Tag: research

  • پریشانیوں کی ذمہ دار فیس بُک ہے، نئی تحقیق

    پریشانیوں کی ذمہ دار فیس بُک ہے، نئی تحقیق

    کوپن ہیگن : فیس بک کا استعمال انسان کو زندگی کی حقیقی خوشیوں سے دور کردیتا ہے، یہ بات ڈنمارک میں کی جانے والی ایک تحقیق کے بعدسامنے آئی ہے۔

    اس کے استعمال سے لوگ سماجی زندگی سے دور ہوتے جا رہے ہیں، ایک نئی تحقیق ان تمام چیزوں کی ذمہ داری فیس بُک پر عائد کرتی ہے۔

    اس حوالے سے ڈنمارک میں ایک تحقیق کی گئی اس تحقیق جس میں سے ایک گروپ نے فیس بُک کا استعمال جاری رکھا جبکہ دوسرے گروپ نے سماجی رابطوں کی اس ویب سائٹ کا استعمال ترک کر دیا۔

    ایک ہفتے کے بعد وہ لوگ جو فیس بُک استعمال نہیں کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگیوں سے زیادہ مطمئن ہیں۔

    ان میں سے اٹھاسی فیصد لوگوں نے خود کو خوش قرار دیا۔ ان کاکہنا تھا فیس بک چھورنے سے زندگی میں مثبت نتائج سامنے ٓآئے ہیں۔

  • تمباکو نوشی آپ کو دیوانہ بنا سکتی ہے: تحقیق

    تمباکو نوشی آپ کو دیوانہ بنا سکتی ہے: تحقیق

    سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے نتائج کی روشی میں کہا ہے کہ پاگل پن کی شروعات میں سگریٹ نوشی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم اس مفروضے کی مکمل سائنسی صداقت کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔

    اس تحقیق میں سائنسدانوں نے پندرہ ہزار تمباکونوش اور دو لاکھ 73 ہزار نان اسموکرز کا تجزیہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان دونوں گروپوں میں سے کون سے گروپ میں شیزوفرینیا یا پاگل پن میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    مکمل اور جامع تجزیے کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ تمباکونوش افراد دراصل نان اسموکرز کے مقابلے میں التباسات، اوہام، وسوسوں اور غیر حقیقی خیالی تجربات کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔ گویا تمباکو نوشی شیزوفرینیا کی ان بنیادی علامات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

    اس تحقیق کے بعد بھی محققین تمباکو نوشی اور پاگل پن کے مابین کوئی براہ راست تعلق ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں تاہم انہوں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ نان اسموکرز کے مقابلے میں سگریٹ نوش افراد میں پاگل پن کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق سائیکوسس کے پہلے مرحلے کا شکار ہونے والے افراد میں ستاون فیصد اسموکرز ہی تھے۔

    کنگ کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکیٹری سے وابستہ نفسیاتی امراض کے ماہر جیمزمیکابے کے بقول، ’’ تمباکو نوشی اور پاگل پن کے مابین براہ راست تعلق تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے۔‘‘ اس تحیققی ٹیم کے سربراہ میکابے نے البتہ خبردار کیا کہ تمباکو نوشی کو سنجیدگی سے لینےکی ضرورت ہے کیونکہ ممکنہ طور پر تمباکو نوشوں میں سائیکوسس کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    سائیکوسس امراض کے ماہر میکابے کے بقول تمباکو بہت سے دیگرعوامل میں سے ایک ہے، جو انسان میں پاگل پن کی شروعات کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کے علاوہ طرز زندگی، کھانے پینے کی عادات، مخصوص جینیات کی منتقلی اور دیگر معاشرتی اور اقتصادی عوامل بھی انشقاق ذہنی (سائیکوسس) کا سبب بن سکتے ہیں۔

    شیزوفرینیا ایک شدید ذہنی مرض میں شمار کیا جاتا ہے، جس کے تقریبا 100 افراد میں سے صرف ایک کو لاحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ یہ شدید دماغی بیماری بنیادی طورپرسن بلوغت کے ابتداء میں پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔ اس خطرناک بیماری کی علامات میں شدید قسم کے Delusions (التباسات) اور Hallucinations (اوہام) شامل ہوتے ہیں۔ مریض کے عمل و فکر میں تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور وہ غیر حقیقی تجربات محسوس کرتا ہے۔ کبھی اس کو آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو حقیقی نہیں ہوتی تو کبھی وہ خیالی مناظر کو حقیقت تصور کرتا ہے۔

  • امریکی جامعات میں جنسی تشدد کی شرح میں اضافہ

    امریکی جامعات میں جنسی تشدد کی شرح میں اضافہ

    نیویارک: ایک نئی تحقیق کے مطابق امریکہ کی ایک یونیورسٹی کی 18 فیصد طالبات اپنے پہلے تعلیمی سال میں جنسی زیادتی کا نشانہ بن جاتی ہیں۔

    تحقیق کے مصنف کے مطابق امریکی جامعات میں میں جنسی تشدد اب وبائی صورتحال اختیار کرتا جارہاہے اور اس پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

    یہ تحقیق بالغان کی صحت کے ایک جرنل میں شائع ہوئی ہے جس میں 483 شرکاء سے سوالنامے کے ذریعے اس بابت استسفار کیا گیا ہے۔ شرکاء میں سے بڑی تعداد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی ساتھ اقدامِ زیادتی یا زیادتی کا واقعہ پیش آچکا ہے۔

    محققین نے اپنی تحقیق کا مرکزنیویارک کی ایک بڑی نجی یونیورسٹی کو بنایا گیا اورتمام شرکاء نوجوان خواتین تھیں۔

  • دولہا دلہن کی عمرمیں فرق کتنا ہو،تحقیق نے بتا دیا

    دولہا دلہن کی عمرمیں فرق کتنا ہو،تحقیق نے بتا دیا

    نیویارک: اکثر شادی کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھی جاتی ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان عمر کا کتنا فرق ہے۔ ہمارے ہاں یہ رواج بہت تیزی سے مقبولیت پاچکا ہے کہ عورت کی عمر مرد سے کم از کم پانچ سال کم ہونی چاہیے ورنہ شادی کامیاب نہیں ہوتی

    لیکن حال ہی میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر عورت اور مرد کے درمیان عمر کا فرق بڑھتا جائے تو ان کے درمیان طلاق ہونے کی شرح بھی بڑھتی جاتی ہے۔

    ضروری نہیں کہ مرد کی عمر زیادہ ہو اور عورت کی عمر کم تب ہی شادی کامیاب ہو گی بلکہ اگر دونوں کی عمر برابر یا انتہائی تھوڑا فرق ہو تب بھی شادی کے کامیاب ہونے کےامکانات زیادہ ہی ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں 3,000شادی شدہ اور طلاق یافتہ جوڑوں کو شامل کیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ اگر عورت اور مرد کے درمیان عمر کا فرق ایک سال(مرد عورت سے ایک سال بڑا یا چھوٹاہوسکتا ہے)ہو تو ان میں طلاق ہونے کا تین فیصد چانس موجود ہے۔

    اگر دونوں کے درمیان عمر کا فرق پانچ سال تک ہو تو طلاق ہونے کا امکان 18فیصد ہو جاتا ہے لیکن اگر یہی فرق 10سال پر چلا جائے تو39فیصد امکان ہے کہ ایسے جوڑوں میں طلاق ہوجائے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر شادی جس میں عمر کا فرق زیادہ ہو کا برا انجام ہو لیکن بہتر ہے شادی کرتے ہوئے عمر کا خیال رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ یہ فرق کم سے کم ہو۔

  • دہشت گردوں کی اکثریت آخری رسومات سے محروم رہتی ہے

    دہشت گردوں کی اکثریت آخری رسومات سے محروم رہتی ہے

    کراچی (ویب ڈیسک)- پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اوریہاں لاوارث میتوں کی بھی اسلامی عقائد کے مطابق آخری رسومات ادا کیں جاتی ہیں لیکن ایک ریسرچ شائع کرنے والی ویب سائٹ پرشائع شدہ رپورٹ کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی اکثریت جنازے کی رسوم سے محروم رہتی ہے۔

    یہ رپورٹ شدت پسندی سے متاثرہ صوبے خیبرپختونخواہ سے متعلق ایسے اشخاص کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو کہ کسی بھی شخص کی موت کے بعد کے مراحل میں خصوصی کردار ادا کرتے ہیں یعنی ڈاکٹرزاورمذہبی پیشوا اورانہی اشخاص نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جنت کے لالچ میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد دنیامیں اپنی آخری رسومات سے کیوں محروم رہتے ہیں۔

    خیبر میڈیکل کالج سے وابستہ ڈاکٹر جاوید احمد کے مطابق 14 اگست کو ہلاک ہونے والے چار دہشت گردوں کی لاشیں ان کے گھروالوں نے وصول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ ان کی شناخت تحریک ِطالبان کے مقامی کمانڈرز کے طورپرہوئی حالانکہ کالج نے لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ اوردیگرتمام قانونی کاروائی مکمل کرلی تھی۔

    لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور سے وابستہ ڈاکٹر حنیف کے مطابق گزشتہ دس ماہ میں تیس سے زائد ایسی لاشیں آچکی ہیں جن کے ورثا انہیں وصول کرنے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

    پشاور کی ایک مسجد میں نماز کی امامت کرانے والے مولانا شکور نے بتایا کہ عام حالات میں ایک مسلمان کی نعش کو اس کے عزیز غسل دیتے ہیں جس کے بعد اس کا جنازہ پڑھا جاتا ہے، تاہم مرنے والے دہشت گردوں کی اکثریت کو یہ رسوم مہیا نہیں کی جاتیں، جو ان کے لواحقین کے لیے زندگی بھرکی ذہنی اذیت کا باعث بن سکتا ہے۔

    مولانا شکور نے 19 سالہ جمال شاہ کی مثال دی جو 2007 میں ٹی ٹی پی میں شامل ہوا تھا اوراس سال کے اواخر میں ضلع مردان میں ہلاک ہو گیا تھا اوراس کے رشتہ دار اورگاؤں والے اس کے غمگین والدین سے کسی قسم کا اظہار افسوس کرنے نہیں پہنچے۔

    چارسدہ میں مقیم ایک مذہبی معلم محمد سمیع نے کہا کہ سب سے بڑا المیہ شاید یہ ہے کہ عسکریت پسند، کچے ذہن کے نوجوانوں کو جنت میں جانے کے جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔

    تاہم جنازے کی مسنون رسوم سے محروم رہ جانے والے جنگجوؤں کو کبھی بھی جنت کا وہ مقام حاصل نہیں ہوگا جن کا ان کے نام نہاد رہنماؤں نے ان سے وعدہ کر رکھا تھا، سمیع نے کہا۔

    "درحقیقت، عسکریت پسندوں کے مقدر میں اللہ کے غضب کا سامنا لکھا ہے کیونکہ اسلام میں معصوم لوگوں کے قتل کی اجازت نہیں،” انہوں نے بتایا، اور کہا کہ الہی احکامات کے تحت، دہشت گرد جہنم میں جائیں گے۔

    عسکریت پسندی اختیار کرنے کا مطلب ہے اسلام کو ترک کر دینا، جو یہ سکھاتا ہے کہ کسی ایک شخص کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے، نوشیرہ میں قائم ایک مدرسے کے معلم قاری محمد شعیب نے کہا۔

    ہم کیسے لوگوں سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ انسانیت کے قاتلوں کو احترام سے دفن کریں؟” انہوں نے سوال کیا۔ "اسلام محبت، امن، اور احترام کا مذہب ہے اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔”

    مندرجہ بالا اوران جیسے کئی اورواقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کی اکثریت شدت پسنی کو پسند نہیں کرتی اور اس کی مخالف ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے جو کہ نوجوان نسل کی رگوں میں دہشت گردی کا رس گھولتے ہیں تاکہ پاکستان کے حقیقی اسلامی معاشرے اور اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ورغلانے والے دھوکہ باز افراد میں واضح تمیز کی جاسکے۔

  • انسان کو جرم پر اکسانے والا جین دریافت کر لیا گیا

    انسان کو جرم پر اکسانے والا جین دریافت کر لیا گیا

    سائنس کا ایک اور کارنامہ انسان کو جرم پر اکسانے والا جین دریافت کر لیا گیا۔

    سویڈن کی کیرولینسکا میڈیکل یونیورسٹی میں نو سو مجرموں کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا تجزیے سے ثابت ہواہے کہ انسانوں کو پرتشدد جرائم پر آمادہ کرنے کے ذمہ دار دو جینز ہیں،تاہم سائنسدانوں نےاس بات پر زور دیا ہے کہ ان جینز کی سکریننگ سے مجرموں کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تشدد پر اکسانےمیں جینزکےعلاوہ ماحول بھی اہم کردارادا کرتا ہے۔

  • لڑکیاں کس طرح کے مردوں کو پسند کرتی ہیں؟

    لڑکیاں کس طرح کے مردوں کو پسند کرتی ہیں؟

    لندن: اکثر مرد وں کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ لڑکیاں انہیں پسند کریں اور اس مقصد کے لئے وہ مختلف جتن بھی کرتے ہیں۔

    عموماً دیکھا گیا ہے کہ نوجوان لڑکیاں خوش مزاج لڑکوں کو پسند کرتی ہیں، ایک تحقیق کے مطابق  لڑکیاں عام طور پر مزاحیہ اور ہنس مکھ نوجوان کو کیوں پسند کرتی ہیں، خوش مزاج نوجوان دل لبھانے والے ہوتے ہیں۔

    ایسے نوجوان تخلیقی صلاحیتوں کے قدرتی خزانے سے مزین ہوتے ہیں، انہیں کوئی بھی مشکل ٹاسک دے دیا جائے تو اس کا حل فوری طور پر دیتے ہیں۔ مذاق ہی مذاق میں کام بھی کردیتے ہیں اور روتے ہوئے کو ہنسا بھی دیتے ہیں۔

    ایسے نوجوان بہت ہی سماجی ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ان کو روابط و مکتبہ فکر سے ہوتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں بوریت ہوہی نہیں سکتی، خاموشی کو توڑنے کے فن سے آشنا ایسے لوگ بہت ہی سچے دل کے ہوتے ہیں۔

    ایسے نوجوانوں میں خوش مزاج لوگوں کی مشاہداتی قوت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ لوگ ایک ہی نظر میں ساری خرابیوں اور خوبیوں کو بھانپ لیتے ہیں اور پھر ماحول کے مطابق بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

    ایسے لوگوں کی موجودگی میں ہر کوئی خود کو محفوظ تصور کرسکتا ہے بلکہ لڑکیاں تو ہر حوالے سے خوش اور محفوظ رہ سکتی ہیں۔ یہ لوگ ماحول کو خوشگوار بنانے کیلئے مثبت اقدامات اٹھاتے ہیں۔

    ایسے لوگ دوستی کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے، وہ بہترین دوست، بہترین ساتھی، بہترین محافظ اور بہترین انسان ثابت ہوتے ہیں۔

    خوش کن لوگوں کے ہاں اعتماد کی کمی نہیں ہوتی، وہ اعتماد میں رہتے ہیں اور اعتماد میں رکھتے ہیں۔ اعتماد توڑنے کا مطلب ان کے نزدیک ایمان ختم کرنے کے مترادف ہوتا ہے لہٰذا انہیں قابل بھروسہ کہا جاسکتا ہے۔

    سب سے بڑی بات کہ ایسے لوگ روتوں کو ہنساتے ہیں اور شگوفوں کی ایسی برسات کرتے ہیں کہ ہر کوئی خوشگوار دکھائی دینے لگتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ چہروں پر مسکراہٹیں سجانے کا فن ان سے زیادہ کسی اور کو نہیں آتا۔