Tag: research

  • روسی سائنسدان نے خود کو دانستہ طور پر کوویڈ19 میں مبتلا کرلیا

    روسی سائنسدان نے خود کو دانستہ طور پر کوویڈ19 میں مبتلا کرلیا

    ماسکو : روسی سائنسدان نے محض تحقیق کیلئے اپنی جان داؤ پر لگادی، کوویڈ19کے بارے میں مزید معلومات کیلئے خود کو دانستہ طور پر کورونا وائرس میں مبتلا کرلیا۔

    اس وقت دنیا بھر میں 160 سے زیادہ گروپ اور ادارے کورونا وائرس کی ویکسیین کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ماہرین کورونا وائرس سے متعلق نئی سے نئی معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔

    اس سلسلے میں ایک روسی سائنس دان نے محض تحقیق کے لئے کوویڈ 19 سے جان بوجھ کر خود کو متاثر کیا، روسی وائرسولو جسٹ پروفیسر69سالہ ڈاکٹر الیگزینڈر چیپرنوف نے خود پر تحقیق کی۔

    پروفیسر اور ان کی ٹیم نے یہ اخذ کیا کہ جسم میں اینٹی باڈیز تیزی سے کم ہوتی ہیں، ٹیم نے زیادہ تر اینٹی باڈی کے اثرات اور جسم کے اندر ان کی لمبی عمر پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس سے پہلے انفیکشن ہونے کے 3 ماہ بعد اینٹی باڈیز کا اب پتہ نہیں چل سکا ہے۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق  روسی وائرسولوجسٹ اور پروفیسرجنہوں نے جان بوجھ کر دوسری بار بیمار ہونے کے تجربے میں خود کو کورونا وائرس سے متاثر کیا ، ان کا کہنا ہے کہ قوت مدافعت کے حوالے سے مبالغہ آرئی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتاہے۔

    69سالہ ڈاکٹر الیگزینڈر چیپرنوف رواں سال فروری میں فرانس کے اسکینگ ٹرپ پر تھے جب انہیں انفیکشن ہوا۔ کورونا وائرس ٹیسٹ کے مثبت ہونے پر انہیں اسپتال داخل کرانے کی ضرورت نہیں تھی اور سائبیریا میں وطن واپس آنے کے بعد وہ صحتیاب ہوگئے۔

    تاہم انسٹی ٹیوٹ آف کلینیکل اینڈ تجرباتی میڈیسن میں چیپرنوف اور ان کی محققین کی ٹیم کو وائرس کے اینٹی باڈیز سے متعلق ایک تحقیق شروع کرنے کا کہا گیا۔

    ڈاکٹر الیگزینڈر چیپرنوف کا کہنا ہے کہ جب میں بیمار ہوا اس وقت سے تیسرے مہینے تک اینٹی باڈی کا پتہ ہی نہیں چلا، اس کے
    بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کچھ خطرناک کرنا چاہیے۔

    روس کے گامالیا انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ماہ کچھ ہزار ویکسین کی تیاری کا آغاز کردے گا جسے اگلے برس کے
    شروع میں لاکھوں کی تعداد تک بڑھایا جائے گا۔

  • کورونا وائرس اب نئے انداز سے انسان پر اثر انداز ہوگا، ماہرین پریشان

    کورونا وائرس اب نئے انداز سے انسان پر اثر انداز ہوگا، ماہرین پریشان

    دنیا بھر میں کورونا وائرس کا قہر کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، ایسے میں سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ کورونا  وائرس نے انسانی جسم پر حملہ آور ہونے کیلئے نیا راستہ اختیار کیا ہے۔

    یہ اس لئے کہا جارہا ہے کیونکہ سائنسدانوں نے اپنی نئی  تحقیق میں یہ اخذ کیا ہے کہ  اب  یہ وائرس انسانوں میں نئے انداز سے داخل؛ ہوگا۔

    ایک سائنسی میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محققین کے مطابق اب یہ وائرس انسانی جسم میں پروٹین کی مدد سے داخل ہورہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایک خاص پروٹین اس وائرس کو انسانی جسم میں داخل ہونے کےلئے مدد کر رہا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے باہری حصہ میں نوکیلی یا اسپائک شکل ہوتی ہے اور اس کی اوپری سطح پر ایک خاص پروٹین ہوتا ہے جو انسانی جسم میں موجود سیلز کے پروٹین اے سی ای-2 سے جڑ جاتا ہے۔

    اس طرح کوروناوائرس انسانی سیلز میں داخل ہو کر اپنی تعداد بڑھاتا ہےاور آہستہ آہستہ جان لیوا وائرس پورے جسم پر قابض ہوجاتا ہے۔

    سائنسدانوں نے اس حوالے سے مزید دو تحقیقات کی ہیں، سائنسدانوں نےاس دوران انسانی سیلز میں موجود نیوروپلن-1 نامی پروٹین کا پتہ لگایاہے۔ یہ پروٹین بھی انسانی جسم میں کورونا وائرس کے ریسپیریٹر کی طرح ہی کام کرتا ہے۔

    ایک اور تحقیق میں انگلینڈ کی برسٹل یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے بتایا ہے کہ نیوروپلن -1 پروٹین سے کورونا وائرس کے جسم میں داخل ہونے کا پتہ لگایا ہے۔

    واضح رہے کہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سیلز میں موجود نیوروپلن-1 پروٹین کےحصہ وائرس پر موجود تھے اوریہ وائرس اس پروٹین پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کے علاوہ جرمنی اور فنلینڈ کے تحقیق کرنے والوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

  • کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    کرونا وائرس کے بارے میں نئی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، حال ہی میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ایک نئی تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں کرونا وائرس کے 5 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونسز کا تجزیہ کیا گیا، تجزیے میں نکشاف ہوا کہ وائرس میں ایسی تبدیلیاں آرہی ہیں یا ایسی اقسام بن رہی ہیں جو اسے زیادہ متعدی بنا رہی ہیں۔

    یہ اقسام مریضوں میں زیادہ وائرل لوڈ کا باعث بنتی ہیں۔ تحقیق میں یہ دریافت نہیں ہوا کہ یہ نئی اقسام پہلے سے زیادہ جان لیوا ہوں گی یا نہیں۔

    اس سے قبل ستمبر کے شروع میں برطانیہ میں کرونا وائرس کے جینیاتی سیکونسز کی بڑی تعداد پر ہونے والی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ان اقسام میں اسپائیک پروٹین کی ساخت پہلے سے تبدیل ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیگر وائرسز کے مقابلے میں کرونا وائرسز جیسے سارس کووڈ 2 جینیاتی طور پر زیادہ مستحکم ہیں جس کی وجہ اس کا نقول بنانے والا پروف ریڈنگ میکنزم ہے تاہم روزانہ لاکھوں نئے کیسز کے ساتھ اس وائرس کو اپنے اندر تبدیلی لانے کے مواقع مل رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر مختلف تبدیلیوں جیسے ماسک پہننے اور سماجی دوری کے اقدامات کے ساتھ اپنی اقسام بنا رہا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ فیس ماسک پہننے، ہاتھوں کو دھونے اور دیگر احتیاطی تدابیر وائرس کی منتقلی کے خلاف رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں، مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے ساتھ یہ وائرس بھی زیادہ متعدی ہوگیا ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحتیاب افراد کے حوالے سے پریشان کن انکشاف

    کرونا وائرس سے صحتیاب افراد کے حوالے سے پریشان کن انکشاف

    کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی تحقیقات اور تجربات سامنے آرہے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد کو صحتیاب ہونے کے بعد بھی مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد مریضوں میں کوویڈ 19 بیماری کے طویل المعیاد اثرات کا مشاہدہ کیا ہے، ایسے مریضوں میں بنیادی علامت سانس لینے میں مشکل ہونا ہے جبکہ انہوں نے ذہن میں دھند چھائے ہونے کی شکایت بھی کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد ایسے مریض جن میں پہلے کوویڈ 19 کی تصدیق ہوئی تھی اور بعد میں لیبارٹری ٹیسٹوں میں انہیں بیماری سے کلیئر قرار دیا گیا تھا، مگر وہ تاحال علامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

    ان کے مطابق کچھ مریضوں کی علامات نظام تنفس سے منتعلق تھیں یعنی سانس لینے میں مشکلات، مسلسل کھانسی، جبکہ دیگر کی علامات الگ تھیں جیسے دماغی دھند اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، جبکہ کچھ مریضوں کی سونگھنے یا چکھنے کی حس تاحال کام نہیں کر رہی۔

    ماہرین میں شامل ڈاکٹر مائیکل بیکلس کا کہنا ہے کہ مریضوں کو ذہنی الجھنوں کا بھی سامنا ہے کیونکہ بیماری کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ سب کچھ معمول پر آجائے گا مگر علامات اب بھی برقرار ہیں۔

    ڈاکٹر مائیکل کے مطابق کچھ ایسے مریض بھی ہیں جو کوویڈ 19 سے متاثر ہونے سے پہلے ہر ہفتے 3 سے 4 گھنٹے جم میں گزارتے تھے، مگر اب ان کے لیے ورزش کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔

    علاوہ ازیں ایسے مریض بھی ہیں جن کے لیے گھر میں سیڑھیاں چڑھنا اترنا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے حالانکہ پہلے انہیں کبھی ایسا مسئلہ نہیں ہوا تھا۔

    چند دن قبل آئر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کوویڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے لاتعداد افراد کو تاحال شدید تھکاوٹ کا سامنا ہے۔

    تحقیق میں زور دیا گیا کہ صحتیاب مریضوں کی مناسب نگہداشت کی جانی چاہیئے اور سنگین حد تک بیمار افراد پر مزید تحقیق کرکے دیکھنا چاہیئے کہ انہیں کس طرح کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس کتنی مزاحمت کرسکتا ہے؟ نئی تحقیق نے ماہرین کو پریشان کردیا

    کرونا وائرس کتنی مزاحمت کرسکتا ہے؟ نئی تحقیق نے ماہرین کو پریشان کردیا

    کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی تحقیقات جاری ہیں، حال ہی میں وائرس کی مزاحمت کی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جس نے ماہرین کو پریشان کردیا۔

    یورپی ملک ہنگری میں ہونے والی ایک تحقیق میں محققین نے کرونا وائرس کو ایک سوئی کے سرے سے دبا کر جاننے کی کوشش کہ کتنی طاقت سے یہ کسی غبارے کی طرح پھٹ سکتا ہے، انہوں نے دریافت کیا کہ ایسا ہوتا ہی نہیں۔

    تحقیق کے دوران سارس کووڈ 2 کے ایک ذرے کو لیا گیا جو کہ محض 80 نینو میٹرز چوڑا تھا اور نینو سوئی کو استعمال کیا گیا جس کا سرا اس سے بھی چھوٹا تھا۔ اس سرے سے وائرس کو دبایا گیا اور دریافت ہوا کہ وہ کسی الاسٹک کی طرح کام کرتا ہے یعنی دبانے کے بعد جب چھوڑا جاتا ہے تو وہ ایک بار پھول جاتا ہے۔

    محققین نے 100 بار ایسا کیا اور ہر بار یہ ذرہ اپنی شکل برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ وائرس حیران کن حد تک مزاحمت کرتا ہے۔

    اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس اب تک کے واقف وائرسز میں سب سے زیادہ لچکدار ہے اور اس کی شکل کو بگاڑنے سے اس کی ساخت اور اندر موجود مواد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

    رواں ہفتے ایک چینی یونیورسٹی کی جانب سے اس وائرس کی ساخت کا سب سے تفصیلی خاکہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ اس میں بڑی مقدار میں نیوکلک ایسڈ کی مقدار ہوتی ہے جو بہت تنگ جگہ میں جینیاتی ڈیٹا کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ وائرس کی مکینیکل اور خود کو ٹھیک کرنے کی خصوصیات ممکنہ طور پر اسے مختلف ماحولیاتی عناصر میں ڈھلنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔

  • کرونا وائرس دماغ کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ حیران کن انکشاف

    کرونا وائرس دماغ کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ حیران کن انکشاف

    واشنگٹن: دنیا بھر میں کرونا وائرس پر تحقیقاتی کام جاری ہے، حال ہی میں کرونا وائرس کے دماغ پر اثرات سے متعلق ایک تحقیق نے ماہرین کو پریشان کردیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکا کی ییل یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس دماغ کے خلیوں کو اپنے زیر اثر لے لیتا ہے۔

    ماہرین نے اسے دماغ کے خلیوں کی ہائی جیکنگ قرار دیا ہے جس میں وائرس دماغ کے خلیوں کو ہائی جیک کر لیتا ہے تاکہ وہ خود ان کی نقول تیار کرسکے، ان کی موجودگی کی وجہ سے آس پاس کے دماغی خلیات آکسیجن کی شدید کمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    تحقیق کے دوران اس بات کے بھی واضح ثبوت ملے کہ کرونا وائرس دماغ کے حصے میں میٹا بولک تبدیلی کے ساتھ اس کے ارد گرد کے خلیات کو بھی متاثر کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انفیکشن کو اے سی ای 2 کو بلاک کر کے روکا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے چوہوں کے ایک گروہ میں ان کے صرف پھیپھڑوں میں جنیاتی طور پر اے سی ای 2 میں تبدیلی کی، جبکہ دوسرے گروہ کے صرف دماغ میں یہ عمل کیا۔

    جب وائرس ان چوہوں میں داخل کیا گیا تو جن کے دماغ میں انفیکشن کا اثر تھا، ان کے وزن میں تیزی سے کمی ہونے لگی اور 6 دن میں وہ مر گئے، اس کے برعکس پھیپھڑے متاثر ہونے والے چوہوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔

    جب پہلے گروہ کے چوہوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ وائرس کورٹیکل نیورونز تک پہنچ گیا تھا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ نیورونز، کرونا وائرس (سارس کووڈ 2) کے حملے کا ہدف بن سکتے ہیں اور اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسے میں مقامی طور پر خون کی فراہمی رک جاتی ہے اور خلیات مر جاتے ہیں۔

    اس سے قبل ڈاکٹرز کچھ وقت تک تو یہ سمجھتے رہے کہ کرونا وائرس ایک رینج تک نیورولوجیکل بے ترتیبی، دماغ کے پروٹین پر مشتمل حصے میں خرابی، مرکزی اعصابی نظام میں سوزش، خون کے جمنے کے سبب دماغ میں خون نہ پہنچنے سے ہونے والے اسٹروک، تکلیف یا کمزوری سے عضو کے مفلوج ہونے کا سبب بنتا ہے، تاہم اس کی اصل وجہ نامعلوم تھی۔

    اس کا سبب یہی براہ راست انفیکشن تھا جسے اب ماہرین نے معلوم کرلیا ہے۔

  • کورونا وائرس کی نئی تحقیق نے ماہرین کو بھی حیران کردیا

    کورونا وائرس کی نئی تحقیق نے ماہرین کو بھی حیران کردیا

    کچھ عرصہ قبل دنیا بھر میں طبی ماہرین کے لیے کورونا وائرس کا ایک اور پہلو معمہ بن گیا تھا جسے سائیلنٹ یا ہیپی ہائپوکسیا کا نام دیا گیا۔

    اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ہائپوکسیا میں جسمانی بافتوں یا خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں جو اس کا اثر دیکھنے میں آرہا ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔

    اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

    نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ19کے بارے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ یہ جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے۔

    پہلے یہ بات سامنے آئی کہ اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کوویڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔

    حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

    عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔

    یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی، اب سائنسدانوں نے اس کی ایک ممکنہ وجہ تلاش کرلی ہے اور وہ ہے پھیپھڑوں میں خون کی شریانوں کا نمایاں حد تک پھیل جانا۔

    ایشکن اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں کووڈ 19 کے شکار افراد کے پھیپھڑوں میں خون کی شریانیں بہت زیادہ پھیل جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں آکسیجن کی سطح میں بہت زیادہ کمی آتی ہے۔

    اسی بات سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ اس طرح کے دیگر امراض جیسے اے آر ڈی ایس سے مختلف کیوں ہے؟ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف ریسیپٹری اینڈ کریٹیکل کیئر میڈیسن میں شائع ہوئے۔

  • کرونا وائرس کی دواؤں کے حوالے سے اہم تحقیق

    کرونا وائرس کی دواؤں کے حوالے سے اہم تحقیق

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے کرونا وائرس کا علاج کرنے والی دواؤں کی شناخت کرلی، ماہرین کے مطابق ان کی حکمت عملی سے کرونا وائرس کے خلاف ادویات کی دریافت کو تیز کیا جاسکے گا۔

    جریدے جرنل ہیلی یون میں شائع شدہ ایک طبی تحقیق کے مطابق کیلی فورنیا یونیورسٹی میں اے آئی (مصنوعی ذہانت) ٹیکنالوجی کی مدد سے کرونا وائرس کا علاج کرنے والی ادویات کی شناخت کی گئی ہے۔

    اس مقصد کے لیے اے آئی ٹیکنالوجی پر مبنی ایک کمپیوٹر الگورتھم کی مدد لی گئی جو ٹرائل اور غلطیوں سے پیشگوئی کرنا سیکھتا اور خود کو بہتر بناتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی حالیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ادویات کی شناخت میں مدد گار حکمت عملی نہایت اہمیت رکھتی ہے، تاکہ منظم طریقے سے کووڈ 19 کے علاج کے لیے نئی ادویات کو دریافت کیا جاسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی منظور کردہ ایسی ادویات جو وائرس کے داخلے میں مدد دینے والے ایک یا زیادہ پروٹین کو ہدف بناتی ہیں، مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اضافی ادویات یا چھوٹے مالیکیولز جو وائرس کے جسم میں داخلے اور اس کی نقول بننے کے عمل میں رکاوٹ بن سکیں، کی دریافت کے لیے ان کی حکمت عملی مددگار ثابت ہوسکے گی۔

    مذکورہ تحقیق کے لیے 65 انسانی پروٹینز کی فہرست کو استعمال کیا گیا جن کے بارے میں علم ہوا کہ وہ کرونا وائرس کے پروٹینز سے رابطے میں رہتے ہیں، جس کے بعد ہر پروٹین کے لیے مشین لرننگ ماڈلز تیار کیے گئے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان ماڈلز کو وائرس کی روک تھام کرنے والے نئے چھوٹے مالیکیول اور ایکٹیویٹرز کی شناخت کی تربیت دی گئی۔

    اس کے بعد محققین نے ان مشین لرننگ ماڈلز کو ایک کروڑ عام دستیاب چھوٹے مالیکیولز کی اسکریننگ کے لیے استعمال کر کے شناخت کی کہ کونسے کیمیکلز نئے کرونا وائرس کے پروٹینز سے رابطے میں رہنے والے پروٹینز کے لیے بہترین ہیں۔

    اس کے بعد مزید پیشرفت کرتے ہوئے ایسے غذائی مرکبات اور ادویات کو شناخت کیا گیا جن کی منظوری ایف ڈی اے پہلے ہی دے چکی ہے۔

    اس طریقہ کار سے نہ صرف سائنسدانوں کو سنگل انسانی پروٹین کو ہدف بنانے والے امیدواروں کی شناخت میں مدد ملی بلکہ انہوں نے دریافت کیا کہ کچھ کیمیکلز 2 یا اس سے زائد انسانی پروٹینز کو بھی ہدف بناسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا ڈیٹا بیس کووڈ 19 اور دیگر امراض کے خلاف فوری اور محفوظ علاج کی حکمت عملیوں کی شناخت کے وسیلے کا کام کرسکے گا جو ان 65 مخصوص پروٹین سے متعلق ہوں۔

  • کورونا سے صحت یاب مریض کون سے دیرینہ مسائل کا شکار رہتا ہے

    کورونا سے صحت یاب مریض کون سے دیرینہ مسائل کا شکار رہتا ہے

    لندن : برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے کورونا وائرس کو ہسپتال میں زیرعلاج رہ کر شکست دینے والے اکثر مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    لیڈز یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ان طویل المعیاد علامات میں شدید تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، نفسیاتی مسائل بشمول توجہ مرکوز کرنے اور یادداشت متاثر ہونے اور مجموعی طور پر معیار زندگی متاثر ہونا شامل ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کچھ مریضوں خصوصاً آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے افراد میں ایسی علامات کو دیکھا گیا جو کسی بڑے سانحے کے بعد طاری ہونے والے عارضے پی ٹی ایس ڈی کے کیسز میں سامنے آتی ہیں۔

    تحقیق کے نتائج میں برطانیہ میں کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد کو درپیش مسائل پر پہلا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 ایک نئی بیماری ہے اور ہمیں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے والے افراد کو درپیش طویل المعیاد مسائل کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ مگر ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں کہ مکمل صحتیابی کے عمل میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور ضروری ہے کہ بحالی نو کے لیے ان کی معاونت کی جائے، اس تحقیق میں مریضوں کی ضروریات پر اہم تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

    طبی جریدے جرنل آف میڈیکل وائرلوجی میں شائ تحقیق میں ہسپتال سے ڈسچارج مریضوں میں علامات اور بحالی نو کے عمل کا جائزہ لیا گیا۔

    محققین کے مطابق اس تحقیق میں ہمارے ماضی کے کام کو آگے بڑھایا گیا جس میں کووڈ 19 کے مریضوں کی طویل المعیاد ضروریات کی پیشگوئی 2002 کی سارس کورونا وائرس اور 2012 کے مرس کورونا وائرس کی وبا کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی کیونکہ ان وبائی امراض کے شکار افراد کے طبی مسائل بھی کووڈ 19 کے مریضوں سے ملتے جلتے ہیں مگر یہ زیادہ بڑے پیمانے پر پھیلنے والی بیماری ہے۔

    اس تحقیق میں کووڈ 19 کے ایسے سو مریضوں کا 8 ہفتوں تک جائزہ لیا گیا جن کو لیڈز کے ہسپتالوں سے ڈسچارج کیا جاچکا تھا۔ ان افراد کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک گروپ ان افراد پر مشتمل تھا جو بہت زیادہ بیمار اور آئی سی یو میں زیرعلاج رہے اور ان کی تعداد 32 تھی۔

    دوسرا گروپ 68 افراد پر مشتمل تھا جو ایسے مریضوں کا تھا جن کو آئی سی یو کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ ان افراد سے صحتیابی اور ان علامات کے بارے میں سوالات پوچھے گئے جن کا وہ تاحال سامنا کررہے تھے۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ان دونوں گروپس میں سب سے عام علامت شدید تھکاوٹ تھی۔

    ایسے افراد جو عام وارڈ میں زیرعلاج رہے ان میں 60 فیصد سے زائد نے معتدل یا شدید تھکاوٹ کو رپورٹ کیا گیا جبکہ آئی سی یو میں زیرعلاج افراد میں یہ شرح72 فیصد تھی۔

    دوسری سب سے عام علامت سانس لینے میں مشکلات تھیں اور دونوں گروپس کے لوگوں کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے شکار ہونے سے پہلے ان کو اس مسئلے کا سامنا نہیں تھا۔

    اس مسئلے کی شرح آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے افراد میں 65.6 فیصد جبکہ عام وارڈ میں علاج کرنے والوں میں 42.6فیصد تھی۔

    تیسری سب سے عام علامات نفسیاتی مسائل پر مبنی تھیں جس کی شرح وارڈ میں زیرعلاج افراد میں25 فیصد کے قریب جبکہ آئی سی یو میں زیرعلاج افراد میں50 فیصد کے قریب تھی۔

    محققین کے مطابق پی ٹی ایس ڈی علامات اکثر بیماریوں کے نتیجے میں آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے افراد میں عام ہوتی ہیں جس کے عناصر مختلف ہوتے ہیں جیاسے موت کا ڈر، علاج، درد، کمزوری، نیند کی کمی اور دیگر۔

    آئی سی یو میں رہنے والے68.8 فیصد جبکہ وارڈ میں زیرعلاج رہنے والے 45.6 فیصد مریضوں نے مجموعی معیار زندگی متاثر ہونے کو رپورٹ کیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اب وہ مستقبل قریب میں ایسے مریضوں میں کووڈ19 کے طویل المعیاد اثرات کا جائزہ لیں گے جن کو علاج کے لیے اسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

  • کرونا وائرس سے ایک بار متاثر افراد کتنے دن تک اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

    کرونا وائرس سے ایک بار متاثر افراد کتنے دن تک اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

    لندن : حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد جو اس مرض کے دوبارہ شکار ہونے کی مزاحمت اور قوت مدافعت حاصل کرلیتے ہیں، چند ماہ میں اس سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    لندن کے کنگ کالج میں کی گئی ایک تحقیق میں 90 سے زیادہ ایسے افراد کے خون میں موجود اینٹی باڈیز کا تجزیہ کیا گیا جو کرونا وائرس سے صحتیاب ہوچکے تھے۔

    کرونا وائرس سے صحتیاب افراد اس مرض کے خلاف قوت مدافعت حاصل کرلیتے ہیں جس کے باعث وہ دوبارہ اس بیماری کا شکار ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔

    مذکورہ تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ افراد جن میں اس وائرس کے خلاف معمولی علامات بھی ظاہر ہوئیں، ان میں بھی اس مرض سے دوبارہ متاثر ہونے کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہوئی۔

    تاہم تحقیق کے مطابق یہ اینٹی باڈیز جلد ختم ہوجاتی ہیں، 3 ماہ بعد تحقیق میں شامل صرف 16.7 فیصد مریضوں میں ہی میں یہ اینٹی باڈیز پائی گئیں، بقیہ مریضوں کے خون میں کسی قسم کی کوئی اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق دنیا بھر کی حکومتوں کی اس حکمت عملی کو تبدیل کرسکتی ہے جو ان کی اس وبا کے دوسرے فیز کے حوالے سے ہوگی۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک اہم تحقیق ہے جس سے اینٹی باڈیز کے کرونا وائرس کے خلاف طویل المدتی ردعمل سے آگاہی ہوئی ہے، علاوہ ازیں اینٹی باڈیز کی یہ صلاحیت ویکسین کی تیاری کے حوالے سے بھی اہم ہے۔