Tag: research

  • کنکھجورے کا زہر کس مرض کی دوا ہے؟ حیران کن تحقیق

    کنکھجورے کا زہر کس مرض کی دوا ہے؟ حیران کن تحقیق

    بیجنگ : دنیا بھر میں متعدد امراض کا علاج یا زہر کے تریاق کیلئے مختلف طریقوں اور نایاب اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے جو کافی حد تک شفایاب بھی ہوتی ہیں۔

    علاج معالجے کے لحاظ سے محققین بے شمار تجربات بھی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں جتنی اینٹی بایوٹکس ادویات استعمال ہورہی ہیں ان کے اجزاء کی اکثریت مٹی اور کھاد وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔

    اب اس معاملے میں مزید پیش رفت جاری ہے، طبی ماہرین نے کہنا ہے کہ کچھ حشرات الارض ایسے بھی ہیں جن کے زہر سے ادویات تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    کنکھجورا

    اس حوالے سے چین میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کنکھجورے کا زہر گردوں کی بیماریوں کے مؤثر علاج کے طور پر بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    گردوں کی متعدد بیماریاں دنیا بھر میں اموت کی بہت بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جس سے سالانہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی سائنسدانوں کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زہریلا کنکھجورا جسے ’چائنیز ریڈ ہیڈڈ سینٹی پیڈ‘ کہا جاتا ہے، گردوں کی بیماری کے علاج میں مدد فراہم کر سکتا ہے اور کئی لوگوں موت کے منہ سے بچا سکتا ہے۔

    علاج

    تحقیق جرنل آف نیچرل پراڈکٹس میں شائع ہونے والی تحقیق کی رپورٹ میں محققین نے بتایا کہ کنکھجوروں میں alkaloids نامی خصوصی کیمیکلز ہوتے ہیں جو بیماری سے لڑتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ زہریلے کنکھجورے کا کیمیائی الکلائیڈ گردوں میں سوزش اور زخموں کو کم کر سکتا ہے، سرخ کنکھجوروں میں 12 نئے الکلائیڈ مرکبات موجود ہوتے ہیں جن میں سے کچھ سوزش کے خاتمے اور اینٹی رینل فبروسس خصوصیات کے حامل ہیں۔

     

  • غصے پر کیسے قابو پایا جائے؟ محققین کی حیران کن تحقیق

    غصے پر کیسے قابو پایا جائے؟ محققین کی حیران کن تحقیق

    غصہ ایک فطری عمل ہے جو انسانوں سمیت ہر جاندار کو آتا ہے لیکن جب یہ بڑھتا ہے یا اس پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے تو یہ مزید پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔

    یہ ایک منفی جذبہ ہے جو انسان کی ذہنی وجسمانی صحت کو بری طرح متاثر بھی کرتا ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غصے کا اظہار کرنا بھی بے حد ضروری ہے، غصے کو دبائے رکھنا اور برداشت کرنا ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ غصے آنے کی صورت میں اسے ختم یا کم کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جیسے ٹھنڈا پانی پیئں، تنازعہ کی جگہ سے دور ہوجائیں، کھڑے ہو تو بیٹھ جانے یا چہل قدمی کریں اس کے علاوہ ایک عمل ایسا بھی ہے جو غصے پر قابو پانے کیلئے بہت کارآمد ہے۔

    جاپان کی ناگویا یونیورسٹی کے گریجویٹ اسکول آف انفارمیٹکس کی تحقیق کے مطابق لکھنا(رائٹنگ) وہ واحد عمل ہے جو غصے کو فوری کم کرسکتا ہے۔

    غصہ

    محققین نے طویل مطالعے کے بعد اس بات کا پتہ کیا کہ لکھنا کس طرح غصے کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے اور کس طرح جذبات کے ساتھ بات چیت کا اثر مزاج پر پڑتا ہے۔

    محققین کے مطابق غصے کے وقت جذبات کو کسی کاغذ پر تحریرکرکے پھاڑنے سے غصہ فوری ختم ہوجاتا ہے یہ سادہ سا عمل غیر معمولی اثر رکھتا ہے جس کے بعد آپ بہتر محسوس کرتے ہیں۔

    اس تحقیق کے مرکزی محقق نوبیوکی کاوائی کا کہنا ہے کہ ہمیں توقع تھی کہ ہمارا طریقہ غصے کو کسی حد تک کم کر دے گا اور تحقیق میں ہم نے یہی دیکھا کہ اس عمل کو کرنے بعد شرکاء کا غصہ تقریباً مکمل طور پر ختم ہوگیا تھا۔

    اس تحقیق میں کاوائی اور اس کے گریجویٹ طالب علم یوٹا کنایا نے مطالعہ کے شرکاء جو کہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے سے سماجی مسائل پر اپنی رائے لکھنے کو کہا جیسے کہ عوام میں سگریٹ نوشی غیر قانونی ہونی چاہیے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹریٹ کے طلباء ان کی تحریر کا جائزہ لیں گے۔

    ساتھ ہی مطالعہ میں شامل ڈاکٹریٹ کے طالب علموں کو شرکاء کے کام پر وہی توہین آمیز تبصرہ لکھنے کی ہدایت کی گئی تھی جیسے، میں یقین نہیں کر سکتا کہ کوئی تعلیم یافتہ شخص ایسا سوچے گا۔ مجھے امید ہے کہ یہ شخص یونیورسٹی میں رہتے ہوئے کچھ سیکھے پائے گا۔

    اس کے بعد شرکاء کو ان کی تحریر اس پر لکھے ہوئے اشتعال انگیز تبصروں کے ساتھ واپس کر دی گئی۔ پھر ان سے کہا گیا کہ وہ منفی تبصرہ کے جواب میں کیسا محسوس کرتے ہیں تحریر کریں۔

    محققین نے کچھ شرکاء سے کہا کہ وہ اپنے جوابات لکھنے کے بعد کاغذ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں اور دوسرے گروپ کو ہدایت کی گئی کہ وہ کاغذ کو اپنی میز پر ایک فائل میں رکھیں۔ تیسرے گروپ سے کہا گیا کہ وہ کاغذ کو پلاسٹک کے ڈبے میں پھاڑ کر ڈالیں۔

    طلباء سے کہا گیا کہ وہ منفی تبصرے موصول ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تحریری جوابات کو یا تو رکھنے یا پھاڑنے کی صورت میں کیسا محسوس کرتے ہیں نوٹ کریں۔

    تحقیق کے نتائج حیران کن تھے جن شرکاء نے اپنے جوابات پھینک دیے تھے یا کاغذ کو پھاڑ دیا تھا ان کا غصہ کم ہوگیا یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے جبکہ جن لوگوں نے ان منفی تبصروں کی فائل رکھی تھی ان کے غصے میں تھوڑی سی کمی آئی۔

    کاوائی کا کہنا ہے اس طریقہ کار کو کام کی جگہ یا دباؤ والے حالات غصے کو فوری کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

  • میڈیٹیرین ڈائٹ کتنی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے؟ حیران کن تحقیق

    میڈیٹیرین ڈائٹ کتنی بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے؟ حیران کن تحقیق

    ماہرین صحت میڈیٹیرین ڈائٹ کو دنیا کی بہترین ڈائٹ قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ طرز عمل انسان کو بہت سی سنگین بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

    میڈیٹیرین ڈائٹ پلان کسے کہتے ہیں؟

    میڈیٹیرین ڈائٹ زائد مقدار میں پھلوں، سبزیوں، مکمل اناج، زیتون کے تیل اور مچھلی پر مشتمل ایک مکمل ڈائٹ پلان ہے۔ اس ڈائٹ پلان پر عمل کرنے والے افراد میٹابولک سنڈروم کے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں۔

    اس بات سے تو سب ہی واقف ہیں کہ میٹابولک سنڈروم میں موٹاپا، ہائی بلڈپریشر اور دیگر دل کی بیماریوں جیسے نقصانات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ میڈیٹیرین ڈائٹ ڈپریشن سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    مذکورہ ڈائٹ پلان پر عمل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ تمام اشیاء لازمی کھائی جائیں تاہم ادھیڑ عمر کے لوگوں کو ہرممکن اس کی کوشش کرنا چاہیے کہ وہ میڈیٹیرین ڈائٹ میں شامل تمام غذاؤں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔

    غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک میں اگر صرف مچھلی اور سبزیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہی کرلیا جائے تو صحت پر اس کے بھی اچھے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

    طبی جریدے برٹش نیوٹریشن آف جرنل میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین نے 800 مرد و خواتین پر میڈیٹیرین ڈائٹ کے اثرات اور ڈپریشن کی سطح جانچنے کے لیے تحقیق کی۔

    تحقیق میں شامل رضا کاروں میں سے نصف سے زیادہ خواتین تھیں اور زیادہ تر رضاکاروں کی عمر 73 برس تھی۔

    ماہرین نے تمام افراد سے اپنی غذا سمیت ان میں ڈپریشن کی علامات سے متعلق سوالات کیے اور پھر ان کی صحت کا بھی جائزہ لیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ میڈیٹیرین ڈائٹ سے مجموعی طور پر 20 فیصد تک ڈپریشن میں کمی آ سکتی ہے جب کہ خواتین میں یہ سطح 28 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

  • لوگ جھوٹ بولتے ہوئے کیسے پکڑے جاسکتے ہیں؟ تحقیق میں انکشاف

    لوگ جھوٹ بولتے ہوئے کیسے پکڑے جاسکتے ہیں؟ تحقیق میں انکشاف

    جھوٹ بولنا یقیناً ایک بُری عادت ہے، ایسے لوگ جھوٹی انا کی تسکین، مفادات کے تحفظ اور اپنا جرم چھپانے کیلئے ہرممکن جھوٹ کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

    جھوٹ چاہے جان کر یا اَنجانے میں بولا جائے وہ لوگوں کو ایک دوسرے سے بدظن کردیتا ہے اور کبھی کبھار لڑائی، جھگڑا اور خون وخرابے کا ذریعہ بن کر بڑے فساد کا سبب بھی بن جاتا ہے۔

    ایک بات یاد رکھیں کہ انسان چاہے جتنا ہی جھوٹ کیوں نہ بولے اس کا انداز اور الفاظ کہیں نہ کہیں اس کے جھوٹ کا پردہ چاک کردیتے ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ سامنے والا اس جھوٹ کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

    Unconscious Mind

    اس حوالے سے گزشتہ سال کی جانے والی ایک تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جھوٹ بولنے والے شخص کا انداز کیسا ہوتا ہے اور وہ کیا چالاکیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    فرانس کی سوربون یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جھوٹ بولتے وقت یا غلط بیانی کرتے ہوئے اکثر لوگ انتہائی دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں۔

    نیچر کمیونیکیشنز نامی جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق ماہرین نے ایک دلچسپ تجربہ کیا ہے جس میں صرف آواز کی شدت اور جھوٹ کے درمیان تعلق واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    Recognizing

    ماہرین کے تجزیے کے مطابق جھوٹے لوگ جملے کے درمیان میں اداکردہ الفاظ پر زور کم دیتے ہیں اور یوں ان کی آواز بھی جھوٹ کی چغلی کرتی دکھائی دیتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کی آواز میں غنایت (میلوڈی) اس کے سچ بولنے کی معلومات دے سکتی ہے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس وقت دماغ زبان کا ساتھ نہیں دے پاتا اور آواز دھیمی ہوتی چلی جاتی ہے اور یوں الفاظ پر زور بھی کم ہوجاتا ہے کیونکہ بولنے والا جانتا ہے کہ وہ غلط بیانی کررہا ہے۔

    تحقیق کے مطابق اس کیفیت کو ’پروسوڈی‘ کہا جاتا ہے جس میں الفاظ اور جملوں کے بجائے آواز کے زیروبم کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کیفیت کا انگریزی، ہسپانوی اور فرانسیسی زبانوں پر اطلاق ہوسکتا ہے یعنی تینوں زبانوں میں جھوٹ بولنے والے یکساں انداز سے بات کرتے ہیں۔

    their voice

    دوسری جانب اگر سچ بولنے والے شخص کا موازنہ کیا جائے کہ سچ بولنے اور مخلص ہونے کی دلیل کیا ہے تو اس کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ ایماندار شخص لفظ کے آخر میں آواز کی خاص پچ کو بلند کرے گا اور وہ تیز رفتاری سے بات کرے گا۔

    اس کے برخلاف جھوٹ بولنے والا فرد اپنی آواز کو دھیمی رکھے گا، الفاظ پر زور نہیں دے گا اور ان الفاظ کی رفتار بھی بہت دھیمی رہے گی۔

  • چڑچڑے پن کا امراض قلب سے کیا تعلق ہے؟

    چڑچڑے پن کا امراض قلب سے کیا تعلق ہے؟

    معاشرے میں ایسے افراد اکثر نظر آتے ہیں جو بھوک یا کسی بھی وجہ سے چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور معمولی باتوں پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہیں۔

    ایسے افراد کیلئے محققین کا کہنا ہے کہ بدمزاج اور ہر وقت فکر میں مبتلا رہنے والے افراد کے دل کی صحت خراب ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔

    برطانیہ میں کوئن میری یونیورسٹی کی زیر نگرانی تحقیقاتی ٹیم نے ذہنی صحت اور قلبی کارکردگی کے درمیان تعلق جاننے کے لیے 36 ہزار 309 افراد کے دل کے اسکین کا معائنہ کیا۔

    تحقیق کے نتائج سے یہ اخذ کیا گیا کہ بے چینی اور چڑچڑے پن جیسی علامات دل کی عمر بڑھنے کے ابتدائی اشاروں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی صحت کے مسائل کے خطرے سے دوچار افراد کو مستقبل میں دل کے مسائل کم کرنے کی کوشش سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

    نیوروٹیسزم نامی خصوصیات (جن میں غیر مستحکم مزاج، ضرورت سے زیادہ فکر، بے چینی، چڑچڑا پن اور اداسی شامل ہیں) کو شخصیت پر مبنی سوالنامے کا استعمال کرتے ہوئے پرکھا گیا۔

    تحقیق میں نیوروٹیسزم شخصی خصوصیات کے رجحان کا چھوٹے اور خراب کارکردگی والے وینٹریکلز، شدید مایوکارڈیل فائبروسس اور شدید آرٹریل اسٹفنیس (رگوں کا اکڑ جانا) سے تعلق دیکھا گیا۔

    یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہونےو الی تحقیق میں ٹیم کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج ذہنی صحت اور قلبی صحت کے درمیان تعلق کو واضح کرتے ہیں اور عام لوگوں میں ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لائحہ عمل کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

     

     

  • جوانی میں ذہنی تناؤ کس خطرناک بیماری کا سبب ہے؟ نئی تحقیق

    جوانی میں ذہنی تناؤ کس خطرناک بیماری کا سبب ہے؟ نئی تحقیق

    پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ کم عمر بچوں کی زندگی پریشانیوں، تفکرات اور ذہنی دباؤ سے آزاد ہوتی ہے لیکن اب اس بات کو ایک حالیہ تحقیق نے مسترد کر دیا ہے۔

    امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹین ایجر بچے بھی ذہنی دباؤ (اسٹریس) یا ڈپریشن جیسے مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کم عمری میں اس تناؤ کے بعد کی زندگی میں دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جوانی کے ابتدائی ایام میں شدید تناؤ کا شکار ہونے والے نوجوانوں کو بعد میں دل کی صحت کے مسائل کا سامنا کرنے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی تناؤ آپ کو اندر سے بوڑھا بناتا ہے اور اسی لیے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے کیونکہ تناؤ ایک بہت مضر کیفیت ہے جو خلوی سطح تک ہماری صحت پر بہت برے اثرات مرتب کرتی ہے۔

    محققین نے 13 سے 24 سال کی عمر کے 276 افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جنہوں نے یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے وابستہ چائلڈ ہیلتھ اسٹڈیز میں حصہ لیا تھا۔

    ان افراد کے مطالعے کے بعد محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اعلیٰ تناؤ کی سطح والے افراد بعد کی عمروں میں زیادہ وزن بڑھاتے ہیں ان میں موٹاپے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق یہ بھی انکشاف ہوا کہ بڑھتی عمر کے ان لوگوں کی صحت زیادہ خراب تھی اور عمر بڑھنے کے ساتھ ان کا فشار خون بھی بڑھنے لگ گیا تھا، مذکورہ تحقیق کے نتائج امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔

  • سولر پینلز پر دُھول مٹی جمی ہو تو پہلے یہ کام کریں

    سولر پینلز پر دُھول مٹی جمی ہو تو پہلے یہ کام کریں

    بجلی کے حصول کیلیے سولر سسٹم موجودہ صدی کی ایک بہترین ایجاد ہے جو نہ صرف بجلی بچانے کا باعث بھی بنتے ہیں بلکہ ماحول دوست بھی ہیں۔

    گھر کی چھتوں پر کھلی فضا میں سولر پینلز نصب ہونے کے باعث ان پر دھول مٹی جمنا ایک عام اور لازمی سی بات ہے۔

    اس حوالے سے کی گئی ایک نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دھول مٹی جمنے سے سولر پینلز کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔

    پاکستان کے مختلف علاقوں میں کی گئی تحقیق کے نتائج پر مبنی ایک رپورٹ میں پی وی میگزین نے کہا ہے کہ دھول جمع ہونے سے سولر پینلز کی عمر اور کارکردگی دونوں پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    solar panels

    اس تحقیق میں سائنسدانوں نے ملک کے مختلف شہروں میں 40 پینلز پر مشتمل دو پی وی سسٹمز کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ مختلف ممالک کے محققین نے مختلف ماحول میں سولر پینلز کی کارکردگی کا بھی تجربہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ گندے ماحول میں سولر پینلز کی کارکردگی بہت خراب ہوجاتی ہے جبکہ صاف ماحول میں بہت کم دھول کی وجہ سے سولر پینلز کی کارکردگی بہت اچھی ہوتی ہے۔

    محققین کے مطابق اسلام آباد میں ماحول بہت صاف ستھرا ہے، وہاں اوسط درجہ حرارت 20.3 سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ خشک ترین مہینوں میں بھی بارش ہوتی ہے جس سے پی وی ماڈیولز کی صفائی ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد میں سولر پینلز سے بجلی کی پیداوار نمایاں طور پر زیادہ رہی۔

    بہاولپور صحرائی علاقہ ہے وہاں موسم خشک رہتا ہے اور بارش بھی کم ہوتی ہے، گرد و غبار کے طوفان اٹھتے رہتے ہیں۔ وہاں گرد جم جانے کے باعث سولر پینلز کی کارکردگی خاصی ناقص رہی۔

  • ناشتہ نہ کرنا کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ ہوشربا تحقیق

    ناشتہ نہ کرنا کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ ہوشربا تحقیق

    صبح کا ناشتہ ہمارے دن کی سب سے پہلی اور سب سے اہم غذا ہے لیکن دنیا بھر میں کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں ناشتہ کرنا پسند نہیں ہوتا اور ان کی یہ عادت ان کی صحت پر بہت برے اثرات مرتب کرتی ہے۔

    اس حوالے سے تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ صبح کا پہلا کھانا چھوڑنا توقع سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے، دنیا کے کچھ خطے ایسے ہیں جہاں لوگوں کی اوسط عمر دوسروں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

    بلیو زون کی اصطلاح ان خطوں کے لیے استعمال ہوتی ہے اور وہاں رہنے والے لوگوں پر طویل تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق ناشتہ دن کا سب سے اہم کھانا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ناشتہ جسم کو دن کے آغاز کے لیے توانائی فراہم کرتا ہے اور آپ کو صحت بخش غذاؤں سے دن کا آغاز کرنے کا موقع ملتا ہے۔

    ناشتہ چھوڑنے کے صحت کے 3 منفی اثرات درج ذیل ہیں۔

    توجہ مرکوز کرنے میں دشواری :

    ناشتہ ہمارے دماغ کو وہ توانائی فراہم کرتا ہے جس کی اسے دن شروع کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، ناشتہ چھوڑنے سے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دماغ کے لیے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جن لوگوں نے ناشتہ چھوڑ دیا یا غیر صحت بخش کھانوں سے دن کا آغاز کیا ان کی کارکردگی دن بھر خراب رہی۔ ایسے افراد کے لیے اپنے کاموں پر توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

    تناؤ کا تجربہ ہوتا ہے :

    تحقیق کے مطابق ناشتہ چھوڑنا نہ صرف جذباتی تناؤ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے بلکہ جسمانی تناؤ کے ردعمل کو بھی بدل دیتا ہے، اس کے علاوہ صبح کا ناشتہ چھوڑنے سے کورٹیسول کی سطح بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں بھوک بڑھ جاتی ہے جبکہ ذہنی اور جسمانی تناؤ بڑھتا ہے۔

    موڈ اور نیند بھی متاثر ہوتی ہے

    اگر آپ اکثر ناشتہ نہیں کرتے ہیں تو اس عادت سے نیند اور موڈ دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ کالج کے طلباء پر کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ ناشتہ چھوڑنے سے نیند کے معیار پر اثر پڑتا ہے اور ڈپریشن کی علامات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ ناشتہ چھوڑنے سے نیند کے معیار، موڈ اور غذائی عادات میں تبدیلی آتی ہے جو لوگ ناشتہ کرتے ہیں ان کی نیند کا معیار بہتر ہوتا ہے اور جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کا موڈ بہتر ہوتا ہے۔

  • جھوٹے لوگوں کو پہچاننے کی 9 نشانیاں

    جھوٹے لوگوں کو پہچاننے کی 9 نشانیاں

    کسی بھی بے بنیاد بات کو لوگوں میں پھیلانا، جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے اور ویسے بھی افواہوں کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ فساد کا سبب بنتا ہے۔

    جب جھوٹ بولنے والے شخص کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے تو وہ ان کی نظروں سے گرجاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار بھی نہیں کرتا۔

    آج ہم آپ کو کچھ ایسی نشانیاں بتائیں گے کہ جس سے آپ کافی حد تک یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ سامنے والا آپ سے کیا اور کیسے جھوٹ بول رہا ہے۔

    امریکا میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہم ہفتے میں 11 بار جھوٹ بولتے ہیں جب کہ ایک اور تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ 60 فیصد لوگ 10 منٹ کی گفتگو کے دوران کئی جھوٹ بولتے ہیں۔

    عام طور پر ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنا کسی کے سامنے بیٹھ کر بات کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن دوسری طرف ای میل مواصلات کی سب سے زیادہ ایماندار شکل معلوم ہوتی ہے جہاں لوگ نسبتاً سب سے کم جھوٹ بولتے ہیں۔

    اس حوالے سے قبرص (سائپرس) کے یوٹیوب چینل برائٹ سائیڈ نے جھوٹے لوگوں کے بارے میں جاننے کیلئے نو ایسی باتیں بیان کی ہیں جنہیں جھوٹ بولنے والا انسان اپنائے گا اور آپ اس کو بخوبی پہچان سکیں گے۔

    وہ موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا

    ایک جھوٹا انسان بحث کے موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا اور بالکل مخالف بات پر توجہ مرکوز کروانے کی کوشش کرے گا، اگر آپ اسے ٹوکیں گے تو وہ اس بات پر یہ بھی دکھاوا کرسکتا ہے کہ آپ کے اس عمل سے اسے تکلیف ہوئی ہے یا دل دکھا ہے، اسے خارجی خلفشار کہا جاتا ہے۔

     جھوٹا شخص منہ پر آپ کی تعریف بھی کرے گا

    چاپلوسی کرنا ہیرا پھیری کا ایک طریقہ ہے جس پر بہت سے لوگ اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں بھرپور طریقے سے عمل کرتے ہیں، اس عمل کو ایک جھوٹا شخص گفتگو پر قابو پانے اور اسے ایک نئی سمت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے اور یہ صرف اس لیے کامیاب ہوتا ہے کہ ہم سب اپنے بارے میں اچھی باتیں بتانا پسند کرتے ہیں۔

    ایسا شخص ابہام کا شکار رہتا ہے

    جب کوئی انسان سچ کو بیان کرنے سے نہیں ڈرتا تو وہ تمام تر تفصیلات باآسانی یاد کرکے بتا دے گا جبکہ دوسری طرف، جھوٹا شخص معلومات کو روک کر چیزوں کو مبہم رکھنے کی کوشش کرے گا۔ وہ ایسی مخصوص تفصیلات نہیں دینا چاہتا جو آسانی سے جھوٹ ثابت ہوسکیں۔

    جھوٹے لوگ اپنی ایمانداری اور سچائی کا دعویٰ زیادہ کرتے ہیں

    جھوٹے لوگ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش میں اپنی ایمانداری پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں، ایماندار ہونا”، مجھ پر یقین کرو،” اور "آپ کو سچ بتانا” جیسے جملے بہت عام استعمال ہوتے ہیں اگر کوئی شخص سچا ہے تو اسے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ وہ کتنا ایماندار ہے۔

    ایسا انسان گفتگو کو پیچیدہ کرکے من گھڑت کہانیاں سنائے گا

    کوئی ایسا شخص جو اتنی تفصیلی اور رنگین کہانیاں تخلیق کرنے کا ہنر رکھتا ہو وہ پیتھولوجیکل جھوٹا ہوسکتا ہے۔ اس کی کہانیاں بعض اوقات پیچیدہ اور ڈرامائی ہوتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تفصیلات اس کی کہانیوں کو سچا بناتی ہیں اس کے سبب آپ کے لیے ان کے ساتھ نمٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ پوری طرح سے نہیں جانتے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن سوچتے ہیں کہ وہ سچ بول رہے ہیں۔

    جھوٹے لوگ ماضی اور حال کے واقعات کو ملا کر نیا واقعہ بیان کرتے ہیں

    جب کوئی شخص مکمل طور پر کہانی گھڑ رہا ہوتا ہے تو اس کے الفاظ میں گڑبڑ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، آپ واضح طور پر محسوس کرسکتے ہیں کہ وہ ماضی سے موجودہ دور میں اور دوسری طرف کیسے رخ موڑ لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ہوتی ہے کہ ان کا دماغ ایک فرضی کہانی بنانے میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ گرامر کے لحاظ سے درست جملہ کیسے بنایا جائے۔

    ایسے لوگ بات چیت کو اچانک ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں

    ہوسکتا ہے آپ کسی کو ٹیکسٹ میسج کر رہے ہوں اور ان سے کوئی ایسی چیز پوچھیں جس سے انہیں یہ خطرہ ہو کہ ان کی اصلیت سامنے آسکتی ہے تو ان کا جواب بہت مختصر اور مبہم سا ہو سکتا ہے اور وہ اچانک ظاہر کریں گے کہ جیسے وہ کچھ کرنے کی جلدی میں ہیں وہ گفتگو کو وہیں ختم کر دیں گے اور آپ کے سوال کا جواب نہیں دیں گے۔

     جھوٹے لوگ واضح بات نہیں کرتے

    بعض اوقات جھوٹ بولنے والے لوگ اپنا احتساب نہیں کر سکتے، اس لیے وہ آٟپ کی بات کا واضح اور تفصیلی جواب نہیں دیتے، مثال کے طور پر اگر آپ کا باس اکثر "ہم” کی اصطلاحات استعمال کر رہا ہے، تو وہ شاید خود کو اپنی ذمہ داریوں سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    جھوٹا شخص اچانک ہمدردی کا اظہار کرنے لگتا ہے

    اگرچہ کسی سے ہمدردی کے دو بول کہہ دینا کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن جب کوئی اسے اچانک استعمال کرنا شروع کردے، تو اس کے ساتھ احتیاط برتنی چاہیے۔ اگر وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے، تو وہ آپ کے سوال کا تفصیل سے جواب دینے کے بجائے آپ کے ساتھ اضافی جذباتی ہونے کا سہارا لے گا۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت آپ کے جذبات کو سمجھ رہا ہے اور وہ خود جھوٹے جذبات دکھا کر ان سے ہیرا پھیری کرتے ہوئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اس جذباتی اظہار کا مقصد آپ کے فیصلے کو متاثر کرنا اور آپ کی توجہ آپ کے ابتدائی سوال سے ہٹانا ہے۔

    کیا آپ نے کبھی کسی کو اوپر بتائے گئے طریقوں کی بنیاد پر جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا ہے؟ اور اگر ایسا کیا ہے تو اس کی تفصیلات کمنٹس میں بتائیں کہ انہوں نے کیا ردعمل ظاہر کیا؟

  • جلد پر ہونے والی خارش کی اصل وجہ دریافت، نئی تحقیق

    جلد پر ہونے والی خارش کی اصل وجہ دریافت، نئی تحقیق

    خارش ایک نہایت تکلیف دہ بیماری ہے، یہ دیگر کئی امراض کی وجہ سے لگتی ہے ان میں کچھ جلد کی بیماریاں اور کچھ اندرونی بیماریاں ہوتی ہیں۔

    خارش اکثر خشک جلد کی وجہ سے ہوتی ہے، یہ بوڑھے لوگوں میں عام ہے کیونکہ عمر کے ساتھ جلد خشک ہونے لگتی ہے، خارش کم ہو تو اس کا علاج ممکن اور آسان ہوتا ہے، اگر یہ شدت اختیار کرجائے تو اس کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن اب سائنسدانوں نے پہلی بار اس خارش کے پیچھے وجوہات کو دریافت کرلیا ہے۔

    سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ صرف بیکٹیریا ہی خارش کا براہ راست سبب ہو سکتے ہیں، اس سے پہلے کی تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ جرثومہ یا ’مائیکروب‘ جو عام طور پر جلد پر قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے، ایگزیما جیسی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔

    جرنل سیل نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں دریافت ہوا کہ ’اسٹیفولوکوکس اورئیس‘ نامی ایک عام بیکٹیریا خارش کا باعث بنتا ہے، یہ جراثیم دماغ کو مسلسل خارش کے سگنل بھیجتے ہیں۔

    خارش

    یہ پہلی بار ہے کہ سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ صرف بیکٹیریا ہی خارش کا براہ راست سبب ہو سکتے ہیں، اس سے پہلے کی تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ جرثومہ یا ’مائیکروب‘ جو عام طور پر جلد پر قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے، ایگزیما جیسی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔

    تاہم اب نئی تحقیق میں کیے گئے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیکٹیریا اینزائم جاری کرتا ہے جو جلد میں ایک پروٹین کو ایکٹی ویٹ یا فعال کرتا ہے جس کے نتیجے میں جلد سے دماغ کو خارش کے سگنل بھیجے جاتے ہیں۔ اسٹیفولوکوکس اورئیس نامی بیکٹیریا کی موجودگی اور اس کے نتیجے میں اینزائمز کا اخراج جلد پر جرثوموں کے قدرتی توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔

    اس توازن کو بحال کرنے کے لیے خارش کا احساس اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک جلد کے مائیکروبیل میں توازن بحال نہ ہو جائے اور مریض آرام پانے کے لیے اپنی جلد کو مسلسل کھرچتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں جلد پھٹ جاتی ہے اور نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ہارورڈ میڈیکل اسکول میں امیونولوجی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر آئزک چیو کا کہنا ہے کہ ہمیں نئی وجہ مل گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ کھجلی یا خارش محسوس کرتے ہیں، اس جراثیم کا نام اسٹیف اورئیس ہے جو ایٹوپک ڈرمیٹائٹس والے مریضوں میں موجود ہوتے ہیں۔ اس دریافت سے معلوم ہوا کہ جلد کے بیکٹیریا اور طبی صورتحال سے ہونے والی سوزش ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    مصنف ڈاکٹر لیوین ڈینگ نے کہا کہ جب ہم نے مطالعہ شروع کیا تو یہ واضح نہیں تھا کہ خارش سوزش کے نتیجے میں ہوتی یا نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ خارش اور سوزش دو الگ الگ حالت ہیں، خارش پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ سوزش کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن خارش کی وجہ سے سوزش مزید خراب ہوسکتی ہے۔