Tag: research

  • چین کے خلائی اسٹیشن کا ملبہ 30 مارچ کو زمین پر گرے گا

    چین کے خلائی اسٹیشن کا ملبہ 30 مارچ کو زمین پر گرے گا

    بیجنگ: چین کی جانب سے تیار کردہ ’تینا گونگ ون‘ نامی خلائی اسٹیشن کا ملبہ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد رواں ماہ 30 مارچ کو زمین پر گرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق 2011 میں خلائی اسٹیشن کو اپنے مشن کے لیے روانہ کیا گیا تھا جسے اپنا مشن پانچ سال میں مکمل کرنے کے بعد زمین پر واپس لوٹنا تھا تاہم ماہرین کی جانب سے اب تک تصدیق نہیں کی گئی کہ خلائی اسٹیشن کا ملبہ زمین کے کس حصے پر گرے گا۔

    ’تینا گونگ ون‘ نامی خلائی اسٹیشن اب انسانی کنٹرول میں نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی جانب سے خلائی اسٹیشن کا ملبہ کرنے سے متعلق صحیح وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا گیا، ایک اندازے کے مطابق ملبہ 30 مارچ اور 2 اپریل کے درمیان گرے گا۔

    سب سے زیادہ خلائی سفرکرنے والے جان ینگ چل بسے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین سے فضا میں داخل ہونے کے بعد اس خلائی سٹیشن کا زیادہ تر حصہ جل چکا ہے لیکن اس میں نصب کچھ آلات اور حصے جن میں ایندھن کے ٹینک اور انجن شامل ہیں وہ زمین پر گریں گے۔

    خلائی انجینئر ڈاکٹر ایلس کا برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چین کا مذکورہ خلائی اسٹیشن جوں جوں زمین کی طرف آئے گا اس کی رفتار بڑھتی جائے گی، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے کون سے پرزے فضا میں جل جائیں کیوں کہ چین نے اس کی ساخت کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔

    نظام شمسی کی وسعتوں کوعبور کرنے والا خلائی جہاز

    خیال رہے کہ تیناگونگ ون نامی خلائی سٹیشن چین کے خلائی پروگرام کے تحت خلا میں 2022 تک ایسا خلائی سٹشین قائم کرنے کے تجرباتی مرحلے کا حصہ ہے جس پر خلا باز رہ سکیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2040 تک اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا، تحقیق

    سنہ 2040 تک اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا، تحقیق

    نیویارک: امریکہ میں  شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق امریکہ میں آئندہ 22 سال میں اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بننے جارہا ہے‘ اسی تحقیق کے مطابق آئندہ کچھ سالوں میں بھارت دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ  کے پیو ریسرچ رپورٹ کے مطابق جس طرح مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی اسے مدد نظر رکھتے ہوئے اسلام 2040 میں امریکہ کے دوسرے  بڑے  مذہب کا درجہ حاصل کرلے گا جبکہ پہلے نمبر پر عیسائیت براجمان رہے گی۔

    مذکورہ تحقیق سنہ 2007 ،2011 اور 2017 میں کی جانے والی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے کی گئی ہے جس میں اسلام سمیت دیگر مذاہب کو شامل کیا گیا ہے۔

    سنہ 2050 – یورپ میں مسلمانوں کی آبادی تین گنا بڑھ جائے گی

    تحقیق کے مطابق مسلمانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اورجس حساب سے گزشتہ سال 2017 میں مسلمانوں کی تعداد دوگنا اضافے کے بعد 3.45 ملین ہوگئی، اور یہ امکان ہے کہ یہ آبادی 2050 میں 8.1 ملین تک بڑھ سکتی ہے۔

     گزشتہ برس ہونے والی اس تحقیق میں یہ بات  بھی سامنے آئی ہے کہ مذہب اسلام کے مانے والوں میں نوعمر افراد کی تعداد زیادہ ہے جس کی وجہ مسلمانوں کی تیز شرح تولید ہے ۔

    سال 2070 – اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا

    پیرو ریسرچ سینٹر کے مطابق امریکہ میں اسلام سنہ 2040 تک دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا، اور امریکہ میں مسلمانوں کا کردار بھی اہم ہوگا۔

    اسی تحقیق کا تجزیہ کرنے پر سامنے آیا ہے کہ 2050 تک بھارت انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا اور پوری دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 2050 میں اگرچہ دنیا کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی حصہ عیسائیت کو ماننے والوں پر مشتمل ہوگا تاہم سب سے زیادہ تیزی سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا، جس کی وجہ بلند شرح پیدائش اور نوجوان افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خبردار! خواتین کے لیے رات کی نوکری کینسر کا باعث

    خبردار! خواتین کے لیے رات کی نوکری کینسر کا باعث

    نیو یارک: امریکی ماہرین نے مسلسل رات کے اوقات میں ملازمت کرنے والے افراد اور خصوصی طور پر خواتین کر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طویل عرصے تک رات میں دفتری امور انجام دینے سے کینسر کے موذی مرض کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں بسنے والے ہزاروں افراد رات کے اوقات میں نوکری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاہم کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جہاں مجبوراً خواتین اور مرد حضرات کو نائٹ شفٹ کرنی پڑتی ہے۔

    طبی ماہرین نے پہلی بار تحقیق کے حیران کُن نتائج بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’طویل عرصے تک رات کے اوقات میں ملازمت کرنے والی خواتین کو کینسر کا مرض لاحق ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں‘۔

    تحقیق کے مطابق حیران کُن طور پر سب سے زیادہ کینسر کا خطرہ نرسز اور لیڈی ڈاکٹرز کو ہوتا ہے کیونکہ وہ مسلسل لمبے عرصے تک رات کے اوقات میں ڈیوٹی کے امور سرانجام دیتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق نائٹ شفٹ میں پیشہ وارانہ امور سرانجام دینے والی خواتین میں مجموعی طور پر دیگر کے مقابلے میں کینسر کے امکانات 19 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رات کے اوقات میں ڈیوٹی کرنے والی خواتین میں جلد کے کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت زیادہ جبکہ دیگر اقسام کا  کینسرز لاحق ہونے کا امکان ہے۔

    محقق کاروں کا کہنا ہے کہ ’طویل مدت تک رات کے اوقات میں نوکری کرنے والی خواتین کو 11 اقسام کے کینسر لاحق ہوسکتے ہیں جن میں چہرے کا کینسر 41 فیصد، بریسٹ کینسر کے 32، معدے کے 18 پھیپھڑوں کے 28 جبکہ آنتوں کے کینسر کے 35 فیصد امکانات بڑھ جاتے ہیں‘۔

    ماہرین کے مطابق ’رات کے اوقات میں نوکری کرنے والے افراد تمباکو نوشی کی بری لت میں مبتلا ہوتے ہیں اور اُن کے کھانے پینے کے اوقات بھی ٹھیک نہیں ہوتے جس کے باعث اُن کی زندگی متاثر ہوتی ہے‘۔

    طبی ماہرین نے امریکا، آسٹریلیا، یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک کے 11 لاکھ سے زائد کیسز کا مطالعہ کیا جس کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ کینسر کے سب سے زیادہ مریض نارتھ امریکا میں موجود ہیں جن کی تعداد 3 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فضائی آلودگی، گردوں کے مرض کا باعث، لاکھوں افراد متاثر

    فضائی آلودگی، گردوں کے مرض کا باعث، لاکھوں افراد متاثر

    ممبئی: فضائی آلودگی کے باعث گردوں کے امراض میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے، یہ بات بھارت میں ہونےو الی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔

    بھارتی جریدے اے ایس این کڈنی میں شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی فضائی آلودگی کے باعث لوگ گردوں کی بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں۔

    تحقیق میں گردوں کی بیماریاں تیزی سے پھیلنے کی وجوہات پر جب غور کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ فضائی آلودگی اور پھیلنے والا دھواں لوگوں کے جسموں میں داخل ہوکر اُن کی صحت کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔

    تصویر بشکریہ گوگل

    تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران آلودگی کے باعث بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق جبکہ ہزاروں بری طرح سے متاثر ہوئے، جن میں سے بیشتر کا تعلق ایشیا سے ہے۔

    بھارتی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہرین نے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر  اس کے روک تھام کےلیے عملی اقدامات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہرسال فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 1 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

    تحقیق میں دنیا بھر کے ماہرین نے حصہ لیا۔

    احتیاطی تدابیر

    ماہرین نے عوام کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی گھر سے باہر ماسک لگا کر نکلیں اور کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی بیماری کے نتیجے میں فوری طور پر اپنے طبیب سے مشورہ کریں۔

    تصویر بشکریہ گوگل

    واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں برس دیوالی کے موقع پر آتشبازی کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے باقاعدہ عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا تھا۔

    دوسری جانب موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی اسموگ نے بھارت اور پاکستان کے مختلف شہروں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جس کے باعث نظامِ زندگی بری طرح سے متاثر ہورہا ہے، بھارت کے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے اسکول بند کرنے جبکہ لاہور میں تعلیمی اداروں کے اوقات تبدیل کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    مریخ پرانسانی زندگی کے قوی امکانات ہیں، یہ بات نئی سائنسی تحقیق سے ثابت ہوئی، اگرچہ اس سے قبل بھی مختلف تحقیق میں یہ ہی بات واضح ہوتی رہی ہے.

    نئی سائنسی تحقیق کے مطابق نظام شمسی کے سیارے مریخ پر زندگی کے آثارہونا ممکنات میں سے ہیں، سیارے کی تصویرمیں نمایاں ہوتے سرخی کو دیکھ کرسائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سرخی مریخ پرآبادی کے گمان کو تقویت دیتی ہے.

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پرہائیڈروجن پرمشتمل معدنیات بھی ہوسکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں کثیرتعداد میں پانی موجود تھا۔، محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا.

    mars

    سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشن میں شائع مضمون میں محققین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تاحال مذکورہ بالا تحیقیق کے قابل تسلی ثبوت نہیں ملے ہیں، مگر یہاں ایک انتہائی اہم سوال ہے کہ مریخ پر پانی کی موجودگی کیوں اور کیسے ممکن ہوئی ہے ؟

    مزید پڑھیں:مریخ پرپانی کی موجود گی کے شواہد ملے ہیں،ناسا

    ڈاکٹر ٹسچنر نے کہا کہ پانی کی موجودگی اس بات کی تصدیق ہے کہ یہاں زندگی کی ایک نسل فعال تھی،سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی کے نمایاں آثار کے حوالے سے تجربات ایک باسکٹ بال میں ہوا کے دباؤ کے ذریعے سے تقریباً 363.000 بار کئے گئے۔

    واضح رہے کہ 2013 میں بھی اس قسم کی تحقیق کی گئی تھی جس کا نتیجہ موجودہ رزلٹ جیسا ہی تھا اور نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے،جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔

  • خوشگوارزندگی موٹاپے سے نجات دلاتی ہے، محققین

    خوشگوارزندگی موٹاپے سے نجات دلاتی ہے، محققین

    اب موٹاپے سے پریشان افراد آسانی سے اپنے وزن میں کمی لا سکتے ہیں، وزرش، کم خوراک، پوری نیند  اور خوش گوار زندگی آپ کو موٹاپے سے نجات دلاسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق موٹاپا صحت کا قاتل اور شخصیت کا دشمن ہوتا ہے، اچھا خاصا انسان موٹاپے کی وجہ سے چلتا پھرتا لطیفہ معلوم ہوتاہے، موٹاپے کے شکار خواتین و حضرات کسی بھی محفل کو لطف اندوز نہیں کرتے بلکہ محفل ان سے لطف اندوز ہوتی ہے اس لیے موٹے لوگوں کا حلقہ احباب بہت مختصر ہوتا ہے.

    اکثر اوقات موٹے افراد اپنے بے ہنگم وجود کی بنا پر گھر سے باہر نکلنے سے کتراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر نکلنے پر انہیں‌ مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے لہذا وہ راہ فراراختیار کرتے ہیں مگر اب موٹے افراد اپنی اس شرمندگی سے بآسانی نجات پا سکتے ہیں۔

    برطانیہ کی طبی کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ بلاناغہ ورزش ، کم خوراک، پوری نیند اور خوش گوار زندگی موٹاپے سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق زیادہ تر وہ لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں‌ جو کسی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں. محققین کا کہنا ہے کہ اکثر ذہنی پریشانی میں مبتلا افراد اپنی پریشانی کو زیادہ غذا کے استعمال سے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں‌.ان کی یہ عادت انہیں‌ مزید موٹاپے کا شکار کرتی ہے۔

    محققین کے مطابق وہ افراد جو ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ روزانہ علی الصباح چہل قدمی اور متوازن غذا کا استعمال کریں۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سخت ورزش موٹاپے میں کمی لانے کی کوشش میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتی،  تحقیق کو ثابت کرنے کے لیے محقیقین نے موٹاپے کے شکار 38 مرد اور خواتین کو دو گروپ میں تقسیم کیا۔

    ایک گروپ کو ہفتے میں 5 بار ورزش اور خوراک کی مقدار میں بھی کمی لانے کی ہدایت کی جبکہ دوسرے گروپ کو سخت ورزش کے ساتھ متوازن غذا کے استعمال کا کہا گیا۔ اس کے ساتھ دونوں‌ گروپس کے افراد کو زندگی کے ہر لمحے کو انجوائے کرنے، دوستوں کی محفلوں میں جانے اور ہلکا میوزک سننے کی بھی ہدایت کی۔

    محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان افراد سے کہا کہ وہ پریشانی کا سبب بننے والے عوامل سے مکمل دوری اختیار کریں۔

    محققینکے مطابق جب تین ہفتوں کے بعد ان افراد کاجائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ دونوں گروپ کے جسمانی وزن میں یکساں کمی آئی ہے اس کے ساتھ انسولین کی حساسیت اور میٹابولزم میں‌ بہتر ی بھی دونوں گروپس کے افراد میں‌ برابرہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس تحیقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ بلا ناغہ ورزش، کم خوراک ، پوری نیند اور خوش گوار زندگی جسمانی وزن میں کمی لانے کا سبب بنتی ہے تاہم اس کے لیے غذائی مقدار میں کمی لانا بھی بہت ضروری ہے۔

  • جھوٹ بولنے سےانسان بے حس ہوجاتا ہے، تحقیق

    جھوٹ بولنے سےانسان بے حس ہوجاتا ہے، تحقیق

    لندن: لندن میں ہونے والی ایک تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ جھوٹ بولنے والا شخص بے حس ہوجاتا ہے اور آخر میں وہ دوسروں کے جذبات اور احساسات کی کوئی پروا نہیں کرتا۔

    لندن کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق دماغی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جھوٹ بولنے سے دماغ بے حس ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ آخر میں یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو دوسروں کے جذبات اور احساسات کی کوئی پروا نہیں رہتی اور وہ بڑی آسانی سے ہر معاملے میں لوگوں کو دھوکا دینے لگتے ہیں۔

    جھوٹ بولنے شخص کو عام طور پر برا سمجھا جاتا ہے مہذب معاشروں میں ایسے شخص کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جو سچ کے بجائے جھوٹ بولنے کا سہارا لیتے ہیں اور اپنی بات منوانے کے لیے غلط بیانی کرتے ہیں۔

    لندن میں ہونے والی تازہ تحقیق میں 80 افراد شامل تھے جن سے مختلف حالات کی مناسبت سے جھوٹ اور سچ بولنے کا کہا گیا، اس دوران ماہرین نے دماغ کے ایک مخصوص حصے ایمگڈالا میں ہونے والی سرگرمیوں پر خاص نظر رکھی، یہ ہمارے دماغ کا وہ حصہ ہے جو دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور جذباتی ردعمل میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    تحقیق کے دوران انکشاف ہوا کہ جن لوگوں نے ذاتی فائدے کی خاطر جھوٹ بولا اُن میں ایمگڈالا کی سرگرمی بتدریج کمزور ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ بار بار یہی عمل دہرانے سے وہ شخص بڑے بڑے جھوٹ بہت آسانی سے بولنے لگا۔

    اس تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا کہ جھوٹ بولنے کا عمل جہاں دماغ کو کمزور کرتا ہے وہیں اس کی عادت کو اس قدر مضبوط کردیتا ہے کہ انسان دھوکا دہی اور بدیانتی جیسے منفی رجحانات تک پہنچ کر انہیں پروان چڑھانے لگتا ہے۔

  • فیس بک کا زیادہ استعمال بچوں کو بدتمیز کردیتا ہے، تحقیق

    فیس بک کا زیادہ استعمال بچوں کو بدتمیز کردیتا ہے، تحقیق

    لندن: ایسکس یونیورسٹی کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ زیادہ استعمال کرنے والی بچے جسمانی حالت سے غیر مطمئن اور والدین سے بدتمیزی کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی یونیورسٹی کے تعاون سے ملک کے 40 ہزار گھرانوں کا سروے کیا گیا جس میں ٹوئیٹر اور فیس بک استعمال کرنے والے 10 سے 15 سال تک کے بچوں کا موازانہ کیا گیا۔جس میں یہ بات سامنے آئی کہ دن میں 3 گھنٹے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ استعمال کرنے والے بچوں اپنی ظاہری حیثیت اور جسمانی کیفیت سے خوش تھے جبکہ 82 فیصد استعمال نہ کرنے والے بچے اپنی صحت اور ذہنی کیفیت سے مطمئن نظر آئے۔

    علاوہ ازیں سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ روزانہ کئی گھنٹوں فیس بک اور ٹوئیٹر استعمال کرنے والے بچوں میں عدم برداشت بڑھ جاتی ہے۔ جس کے باعث وہ اپنے والدین سے بحث و تکرار کرتے ہیں ۔ سروے کے دوران 44 فیصد بچوں نے کہا کہ وہ اپنے والدین سے ہفتے میں ایک بار الجھتے ہیں جب کے فیس بک استعمال نہ کرنے والے بچے خامی دیکھنے میں نہیں آئی جن کی شرح تقریباً 20 فیصد کے قریب ہے۔

    سروے میں ایک اہم بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے 90 فیصد بچوں کی تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند نظر آئی جبکہ سماجی رابطوں سے دور رہنے والے 80 فیصد بچوں نے اعلیٰ تعلیم کی خواہش کا کوئی اظہار نہیں کیا۔

  • زیر آب پہاڑوں کی موجودگی کا انکشاف، روبوٹس تصاویر لے کر واپس پہنچ گئے

    زیر آب پہاڑوں کی موجودگی کا انکشاف، روبوٹس تصاویر لے کر واپس پہنچ گئے

    لندن: برطانوی سائنس دانوں کی جانب سے زیر آب بسنے والی دنیا کےحوالے سے  بھیجے گئے روبوٹس کی واپسی گئی جس سے حاصل کردہ تصاویر اور شواہد پر مزید تحقیق کا عمل شروع کردیا گیا جن سے معلوم ہواکہ گہرے سمندر میں پہاڑ بھی موجود ہیں.

    تفصیلات کے مطابق برطانوی سائنس دانوں کی جانب سے بھیجے گئے آبدوزی روبوٹس کو ایک کشتی کے ذریعے کنٹرول کیا گیا، یہ روبوٹس سطح سمندر میں جاتے ہیں اور کشتی میں بیٹھے سائنس دان مشاہدے کے لیے اسکرین پر آنے والی تصاویر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

    BBC-3
    زیر آب کائنات کی تصاویر

    اس ریسرچ کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ مشرقی اسکاٹ لینڈ کے ساحل پر واقع بلند و بالا پہاڑ موجود ہیں، جن پر مونگا اگتا ہے جو سمندری مخلوق کا اہم مسکن ہے، اس مقام پر ریسرچ کرنے میں 6 ہفتوں کا وقت لگا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’’روبوٹس کو سطح سمندر میں 2 ہزار میٹر تک بھیج کر مشاہدہ کیا گیا، اس دوراں حیران کُن طور پر معلوم ہوا کہ سمندر کے اندر بڑے پہاڑ موجود ہیں اور یہاں رہنے والی مخلوق اپنی زندگی بسر کررہی ہے۔ مھحققین کا کہنا ہے کہ یہاں انواع و اقسام کی آبی مخلوقات موجود ہیں.

    BBC-2
    زیر آب پہاڑ

    ریسرچ کے دوران زیر زمین کئی پہاڑوں کی تصاویر لی گئیں جس میں سب سے بلند پہاڑ کی لمبائی 1 ہزار 7 سو میٹر تک ریکارڈ کی گئی مگر یہ سب زیر آب ہیں۔6 ہفتے کی تحقیقات کے بعد ماہرین کی یہ کشتی اب واپس برطانیہ آگئی ہے جو اب وہاں سے موصول ہونے والی تصاویر اور شواہد کا تفصیلی مشاہدہ کیا جائے گا۔

    BBC-4

    آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی مشیل ٹیلر کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ریسرچ بہت اچھی ہوتی ہیں، آپ نہیں جانتے کہ سمندر کی اندھیری سطح میں جاکر آپ کیا کریں گے،اس زیر آب پہاڑ کو پہلی بار کسی نے دیکھا ہے، اس جگہ بسنے والے جانوروں کی زندگی بہت دلچسپ ہے۔

    آبی حیات کی ماہر کیری ہاول کا کہنا ہے کہ ’’اکثر لوگوں کا سوچنا ہے کہ سمندر مٹی کا ایک صحرا ہے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے  کیونکہ ان پہاڑوں پر جانور ہیں اور ایک علیحدہ زندگی ہے۔

  • تمباکو نوشی آپ کو دیوانہ بنا سکتی ہے: تحقیق

    تمباکو نوشی آپ کو دیوانہ بنا سکتی ہے: تحقیق

    سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے نتائج کی روشی میں کہا ہے کہ پاگل پن کی شروعات میں سگریٹ نوشی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم اس مفروضے کی مکمل سائنسی صداقت کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔

    اس تحقیق میں سائنسدانوں نے پندرہ ہزار تمباکونوش اور دو لاکھ 73 ہزار نان اسموکرز کا تجزیہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان دونوں گروپوں میں سے کون سے گروپ میں شیزوفرینیا یا پاگل پن میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    مکمل اور جامع تجزیے کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ تمباکونوش افراد دراصل نان اسموکرز کے مقابلے میں التباسات، اوہام، وسوسوں اور غیر حقیقی خیالی تجربات کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔ گویا تمباکو نوشی شیزوفرینیا کی ان بنیادی علامات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

    اس تحقیق کے بعد بھی محققین تمباکو نوشی اور پاگل پن کے مابین کوئی براہ راست تعلق ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں تاہم انہوں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ نان اسموکرز کے مقابلے میں سگریٹ نوش افراد میں پاگل پن کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق سائیکوسس کے پہلے مرحلے کا شکار ہونے والے افراد میں ستاون فیصد اسموکرز ہی تھے۔

    کنگ کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکیٹری سے وابستہ نفسیاتی امراض کے ماہر جیمزمیکابے کے بقول، ’’ تمباکو نوشی اور پاگل پن کے مابین براہ راست تعلق تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے۔‘‘ اس تحیققی ٹیم کے سربراہ میکابے نے البتہ خبردار کیا کہ تمباکو نوشی کو سنجیدگی سے لینےکی ضرورت ہے کیونکہ ممکنہ طور پر تمباکو نوشوں میں سائیکوسس کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    سائیکوسس امراض کے ماہر میکابے کے بقول تمباکو بہت سے دیگرعوامل میں سے ایک ہے، جو انسان میں پاگل پن کی شروعات کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کے علاوہ طرز زندگی، کھانے پینے کی عادات، مخصوص جینیات کی منتقلی اور دیگر معاشرتی اور اقتصادی عوامل بھی انشقاق ذہنی (سائیکوسس) کا سبب بن سکتے ہیں۔

    شیزوفرینیا ایک شدید ذہنی مرض میں شمار کیا جاتا ہے، جس کے تقریبا 100 افراد میں سے صرف ایک کو لاحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ یہ شدید دماغی بیماری بنیادی طورپرسن بلوغت کے ابتداء میں پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔ اس خطرناک بیماری کی علامات میں شدید قسم کے Delusions (التباسات) اور Hallucinations (اوہام) شامل ہوتے ہیں۔ مریض کے عمل و فکر میں تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور وہ غیر حقیقی تجربات محسوس کرتا ہے۔ کبھی اس کو آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو حقیقی نہیں ہوتی تو کبھی وہ خیالی مناظر کو حقیقت تصور کرتا ہے۔