Tag: research

  • نئی قسم کا کرونا وائرس پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، تحقیق

    نئی قسم کا کرونا وائرس پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، تحقیق

    واشنگٹن : طبی ماہرین نے ایک تحقیقی مقالے میں دعویٰ کیا ہے کہ ایک نئی قسم کا تغیراتی کورونا وائرس پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے تاہم خوش قسمتی سے یہ متاثرہ افراد کو بیمار نہیں کر رہا ہے۔

    نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینے والی بیماری کا سبب بننے والا موجودہ وائرس اس اصل کورونا وائرس سے تین سے چھ گنا زیادہ تیز رفتاری سے پھیلتا ہے، جو ووہان سے پھیلنا شروع ہوا تھا۔

    امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کی ڈیوک یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ اس بات کے واضح ثبوت ملے ہیں کہ کورونا وائرس کی

    ایک اور نئی شکل سامنے آئی ہے جو یورپ سے امریکہ تک پھیل گئی ہے۔

    سائنسی جریدے سَیل میں شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ کوویڈ 19 کی تبدیل شدہ شکل جو اس وقت دنیا کے لاتعداد انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، اس وبا سے کہیں زیادہ شدید اور مہلک ہے جس کا پھیلاؤ چین سے شروع ہوا تھا۔

    محققین کے مطابق تحقیقاتی مطالعے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ نئی قسم کے تغیراتی کورونا وائرس سے لوگوں میں انفیکشن کا امکان پڑھ جاتا ہے لیکن اس کے حملے سے متاثرہ شخص زیادہ بیمار نہیں ہوگا۔

    ایک جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محققین کی ٹیم نے نہ صرف زیادہ جینیاتی معاملات کی جانچ پڑتال کی ہے بلکہ انہوں نے لیبارٹری میں لوگوں جانوروں اور خلیوں کو شامل کرنے کے تجربات بھی کیے ہیں جن سے یہ بات سامنے آئی کہ ہے کہ یہ تبدیل شدہ ورژن زیادہ عام ہے اور یہ دوسرے ورژن کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے۔

    اس نئی تحقیق کے بارے میں محقیقن نے مزید کہا کہ ہمارے پاس تاہم اب تک اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم کسی ایک فرد کی حالت کو مزید خراب کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

    ایسا ضرور لگ رہا ہے کہ اس وائرس میں قوت مزاحمت زیادہ ہے اور یہ اپنے اثرات کو دہرانے کی کہیں زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں منتقلی کی صلاحیتیں بھی کہیں زیادہ ہیں،ان سب امکانات کی تصدیق کی فی الحال کوششیں کی جا رہی ہیں۔

    واضح رہے کہ فی الحال اس تحقیق کے نتائج کو صرف امکانی ہی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اس طرح کے تجربات کسی وبائی مرض کے محرکات کی درست طور پر وضاحت نہیں کرتے۔ اس وقت کورونا وائرس اپنی متغیر شکل میں بہت زیادہ گردش میں ہے۔ اس لئے موجودہ حالت میں اسے زیادہ ’متعدی‘ سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ انسانوں کے مابین اس جرثومے کی ‘منتقلی کم ہو۔

    https://myfox8.com/news/coronavirus/study-confirms-new-version-of-coronavirus-spreads-faster-but-doesnt-make-people-sicker/

  • کورونا وائرس : ہائیڈروکسی کلورو کوئن سے متعلق سائنسدانوں کا خطرناک انکشاف

    کورونا وائرس : ہائیڈروکسی کلورو کوئن سے متعلق سائنسدانوں کا خطرناک انکشاف

    لندن : ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ ملیریا کی دوا ہائیڈروکسی کلورو کوئن کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے فائدہ مند نہیں ہے بلکہ اس کے استعمال سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    دی لینسیٹ میں جمعہ کو شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تقریبا ایک لاکھ کورونا وائرس کے مریضوں کے مطالعے میں اینٹی وائرل دوائیوں ہائیڈروکسی کلورو کوئن کے ساتھ ان کا علاج کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے بلکہ مریضوں کی اموات کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔

    ہائیڈروکسی کلورو کوئن عام طور پر گٹھیا کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر عوامی شخصیات کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ اس ہفتے سے وہ اسے باقاعدگی سے لے رہے ہیں نے حکومتوں کو بڑی تعداد میں یہ دوا خریدنے کا اشارہ کیا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں ملیریا کی دوا کلورو کوئن اور ہائیڈروکسی کلورو کوئن کو کورونا علاج کے لیے تجویز دی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے علاج اور ویکسین کی تیاری کے لیے سرخ فیتے کی رکاوٹیں ختم کردی ہیں۔

    کلوروکین اینٹی ملیریا ہے، دونوں دواؤں سے ممکنہ طور پر سنگین ضمنی اثرات پیدا ہوسکتے ہیں، دی لینسیٹ کی تحقیق کے مطابق منشیات سے فائدہ اٹھانے والے مریضوں کو کوویڈ 19 میں داخل نہیں کیا گیا۔

    سینکڑوں اسپتالوں میں96،000مریضوں کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ادویات کے انتظام سے مرنے کا خطرہ در حقیقت بڑھ گیا ہے۔

    انہوں نے چار گروپوں کے نتائج کا موازنہ کیا جن کا علاج صرف ہائڈرو آکسیلوکلورن کے ساتھ ، صرف کلوروکین کے ساتھ ہوتا تھا اور پھر دو گروہوں نے انٹی بائیوٹکس کے ساتھ مل کر متعلقہ دوائیں دی تھیں۔

    صرف ہائڈرو آکسیروکلروکین یا کلوروکین کے ساتھ علاج کرنے والوں میں بالترتیب 18 فیصد اور 16.4 فیصد فوت ہوگئے تھے۔

    اور جو دوائی اینٹی بائیوٹک کے ساتھ مل کر دی جاتی ہیں ان کی موت کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں، کلوروکین کے ساتھ 22.8 فیصد اور ائیڈروکسی کلورو کوئن کے ساتھ 23.8 فیصد ہے۔

    ماہرین کا تخمینہ ہے کہ منشیات سے مریضوں کو صحت سے متعلق بنیادی مسائل کے مقابلے میں کوویڈ 19 میں مرنے کا 45 فیصد زیادہ خطرہ لاحق ہے۔

  • اینٹی کرونا ویکسین کی تیاری جاری، جون تک متعارف کرادی جائے گی

    اینٹی کرونا ویکسین کی تیاری جاری، جون تک متعارف کرادی جائے گی

    لندن : کرونا وائرس کی ویکسین تیاری آخری مراحل میں داخل ہوگئی، سائنسدان چوہوں پر ویکسین کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین تیاری کے آخری مراحلے میں ہے،جون تک ویکسین عوام کے لئے تیار
    ہوجائے گی۔

    امپیرئل کالج  لندن کے سائنسدان ویکسین کی تیاری میں مصروف عمل ہیں۔ اس حوالے سے ہیڈ آف ریسرچ ڈاکٹر رابن شاٹوک نے بتایا ہے کہ جون تک ویکسین انسانوں کیلئے تیار ہو جائے گی۔

    مزید پڑھیں : سائنس دان مرنے کے بعد میراث میں کروناوائرس کی ویکسین چھوڑ گیا

    ان کا کہنا ہے کہ چوہوں پر تجربات مکمل کرلیے گئے ہیں اگلے مرحلے میں بندروں پر ویکسین کا تجربہ کیا جائے گا،  ڈاکٹر رابن کے مطابق فرانس کے سائنسدان بھی ویکسین تیاری میں شریک ہیں۔

  • کورونا وائرس کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے؟؟

    کورونا وائرس کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے؟؟

    دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 3600 سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پھیپھڑوں کے شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا وائرس جو گزشتہ ماہ دسمبر میں چین سے شروع ہوا اوراب دنیا کےسو سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے۔

    چین کے شہر ووہان سے اس جان لیوا وائرس کے پھیلنے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے جنوری میں گلوبل پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا اور جب سے ہی اس کے بارے میں جاننے اور اس کے تدارک کے لیے سائنسدان مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔

    حالیہ تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس بہت تیزی سے پیش رفت کرتا ہے، جرمنی کی یونیورسٹیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دریافت کرلیا ہے یہ وائرس کس وقت سب سے زیادہ پھیلتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج  سے یہ بات سامنے آئی کہ آخر کیوں یہ وائرس بہت آسانی سے پھیل رہا ہے کیونکہ بیشتر افراد اس وقت اسے پھیلا رہے ہوتے ہیں، جب اس کی علامات معمولی اور نزلہ زکام جیسی ہوتی ہیں، تاہم محققین نے اس کو آن لائن شائع کیا ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ یہ وائرس مختلف مراحل میں کس طرح اور کن ذرائع سے پھیلتا ہے۔

    محققین نے وائرس کے شکار نو افراد کے متعدد نمونوں کا تجزیہ کیا جن کا علاج میونخ کے ایک اسپتال میں ہورہا تھا اور ان سب میں اس کی شدت معتدل تھی، یہ سب مریض جوان یا درمیانی عمر کے تھے اور کسی اور مرض کے شکار بھی نہیں تھے۔

    محققین نے ان کے تھوک، خون، پیشاب، بلغم اور فضلے کے نمونے انفیکشن کے مختلف مراحل میں اکٹھے کیے اور پھر ان کا تجزیہ کیا۔ مریضوں کے حلق سے لیے گئے نمونوں سے انکشاف ہوا کہ یہ وائرس جب کسی فرد کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو پہلے ہفتے میں سب سے زیادہ متعدی ہوتا ہے۔

    مریضوں کے خون اور پیشاب کے نمونوں میں وائرس کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں ہوئے تاہم فضلے میں وائرل این اے موجود تھا۔ انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن افراد میں اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

    ان میں وائرس کے متعدی ہونے کا عمل 10 یا 11 ویں دن تک عروج پر پہنچتا ہے جبکہ معتدل مریضوں میں پانچ دن کے بعد اس عمل کی شدت میں بتدریج کمی آنے لگتی ہے اور 10 ویں دن ممکنہ طور پر یہ مریض اسے مزید پھیلا نہیں پاتے۔

  • نوجوانوں میں پیٹ کا کینسر بڑھنے لگا، تحقیق

    نوجوانوں میں پیٹ کا کینسر بڑھنے لگا، تحقیق

    واشنگٹن : امریکی ماہرین نے حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پیٹ کا کینسر نوجوانوں میں بڑھ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی یونیورسٹی مایو کلینک کے ماہرین کی جانب سے گزشتہ 2 سے 3 دہائیوں کے دوران پیٹ کے کینسر میں مبتلا ہونے والے افراد کا جائزہ لیا جس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ دہائیوں میں نوجوان بڑی تعداد میں پیٹ کے کینسر میں مبتلا ہوئے ہیں۔

    ماہرین نے 1973 سے لیکے 2015 تک پیٹ کے کینسر میں مبتلا افراد کے میڈیکل ریکارڈ، بیماریوں، اور ان کی وجوہات کا جائزہ لیا جبکہ جن افراد کے میڈیکل ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تھا ان میں 30 سے 60 سال کی عمر کے افراد شامل تھے۔

    سائنسی میگزین میں شائع تحقیقاتی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ گزشتہ 2 سے 3 دہائیوں کے دوران پیٹ کے کینسر میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افرد کم عمر ہیں۔

    تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ 1970 تک 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد پیٹ کے کینسر میں مبتلا ہوتے تھے تاہم 1970 کے بعد عمر رسیدہ افراد کے موذی مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد ایک اعشاریہ کمی دیکھی گئی تھی جبکہ 30 سال کی عمر کے افراد کا پیٹ کے کینسر میں مبتلا ہونے کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کے بعد 40 سال کی عمر کے افراد بڑی تعداد میں کینسر میں مبتلا ہوئے ہیں۔

    مذکورہ جائزے کو پیٹ کے کینسر کی تحقیق کے حوالے سے اب تک کے سب سے بڑی تحقیق کہا جا رہا ہے۔

    ماہرین نے اپنی رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا کہ گزشتہ 2 سے 3 دہائیوں میں ادھیڑ عمر کے افراد کے بجائے نوجوان افراد کے پیٹ کے کینسر میں مبتلا ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

    تاہم ماہرین نے کہا کہ ڈیٹا سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ 30 سال کی عمر میں پیٹ کے کینسر میں مبتلا ہونے والے مریضوں کو کینسر کی ادویات اور کیموتھراپی بھی خاص فائدہ نہیں دے رہیں۔

  • نارنگی (کینو) کا استعمال فالج کا خطرہ کم کرتا ہے، تحقیق

    نارنگی (کینو) کا استعمال فالج کا خطرہ کم کرتا ہے، تحقیق

    سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی جہاں دیگر پھل ہمارے بازاروں کی زینت بنتے ہیں وہیں نارنگی کی خوشبو بھی فضاء کو معطر کررہی ہوتی ہے، قدرت کا یہ انمول تحفہ وٹامن سی کی دولت سے مالا مال ہے جبکہ اس کے چھلکے میں بھی کئی فوائد پوشیدہ ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر روزانہ ایک نارنگی (کینو) کھائی جائے تو امراض قلب اور بلڈ پریشر سمیت متعدد بیماریوں سے بچے رہنے کے ساتھ ساتھ صحت مند بھی رہ جاسکتا ہے۔

    ماہرین کی جانب سے مسلسل 15 برس تک 28 ہزار لوگوں پر تحقیق کرنے کے بعد پھل اور سبزیوں کے انسانی صحت اور دماغی قوت پر پڑنے والے مثبت اثرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص روزانہ کی بنیاد پر کینو کا ایک گلاس رس نوش کرے تو اس کا حفاظہ متاثر ہونے کا خطرہ 47 فیصد تک ٹل جاتا ہے۔

    ہالینڈ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ انوائرمنٹ نے یورپی کینسر اینڈ نیوٹریشن نے اپنے پروگرام کے دوران 20 سے لیکر 70 سال عمر تک کے افراد کا سروے کیا جس میں ان سے غذا، صحت سے متعلق معلومات حاصل کی گئیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نارنگی کے رس کا استعمال فالج کا خطرہ بھی ٹال دیتا ہے اور اسی طرح دیگر تازہ پھلوں کا جوس بھی فالج کے خطرے کو کم کرتا ہے۔

    برٹش جرنل آف نیوٹریشن کے مطابق اگر ایک ہفتے کے دوران 8 گلاس نارنگی کا جوس نوش کیا جائے تو فالج کا خطرہ 25 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    کینو کا رس استعمال کرنے سے دل کی شریانوں کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی 12 سے 13 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق کینو کے رس کا مسلسل استعمال خون کی روانی کو بڑھاتا ہے جس کا اثر پورے جسم میں ہوتا ہے اور وٹامن سی، فائبر، وٹامن بی ون اور دیگر اہم اجزا سے بھرپور کینو دیگر 80 غذائی اجزا اور کیمیکل کی مدد چہرے کو خوبصورت اور شاداب بناتے ہیں۔

  • اپریل میں پیدائش عارضہ قلب کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، تحقیق

    اپریل میں پیدائش عارضہ قلب کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، تحقیق

    واشنگٹن : اپریل سے جون تک پیدا ہونے والے بچوں میں بعد کی زندگی میں عارضہ قلب کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کی طبی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ موسم بہار میں پیدا ہونے والے افراد میں عارضہ قلب کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ایک لاکھ 16ہزار سے زائد افراد کی تاریخ پیدائش اور ان کے قلب کی شریانوں سے جڑے امراض کے مابین موازنہ کیا گیا تھا۔

    تحقیق کاروں نے اپنے رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اپریل (موسم بہار) میں پیدا ہونے والے افراد کا نومبر میں پیدا ہونے والے افراد کے مقابلے میں عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر مرنے کا 12 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

    اگرچہ یہ تو واضح نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر سائنسدانوں کے خیال میں موسم کے مطابق غذا، ہوائی آلودگی اور سورج کی روشنی میں تبدیلی وغیرہ حمل اور زندگی کی ابتدا میں کردار ادا کرنے والے عوامل ہیں۔

    محققین نے اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے 1976 میں نرسوں پر ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج کا جائزہ لیا جو 38 سال تک جاری رہی تھی۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ جن خواتین کی پیدائش اپریل میں ہوئی، ان میں امراض قلب سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، مارچ میں پیدا ہونے والی خواتین میں یہ خطرہ 9 فیصد، مئی یا جولائی میں 8 فیصد جبکہ جون میں 7 فیصد ہوتا ہے، دسمبر میں یہ شرح 5 فیصد ہوتی ہے۔

    جریدے بی ایم جے میں شائع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ امیر گھرانوں میں پیدا ہونے والے افراد میں امراض قلب اور جلد موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    سائنسدانوں نے آخر میں واضح کیا کہ اس کی وجہ فی الحال واضح نہیں اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ نتائج کی تصدیق کی جاسکے اور اس کے ممکنہ میکنزم کو بھی سامنے لایا جاسکے۔

  • پینٹاگون کی مختلف شعبوں میں تحقیق کیلئے جرمن یونیورسٹی کو فنڈنگ

    پینٹاگون کی مختلف شعبوں میں تحقیق کیلئے جرمن یونیورسٹی کو فنڈنگ

    نیویارک/برلن : پینٹاگون نے وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے دھماکا خیز مواد کا متبادل تیار کرنے سے لے کر وہیل مچھلیوں کا کھوج لگانے کا نظام تیار کرنے تک کے لیےجرمنی کو 260 گرانٹس فراہم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ دفاع سال 2008ءکے بعد سے اب تک جرمن یونیورسٹیوں اور اداروں کو 21.7 ملین ڈالرز کی فنڈنگ کر چکا ہے جس کا مقصد ریسرچ پراجیکٹس میں مدد کرنا تھا۔

    غیرملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ اس دوران پینٹاگون کی جانب سے 260 گرانٹس جاری کی گئیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مختلف موضوعات سے متعلق تحقیق کے لیے تھیں۔سب سے زیادہ گرانٹ میونخ کی ‘لُڈوِگ ماکسی میلیئنس یونیورسٹیٹ کو فراہم کی جس کا حجم 3.7 ملین ڈالرز بنتا ہے۔

    میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ گرانٹ 23 مختلف پراجیکٹس کے لیے فراہم کی گئی، ان میں سے ایک تحقیق بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے دھماکا خیز موادآرڈی ایکس کا متبال تیار کرنے کے لیے بھی تھی جس کے لیے 1.72 ملین ڈالرز فراہم کیے گئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس کے علاوہ جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی یونیورسٹیوں کو بھی گرانٹس فراہم کی گئیں حالانکہ اس ریاست کے قانون کے مطابق یونیورسٹیوں کو پائیدار، پر امن اور جمہوری دنیا کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اورپر امن اہداف سے جڑے رہنا چاہیے۔

  • جوہری جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے، عالمی ادارہ تحقیق برائے انسداد ہتھیار

    جوہری جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے، عالمی ادارہ تحقیق برائے انسداد ہتھیار

    واشنگٹن : عالمی ادارہ انسداد ہتھیار ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے تمام ممالک میں نیوکلیئر ماڈرانائزیشن پروگرام جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا اور اس کے روایتی حریف ایران کے درمیان گذشتہ برس جوہری عالمی طاقتوں کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے جس نے دنیا میں جوہری جنگ کا خطرہ مزید بڑھا دیا ہے۔

    عالمی ادارہ تحقیق برائے انسداد ہتھیار نے کہا ہے کہ جوہری جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے، اس اہم اور فوری نوعیت کے معاملے سے نمٹنے کیلئے دنیا سنجیدگی سے غور کرے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عالمی ادارے کی ڈائریکٹر برائے عدم ہتھیار تحقیق رینا ٹاڈان نے انتباہی بیان دیتے ہوئے کہا کہ دوسری عالمی جنگ سے ابتک کے مقابلے میں اب جوہری جنگ کاخطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سمیت متعدد عناصراس کی وجوہات میں شامل ہیں اور ان کا خطرہ اب زیادہ ہے اور ان سے متعلق سوچنا، ان سے نمٹنے کیلئے انتظامات انتہائی جواب طلب سوالات ہیں۔

    ریناٹاڈان کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے تمام ممالک میں نیوکلیئر ماڈرانائزیشن پروگرام جاری ہے ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق بھی منظر نامہ تبدیل ہو رہاہے،ان معاملات کے پیچھے کسی حد تک امریکا چین کے درمیان اسٹریٹیجک مسابقت بھی کار فرما ہے۔

  • پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کوبھی پیچھے چھوڑدیا، پروفیسرعطاءالرحمن

    پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کوبھی پیچھے چھوڑدیا، پروفیسرعطاءالرحمن

    کراچی : سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق وفاقی وزیر چئیرمین وزیرِ اعظم ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی ،ممتاز سائنس دان پروفیسر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

    ہائر ایجوکیشن کے قیام کے بعد ریسرچ کے کام میں کافی تیزی سے آئی،سال 2001میں بھارت ہم سے آگے تھا، اب ہم نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے، اب ہمارا مقابلہ چائنا سے ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈاﺅ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اشتراک سے ساتویں انٹرنیشنل کانفرنس آن انڈورسنگ ہیلتھ سائنس ریسرچ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    انہوں نے کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے پہلے ایک ارب دیئے گئے اب بجٹ بڑھا کر20ارب کر دیا گیا ہے، مگر ہمیں پرائمری ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کو بڑھانا ہوگا، صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ اس کے استعمال کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ انفراسٹرکچر نہ ہو تو لوگ اپنے طور پر صاف پانی استعمال کرسکیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریسرچ کے شعبے میں نجی شعبے کا حصہ بہت کم ہے، چین میں نجی شعبہ ریسرچ پر 60فیصد خرچ کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم صرف قدرتی اور بعض صنعتی اشیا کی برآمدات کی فکر میں رہتے ہیں، جبکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ کے ذریعے ہم بہت زیادہ زرِ مبادلہ کما سکتے ہیں۔

    گذشتہ ادوار میں سائنس و ٹیکنالوجی کو نظر انداز کرکے ہم نے نقصان اٹھایا ہے۔ کانفرنس سے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی ، پروفیسر ٹیپو سلطان، منسٹری آف ہیلتھ سے ڈاکٹر عابد علی، ایڈوانس ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ کی سی ای او ڈاکٹر صدف احمد نے بھی خطاب کیا۔