وہ یہ تھی کہ نومبر میں برطانیہ میں لاک ڈاؤن لوگوں کے لیے ضرور سخت تھا مگر اس سے وائرس کی نئی قسم کا پھیلاؤ رک نہیں سکا۔

    حالانکہ ان پابندیوں کے نتیجے میں وائرس کی سابقہ اقسام کے کیسز کی شرح میں ایک تہائی کمی آئی، مگر نئی قسم کے کیسز کی شرح 3 گنا بڑھ گئی۔

    ابھی اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ جاننا ممکن ہوسکے کہ یہ نئی قسم اتنی تیزی سے کیسے پھیل رہی ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسینز اس کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اس نئی قسم میں 14 میوٹیشنز موجود ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں ہوئیں۔

    یہ وہی پروٹین ہے جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں تبدیلیاں دنیا بھر میں گردش کرنے والے اس وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کافی نمایاں ہیں۔

  • کیا کورونا کی نئی قسم برطانیہ سے دریافت نہیں ہوئی؟ تحقیق میں اہم انکشاف

    کیا کورونا کی نئی قسم برطانیہ سے دریافت نہیں ہوئی؟ تحقیق میں اہم انکشاف

    برلن : برطانیہ میں تباہی کے بعد دنیا بھر میں خوف و ہراس پھیلانے والی کورونا وائرس کی دوسری قسم سے متعلق ایک اہم انکشاف سامنے آیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ نئی وبا برطانیہ نہیں بلکہ جرمنی میں پہلے سے موجود تھی۔

    برطانیہ میں رواں ماہ کے شروع میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کے بارے خیال کیا جارہا ہے کہ وہ رواں سال نومبر سے ہی جرمنی میں موجود تھی۔

    اس حوالے سے جرمنی کے مقامی روزنامہ ڈی ویلٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہنوور میڈیکل اسکول کے محققین نے وائرس کی اس نئی قسم کی ایک عمر رسیدہ مریض کے نمونوں میں نشاندہی کی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ماہ نومبر کے لگ بھگ اس وائرس کا شکار ہونے والا یہ شخص بعد ازاں دوران علاج چل بسا تھا۔

    اس کے علاوہ جنوب مغربی ریاست باڈن ورٹمبرگ کی وزارت صحت کے مطابق جرمنی میں جمعرات کے روز وائرس کی اس نئی قسم کا پہلا کیس ایک خاتون مریض میں رپورٹ ہوا ہے جو برطانیہ سے واپس آئی تھی۔

    واضح رہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کے باعث انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں رہنے والے لاکھوں افراد کے لیے چوتھے درجے کی سخت پابندیاں نافذ کی گئی ہیں، متعدد یورپی ممالک نے برطانیہ کے ساتھ سفری پابندیاں بھی عائد کردی ہیں۔

    کورونا وائرس کی یہ نئی قسم اب پوری دنیا میں تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے جس کے باعث برطانیہ کے مختلف حصوں میں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح میں نمایاں اضافہ سامنے آیا ہے۔

    مزید پڑھیں : کورونا وائرس کی نئی قسم کیا ہے؟ یہ کیسے پھیلتی ہے؟َ جانیے

    طبی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کورونا کی ہیئت تبدیل ہو رہی ہے جو وائرس کے سب سے اہم حصے کو متاثر کر رہی ہے، ان میں سے کچھ تغیرات کو پہلے ہی لیب میں دکھایا جاچکا ہے جو خلیوں کو متاثر کرکے وائرس کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں، ان سب چیزوں سے مل کر ایک ایسا وائرس بنتا ہے جو آسانی سے پھیل سکتا ہے۔

  • دنیا کو ایک اور وبا سے بچانے کے لیے سائنسدانوں کی مشترکہ کوشش شروع

    دنیا کو ایک اور وبا سے بچانے کے لیے سائنسدانوں کی مشترکہ کوشش شروع

    دنیا بھر کے ماہرین نے کرہ ارض کو ایک اور عالمی وبا سے بچانے کے لیے چمگادڑوں پر تحقیق شروع کردی، ماہرین کے مطابق چمگادڑ انسانوں اور مویشیوں میں مہلک وائرس منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث سائنسدانوں نے اگلی عالمی وبا سے بچاؤ کے لیے چمگادڑوں پر توجہ مرکوز کردی ہے اور برازیل کے سائنسدان بھی اسی تحقیق کی دوڑ میں شامل ہیں۔

    برازیل کے دوسرے بڑے شہر ریو ڈی جینیرو کے پیڈرا برانکا اسٹیٹ پارک میں رات کے وقت چمگادڑوں کی تلاش کی گئی، نومبر کے مہینے میں رات کے وقت انجام دی جانے والی سرگرمی برازیل کے ریاستی فیوکرز انسٹی ٹیوٹ کے پروجیکٹ کا حصہ تھی جس کا مقصد جنگلی جانوروں بشمول چمگادڑوں کو جمع کرنا اور ان میں موجود وائرسز پر تحقیق کرنا تھا۔

    کئی سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کا تعلق چمگادڑوں سے ہے۔

    اب اس تحقیق کا مقصد دیگر وائرسز کی نشاندہی کرنا ہے جو انسانوں کے لیے انتہائی جان لیوا اور مہلک ثابت ہوسکتے ہیں اور ان معلومات کو ایسا پلان مرتب کرنے میں استعمال کرنا کہ لوگوں کو ان کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے، یعنی ممکنہ عالمی مرض کے پھیلاؤ کو روکنا ہے اس سے قبل کہ وہ شروع ہوجائے۔

    برازیل کی یہ ٹیم دنیا بھر کی کئی ٹیمز میں سے ایک ہے جو اسی صدی میں دوسری عالمی وبائی کے خطرے کو کم کرنے کی دوڑ میں شامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا کافی امکان موجود ہے کہ کسی مداخلت کے بغیر ایک اور نوول وائرس جانور سے انسان (ہوسٹ) میں منتقل ہوگا اور جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کا موقع تلاش کرے گا۔

    یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چمگادڑ متعدد وائرسز کے اصل یا انڈرمیڈری ہوسٹس (یعنی کسی اور چیز سے منتقل ہو کر وائرس بعد میں چمگادڑ کے ذریعے انسانوں میں پھیلا) ہے، جو حال ہی میں کووڈ 19، سارس، مرس، ایبولا، نیپاہ وائرس، ہیندرا وائرس اور مار برگ وائرس کی وبا کی وجہ بنی۔

    خیال رہے کہ چمگادڑ ایک متنوع گروہ ہے، جس کی انٹارکٹیکا کے سوا ہر براعظم میں 1400 سے زائد اقسام موجود ہیں لیکن اکثر میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ انسانوں اور مویشیوں میں مہلک وائرس منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ خود چمگادڑوں میں ان بیماریوں کی علامات ظاہر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔

  • موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    لندن: برطانوی ماہرین کی حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کسی شخص میں موٹاپے کا شکار رہنے کا دورانیہ امراض قلب اور میٹابولک امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

    برطانیہ کی لوفبرو یونیورسٹی کی حال ہی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپا کسی فرد کی صحت کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے مگر ہر ایک میں مختلف جان لیوا امراض کا خطرہ یکساں نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں محققین نے اس حوالے سے جائزہ لیا کہ موٹاپے کی مدت یعنی کچھ ماہ، سال یا دہائیوں سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے 10 سے 40 سال کی عمر کے 20 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی 3 تحقیقی رپورٹس کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں جسمانی وزن، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور بلڈ شوگر میں اضافے کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ کسی فرد میں موٹاپے کا طویل عرصہ اس میں جان لیوا امراض کے خطرے کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی وزن کو کنٹرول رکھنا کتنا ضروری ہے، تاہم اگر کوئی موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے تو جسمانی وزن میں جلد کمی لا کر جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرنا ممکن ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر کسی فرد کا جسمانی وزن بڑھ جاتا ہے اور وہ اسے وہاں پر ہی روک لیتا ہے تو بھی اس میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یعنی صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

    محققین کے مطابق خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب جسمانی وزن میں اضافہ مسلسل ہوتا چلا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن بڑھنے سے روکنے کے لیے پروٹین سے بھرپور ناشتا، میٹھے مشروبات اور فروٹ جوسز سے گریز، جسمانی وزن میں کمی لانے میں مددگار غذاﺅں کا استعمال، چائے یا کافی کا استعمال کم کرنا اور اچھی نیند لینا معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

  • موڈرینا کی کرونا وائرس ویکسین کتنی مؤثر ہوگی؟

    موڈرینا کی کرونا وائرس ویکسین کتنی مؤثر ہوگی؟

    واشنگٹن: امریکی کمپنی موڈرینا کی کووڈ 19 ویکسین کرونا وائرس سے کم از کم 3 ماہ تک تحفظ فراہم کرسکے گی، اس ویکسین کی منظوری کے لیے رواں ماہ 17 تاریخ کو متعلقہ حکام کا اجلاس منعقد ہوگا۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار الرجیز اینڈ انفیکشیز ڈیزیز (این آئی اے آئی ڈی) کے محققین نے 34 بالغ افراد میں ویکسین کے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ان افراد کو ایم آر این اے 1273 کے پہلے ٹرائل کے دوران ویکسین کے 2 ڈوز دیے گئے تھے۔

    تحقیق کے مطابق ان افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح کی جانچ پڑتال دوسری بار ویکسین کے ڈوز دینے کے 90 دن (پہلے ڈوز کے 119 دن بعد) کی گئی۔

    محققین نے دریافت کیا کہ 3 ماہ بعد بھی خون میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں اور اس سے عندیہ ملا کہ اتنے مہینوں بعد بھی کووڈ 19 کے خلاف جسم کو کسی حد تک مدافعتی تحفظ حاصل تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین سے ایک مخصوص قسم کے ٹی سیلز کا ردعمل متحرک ہوتا ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ کسی حد تک طویل المعیاد مدافعت حاصل ہوسکتی ہے۔

    موڈرینا کے چیف میڈیکل آفیسر ٹال زاکس کا کہنا ہے کہ ویکسین کے ٹرائل کے پہلے مرحلے کے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ہماری ویکسین ہر عمر کے افراد میں وائرس ناکارہ بنانے والی پائیدار اینٹی باڈیز بناتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے مزید امید بڑھتی ہے کہ یہ کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہوگی۔

    امریکا میں موڈرینا کی ویکسین کے استعمال کی منظوری کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا اجلاس 17 دسمبر کو ہوگا۔

    کمپنی کے مطابق وہ سنہ 2020 کے آخر تک 2 کروڑ ڈوز امریکا میں ترسیل کرے گی اور توقع ہے کہ اگلے سال 50 کروڑ سے ایک ارب ڈوز دنیا بھر میں تیار کیے جائیں گے۔